آہ!ملت نے ایک عظیم "رہبر”” کھودیا”

 

از :(مولانا) فتح محمد ناظم دارالعلوم محمودیہ مہینڈر و سینئر نائب صدر تنظیم علمائے اہلسنت والجماعت ضلع پونچھ 

طلبہ ہیں حزیں، استاذ حزیں،ہرشاخ پر گل ہے حزیں

یہ کون گیا ؟ کس کی رحلت ؟ ہر سمت کھلا ہے باب حزیں

وہ شستہ عبارت کے مالک،شائستہ لب و لہجہ ان کا

نہ شور و شغف،نہ شعلہ و شر،انداز شگفتہ تھا ان کا

موت برحق ہےاثرمست زندگی

توڑ دیتی ہے اجل حصن وحصارزندگی

گلشن ہستی کہ سرجب آکہ منڈلاتی ہےموت

ختم ہوجاتی ہے لمحوں میں بہارزندگی

موت العالم موت العالم 

مختلف ذرائع ابلاغ سے خبرموصول ہوئی کہ بتاریخ22/رمضان المبارک 1444ھجری بمطابق 13/اپریل 2023عیسوی روزجمعرات صدرآل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، وناظم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، سرپرست اسلامی فقہ اکیڈمی ہند،نائب صدررابطہ ادب اسلامی ریاض سعودی عرب، رکن رابطہ عالم اسلامی حضرت اقدس الحاج مولانا سیدمحمدرابع حسنی ندوی (رح)اس دارفانی سے رخصت ہوگئےتودل رنجیدہ عقل پریشان آنکھیں اشکبارہوگئی بےساختہ بول پڑا. انالله واناالیه راجعون،

حضرت مرشدالملت علم دین وشرع متین کے ذخار ،اکابرین کی روایات کے علمبردار خانوادہ سادات کے تاجدار اسماءالرجال کےماہرعربی واردوزبان وادب کےرمزشناس اوربحربیکراں تھے،

حضرت مرشد الملت کی زندگی قومی و ملی، وطنی و عالمی خدمات سے عبارت ہے حضرت ایک طرف جہاں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ناظم تھے وہیں دوسری جانب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر بھی تھے ، جہاں حضرت ایک جانب اسلامی فقہ اکیڈمی ہند کے سرپرست تھے وہیں دوسری جانب رابطہ ادب اسلامی ریاض کے صدر اور رابطہ عالم اسلامی کے رکن بھی تھے یہ تمام مناصب عالیہ حضرت کی خدمات کی جانب مشیر ہیں ۔

حضرت مرشد الملت کی زندگی اپنے اکابرین کے نقوش اقدام سے انتہائی ہم آہنگ تھی اور حضرت اپنے بڑوں کی اتباع میں کس قدر فنا تھے اور اپنے بڑوں سے کس قدر مشابہت تھی کہ موت بھی اسکو بیان کرگئی : کہ ٹھیک آج سے چوبیس سال قبل کل ہی کی طرح رمضان 1420ھ کی بائیسویں تاریخ تھی، روزہ کی حالت میں دار العلوم ندوة العلما لکھنو کے ناظم مولانا سید ابو الحسن علی ندوی وفات پاگئے تھے، اور کل چوبیس سال بعد رمضان 1444ھ کا بائیسواں روزہ ہے مولانا رحمة اللہ علیہ کے جانشین اور ان کے صحبت یافتہ، دار العلوم ندوة العلما لکھنو کے ناظم مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی عقبی کے سفر کو روانہ ہوگئے                                           

مجھے یہ خبرکلفت اثرمعلوم ہوکرنہایت رنج و قلق ہواکہ پیر طریقت مرشد الملت کا انتقال، آہ! آفتاب علم غروب، عالم اسلام میں غم کاماحول، واقعتاً ہم یہ الفاظ ببانگ دہل کہہ سکتے ہیں کہ دنیاعلم و فضل کے حاملین ، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے وارثین سےخالی ہوتی جارہی ہیں

ان خیالات کااظہارفی زماننا علماءومشائخ کررہےہیں لاشک فی کلامک"موت العالم موت العالم"

بہرحال!ہمارےلئےجس قدرسوبان روح ہو لیکن یہ مزدہ مغفرت ہے روایت ہے: الموت جسر يوصل الحبيب إلى الحبيب. اور حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی دینی خدمات، اور قومی و ملی مہمات بتاتی ہیں کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ بزبان حال یوں گویا ہیں: یا لیت قومی یعلمون بما غفرلی ربی وجعلنی من المکرمین (الآیۃ)

علماء کرام کی بکثرت أموات ہمارےلئے"عام الحزن" سےبھی زیادہ دقیق بن گیا ہے اب اللہ ہی اس أمت کوان اکابرین کانعم البدل عطا فرمائے(آمین)

ایساقلب ودماغ خواہ دنیاکےکسی مقام پرہواس صدمہ کی شدت اوراس کے اثرات کواہل خانہ اور مقربین کی طرح محسوس کرتےہوئے مرحوم ومغفورکےلیےترقی درجات اور اعلیٰ علین میں صدیقین وصالحین کی صفوف میں مقام کریم عطاءکیےجانےکےلیےبچشم نم دست دعادرازکیےہوئےہیں،بارگاہ ایزدی میں دست بدعاہوں کہ پروردگار عالم اپنی خصوصی رحمتیں نازل فرمائے اور دنیاکی طرح آخرت میں بھی اعلی مقام عطا فرمائے،

آمین بجاہ سید الامین الکریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے،

محرر:۔(مولانا) فتح محمد صاحب مدظلہ العالی ناظم دارالعلوم محمودیہ قاسم نگر مہینڈر و سینئر نائب صدر تنظیم علمائے اہلسنت والجماعت ضلع پونچھ جموں 

24/رمضان المبارک ۱۴۴۴ہجری

بمطابق15/اپریل2023عیسوی

«
»

حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندویؒ: بحیثیت انسان

بدلتا ہندوستان اور مسلمانوں کا خوفناک مستقبل‎‎

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے