اور ملک میں تمام لوگوں پر ہندوتوکا ایجنڈا تھوپنے کی کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہندوؤں کے ایک مخصوص طبقہ اور مسلمانوں کے بیچ کشیدگی اور ٹکراؤمیں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ملک کی اقلیتوں خاص طور سے مسلمانوں کے خلاف حکومت کی نفرت انگیز کارروائیاں اتنی واضح اور شدید ہیں کہ ان کا نوٹس بیرون ممالک میں بھی لیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی غیر ممالک نے مودی انتظامیہ پر مسلمانوں کے خلاف تشدد کی متعدد کارروائیوں کو اکسانے یا انہیں صرف نظر کرنے کے الزامات بھی عائد کئے ہیں لیکن وزیر اعظم اس سے بے پرواہ سنگھ کے ایجنڈے نافذ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
حال ہی میں مغل حکمراں اورنگ زیب سے موسوم دارالسلطنت دہلی کی ایک اہم سڑک کا نام تبدیل کرکے سابق صدرکے نام پر اے پی جے عبدالکلام روڈ رکھے جانے کے حکومتی فیصلے کو صحیح ٹھہرانے کے لئے حکمراں بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگوں نے اس مغل حکمراں کے خلاف ہندو مخالف ہونے اور بڑی تعداد میں مندروں کو ڈھا دینے کا الزام عائد کیا اور انکی امیج کو مسخ کرنے کی کوشش میں ایسی ایسی بے بنیاد اور بے سروپا باتیں کیں جن کا کوئی تاریخی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ ایسے تما لوگوں کی زبان پر اب تالا لگ جانا چاہئے اور گمراہ کن پروپیگنڈہ کرنے کے لئے انہیں پورے ملک سے معافی مانگنی چاہئے کیونکہ الہ آباد میں سرویشوری ڈگری کالج کے پرنسپل پردیپ کیشروانی نے،جو ایک معروف مؤرخ ہیں، ثبوتوں کی روشنی میں دعویٰ کیا ہے کہ اورنگ زیب نے شہر میں گنگا جمنا کے سنگم پر قائم تاریخی سومیشور مہا دیو مندر کو بھاری بھرکم رقوم اور اراضی دی تھیں اور یہ تاریخی سچائی کہیں اور نہیں بلکہ خود مندر کے ایک ستون پر تحریری شکل میں آج بھی موجود ہے۔
آر ایس ایس کے ٹولے نے اسی طرح اپنے بے بنیاد پروپیگنڈے کے ذریعے عام ہندوؤں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ موجودہ زمانے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ جو کشیدگی پائی جاتی ہے اسکا بیج صدیوں پہلے عہد وسطیٰ کے مسلم سلاطین اور حکمرانوں نے اس وقت بویا تھاجب وہ بر صغیر میں اپنی حکومتیں قائم کر رہے تھے۔ لیکن ایک غیر ملکی مؤرخ آڈری ٹرشکی نے تحقیق پر مبنی اپنی تازہ ترین تصنیف میں اس پروپیگنڈہ کو بھی جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ہندوستان میں مذہبی جھگڑوں کو نظریاتی مفروضوں نے ہوا دی ہے کیونکہ اس عہد کی درست تاریخ پیش نہیں کی گئی۔
آڈری ٹرشکی امریکہ کی مشہور یونیورسٹی اسٹینفورڈ میں مذہبی مطالعات کے شعبہ کی اسکالر اور مذہبی تاریخ داں ہیں۔ انہوں نے اپنی نئی تصنیف ’’کلچر آف انکاؤنٹر: سنسکرت ایٹ دی مغل کورٹ‘‘ میں لکھا ہے کہ ہندوستان میں مسلم حکمرانوں کے عروج کا زمانہ سولہ تا اٹھارہویں صدی کا عہد تھاجو مذہبی و ثقافتی تنازعہ کا نہیں بلکہ زبردست بین ثقافتی احترام اور میل ملاپ کا زمانہ تھا۔واضح ہو کہ محترمہ ٹرشکی نے جس عہد کا ذکر کیا ہے وہ مغل حکمرانوں کا زمانہ تھا۔ انہوں نے عہد مغلیہ کی سنسکرت اور فارسی زبانوں کی کتابوں کے مطالعہ سے اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ مغل حکمرانوں نے کبھی بھی ہندوستانی ثقافت اور ہندوازم پر حاوی ہونے کی کوشش نہیں کی۔ ٹرشکی نے اپنی تحقیق کے سلسلے میں دس ماہ ہندوستان میں اور کئی ماہ پاکستان میں گزارے اور مخطوطات کی تلاش میں دو درجن سے زائد آرکائیز کی خاک چھانی۔ وہ موجودہ وقت کی شاید اکلوتی محقق اور اسکالر ہیں جو بیک وقت فارسی اور سنسکرت دونوں زبانیں جانتی ہیں۔ انہوں نے مغل حکمرانی کے عہد میں ہندو ؤں اور مسلمانوں کے بیچ زبردست میل ملاپ ہونے کی جو بات کہی ہے وہ اس عہد میں تحریر کی گئیں سنسکرت اور فارسی کی کتابوں کے مطالعہ کی روشنی میں کہی ہے۔ ٹریشکی کاکہنا ہے کہ انکی تحقیق نے اس مفروضہ کو الٹ دیا ہے کہ مغل حکمراں روایتی ہندوستانی زبان، ادب اور تہذیب و ثقافت کے دشمن تھے۔ ان کی تحقیق سے یہ بات منظر عام پر آئی ہے کہ در حقیقت مغل حکمراں ہندوستانی دانشوروں کی مدد کرتے تھے اور انکے ساتھ ملکر کام کرتے تھے۔ سنسکرت زبان کی کتابوں میں یہ بات درج ہے کہ ابتدائی عہد جدید کے مسلمان روایتی ہندوستانی علم میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ ہندو اور مسلمان اسکالر لسانی اور مذہبی امور سے متعلق امور پر ملکر کام کرتے تھے اور انکے درمیان گہرا تعلق پایا جاتا تھا۔
ایسے وقت میں جب ہندوستان میں حکمراں جماعت اور اس کی ہمنوا تنظیمیں اس سوچ اور فکر وخیال کی پروردہ ہیں کہ مغل حکمرانوں نے ہندوؤں پر مظالم کئے، ان کے مندر مسمار کئے اور ان کی جگہ مسجدیں تعمیر کیں، ہندوؤں پر ٹیکس عائد کیا اور ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے،امریکی اسکالر کی یہ تازہ تحقیق اس خیال کے تمام لوگوں کو ایک موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ مفروضات کی دنیا سے نکل کر حقائق کو سمجھیں جو کسی مسلمان مؤرخ یا مصنف کے زور قلم کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک غیر ملکی اور غیر جانبدار محقق اور مؤرخ کی برسوں کی تحقیق کا نتیجہ ہے اور جو اس عہد کی فارسی اور سنسکرت زبانوں کی کتابوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ آج ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ جو نفرت اور کشیدگی پائی جاتی ہے اس کے بیج دراصل انگریزوں نے بوئے تھے جنہوں نے پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت مغل اور مسلم حکمرانوں کے تعلق سے بے بنیاد پروپیگنڈے کئے کیونکہ ہندوستان پر اپنی حکمرانی مضبوط کرنے کے لئے ان کو یہی پالیسی مناسب اور کارگر نظر آتی تھی۔ بدقسمتی سے بی جے پی نے بھی اسی پالیسی پر گامزن ہوکر اقتدار کی سیڑھیاں چڑھی ہیں ۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت،کشیدگی، تنازعات،جھگڑے ان کے مسند اقتدار کے مضبوط پائے تو بن گئے ہیں لیکن یہ جھگڑے ملک کو ضرور کمزور اور کھوکھلا کر رہے ہیں۔ کاش کہ ہمارے حکمراں اسکا ادراک کرسکیں۔ موجودہ حکمرانوں کی جو روش ہے اس کے مدنظر یہ امید بھی فضول ہی ہے کہ وہ امریکی اسکالر کی اس نئی تحقیق کی پذیرائی کرے گی۔(
جواب دیں