کو ایک نئے مفہوم میں بدلتے دیکھ کر بھی خوش ہوتے کہ، ترقی یافتہ دور میں بے شمار ترجیحات موجود ہیں ….مادی ترقی نے روحانیت کو بھی ہتھیلی میں اتنی ہے جگہ دی ہے جتنی مادیت کو.. انسان کا اپنا ظرف ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے…نیکی اور بدی، روحانیت اور مادیت کے جنوں میں کس کا کتنا حصہ چاہتا ہے….وہ چاہے تو اپنے ہر ایک جنوں کا حساب کتاب کرسکتا ہے …..اور گریباں کا تار تار سمیٹ سکتا ہے … گرہ میں باندھ بھی سکتا ہے …..اور حضور یار پیش بھی کرسکتا ہے…. اب تو دنیا سوتے جاگتے ہتھیلی میں برقی سرسوں جمائے رہتی ہے..اور جس کے فوائد و نقصانات دونوں اپنی جگہ ہیں… الغرض شیفتہ نے صبح صبح بہ زبان یاراں ایک برقی پیام ارسال کردیا….. پیام کیا تھا، بس ہمیشہ کی طرح شوشہ چھوڑ دیا کہ "عادت سی پڑ گئی ہے…….”.- انہوں نے شام چمن میں ملنے کی فرمایش بھی کردی…..اب شام تک سر پیٹتے رہیے….خوش گمانیوں اور بد گمانیوں کی بھول بھلیوں میں گھومتے رہیے…. جیسے موجودہ جمہوری سیاست میں عوام ان دونوں کے درمیان گھوم رہی ہے…… خاندانی،سیاسی، معاشرتی، معاشیاتی خوش گمانیوں اور بد گمانیوں میں……. خیال ہوا کہیں اس بار شیفتہ کا تعلق عشق و عاشقی سے نہ ہو اوروہ بیگم شیفتہ کی عمر رفتہ کے تئیں کہہ رہے ہوں ….عادت سی پڑگئی ہے تیرے انتظار کی… اور یہ بھی ممکن ہے بالآخر موت کے متعلق کہہ رہے ہوں… وہ اکثر فرمایا کرتے کہ … عمر کی شام جب ڈھلنے لگے تو پھر سمجھو… موت کی صبح کو آنے میں چند ایام ہونگے….یا پھر ہوسکتا ہے شیفتہ نے طرحی مصرعہ ارسال کردیا ہو- پچھلی مرتبہ ایک شوشہ یہ کہہ کر چھوڑا تھا کہ ….. سچ کہہ دوں اے مسلماں گر تو برا نہ مانے…اور جس کے جواب میں بقراط نے یہ برقی پیام ارسال کردیا تھا کہ…. تیری منافقت کے بت ہو گئے پرانے…. ایک عرصہ تک ہم قلم و افکار کے درمیان توازن برقرار نہ رکھ پائے..اور بزم میں حاضری سے بھی قاصر رہے ….قلم اٹھانے کو ایمان کھینچتا تو افکار پر گرفت کرنے سے کفر روکتا….الغرض سوچتے رہے کہ پتہ نہیں شیفتہ کو ہماری مسلمانیت پر اعتراض ہوا ہے یا تعمیم کے پہلو میں بٹھا کر ہمیں چپت لگا رہے ہیں….. ویسے خدا جھوٹ نہ بلوائے…. مسلمانیت کا مفہوم اب لوگوں کی نظر میں باقی نہ رہا…… زبان یار ہو یا زبان اغیار، ہر زبان دراز کی زبان پر مسلمانوں کے مکافات اعمال کی داستان چٹخارے لیتی ہے…….خیر زبان کا کیا ہے…. ایسے ہی ایک اور برقی پیام نے قول حیدری (مستند یا غیر مستند اللہ ہی بہتر جانے) کی یاد تازہ کردی تھی کہ زبان بتیس دشمنوں کے درمیان رہتے ہوئے سب سے مل جل کر رہتی ہے لیکن کسی سے دبتی نہیں ہے….. یہی حال اہل زبان اور اردو زبان کا ہے….کاش مسلمانوں کا بھی ہوتا….. شیفتہ کے اس شوشہ سے جان چھڑانے کی بہت کوشش کی تھی…… اور پھر ہم غم جاناں میں کھو گئے تھے ….جی ہاں وہی غم جاناں جس کا مفہوم اب وہ نہیں رہا جسے ادب نے تشکیل دیا …. غم جاناں اب سب کے لئے خود اپنی جان کا غم ثابت ہورہا ہے…..سب کی جان جو معیشت میں اٹکی ہے… معیشت جواب سب کی جان جاناں ہے….. ادب ہو یا فن، افکار ہو یا تحریر، دوستی ہو یا دشمنی، سیاست ہو یا مذہبیت، جنگ ہو یا امن، محبت ہو یا نفرت، سب کا محور بقول شیفتہ ، کمبخت ماری نصیب کی ٹھوکریں کھاتی معیشت ہے… اور اس محور کو متعارف کرانے بلکہ اس کو انسان کا مقصد حیات بنانے میں اہل مغرب نے تہذیب و تمدن و اخلاقیات کی خوب بلی دی ہے..اور اہل مشرق اب اسے جعلی ماتا جمہوریت کی بھینٹ چڑھارہے ہیں ….
اب شیفتہ کا یہ ایک نیا شوشہ کہ…..” عادت سی پڑ گئی ہے”…… کا عقدہ کیسے حل ہو …. کس کو کیسی عادت سی پڑ گئی ہے….. پھر ہم روز مرہ کی کشاکش میں مشغول ہو گئے ……سب کی طرح صبح کو رو رو شام کرنے میں اور عمر یونہی تمام کرنے میں……. لیکن وہ شوشہ ہی کیا جو افکارات سے چمٹ نہ جائے، اور وہ بھی شیفتہ کا چھوڑا ہوا بلکہ چھیڑا ہوا شوشہ …..کمبخت سارا دن افکارت سے چمٹا رہا…ناشتے کی میز پر بھی چمٹا رہا … غسل خانہ میں اس سے جان چھڑانے کی بہت کوشش کی تھی کہ سر پر پانی پڑتے ہی اتر جائے گا… لیکن کمبخت سر سے اتر کر دل تک آگیا ….. اور خیال آیا پانی جیسی نعمت کا بے جا زیاں کرنے کی عادت سی پڑ گئی ہے انسان کو .. اسے پانی کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے اور نہ اسکی قلت سے پریشان زندگی گزارنے والوں کے مسائل کا……اور ناشتے کی میز پر کیسی کیسی عادتوں کا تذکرہ کریں کہ…” بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست” …. ان میں ایک اخبار کی عادت بھی ہے…… گرچہ اب وہ صرف ورق گردانی تک ہی محدود ہو گئی …کیسی مجبوری ہے کہ اب اوراق پلٹنے سے پہلے اہل و عیال کو دیکھنا پڑتا ہے….. اشتہارات کی اہمیت اپنی جگہ بجا سہی لیکن صحافتی تجارت ہو یا تجارتی صحافت معقول و غیر معقول کی شقیں تو ہوتی ہونگی نا..پتہ نہیں ایڈیٹر صاحبان جو معاشرے میں بے حد محترم گردانے جانے جاتے ہیں ، اپنے گھروں میں یہ اوراق کیسے پلٹتے ہونگے ….بہر حال اب سب کو عادت سی پڑ گئی ہے . …بقول شیفتہ صبح دوران خون کا تیز ہونا ضروری ہوتا ہے…اس سے چستی آتی ہے … آدمی کو زندگی کا احساس ہوتا ہے….. وہ اپنے آپ کو اس دنیا کا حصہ سمجھتا ہے … اس لئے اخبار پڑھنے کی عادت ترک نہیں کرنی چاہیے.. بھلے ہی گونگا ہو گیا ہو…. دیکھتا تو ہے نا، بھلے ہی اپنے آپ کو معذور محسوس کرتا ہو ، پڑھتا تو ہے نا، بھلے ہی پڑھا لکھا جاہل ہو..احتجاج کرنا بھول چکا ہو … خود کو حالات کے سپرد کر چکا ہو .. تھک گیا ہو …خوفزدہ ہو اپنے ہی قسم کے انسانوں سے ..اسے یونہی خاموشی سے اخبار پڑھتے رہنا چا ہیے … اور دیگر ذرائع ابلاغ سے بھی جا ئز استفادہ کرتے رہنا چا ہیے ….چلیے شیفتہ کا شوشہ اور پھر انکا قول … جیسے تیسے لباس زیب تن کیا کہ اب لباس زیب تن کرنے کی بھی عادت سی ہوگئی ہے..اچھی عادت ہے ورنہ دنیا جہاں سے رخصت ہورہی ہے ……اور اب صرف گزرتی نسل تک اس عادت کے باقی رہنے کے آثار نظر آتے ہیں ….پتہ نہیں اسکے بعد کیا ہو…ابھی باہر نکلے ہی تھے کہ موبائیل کی گھنٹی سنائی دی … جس نے بجا ئی تھی اس کو عادت سی ہوگئی ہوگی ….موبائیل کو کانوں سے لگایا تو محسوس ہوا پاس میں کسی اور شخص کے موبائیل کی بج رہی ہے… کھسیانا ہونے سے بہتر سمجھا بیگم کا نمبر ملا کر منقطع کر دیا جائے جو یقینا مصروف ہوگا…. ویسے مہذب انسان کو بیگم کا فون نمبر ملا کر منقطع کرنے میں ایک عجب سرشاری کا احساس ہوتا ہے….. مغرب میں وہ اس عمل کو تعلق قطع کرنے کی مشق پر محمول کرتا ہے…… اسے اس کی اچھی خاصی عادت پڑ جاتی ہے اور پھر تعلق قطع کرنے میں آسانی بھی ہوجاتی ہے….
خیر سے گھر سے نکلے اور روز مرہ کا سفر شروع کیا…اس بار بس میں سوار ہو گئے کہ کار میں خود اپنی عادات کا تجزیہ ہی ہو پاتا…. اور اپنی عادات کا تجزیہ کرنا کسے منظور ہوتا ہے …. دوسروں کی عادات کا تجزیہ کرنے کی اب ہر ایک کو عادت سی پڑ گئی ہے …. تہذیب جدیدہ کی مہذب عادتیں….. الاماں … شاید قبر تک ساتھ جائینگی …. بس میں نشست پر بیٹھتے ہی ہم پھر عادتا ہتھیلی میں کھو گئے……اول تو عمر کی مناسبت سے خبروں پر ایک نظر ڈالی……مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کی عادت سی ہوگئی ہے… اب کیا کیا جائے…. لیکن ہندوستان کے مٹھی بھر برہمن تاجروں کو یہ کیسی عادت سی پڑ گئی ہے کہ گئو ماتا کے گوشت کو ڈبہ بند غیر ممالک فروخت کرنے سے باز نہیں آتے. بلکہ دمڑی کی خا طر انکی چمڑی ادھیڑ کر فروخت کرنے میں انہیں کوئی عار نہیں ہوتا ….مسلمانوں کی گوشت خوری کو اپنے جھوٹے اعتقاد کا مسئلہ بنائے بیٹھے ہیں…سارے ہندوستان میں پابندی نافذ کیوں نہیں کردیتے …بلکہ اقوام متحدہ کے ذریعہ ساری دنیا میں ….. عوام الناس کی کثیر تعداد جن میں کیا مسلمان اور کیا ہندو سکھ عیسائی ، اور کیا آر آر ایس آئیڈیالوجی کے پرچارک اور کیا ہمارے ہندو، پنجابی، سندھی، راجستھانی، مراٹھی، گجراتی پڑوسی، اکثر حضرات گوشت خوری کی عادت میں مبتلا ہیں……مودی راجہ ٹہرے شاہا کاری… بلکہ شاہ کاری بھی…..اس لئے چپ سادھ لیتے ہیں ..معصوم انسان کے قتل پر بھی خاموشی.. اور قاتل بھی وہ جو خود مذبح خانے کا حصہ دار مالک اور بی جے پی کا کارکن …یعنی راجہ کا مصاحب ….اورا گرراجہ جی کچھ کہتے بھی ہیں تو "جام مہ توبہ شکن، توبہ میری جام شکن” کے مصداق کہتے ہیں…..کبھی آر ایس ایس سے کی ہوئی توبہ توڑتے ہیں تو کبھی دنیا کے میلے میں جا کر پندار کا جام توڑ کر سر جھکا ئے سب میں نمایاں دکھا ئی دیتے ہیں…..عالمی مجالس میں کچھ یوں نظر آتے ہیں جیسے نٹ کھٹ بچہ دنیا کے میلے میں گم ہوگیا ہو…. جہاں ایک سے بڑھ کر ایک نٹ کھٹ اپنے اپنے ملک کی پیروی کرنے آتا ہے…. سب کو عادت سی ہوگئی ہے..راجہ جی کو کچھ اور مہذب عادتیں بھی لگ چکی ہیں…پھر وہ سیلفی ہو یا مجمع کرنا…یا ایسی تقریریں کرنا کہ نہ کسی ماہر معاشیات کے پلے پڑے اور نہ ہی کسی ماہر نفسیات کے …ترقی و تمدنی کے ایسے ایسے خواب دکھانا کہ لوگ انتظار میں اپنی آنکھیں گنوا بیٹھیں… اور سن سن کر ہی چار پانچ سال گزار دیں….اب اہل قلم مودی راجہ کی نفسیات پر اپنی تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں… انکی عادتوں کا گہرائی اور گیرائی سے مطالعہ کیا جارہا ہے….. اور جیسے جیسے پرتیں کھلتی جارہی ہیں اہل فکر و قلم و ادب، پھر چاہے وہ "ساہتیہ سے ہوں یا لٹریچر سے” یا اہل خبر و نشر و ابلاغ سے، اکثر حضرات احتجاجا اپنے اعزازات اور مناصب سے دستبردار ہورہے ہیں….عوام سوچ رہی ہے… بڑی دیر کر دی مہرباں…..ہم تو تمھاری لن ترانی پر ……پیا گھر آیا…. ہمارے بھاگ جاگے ہیں صنم …. او صنم …..اچھے دن آنے والے ہیں…کا جاپ کرنے لگے تھے….اب نہ خدا ہی ملا اور نا وصال صنم…. ویسے وصال تو سب کا ازل سے طے ہے … چاہے جس کسی کے ہاتھوں ہم کروائیں… یا جس کسی کی خاطر کریں .. یہ اپنے اپنے اختیار میں ہے …..اب تو ڈھونگی آسا رام جیسے باباوں اور رادھے ماں ڈسکو کے رازوں سے بھی پردہ اٹھتا چلا جارہا ہے ، اور بھی بے شمار مذہبی و اعتقادی ڈھونگی ہیں جن کا پردہ اسی حکومت میں الٹے گا..اور حکومت کا پردہ بھی، بی جے پی کے اپنے ہم نوالہ و ہم پیالہ کے ہاتھوں…..ابھی ہم ہتھیلی میں جمی برقی سرسوں میں عوام الناس کے دکھ درد کرید رہے تھے کہ عزت مآب وزیر اقلیت محترمہ نجمہ صاحبہ جو خیر سے کافی پڑھی پڑھا ئی ہوئی ہیں ، نمودار ہوئیں….. کیا دیکھتے ہیں کہ موصوفہ، "واک دا ٹاک” ٹی وی شو میں بی جے پی کی ٹاک اور راجہ جی کی واک کر رہی ہیں… یا انکی چال چل رہی ہیں…یا اہل علم و ہنر سے پوچھنا ہوگا کہ پتہ نہیں یہاں کوے کو ہنس کی چال سے تشبیہ دی جا سکتی ہے یا ہنس کو کوے کی……ویسے بھی امی جان کی زبان اور انکل جآن کی زبان میں تمثیلات مشترک نہیں ہیں اور نہ ہی لفظی معنی……امی جان کی زبان میں چال کثیرالمعنی ہے اور انکل جآن کی زبان میں واک ذومعنی….. الغرض کیا دیکھتے ہیں کہ موصوفہ اپنی خود ساختہ رشتہ داری کی آڑ میں مولانا آزاد کے افکارات سے کھیل رہی ہیں … انہیں غبار خاطر کا پاس بھی نہیں…. بی جے پی سے محبت اور آر ایس ایس سے انسیت کا عجب عالم ہے….. شیفتہ بجا فرماتے ہیں کہ…عقل والوں سے تم پوچھ کر دیکھو محبت میں…..تجربہ لاکھ ہو جائے، مگر نادانی نہیں جاتی….. اسی لئے اول فول فرما رہی تھیں کہ…. عرب کے صحرا میں گائے اور اسکی نسل کے جانور نہیں پائے جاتے، اس لئے اسلام میں گائے کا گوشت کھانے کا حکم کہیں نہیں ہے….. الله ری معصومیت کہیے یا مسلمانیت …یا بقول بقراط منافقت …کس مسلمان نے دعوی کیا ہے کہ اسلام میں گائے کا گوشت کھانا فرائض میں شمار ہوتا ہے…. یہ بھی فرما رہی تھیں کہ وہ تمام اقلیتوں کی وزیر مقرر ہوئی ہیں …. یعنی صرف مسلمانوں کی نہیں ہیں ……ٹھیک فرمایا ، بلکہ مسلمانوں کی تو آپ بلکل بھی نہیں ہے …….. لیکن کوئی ان سے پوچھے کے وہ کہیں بقراط کے پیام کی تصویر تو نہیں…ویسے ایک موصوفہ پر ہی کیا موقوف …. ہزاروں مسلمان سیاستدان ہیں دنیا میں جن پر شیفتہ و بقراط کا یہ برقی پیام ثابت آتا ہے کہ ..سچ کہہ دوں اے مسلماں گر تو برا نہ مانے ….تیری منافقت کے بت ہو گئے پرانے…..پھر وہ چاہے عربی ہوں یا عجمی، ایرانی ہوں یا تورانی، ہندی ہوں یا پاکستانی، مصری ہوں یا یمنی، سوری ہوں یا اردنی …. مسلمانان عالم کا مسلمان اہل اقتدار نے ، کہیں دشمنوں سے مل کر تو کہیں دشمنوں سے دب کر …. کیا حال کر رکھا ہے کہ ……کوئی کارواں سے ٹوٹا، کوئی بد گماں حرم سے…..کہ امیر کارواں میں نہیں خوے دل نوازی …..
ابھی محترمہ نجمہ کو آسمان سیاست پر چکمتے دیکھ رہے تھے کہ علامہ یاد آگئے… انکی بھی اب عادت سی پڑ گئی ہے ….یہ بھی خوب فرمایا کہ …گردش تاروں کا ہے مقدر … ہر ایک کی راہ ہے مقرر..جو موصوفہ پر ثابت آتا ہے …..اچانک اگلی نشست پر بیٹھا نوجوان اسقدر زور زور سے مو بائیل پر بات کرنے لگا کہ بس میں ہر کوئی اسکی طرف متوجہ ہوگیا…. کمبخت کہہ رہا تھا میں شا دی نہیں کرسکتا کہ میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے … اب اسے کون سمجھاتا کہ شادی ہی ایک واحد جائز عیش ہے جس میں اتنی اور اتنی رقم کی ضرورت نہیں ہوتی …پتہ نہیں وہ یہ گلہ کس سے کررہا تھا … بس میں سوار سارے غیر شادی شدہ دہشت میں مبتلا ہو گئے اور اسکی طرف متوجہ بھی……. سوائے بس ڈرائیور کے کہ وہ عادت سے مجبور تھا….ایسی ہی عادتیں انسان میں ہونی چاہیے جو اسے اپنے ہدف سے نظریں ہٹانے نہ دیں…. زندگی کا ہدف… جو فی الحقیقت موت کا ہدف ہی ہوتا ہے ….. بس ڈرائیور کا ہدف مسافروں کو منزل تک پہنچانے کے علاوہ جملہ زندگیوں کو تحفظ کے ساتھ پہنچانا بھی ہے…..لیکن بہ حیثیت انساں ، ہرانسان کا اپنا ہدف مختلف منازل سے گزر کر بلآخر ایک آخری منزل تک پہنچنا ہی ہوتا ہے….. افسوس کہ انسان زندگی کی درمیانی منازل کو ہدف سمجھ لیتا ہے…. لیکن روح کو اسی ایک منزل کا انتظار ہوتا ہے…. آخری منزل کا …..بے چارا انسان عادت سی پڑ گئی ہے اسے درمیانی اہداف میں گم ہونے کی….اس نو جوان کی آواز ختم ہوئی ہی تھی کہ پاس بیٹھے ہوئے شخص کو انگریزی اخبار کے "صفحہ سوم” میں گم پایا…..انگلی میں چمکتی انگشتری اسکی ازدواجی زندگی میں موجود مہر وفا کی عکاس تھی لیکن وہ عادت سے مجبور کہیں اور مہر وفا تلاش کر رہا تھا…ایک جوان نما بزرگ کو پاس کھڑی دوشیزہ کو گھورتے ہو ئے پایا …کمبخت برگد کا گھنا درخت آگ اگل رہا تھا …سوچا یہ کوئی عادت تو نہ ہوئی …..یہ تو بری عادت بھی کہلانے کے لائق نہیں بلکہ ذلالت ہوئی …بس کنڈکٹر کو عادتا ٹکٹکی بجاتے پاس سے گزرتے پایا ….. بلآخر اپنی منزل پر اترتے ہوئے ہم نے احتیاطا اپنا سامان ٹٹولا .. سب کچھ محفوظ تھا…. عادت سی پڑ گئی ہے منزل پر پہنچنے پر سامان ٹٹولنے کی…. انسان کو زندگی کی مختلف منازل پر اترتے ہوئے احتیاطا سامان ٹٹول کر دیکھ لینے کی عادت سی ہوتی ہے کہ اپنا سب کچھ ساتھ ہے یا نہیں….یہ عادت زندگی کی آخری منزل تک ساتھ رہے تو بہتر ہے … الغرض دن بھر کی مختلف منازل سے گزرتے ہو ئے بے شمار انسانی عادات کا تجزیہ کرتے ہوئے جب ہم شام چمن میں شیفتہ کے سامنے پہنچے، اور اپنی روداد پیش کی تو فرمانے لگے .. حضور….عادت سی پڑ گئی ہے… سے ہماری مراد تھی ….جمہوری سیاست میں عوام کو احمق بننے کی عادت سی پڑگئی ہے…اور اب یہ اتنی پختہ ہو گئی ہے کہ عوام اسے جمہوری فرائض میں شمار کرتی ہے….
جواب دیں