گزشتہ دنوں بعض ادبی حلقوں میں یہ بات بڑے زور و شور سے چلی کہ نعتیہ شاعری میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرنے کا انداز کس طرح ہو! اور ادب آداب کا پاس و لحاظ کس حد تک ہو اور زبان و بیان کی بلاغتوں اور فصاحتوں کا نبی کی نعتوں میں قاعدہ ہو یا نہ ہو!
اس بحث میں لسانی خوبیوں اور اس کی سج دھج سے ناواقف احباب یہ فتوٰی لائے کہ مِدحتِ خیرالوری میں"تو" "تم" اور "تیرے" کا استعمال ممنوع اور ناجائز ہے بلکہ اس کو صریح بے ادبی پر محمول کیا اور حیرت اس وقت ہوئی جب بعض احباب نے قرآن سے استدلال کرکے یہ تک کہا کہ اللہ نے قرآن مجید میں نبی کو واحد کے صیغے سے مخاطب نہیں کیا ہے۔
ہم قدیم اور اپنے زمانے کے معتبر ترین نعت گو شعراء کے کلام کو پیش کرنے سے پہلے اس ضمن میں چند باتیں پیش کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔
یہ بات مسلم ہے کہ اللہ تعالٰی خالق کائنات اور ہم سب کا پالنہار ہے، اس کی الوہیت اور عبودیت کی تعظیم زندگی کی ہر سانس میں بھی کی جائے تو حق ادا نہیں ہوسکتا، قرآن کریم میں ایک خوبصورت مثال کے ساتھ اس ناممکن بات کو سمجھایا گیا ہے:
اس عظیم رب کے آگے جب ہم دست سوال دراز کرتے ہیں تو ہرہر جملے میں"تو" "تیرا" کہہ کر پکارتے ہیں اور اس کو بے ادبی تصور نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ آہیں بھر بھر کر اور چیخ چیخ کر واحد کے صیغے سے اس سے مخاطب ہوتےہیں۔
زبان کو زبان کی حد تک اور اس کے اصول و آداب پر ڈھالا جاتا ہے، زبان کو فقہ اور علم کلام کے اصولوں پر تولا نہیں جاتا، زبان کا ایک حسن اور اس کی بلاغت ہوتی ہے، اس کا اپنا رکھ رکھاؤ ہوتا ہے،کتنے ہی عربی محاورے ہیں جن کا اردو ترجمہ کیا جائے تو مہذب آدمی سننا گوارا نہ کرے! بلکہ فقیہانِ حرم اس پر فتوے صادر کرکے اس کا حقہ پانی بند کریں۔
ہم فقہی مسئلے میں الجھنے کے بجائے شاعری کی زبان ہی استعمال کرکے یہ بتاتے ہیں کہ اردو شاعری میں آپ علیہ السلام کو محبوب سمجھ کر مخاطب کیا جاتا ہے اوریہ تو مسلم ہے کہ محبت وحدت کی متقاضی ہے، اس لیے محبوب کے لیے ہمیشہ واحد ہی آئے گا۔ اردو کے علاوہ فارسی میں بھی ہر محبوب کو مخاطب کرتے وقت "شما" کے بجائے "تو" استعمال کیا جاتا ہے۔
مشہور نعتیہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
حسنِ یوسف، دمِ عیسٰی، یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری
"تو"اور"تم" میں انفرادیت کا پہلو غالب ہے، اس میں شانِ محبوبیت کا اظہار مقصود ہے۔ آپ کا استعمال عام ہے، اس میں وحدت غالب نہیں ہے۔
ایک صاحب نے یہ بات نہ جانے کہاں سے اخذ کی کہ قرآن مجید میں بھی اللہ نے اس کا پاس رکھا ہے اور آں حضور کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ ان کی معلومات کے لیے یہ بات بتاتے چلیں کہ قرآن میں بھی اللہ نے رسول کو اکثر و بیشتر دفعہ "انت" یعنی ضمیر واحد سے مخاطب کیا ہے۔ مثال کے طور پر:
قرآن مجید میں ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خدائے پاک نے اپنے محبوب کو کس طرح واحد کے صیغے کے ساتھ مخاطب کیا ہے۔
اب آئیے ان چند قدیم نعت گو شعراء کے بے شمار اشعار میں سےچند شعر بطور نمونہ پیش کرتے ہیں جنھوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنی کئی نعتوں میں "تو" "تم" اور "تیرا" لکھ کر ان بے جا حدبندیوں اور تکلفات کی دیواروں کو توڑا۔جن میں ہر مکتب فکر کے شعراء شامل ہیں۔
کیا ان میں شانِ رسالت کی ذرا سی پاسداری نہ تھی!
غالبا عبدالرحمن جامی کی مشہور زمانہ فارسی نعت گل از رخت آموختہ نازک بدنی را کے تقریباً ہر شعر میں آپ علیہ السلام کو تو اور تیرا سے مخاطب کیا ہے:
گل از رخت آموخته نازك بدني را
بلبل ز تو آموخته شيرين سخني را
هر كس كه لب لعل ترا ديدہ به خود گفت
حقا كه چه خوش كنده عقيق يمني را
در عشقِ تو دندان شکستند به الفت
تو جامہ رسانید اویس قرني را
سعدی کی لکھی نعت کو پڑھیے:
تو مخلوق و آدم ہنوز آب و گل
ترا عز لولاک تمکین بس است
امیر خسرو نے کیا ہی خوب کہا ہے:
آفاق ہا گردیدہ ام مہر بتاں ورزیدہ ام
بسیار خوباں دیدہ ام اما تو چیزے دیگری
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
حالی مرحوم نے حالات سے متاثر ہوکر بارگاہ رسالت میں التجا کی تھی۔ اس کے پہلے ہی شعر میں تخاطب کا انداز کس طرح تھا:
اے خاصہء خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
جناب احمد رضا خان بریلوی نے تو اپنی لکھی ہوئی بے شمار نعتوں میں "تو" اور "تیرا " سے حضور کو مخاطب کرکے حد ہی کردی، چند ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:
لَم یَاتِ نَظیرُکَ فِی نَظَر مثل تو نہ شد پیدا جانا
جگ راج کو تاج تورے سر سوہے تجھ کو شہ دوسرا جانا
ان کی لکھی ایک اور نعت میں یوں ہے کہ
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
آسماں خوان،زمیں خوان،زمانہ مہمان
صاحب خانہ لقب کس کا ہے تیرا،تیرا
محسن کاکوروی کے یہاں نعتیہ شعر دیکھیے
یہ ہے خواہش کروں میں عمر بھر تیری ہی مداحی
نہ اٹھے بوجھ مجھ سے اہل دنیا کی خوشامد کا
ان کے اس شعر کو بھی ملاحظہ کیجیے:
ہے تمنا کہ رہے نعت سے تیری خالی
نہ مرا شعر،نہ قطعہ نہ قصیدہ نہ غزل
آزاد بلگرامی کا یہ مصرعہ پڑھیے:
ائے روئے تو آئینہ دیدار الہی
ظفر علی خان کی لکھی ایک نعت کا مطلع اس طرح ہے:
اے خاور حجاز کے رخشندہ آفتاب
صبح ازل ہے تیری تجلی سے فیض یاب
اب اقبال مرحوم کے اشعار پڑھ کر سر دھنیے:
جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں
اور پھر
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حجاب
غور کیجیے کہ اس شعر کے پہلے مصرعے میں ہی تین دفعہ تو اور تیرا آیا ہے۔
مظفر وارثی کی لکھی ہوئی اس نعت کا انداز دیکھیے جو بچے بچے کی زبان پر رہتی ہے۔
تو کجا من کجا
تو امیر حرم، میں فقیرعجم
تیرے گن اور یہ لب، میں طلب ہی طلب
تو عطا ھی عطا، میں خطا ہی خطا
تو کجا من کجا
تو ہے احرام انار باندھے ہوئے
میں درودوں کی دستار باندھے ہوئے
کبۂ عشق تو، میں ترے چار سو
تو اثر میں دعا، تو کجا من کجا
میرا ہر سانس تو خوں نچوڑے مرا
تیری رحمت مگر دل نہ توڑے مرا
کاسۂ ذات ہوں، تیری خیرات ہوں
تو سخی میں گدا، تو کجا من کجا
تو حقیقت ہے میں صرف احساس ہوں
تو سمندر ہے میں بھٹکی ہوئی پیاس ہوں
میرا گھر خاک پر اور تری رہگزر
سدرۃ المنتہا، تو کجا من کجا
کیا نعوذ باللہ ان تمام شعراء کے خونِ جگر سے نکلے ہوئے نعتیہ کلام بے ادبی پر محمول کیے جائیں گے!
کیا وہ سب بارگاہِ رسالت مآب میں اپنی بے ادبیوں کی پاداش میں دھتکار دیے جائیں گے۔
جن کا کام ہی ہر دل میں حب نبی کی لو کو تیز کرنا تھا۔
اب آپ ہی خود فیصلہ کریں۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں