ایسی بلندی ایسی پستی؟

ہمارے سامنے انقلاب اخبار ہے اسی اخبار کے صفحہ 11 پر بہت نمایاں طریقہ سے ممبر پارلیمنٹ اسد الدین اویسی کی ایک خبر چھپی ہے وہ واقعی خبر ہے اشتہار نہیں ہے جس میں انہوں نے بہار کے مسلمانوں اور دلتوں کے ووٹوں کو تاریخ رقم کرنے والا بتایا ہے۔ انہوں نے مسلم بستیوں میں اپنا ہیڈکوارٹر بھی بنا لیا ہے جس کا نام دارالسلام رکھا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ حیدر آباد سے ہمارے پاس مسلسل ٹیلیفون آرہے ہیں ان میں ان کے فون بھی ہیں جو اویسی صاحب کو اتنا قریب سے جانتے ہیں کہ انہوں نے یہ تک بتا دیا کہ ان کی مالی حالت پہلے کیا تھی پھر مہاراشٹر کے الیکشن اور خاص طور پر اَورنگ آباد کے الیکشن میں امت شاہ کی مراد پوری کرانے کے بعد کیا سے کیا ہوگئی اور بہار کے ووٹوں کو نتیش اور لالو سے کاٹنے کے لئے کتنا لیا ہے؟ ہر کسی کو اتنی گنتی بھی نہیں آتی جس کے ثبوت میں ان حضرات نے بتایا کہ وہ جو اویسی صاحب نے ڈرامہ کیا کہ لڑیں گے اور نہیں لڑیں گے اور شاید لڑیں اور ہوسکتا ہے کہ نہ لڑیں۔ یہ صرف اپنی قیمت بڑھانے کے لئے تھا لیکن مودی اور امت شاہ بہار میں اپنی حکومت بنانے کے لئے حکومت بنوانے والے کو سونے میں بھی تول دیں اور بہار فتح کرلیں تو کہیں گے کہ سودا سستا ہے۔
اس وقت تو ہمارے پیش نظر ڈاکٹر ایوب صاحب کا خبر نما اشتہار ہے۔ کیا ڈاکٹر صاحب نے بھی سمجھ لیا کہ مسلمان ان سے کٹ گئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے پورے اشتہار میں مسلمانوں کو ملک کے ہندوؤں کے برابر کھڑا کیا ہے۔ یہ جذبہ ہر حال میں قابل قدر ہے لیکن وہ بھول گئے کہ یہ مسلمانوں یا دونوں کا مشترک ملک نہیں ہے۔ یہ صرف ہندوؤں کا ملک ہے اور مسلمان لکھ کر دے چکے ہیں کہ ہم نے پاکستان نام کا ملک اپنا بنا لیا۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب سے ہماری ملاقات نہیں ہوئی حالانکہ وہ الیکشن کے موقع پر لکھنؤ آئے تھے اور ان سے ملنے والوں میں ہمارے ایک بیٹے بھی تھے جن سے تفصیل معلوم ہوئی۔ اور کانگریس کو چھوڑکر بی جے پی میں آئے ہوئے جگدمبیکا پال سے بھی ہمارا پرانا تعلق ہے اور وہ ڈاکٹر صاحب سے بھی قریب ہیں جو بہت کچھ بتاتے رہتے ہیں۔ کاش ڈاکٹر صاحب کی عمر اتنی ہی ہوتی جتنی ہماری ہے تو انہیں معلوم ہوتا کہ تقسیم سے پہلے جو الیکشن ہوا تھا وہ اس طرح ہوا تھا کہ ہندو ووٹر ہندو کو ووٹ دے گا اور مسلمان مسلمان کو مسلمانوں میں ایک پارٹی مسلم لیگ تھی دوسری کانگریس جس کو جمعیۃ علماء مجلس احرار جمعیۃ الانصار اور کئی چھوٹی چھوٹی تنظیموں کی حمایت حاصل تھی۔ لیکن ان سب کے ووٹ مل کر بھی 33 فیصدی بھی نہیں ہوسکے تھے اور تقریباً 70 فیصدی مسلمانوں نے مسلم لیگ کو ووٹ دے کر یہ اعلان کردیا تھا کہ ہم نے اپنا حصہ لے لیا۔ اب جو بچا ہے وہ بھارت ہے اور ہندوؤں کا ہے۔
مسلمانوں میں ایسے جنہوں نے مسلم لیگ کو ووٹ دیا تھا اگر سب چلے جاتے تو کوئی مسئلہ نہیں رہتا لیکن جو پاکستان گئے وہ ایک کروڑ بھی تو نہیں تھے اور یہی چیز دونوں فرقوں میں نفرت کا سبب بنی کہ خود کہہ کر اپنا حصہ لے لیا اور اکثریت ہمارے حصہ میں رہ بھی رہی ہے۔ اس صورت حال میںیہ کہنا کہ جیسے غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گذارنے والوں کو ایک روپیہ کلو گیہوں اور دو روپئے کلو چاول دیئے جاتے ہیں اس طرح غریب مسلمانوں کو پانچ روپئے کلو گوشت دینے کے انتظامات کئے جائیں اور ڈاکٹر ایوب صاحب یہ بات اس ملک میں کہہ رہے ہیں جہاں گائے پر تو اس لئے پابندی ہے کہ اسے دھرم سے جوڑ دیا ہے لیکن بیل پر بھی پابندی لگادی گئی اور اس بیل پر بھی جو جرسی نسل کا ہونے کی وجہ سے کھیتی میں کوئی مدد نہیں کرتا اور اس پر بھی جو بوڑھا ہونے کی وجہ سے صرف کھانا مانگتا ہے اور کام کچھ نہیں کرتا۔ یہ فیصلہ بی جے پی یا آر ایس ایس کرتا تو تعجب نہ ہوتا لیکن جب ممبئی ہائی کورٹ کے محترم جج صاحبان یہ فیصلہ کردیں تو ڈاکٹر صاحب اور اویسی صاحب جیسوں کو سوچنا چاہئے کہ کس ملک میں ہمیں اور وہاں جو اوڑھنے کی چادر ہے وہ کتنی لمبی چوڑی ہے؟
ملک کے مسلمانوں سے متعلق کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جسے ڈاکٹر صاحب نے اپنے اشتہار میں نہ چھیڑا ہو ان کے یا ان جیسی فکر رکھنے والے مسلمانوں کو بس یہ یاد ہے کہ دستور میںیہ لکھا ہے اور یہ کہا گیا ہے۔ ہندوستان کا دستور معاذ اللہ کلام الٰہی یا احادیث کی صحاح ستّہ نہیں ہے۔ اسے نام کے لئے تو ڈاکٹر امبیڈکر سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ چالاک برہمنوں کا دماغی کمال ہے جس کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی سیکڑوں دفعات وہ ہیں جو انگریزوں نے غلام ہندوستانیوں پر حکومت کرنے کے لئے بنائی تھیں۔ ڈاکٹر ایوب صاحب نے جو ریاستی اسمبلی میں بننے والے قوانین کا ذکر کیا ہے وہ اسی بنیاد پر ہے۔ جیسے کسی فساد کی ایف آئی آر انتہائی چالاکی سے لکھی جاتی ہے تو اس میں لکھ دیا جاتا ہے کہ سیٹھ جبار کے دو لڑکے نام نہیں معلوم دیکھ کر پہچان لوں گا۔ عبدالستار خاں کا ایک لڑکا جسے دیکھ کر پہچان لوں گا۔ یہی دستور میں کیا ہے۔ اسے اسی طرح رہنے دو ضرورت ہوگی تو بدل دیا جائے گا۔ ہر کسی نے کانگریس کی حکومت کے زمانہ میں کہا تھا کہ پولیس مینول انگریزوں نے 1860 ء میں بنایا تھا اور غلام ہندوستانیوں کی بغاوت کو دبانے کے لئے بنایا تھا اب اس کی کیا ضرورت ہے؟ اسے بدلا جائے۔ لیکن نہ باجپئی صاحب بدل کر گئے اور نہ اب مودی صاحب نام لیتے ہیں اس لئے کہ اب انہیں غلام مسلمانوں پر اسی مینول سے حکومت کرنا ہے۔
ہندوستان کے دستور میں 75 فیصدی وہی ہے جو انگریزوں نے اس لئے بنایا تھا کہ وہ کم تعداد میں تھے اور اپنے سے 80 گھنی آبادی پر انہیں حکومت کرنی تھی۔ یہ تو ڈاکٹر صاحب نے بھی پڑھا ہوگا کہ صوبوں میں گورنر انگریز ہوتا تھا کمشنری میں کمشنر اور ضلع میں ڈی ایم بھی انگریز ہوتے تھے لیکن ڈپٹی کلکٹر اور اس کے نیچے کا تمام اسٹاف ہندو اور مسلمان ہوتے تھے۔ اب ہندوؤں کو ماتحتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ جن کی ضرورت ہے اور جن میں بہت زیادہ محنت ان میں مسلمانوں کو جگہ مل جاتی ہے جیسے ڈرائیور، کنڈکٹر، چپراسی اور تھانوں میں کلرکی کرنے اور پہرہ دینے یا ایس پی آفس میں دفتری کا کام کرنے کے لئے رکھ لئے جاتے ہیں۔
اب ڈاکٹر صاحب یا کوئی اور اردو کو دوسری سرکاری زبان کا صحیح مقام دینے کی بات کرے یا مدرسوں سے پڑھ کر نکلنے والے مولوی صاحب یا منشی جی کی سرکاری نوکری کی بات کرے یا مساجد کے اماموں کو سرکاری ملازموں کا درجہ دینے کی بات کرے تو یہ سننے میں تو بہت اچھی لگتی ہے لیکن کہنے والوں کو یہ بھی تو سوچنا چاہئے کہ اترپردیش میں بے روزگاری کا حال یہ ہے کہ تین سو چپراسیوں کی ضرورت کا اشتہار نکلے تو 23 لاکھ درخواستیں آجائیں اور ان میں پی ایچ ڈی بھی ہو، انجینئر بھی ہوں، ایم اے بھی ہوں اور گریجویٹ تو 20 لاکھ ہوں گے۔ ایسی صورت میں اردو کو روزی روٹی سے جوڑنا بھینس کے آگے بین بجانے سے کیا کچھ کم ہے؟
جہاں تک مساجد کا تعلق ہے ان میں امام کے بارے میں اگر یہ تصور ہے کہ وہ ہمارا نوکر ہے تو انہیں کسی مستند عالم سے معلوم کرکے توبہ کرنا چاہئے۔ ہم ایک طرف انہیں امام کہہ بھی رہے ہیں اور لکھ بھی رہے ہیں اور دوسری طرف انہیں سرکاری ملازم بھی بنوانا چاہتے ہیں۔ کیا ڈاکٹر صاحب کو نہیں معلوم کہ سرکاری ملازمت میں رہنے والے کو جماعت اسلامی کارکن نہیں بنایا جاتا تھا۔ اگر بہت دباؤ ہوتا تھا تو مضطر کا درجہ دے دیا جاتا تھا۔ سوال اس کا نہیں کہ وہاں رشوت عام ہے بلکہ سرکاری خزانے میں ایک بہت بڑی رقم وہ ہوتی ہے جو شراب کے ٹھیکوں اور دکانوں سے ملتی ہے۔ دوسرے نمبر پر سنیما یا دوسری ایسی ہی تفریحات کے ٹیکس کی ہوتی ہے اور سود دی ہوئی بھی ہوتی ہے اور سود لی ہوئی بھی۔ ایسی رقم سے ہم اپنے اس امام کی ضروریات پوری کرائیں جس کے اشاروں پر ہمیں وہ نماز ادا کرنا پڑتی ہے جو فرض یا واجب ہے۔ یا سنت تراویح ہے۔ دہلی میں ایک الیاس ادریسی صاحب بھی یہ مسئلہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ اب ڈاکٹر ایوب صاحب نے بھی اٹھا دیا۔ کیا ہم اپنی مسجد کے امام صاحب کو اگر وہ بے روزگار اور ضرورتمند ہوں تو مل کر ان کے لئے اتنا انتظام نہیں کرسکتے کہ سرکار کی بات زبان پر بھی نہ آئے۔
ہم بات عامر رشادی سے شروع کی تھی وہ مایاوتی کے دَور میں ان کے ایسے ہی آلۂ کار بنے ہوئے تھے جیسی شہرت آج اسدالدین صاحب کی امت شاہ سے متعلق ہے ہم نے دیکھا ان کو بھی نہیں تھا دیکھا ان کو بھی نہیں ہے۔ لیکن صحافی کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ وہ یہ بھی بتاسکے کہ اس کے سر کے اوپر سے جو چڑیا اُڑکر گئی ہے وہ کہاں سے آرہی تھی اور کہاں جارہی تھی؟ مایاوتی کے دَور میں رشادی صاحب کی بھی آدھے صفحہ کی تقریریں Advt کے اشارہ سے چھپتی تھیں لیکن ان کے زوال کے بعد وہ بند ہوگئیں۔ اب آدھا صفحہ ڈاکٹر ایوب صاحب نے استعمال کرنا شروع کردیا ہے یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہم کسی کا کھلونا ہیں۔

«
»

مسلمانوں کے نام ،قربان شدہ بکرے کا ای میل

الٰہی یہ تیرے مولوی بندے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے