مکہ مکرمہ: ہم لوگ حرم شریف میں ان کی صحت کے لئے دست بہ دعا تھے کہ اچانک یہ اندوہ ناک خبر ملی کہ ہمارے کرم فرما جنت الفردوس کےلئے رخصت ہوگئے، اور ہم سب کو داغ مفارقت دے گئے( انا للہ وانا الیہ راجعون) ان کی جدائی سے ہم لوگوں کو بہت دکھ ہوا، اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور قبرمیں کروٹ کروٹ چین اور سکون نصیب فرمائے ان کے تمام اعمال حسنہ کو قبول فرماکر رفع درجات کاسبب بنائے۔ آمین اور تمام احباب و متعلقین کو اور تمام پسماندگان کو اہل خانہ صبرجمیل سے نوازے، اوراس نعمت عظمی کا نعم البدل خیر کثیر سے نوازے۔ آمین ، بہر حال یہ تو سنت ہے کہ ہر انسان کو اس دنیائے فانی سے جانا ہے (موت کی لذت کو ہرشخص چکھے گا ، جب رحمت عالم نہ رہے تو کون رہے گا) اسی پر راضی رہنے کو اور صبر کرنے کو ایمان کامل کہتے ہیں، بھائی جنید کا تعلق ایک علمی اور مہذب خاندان سے تھا ، ان کی پیدائش ایک علمی اور معروف خاندان میں ہوئی، بھائی جنید دوعلمی خاندان کے چشم و چراغ اور سنگم تھے، آپ کے دادا علامہ محمد ابراہیم صاحب مفتی بنارس تھے، والد محترم مولانا محمداسحاق صاحب بھی عالم تھے ،اور نانا محترم مولانا نورمحمد صاحب جو مجاز تھے (حضرت مولانا عبدالحق صاحب مفسر قرآن) اوران کےماموں جان محترم استاذ مولانا محفوظ الرحمن صاحب نامی نے اپنےوالد محترم کی یاد میں مدرسہ نورالعلوم قائم کیا، بھائی جنید مرحوم نے اپنا بچپن بنارس میں گزارا پھر وہ چھوٹی ہی عمر میں بہرائچ آگئے اوراپنے ماموں حضرت نامی صاحب کے زیرسایہ رہ کر مدرسہ نورالعلوم میں باصابطہ درس نظامی مکمل کیا ،اور سند فراغت حاصل کی،آپ مدرسہ نورالعلوم کے ابنائے قدیم میں سے تھے، آپ کے اساتذہ کی فہرست لمبی ہے ،مختصر قابل ذکر ہے، حضرت مولانا عبدالحفیظ صاحب بلیاوی (صاحب مصباح اللغات) ، حضرت مولانا معصوم علی صاحب، حضرت مولانا محمد سلامت اللہ بیگ صاحب، حضرت مولانا حافظ محمد نعمان بیگ صاحب، حضرت مولانا عبدالصمد صاحب گورکھپوری، حضرت مولانا افضال الحق صاحب الاعظمی، حضرت مولانا عابد علی صاحب، حضرت مولانا حافظ حبیب احمد صاحب (اعمی) ، حضرت مولانا سمیع اللہ صاحب نوراللہ مرقدہم، آپ کے ہم درس اور رفقاء حضرت الاستاذ مولانا منشی غلام احمد صاحب مرحوم ، مولانا محمد عمر صاحب مرحوم، حضرت مولانا ولی الرحمن صاحب نامی مرحوم، برادرم مولانا محمد کفایت اللہ بیگ صاحب مرحوم، برادر محترم حضرت مولانا محمد رضوان بیگ صاحب مدظلہ العالی (مقیم حال مکہ مکرمہ)،دینی کاموں میں آپ کی بہت توجہ ہوا کرتی تھی، مدارس و مساجد و مستحقین کی اعانت کرنا آپ کی عادت تھی، کئی مدرسوں کے ذمہ دار بھی تھے، بہت سی سوسائٹیوں کے ممبر بھی تھے، دارالعلوم امدادیہ ممبئی کے سرپرست تھے، اور مدرسہ نورالعلوم بہرائچ کی مجلس شوری کے نائب صدر بھی تھے، خصوصا مدرسہ نورالعلوم پر آپ کی خاص توجہ اور عنایت رہا کرتی تھی، چونکہ وہ آپ کا مادر علمی تھا ، آپ بہت باحوصلہ اوربا ہمت تھے، اللہ تعالی نے آپ میں وہ خصوصیات پیدا کیں جو بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہیں، حق بات کہنے میںکسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے تھے، مرحوم مدرسہ نورالعلوم کی ایک مکمل تاریخ تھے، آپ نے اپنے ماموں مولانا محفوظ الرحمن صاحب نامی کی صحبت سے بہت کچھ سیکھا اور بہت کچھ پایا،آپ کی جیسی معلومات مدرسہ نورالعلوم کے بارے میں پورے شہر بہرائچ میں شاید کسی کو نہ ہو،بہر حال انکے محاسن اور اوصاف حمیدہ بہت ہیں،کیا کیا کہوں اور کہاں تک لکھوں، آپ علما اور حفاظ کی بہت قدر کرتے تھے، اللہ پاک قبول فرمائے، اورآپ کےحال پر رحم فرمائے اوراپنی شان عالی کے مطابق اجر عظیم سے نوازے، آمین، آپ بہت ملنسار اور بااخلاق اور ہنس مکھ تھے، ہنسی مذاق کرنا ان کی عادت شریفہ تھی ، ہر بات کا برملا جواب دیتے، قصہ کہانی، لطیفے اور چٹکلے اور شعر و شاعری کابھی کچھ کچھ ذوق تھا، ہائے ہم کیسے بھلاسکتے ہیں ان کےاحسان کو ان کی جدائی کےبعد بہت سی پرانی باتیں اوریادیں اورزخم تازہ ہوگئے آپ کی بات کو ،یاد کو، محبت کو، شفقت کو،خدمات کو کیسے فراموش کروں۔1976 کاوہ سال آج تک ذہن نشین ہے جو ہم لوگوں کے (مقدر کاستارہ تھا) پانی کے جہاز میں حجاز مقدس جانے کےلئے کوئی سیٹ نہیں مل رہی تھی، ہم لوگوں نے چار ماہ تک صابو صدیق مسافر خانے میں گزارے کس مصیبت اور بیچینی کے دن گزرے بس (الامان والحفیظ) پھر اللہ کے فضل کے بعد مولانامرحوم کی ان تھک کوشش تھی کہ ہم جاسکے،وہ خدمات اورتسلی کو یاد کرکے آنکھیں بھر آتی ہیں، اس مرد مومن پر اللہ اپنا رحم فرمائے اور اپنی آغوش رحمت میں جگہ دے، آمین، افسوس صد افسوس ایک قدیمی تعلق تھا آپ سے اورآپ کے خاندان سے وہ اب ختم ہوگیا، اور تعلق کی ا یک کڑی ٹوٹ گئی، تحریر کے ساتھ ساتھ آنسو بھی جاری ہیں۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں