اہلیہ حضرت مولانا زکریا صاحب سنبھلی

تحریر: مولانا عبدالسلام خطیب ندوی بھٹکلی

استاد ندوةالعلماء لکھنؤ
5/ستمبرسے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں ششماہی امتحانات شروع ہو گیے تھے طلباء کے لیے وقت پرامتحان ہال میں حاضری اور امتحان کے پرچے صحیح طریقہ سے حل کرنے کی ذمہ داری تھی تو اساتذہ کے گروپ طلبہ کی نگرانی کے لئے مختلف ھالوں میں متعین کئے گئے تھے
میرا نام بھی ادھر کئی سال سے استاد الاساتذہ عمید کلیۃ الشریعۃ حضرت مولانا محمد زکریا صاحب سنبھلی ندوی مد ظلہ کے ساتھ رہتا ہے جسے میں اپنے لیے باعثِ سعادت و خوش نصیبی سمجھتا ہوں کہ ہال میں موجود طلبہ کی نگرانی ہوجاتی ہے جو اصل اس موقع کی ذمہ داری رہتی ہے اور مولانا سے استفادہ کا موقع بھی مل جاتا ہے اسلئے کہ دوران تعلیم تو گھنٹوں کی ترتیب کچھ ایسی رہتی ہے کہ چاہتے ہوئے بھی تفصیلی ملاقات کا موقع نہیں مل پاتا بس آپ جس وقت ندوۃ سے گھر جارہے ہوتے ہیں اس وقت کبھی سلام مصافحہ ہوجاتا یا پھر کبھی آپ کار پر جاتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے سلام کرتے۔
ادھر چند سال سے مولانا مختلف احوال سے گزر رہے تھے ایک مرتبہ گجرات کے سفر میں کار حادثہ پیش آیا جس میں آپ کو کافی چوٹ لگی پھر آپ کی بڑی پوتی کی طبیعت کافی ناساز رہی ہاسپٹل میں ایڈمیٹ بھی کرنا پڑا انکی صحت کی طرف سے کچھ اطمینان ہوا تو ادھر اہلیہ محترمہ کی طبیعت بہت بگڑ گئی ان کو بھی ایک مدت تک ہاسپٹل میں رکھنا پڑا پھر گھر لاکر ان کا علاج جاری رکھا گیا۔
مولانا زکریا صاحب مد ظلہ ان سب کے باوجود درجہ تشریف لاتے یا امتحان ہال میں طلبہ کی نگرانی کے لئے وقت مقررہ پر حاضر ہوتے تو چہرے مہرے یا باتوں وغیرہ سے بالکل اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ آپ کس طرح کے حالات سے گزر رہے ہیں جو ذمہ داری آپ کے سپرد کی جاتی اس کو بڑے اچھے طریقے سے انجام دیتے
اس مرتبہ بھی امتحان ہال میں ہم لوگوں کی ڈیوٹی چل رہی تھی اسی دوران
ہم لوگ موقع موقع سے مولانا کی اہلیہ محترمہ کی خیریت بھی معلوم کرتے رہتیکھبی مولانا دعا کیلئے فرماتے کبھی کہتے کہ اسی طرح چل رہی ہے بظاہر کوئی افاقہ یا بیماری میں کوئی کمی محسوس نہیں ہو رہی ہے البتہ اپنی دونوں بہوؤں کی بڑی تعریف کر تے اور انکے احسان مند رہتے کہ وہ اپنی بیمار ساس صاحبہ کی خوب خدمت کرتی ہیں اور اپنی ساس کیلئے جن کی کوئی حقیقی بیٹی نہیں ہے بیٹیوں سے بڑھ کر ثابت ہو رہی ہیں اسی طرح کی باتیں تھوڑی تھوڑی دیر کیلئے ہوجاتی تھیں کہ 8/ستمبر کی صبح امتحان ہال شروع ہونے سے ایک ادھ گھنٹے پہلے یہ اطلاع موصول ہوئی کہ دار العلوم ندوۃ العلماء کے عمید کلیۃ الشریعۃ حضرت مولانا زکریا صاحب سنبھلی ندوی مدظلہ العالی کی اہلیہ محترمہ کا انتقال ہو گیا ہے
اس وقت تو فوری طور پر حاضری اور مولانا سے ملاقات کا کوئی سوال ہی نہیں تھا کہ امتحان کا وقت بالکل قریب آ گیا تھا مولانا کا مکان بھی ندوۃ سے کافی فاصلے پر ہے فون سے تعزیت کی گئی امتحان ہال کا وقت مکمل ہونے پر اساتذہ و طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے مولانا کے گھر حاضر ہو کر مولانا اور آپ کے دونوں عالم فاضل صاحب لسان و قلم صاحب زادوں سے ملاقات کر کیتعزیت مسنونہ پیش کی۔
حضرت مولانا زکریا صاحب سنبھلی مد ظلہ کی اہلیہ مرحومہ بڑی ہی نیک صالح عبادت گزار اپنے شوہر کی خدمت گزار اپنی اولاد کی دینی مزاج سے تربیت کرنے والی بڑی مربیہ خاتون تھیں
مرحومہ مولانا زکریا صاحب مد ظلہ کے چچا و مربی اور قریبی دور کے مشہور عالم دین معروف داعی مناظر اسلام معارف الحدیث اور بہت سی کتابوں کے مصنف ماھنامہ "الفرقان” کے بانی و سابق مدیر اور ایک ذی حوصلہ و باحمیت دینی و ملی قائد حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رحمۃاللہ علیہ کی صاحبزادی اور انکی تربیت یافتہ خاتون تھیں خدمت و عبادت ودعا و ابتھال کا ذوق انھیں اپنے والد صاحب رحمۃاللہ علیہ سے وراثتاً ملا ہوا تھا مرحومہ کا گھرانہ بڑا علمی و دعوتی ذوق رکھنے والا گھرانہ تھا والد صاحب حضرت مولانا منظور نعمانی رحمۃاللہ علیہ کی صورت میں تھے تو بڑے بھائی مفسر قرآن و معروف صاحب قلم عالم دین حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی رحمۃاللہ علیہ دوسرے بڑے بھائی مشہور صحافی کئی رسالوں اور روزناموں کے ایڈیٹر جناب محترم حفیظ نعمانی مرحوم ایک حقیقی چھوٹے بھائی مترجم قرآن اور اپنے والد رحمۃاللہ علیہ کی کتابوں کے ناشر و خادم مولانا حسان نعمانی ندوی سب سے چھوٹے بھائی مفسر قرآن مفکر ملت اور اس وقت کے مشہور و معروف عالم دین حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد صاحب نعمانی ندوی مدنی نقشبندی مدظلہ شوہر نامدار استاد الاساتذہ عمید کلیۃ الشریعۃ دارالعلوم ندوۃ العلماء اور اس وقت ہندوستان بلکہ بر صغیر کے چند سینئیر اساتذہ میں جن کا شمار کیا جا سکتا ہے حضرت مولانا زکریا صاحب سنبھلی مد ظلہ مرحومہ کے دونوں صاحبزادگان بھی بڑے ذھین محنتی ذی علم و صاحب قلم عالم دین مولانا یحییٰ نعمانی ندوی مدنی زید فضلہ اور مولانا الیاس نعمانی ندوی،
مرحومہ کی تربیت اصلا ان کے والد صاحب رحمۃاللہ علیہ نے کی تھی جن کا مزاج ہی علمی و دعوتی تھا اور اس وقت تو وہ ایک مرجع بنے ہوئے تھے دور دور سے لوگ آکر آپ سے استفادہ کرتے آپ کے مزاج اور رھن سہن کی سادگی کو دیکھتے اور اس سے سبق لیتے

تو مولانا رحمۃاللہ علیہ کے گھر اور وہاں کے نظام کو بھی اپنے لیے نمونہ سمجھتے اسی طرح کی سادگی مہمان نوازی اور اصول و نظام پر مرحومہ کی تربیت کی گئی تھی اور مرحومہ کی اسی دینی دعوتی اصلاحی اور علمی ماحول میں آنکھیں کھلی
پھر مرحومہ نے اپنے والد صاحب کی ان کی بیماری چلنے پھرنے اور کسی طرح کے کام کاج سے معذوری کے ایام میں بھرپور خدمت کی والد صاحب رحمۃاللہ علیہ کی آواز بلکہ آہٹ سے محسوس کرتی کہ اباجی کو اس وقت کس چیز کی ضرورت ہے رات میں سوتے وقت بھی اس بات کا خیال رکھتیں کہ چارپائی اس طرح بچھائی جائے کہ اباجی کو کسی چیز کی ضرورت ہو آواز فوراً کان میں پڑجائیے اور بیمار والد صاحب رحمۃاللہ علیہ کو کسی ضرورت کے لیے انتظار کی زحمت نہ اٹھانی پڑے اس لئے کہ اس وقت تک مرحومہ کی والدہ ماجدہ کا بھی انتقال ہوگیا تھا اور گھر پر بڑی اور ذمہ دار خاتون کی حیثیت سے آپ ہی مقیم تھیں
‌اسی طرح آپ نے اپنے ذی علم و باوقار شوہر نامدار کا بھی بڑاخیال رکھا وقت وقت پر ان کے کھانے پینے راحت و آرام کا اھتمام کرتیں درجہ کے وقت سے پہلے ہی مولانا کے ناشتہ چائے کی فکر رکھتیں کہ مدرسہ پہونچنے میں مولانا کو کسی طرح کی کوئی تاخیر نہ ہو اسی لئے مولانا کی وقت کی پابندی بھی آپ کی تفھیم و تدریس کی طرح طلبہ میں ہمیشہ مشہور رہی مولانا کے مدرسہ سے واپسی کے وقت کا بڑا لحاظ رکھتیں کہ اس وقت مولانا تھکے ہونگے آپ کو ضرورت کی چیزیں مہیا ملیں کسی طرح کی کوئی دشواری یا انتظار کی ضرورت نہ پڑے
‌اولاد کی تربیت میں بھی اپنے شوہر کا پورا ساتھ دیا حضرت مولانا زکریا صاحب نے تو اپنے صاحب زادوں کی تربیت کیلئے اپنے آپ کو ہر طرح سے فارغ رکھا بچوں کے لیے انھوں نے اسفار غیر ضروری ملاقاتوں اور اپنے مطالعہ اور علمی اشتغال کے علاوہ ہر طرح کے امور سے کنارہ کشی اختیار کیے رہے اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اولاد کی تربیت میں لگایا ان کی اہلیہ محترمہ نے بھی اس سلسلے میں انکا پورا ساتھ دیا
‌گھر کا ماحول اچھا اور خوشگوار بنائے رکھا اپنی اولاد کا مزاج بھی ایسا بنایا کہ ان کو گھر ہی میں راحت محسوس ہو اور ان کا زیادہ سے زیادہ وقت گھر ہی میں گزرے
‌الحمدللہ اللہ تعالی نے ان دونوں کو زندگی ہی میں اس کا نتیجہ دکھایا اللهم زد فزد
‌ادھر مرحومہ نے اپنی بہوؤں کی بھی ایسی تربیت کی وہ دونوں بھی گھر کے نظام کو بڑے اچھے انداز سے سنبھالے ہوئے ہیں گھر کے دونوں بڑوں کی صحیح طریقے سے خدمت کر رہی ہیں مرحومہ کی بیماری کے ایام میں اخیر تک خوب خدمت کرتی رھیں الله تعالٰی ان دونوں کو اجر عظیم عطا فرمائے
حضرت مولانا زکریا صاحب کی اہلیہ محترمہ کے انتقال کی خبر جیسے ہی وائرل ہوئی مولانا کے شاگردوں متعلقین اعزہ اقرباء میں غم و افسردگی کا ماحول چھا گیا جو لکھنؤ اور اطراف و اکناف میں تھے وہ تو تعزیت نماز جنازہ میں شرکت اور
تدفین کے لیے حاضر ہوئے دور سے حاضر ہونے کا ارادہ کرنے والوں کو تو مولانا نے اپنے پیشرو ہم نام محدث و مشہور بزرگ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی رحمۃاللہ علیہ کے انداز میں سفر کی زحمت برداشت کر کے حاضر ہونے سے منع کیا اور وھیں سے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کا حکم دیا
مرحومہ کی نماز غائبانہ جامع مسجد بھٹکل میں بعد نماز جمعہ مسجد کے امام و خطیب مولانا عبدالعلیم خطیب ندوی نے پڑھائی اور بہت سی جگہوں پر جہاں مولانا کے شاگرد بڑی تعداد میں موجود ہیں ادا کی گئی اور ہر جگہ دعاؤں کا اھتمام کیا گیا
اللہ تعالی مرحومہ کی بال بال مغفرت فرمائے درجاتِ بلند سے نوازے حضرت مولانا محمد زکریا صاحب سنبھلی ندوی مد ظلہ العالی اور تمام پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائ

«
»

حزب اللہ کا موساد کے ہیڈ کوارٹر پر میزائل حملہ

ادارہ ادبِ اطفال بھٹکل کے دفتر میں کاروانِ شباب کے نئے گوشہ کا مولانا نیاز احمد ندوی کے دستِ مبارک سے عمل میں آیا افتتاح