ایسی جائے گی… سوچا نہ تھا!

سب رو رہے تھے… وہ ہنس رہی تھیں!

ایمان والوں کی یہی پہچان ہے —

وہ دنیا سے مسکراتے ہوئے رخصت ہوتے ہیں

اور دنیا ان کے فراق میں اشک بار رہتی ہے۔

ایک نایاب اور قابلِ تقلید شخصیت کی رحلت

گزشتہ روز ہماری نانی جان، مرحومہ ہاجرہ زوجہ کوبٹے عبدالغفور رحمھما اللہ، اس فانی دنیا سے پردہ فرما گئیں۔

إنا لله وإنا إليه راجعون

اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے، اور ان کی قبر کو جنت کا باغ بنائے۔

آمین یا رب العالمین۔

ان کی عمر تقریباً 70 سال تھی۔

مرحومہ کے پانچ صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں باحیات ہیں۔ ایک لڑکا پچپن ہی میں حادثے میں انتقال کرگیا۔

وہ بہت ہی نیک، بااخلاق اور سادہ مزاج خاتون تھیں۔ ان کا تعلق ایک بڑے اور نیک خاندان سے تھا۔

ان کی وفات پر جو ہجوم ان کے جنازے، گھر، مسجد اور تدفین کے وقت جمع ہوا، وہ اس بات کا ثبوت تھا کہ:

"اللہ ربّ العالمین اپنے نیک بندوں کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے:”

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَـٰنُ وُدًّا

(سورۃ مریم 96
ان کی سیرت کے چند نمایاں پہلو:

🔹 نماز اور قرآن سے محبت و عشق

مرحومہ کی زندگی کا اصل مرکز نماز اور قرآن تھا۔

سفر ہو یا بیماری، صحت ہو یا تفریح — ہر حال میں انہی کی فکر رہتی۔

آخری ایام میں اسپتال میں داخل تھیں، کمزوری اور بے ہوشی کے باوجود ہوش آتے ہی پوچھتیں:

"نماز پڑھی؟ اذان ہوئی؟”

اگر بتایا جاتا کہ نماز ادا ہو چکی ہے، تو ناراض ہو جاتیں:

"ہمیں نماز سے نہ روکو!”

اکثر دوبارہ نماز شروع کر دیتیں۔

بیس دن شدید بیماری میں گزارے، مگر نماز کا جذبہ کم نہ ہوا۔

جوانی سے ہی وہ اذان سے پہلے وضو کر لیتیں اور نماز کا انتظار کرتیں۔

یہ عبادت کا جنون صرف اللہ کے خاص بندوں کو عطا ہوتا ہے۔

جس سے محبت ہوتی ہے، اللہ اسی کے ساتھ حشر فرماتا ہے۔

قرآن سے بھی گہرا عشق تھا۔

اولاد خصوصاً بیٹیوں سے کہتیں:

"قرآن حفظ کرو، تم بہت اچھا پڑھتی ہو۔”

ہر نماز کے بعد تلاوت، خاص طور پر فجر و مغرب کے بعد طویل قراءت —

اکثر کمرہ بند کرکے پڑھتیں تاکہ کوئی خلل نہ آئے۔

جمعہ کے دن صبح ہی سے تلاوت میں مشغول ہو جاتیں۔

خاندان والے کہتے: "ہماری بھابھی تو ہمیشہ مصلے پر ہوتی ہیں۔”

آج ان کی اولاد اور نسل میں کئی حافظ و حافظات موجود ہیں — یہ سب ان کی فکر اور دعاؤں کا اثر ہے۔

🔹 دین سے محبت — زندگی کا سب سے اہم مشن

مرحومہ کی زندگی میں دین کا کام ہمیشہ اولین ترجیح رہا۔

عبادت، تبلیغ، دعوت، ذکر — یہ سب ان کے دل کے قریب ترین کام تھے۔

ان کے نزدیک دنیا کے تمام کاموں سے بڑھ کر دین کی خدمت کو اہمیت حاصل تھی۔

اپنی اولاد اور پوتوں سے بھی وہ دینی خدمات کی ترغیب دلاتیں۔

اکثر جذبات سے بھرپور لہجے میں کہتیں:

"بیان کرو! مجھے بہت حسرت ہے۔”

"جماعت میں جانا، اعتکاف میں بیٹھنا — یہ سب دل کو بہت پسند ہے۔”

اپنے بیٹوں سے بار بار فرمایا کرتیں:

"مدرسے میں پڑھاؤ، مجھے تمہارے دیگر تمام کاموں سے زیادہ یہی پسند ہے۔”

یہ باتیں ان کے دل کی گہرائیوں سے نکلتی تھیں اور اس سے ان کی دین سے وابستگی کا اندازہ ہوتا ہے۔

ان کا خواب تھا کہ ان کی نسلیں بھی دین کے خادم، قرآن کے حافظ، اور امت کے نفع بخش فرد بنیں —

اور الحمدللہ، آج ان کی نسل میں یہ خواب بڑی حد تک پورا ہوتا دکھائی دیتا ہے

🔹 پاکیزگی اور حیا:

ان کی حیا کا یہ عالم تھا کہ سخت بیماری میں بھی کوئی ان کے جسم کو نہ چھو سکے۔ اپنی بیٹیوں سے بھی حیا کرتی تھیں۔

🔹 سادگی اور دنیا سے بے رغبتی:

مرحومہ نے کبھی دنیا کی کسی چیز کی طلب نہیں کی۔

نانا جان کے انتقال کے 20 سال ہوئے، کبھی اولاد سے کچھ نہیں مانگا۔

ان کے پاس جائیدادیں تھی، مگر نہ ذکر، نہ فخر، نہ حرص۔

ہمیشہ کہتیں:

"دنیا کو لے کر کیا کرو گے؟ سب چھوڑ کر جانا ہے!”

ہمیں تنبیہ کرتی تھیں کہ "فقط دنیا دنیا کہتے ہو؟ چھوڑ دو دنیا کو!”

🔹 وراثت کی بے مثال مثال:

وراثت میں ماں اور شوہر کی طرف سے جو کچھ ملا، اپنی زندگی میں ہی اولاد میں تقسیم کر دیا۔

ایک بہت بڑی خواہش یہ تھی کہ:

"میرے نام پر مسجد اور مدرسہ بنے، فلاں جائیداد اسی کے لیے رکھ دینا!”

اس کے علاوہ بھی اپنے ہاتھ سے جو کچھ ہوسکا کیا —

کئی مسجدوں، مدرسوں کے لیے بیت الخلاء، وضو خانے، گاڑیاں وغیرہ کا انتظام کیا۔

🔹 بردباری، نرمی اور خاندانی مرکزیت

مرحومہ کا مزاج نہایت نرم، باوقار اور بردبار تھا۔

اگر کسی سے اختلاف ہوتا، تو فوراً درگزر کر لیتیں، کبھی جھگڑے کی نوبت نہ آنے دیتیں۔

ان کی نرمی ایسی تھی کہ ہر شخص کھل کر ان سے بات کر سکتا تھا۔

پورا خاندان ان سے مشورے لیتا، ان کے پاس بیٹھ کر دل کا بوجھ ہلکا کرتا۔

ان کی موجودگی گویا خاندان کے لیے ایک پُرسکون سائبان تھی۔

خاص طور پر جمعہ کے دن، جب پورا خاندان جمعہ کی نماز کے بعد ان کے گھر آتا —

محبت بھری گپ شپ، کھانے کا اہتمام، ہنسی خوشی کا ماحول — یہ سب ان کی محبت بھری طبیعت کی بدولت تھا۔

مرحومہ کا محبت کا انداز بھی نرالا تھا۔

جب کبھی نانی کے خاندان یا دادا کے خاندان والے محبت کا اظھار کرتے تو یوں کہتے :

"پھوپھی بولے تو ہاجرہ پھوپھی!”

"بھابھی بولے تو ہاجرہ بھابھی!”

گویا ہر رشتے میں محبت، اپنائیت اور احترام کا رنگ بھرا ہوا تھا۔

🔹 بے کار باتوں سے گریز:

ہمیشہ لایعنی باتوں سے گریز کرتیں۔

اکثر کہتیں:یہ فضول باتیں چھوڑ دو، وقت قیمتی ہے، خالی بولنے سے نہیں ہوتا اللہ کے پاس جواب دینا ہے۔

آخری لمحات کا روح پرور منظر:

یکم جون اتوار کے دن، عصر کی اذان سے کچھ لمحے قبل،

جب روح قبض ہونے کا وقت قریب آیا،

چہرے پر چند لمحوں کے لیے ہلکی سی پریشانی کے آثار نمودار ہوئے۔

ہم سب ان کے گرد بیٹھے، کلمہ طیبہ کی آواز میں تلقین کر رہے تھے۔

اسی دوران، میری ماں نے مجھے آہستہ سے اپنے قریب بلایا،

اور بہت نرمی سے کہا:

"اگر کسی کو نانی سے کوئی تکلیف پہنچی ہو تو معاف کر دیں۔ یہ جملہ سب کے سامنے کہو، اور سب سے معافی کی تصدیق بھی لو۔”

میں نے فوراً ماں کی خواہش کے مطابق وہ جملہ دہراتے ہوئے سب کے سامنے عرض کیا:

"اگر نانی سے کسی کو کوئی تکلیف پہنچی ہو، تو براہ کرم معاف کر دیں۔”

میں نے خاص طور پر ان کی بہوؤں سے، بیٹوں سے، اور بیٹیوں سے الگ الگ مخاطب ہو کر بھی یہ درخواست کی۔

سب نے خاموشی، محبت اور دل سے معاف کیا — گویا سب کی زبان سے دعا نکلی۔

اور بس…

یہ جملے مکمل ہوئے ہی تھے کہ اُن کی روح سکون سے پرواز کر گئی۔

نہ کوئی چیخ، نہ کوئی اضطراب —

ایسا سکون، ایسا نور، ایسا وصال

جس پر رشک کیا جائے۔

سب رو رہے تھے، وہ ہنس رہی تھیں۔

ایمان کی حالت میں، ذکر کے ساتھ، پرنور موت تھی۔

بعد از وفات جو منظر دیکھا گیا، وہ نہایت ایمان افروز تھا۔

چہرے پر ایسی مسرّت، ایسی نورانیت اور ایسی دبی دبی سی مسکراہٹ تھی، جیسے وہ ہمیں ہنستی ہنستی رخصت کر رہی ہوں۔

ایسا لگا جیسے کوئی ماں اپنے بچے سے کھیلتے ہوئے پیار سے مسکرا رہی ہو۔

ایسی دل موہ لینے والی مسکراہٹ، ایسی روحانی روشنی — اللہ اللہ!

یہ تو وہ انعام ہے جو نصیب والوں کو جیتے جی بھی کم ہی ملتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسا ہی خاتمہ بالخیر عطا فرمائے۔

🔹 درختوں سے محبت — صدقۂ جاریہ کی شکل میں

مرحومہ کو درختوں سے عشق کی حد تک شوق تھا۔

جہاں بھی رہیں، وہاں بیسیوں اقسام کے درخت لگا دیے۔

ان کا یہ شوق صرف شوق نہیں تھا، بلکہ سوچ، ذوق اور عبادت کی ایک شکل تھا۔

پھل دار درخت، سایہ دار پودے، خوشبو بکھیرتے پھول —

ہر درخت ان کے ذوق کی گواہی دیتا ہے۔

یہی درخت آج بھی پرندوں کے آشیانے ہیں،

انسانوں کو سایہ، جانوروں کو غذا اور

فضا کو طراوت عطا کرتے ہیں۔

ان کا یہ عمل ان کے لیے صدقۂ جاریہ بن چکا ہے —

کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"جب کوئی مسلمان درخت لگاتا ہے یا فصل بوتا ہے،

اور اس میں سے انسان، جانور یا پرندہ کھاتا ہے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔” (صحیح بخاری)

آج بھی وہ درخت، وہ پتے، وہ پھل اور وہ سایہ —

سب ان کے اعمالِ صالحہ کی خوشبو بن کر

دنیا میں باقی ہیں، اور آخرت میں ان کے لیے ثواب کا ذریعہ۔

✦ نصیحت:

روزانہ ہر نماز کے بعد کم از کم ایک صفحہ قرآن ضرور پڑھیں۔

اگر ممکن نہ ہو، تو فجر یا مغرب کے بعد ضرور پڑھیں۔

"2-3 منٹ کافی ہیں، دن میں پانچ صفحے مکمل ہو جاتے ہیں۔”

یہی ان کے لیے بہترین ایصالِ ثواب ہوگا،

اور ہمارے لیے نیکی کا خزانہ۔

آج ہم کریں گے، کل ہماری نسلیں کریں گی۔

مختصر خاندانی پس منظر:

مرحومہ کا تعلق رکن الدین خاندان سے تھا۔

حنیف آباد (جو پہلے "نیل لیسر” کہلاتا تھا) کو آباد کرنے کا سہرا ان کے والد، غلام محی الدین مرحوم، اور ان کے بھانجے، ڈاکٹر حنیف کولا مرحوم، کے سر جاتا ہے۔

ان کی غیر معمولی ذہانت اور معاملہ فہمی کے باعث لوگ انہیں محبت سے "گاندھی باپو” کہا کرتے تھے۔

ان کے انتقال کے بعد خاندان کی ذمہ داری مرحومہ کے بڑے بھائی نے نہایت حسن و خوبی سے نبھائی اور سب کی بہترین پرورش کی۔

اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے اور ان کا سایہ سلامت رکھے۔

اللهم اغفر لها، وارحمها، وعافها، واعف عنها، وأكرم نزلها، ووسّع مدخلها، ونقها من الذنوب كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس۔

"یا اللہ!میرے نانی اور نانا کی مغفرت فرما، ان پر رحم فرما، ان کا اکرام فرما، اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما۔”

آمین یا رب العالمین۔

کاتب: نانی کا نواسہ

آئی پی ایل جشن میں بھگدڑ، 11 افراد جاں بحق، 47 زخمی: حکومت کا 10 لاکھ معاوضے کا اعلان، عدالتی تحقیقات کے احکام

برطانیہ ویزا کا جھانسہ دے کر 16 لاکھ کا فراڈ، منگلورو کی فرم کے خلاف کنداپور پولیس میں مقدمہ درج