جناب عبداللہ صاحب کی کچھ یادیں
حافظ عمر سلیم بن زکریا عسکری ندوی
جمعہ کا دن تھا، نماز جمعه کے بجاۓ ظھر کی نماز ادا کرنی تھی، کیونکہ کچھ ممالك نےجس بے حسی اور بے ضمیری کے ساتھ جمعہ پر پابندی عائد کی ہے، افسوس صد افسوس وہ پورے عالم اسلام کے لئے انتہائی بد نما داغ ہے، جبكہ پوری دنیا معاشی و اقتصادی اور سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں ہر آن متحرک اور ہمہ وقت محو سفر ہے، اس پر تو کوئی پابندی نہیں ہے.
الغرض نماز کی ادائیگی کے بعد بارگاہ الٰہی میں مغفرت اور بخشش کی دعا کر رہا تھا كہ اچانک واٹساپ کی گھنٹی بجی، ديكها تو سوشيل ميڈيا پر يہ میسیج گردش كر رہا ہے کہ "جناب عبداللہ صاحب کی طبیعت ناساز ہے اور دعا کی درخواست کی جارہی ہے".
پھر تهوڑی دير بعد يہ نہایت ہی افسوسناك اور غمناك خبر میرے کانوں كے پردوں سے ٹکرائی کہ عارضہ قلب لاحق ہونے کی وجہ سے جناب عبدالله صاحب نے اس فانى دنيا كو چهوڑ كر سفر آخرت اختيار كيا، انّا للہ وانا الیہ راجعون .
اس کائنات کی بے ثباتی میں انسان کی حیثیت خاکی اور مٹی کا ایک کمزور پتلہ ہے، غموں اور خوشیوں کا ایک سنگم ہے، مشقتوں اور صعوبتوں کى آماجگاہ ہے۔
آه،،، اس کارگاہ انفس میں انسان کی کتنی حسرتیں اور تمنائیں ہوتی ہیں!
اور آه،،، کتنی آرزوئیں اور خواہشیں ايسى ہوتی ہیں! جو تا دم مرگ ختم نہیں ہوتی،
لیکن موت ایسی ناقابل انکار حقیقت ہے جو انسان کی حرص کو ختم کرتی ہے، جس کی تائید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک سے واضح ہے:"ابن آدم کے پیٹ کوصرف مٹی ہی بھر سکتی ہے".
اس فانی زندگی میں انسان دهن دولت اور عہدہ و منصب كے اعتبار سے کتنا ہی بلند كيوں نہ ہو، یہ سب بے حيثيت ہے، البتہ وہ اسی وقت ارفع واعلیٰ ہوگا جب خوشیوں کے نزول پر اس كى زبان سے شکر الٰہی کے نغمے اور غموں کے ورود پر صبر وضبط کے ترانے جاری ہوں، یہی صفات مرحوم عبداللہ صاحب کی پہچان تهى اور يہ ان کا طرہ امتیاز تھا۔
جب میں نے ان کے فرزند ارجمند سے ملاقات کی تو محسوس كيا کہ والد ماجد کے سانحہ ارتحال سے گويا ان کے جواں سال جسم و مضبوط بدن پر کوہِ غم ٹوٹ پڑا ہے، آنكهوں سے آنسوؤں کی ندیاں بہہ رہی تھیں، ہر لفظ مجروح، ہر سانس مغموم اور ہر آنسو سوز آہ سےلبریز معلوم ہورہا تھا، ایک عجیب عالم یاس ہے جس کے ہر طرف صرف ویرانیاں ہی ویرانیاں ہیں،
جدائیوں کےزخم درد زندگی نے بھر دیئے
تجھے بھی نیند آگئی مجھے بھی صبر آگیا
صبر اور شکر اور تسلیم و رضا کا دامن ہاتھ سے کبھی جانے نہیں دیا، ہم نے قرآنی آیت "سَلٰمٌ علیکم بِما صبرتم فنِعمَ عُقبَى الدار" سنا کر دلی سکون اور راحت پيدا كرنے کی کوشش کی، کیونکہ اس آیت میں صبر وضبط پر بلند مراتب اور بلند درجات بيان كيے گئے ہیں۔
بقول ان کے فرزند ارجمند: "والد ماجد حقوق اللہ و حقوق العباد کے سنگم تھے یعنی جس طرح خدائے واحد ذوالجلال کے حکم کی تعمیل میں ہمہ تن مصروف نظر آتے، اسی طرح حسن اخلاق میں بهى بلند تھے، مرحوم معاملات میں حد درجہ محتاط رہتے،
مجھے یاد ہے کہ ايك مرتبہ جب میں نے ان کو بذریعہ ٹیلیفون کہا کہ ناچیز کو فورًا ایک لاکھ روپيے بھٹکل میں چاہیے تو انھوں نے کہا کہ ان کے اکاونٹ ميں اتنا عمانی ريال جمع کروں، جیسے ہی میں نے جمع کیے تو فورًا انھوں نے ایک لاکھ روپيے اپنے بڑے بھائی کو پہونچا دیے، ان کے فرزند نے بتایا کہ ہم کو ہمیشہ یہ نصیحت کرتے کہ "اپنے دامن کو ہمہ تن قرآن و حدیث کے سانچے میں ڈھال دو"، اسی طرح مرحوم کے بھانجوں کی زبانی: "ہمارے ماموں ابتدائی کچھ سال ملازمت سے منسلک رہے، پھر اس کے بعد تا دم مرگ تجارت سے وابستہ رہے اوراپنے اعزہ واقارب کو خود تجارتی لائن دکھا کر انهيں کامیاب تاجر بننے کی راہ پر گامزن کیا۔
بہر حال موصوف نرم اور سنجیدہ مزاج کے ساتھ محبت والفت اور اعتماد علی اللہ کی صفات سے متصف تھے،
یہ اور ان كے علاوه اور بهی اوصاف تهے جس كى وجہ سے ان كى موت پر آنکھیں آنسوؤں سے اشکبار تھیں، دل ودماغ پر رنج کی كيفيات چھائی ہوئی تھیں، درد و حسرت کے جاں سوز شعلے بھڑک رہے تھے ،ناچیز نے کہا ہمیں صبر وضبط، تسلیم و رضا اور قضاء وقدر کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا حکم ہے۔
ایک اٹل حقیقت ہے کون بیٹا ایسا ہوگا جس کا دل اپنے مشفق ومربی والد ماجد کی موت سے پارہ پارہ نہ ہو، چونکہ یہ فطرت کی آواز ہوتی ہے کہ دردو غم کا غبار اشکوں میں ڈھل کر نکل جاتا ہے ،بہرحال ہمیں اس وقت اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم کےوصال کو یاد کرنا ہے جس سے ہمارے لیے ہر مشکل آسان ہوتی ہے۔
آخر میں تعزیت مسنونہ پیش کرکے فرمان رسول کے مطابق یقین دلاتا ہوں کہ "جسکی زبان اور ہاتھ سے لوگ محفوظ رہے وہ حقيقى معنى ميں مسلمان ہے"
جواب دیں