یادگارمذاق

بین الاقوامی سطح پرٹی وی چینلزمیں اپنامنفردمقام بنانے والے ’’الجزیرہ‘‘ نے امریکی مظالم کاایک جائزہ پیش کیاجوممتازدانشوراورتجزیہ نگاراینڈی وارتھنگٹن نے مرتب کیا۔اس میں بتایاگیاہے کہ امریکانے گزشتہ دنوں نائن الیون کی آڑ میں جن حملوں کی یاد منائی اس موقع پریہ بات بھی یادکی جانی چاہئے کہ امریکانے ان حملوں کے جواب میں جن کے حملہ آورآج تک متعین ہی نہیں کئے جاسکے۔مسلمہ عالمی قوانین سے خطرناک انحراف کاآغازکیاتھاجس کایہ نتیجہ برآمدہواکہ لاکھوں کی تعدادمیں بے گناہ انسان موت کے گھاٹ اتاردیئے گئے اوربے شمارلوگوں کومقدمات چلائے بغیر غیر معینہ مدت کیلئے قید کر د یاگیا۔ان پالیسیوں کے باعث آج بھی سینکڑوں افرادگوانتاناموبے اوربگرام میں انصاف کی رسائی سے محروم ہیں۔
نائن الیون کے ردعمل میں بش حکومت نے ایک ماہ کے اندراندرافغانستان پرحملہ کیاتودہشتگردی کے خلاف جنگ میں سب سے پہلے جنیواکنونشنزکی دھجیاں اڑائی گئیں۔جنیواکنونشنز کے آرٹیکل ۵میں کہاگیاہے کہ اگرزمانہ جنگ میں پکڑے جانے والے لوگوں کے بارے میں یہ امریقینی نہ ہوکہ وہ فوجی ہیں یاعام لوگ توان کی گرفتاری کے مقام کے نزدیک اور گرفتاری کے فوری بعدفوجی افسروں پرمشتمل بااختیارٹریبونل قائم کیاجائے جوعینی شاہدین کوبلاکرتصدیق کرے کہ گرفتارکئے جانے والے افرادفوجی ہیں یاعام شہری۔۱۹۹۱ء میں ہونے والی خلیجی جنگ کے دوران میں امریکی فوجیوں نے ۱۱۹۶/ایسے افرادکوگرفتارکئے جن کی اصلی شناخت معلوم نہیں تھی۔بااختیارٹریبونل بنائے گئے جن کی کاروائی کے بعد دریافت ہواکہ ۸۸۶/افرادعام شہری تھے جنہیں غلطی سے گرفتارکرلیاگیاتھایعنی غلطی کی شرح ۷۴222تھی ،ان افرادکورہاکردیاگیاتھالیکن نائن الیون کے بعدایسے بااختیارٹریبونل قائم کرنے کی روش ترک کردی گئی۔بش حکومت نے متکبرانہ اندازمیں اعلان کیاکہ امریکاکی حراست میں موجودہ تمام افراددشمن کے غیرقانونی جنگجوہیں۔۲۷فروری ۲۰۰۲ء کو صدربش نے ’’طالبان اورالقاعدہ کے گرفتارارکان کے ساتھ اچھاسلوک‘‘کے عنوان سے ایک میمورنڈم جاری کیاجس میں انہوں نے کہاتھاکہ القاعدہ اور طالبان سے تعلق رکھنے والے قیدیوں پرجنیواکنونشنزکااطلاق نہیں ہوتاتاہم تمام قیدیوں کے ساتھانسانی سلوک روارکھاجائیگااوران کے ساتھ ایسابرتاؤکیاجائے گاجوفوجی ضرورت کے مطابق جنیواکنونشنزکے اصولوں کے ہم آہنگ ہو۔
یہ محض لفاظی تھی ،اس میمورنڈم کے بعدقیدیوں پربلالحاظ اوربلاجوازتشددکیاگیاجس کاسلسلہ جون ۲۰۰۶ء تک جاری رہا۔’’ہمدان بنام رمزفیلڈ‘‘مقدمے میں بش حکومت کے قائم کردہ فوجی کمیشن میں مقدمات چلائے جانے کے نظام کے قانون یاغیرقانونی ہونے سے متعلق سوال اٹھائے گئے تھے۔جون ۲۰۰۶ء میں امریکی سپریم کورٹ نے صدرامریکاکو یاد دلایاکہ جنیواکنونشنزکاآرٹیکل ۳تمام قیدیوں پرتشددسے روکتاہے نیزان کے ساتھ توہین آمیزاورذلت آمیزسلوک سے بھی منع کرتاہے۔تب قیدیوں پرتشددکرنے والی بش حکومت کاقانون کومسخ کرنے کاسلسلہ ختم ہواتاہم کسی کوبھی تشددکرنے پرجواب دہ قرارنہیں دیاگیا۔بہرحال جنیواکنونشنزسے بش حکومت کی بیزاری کے باعث گوانتاناموبے اور افغانستان کے سب سے بڑاقیدخانے بگرام میں قیدیوں کیلئے ماحول مسموم ہی رہا ۔بش کی اختراعات کے نتیجے میں لوگوں کوگرفتارکئے جانے وقت شناخت کرنے کاعمل یکسرموقوف کر دیاگیا۔جارج بش کی خطرناک اختراعات کے تحت ،جوبار ک اوباماکے دورِصدارت میں برقرارہیں،افغانستان میں جنیواکنونشنزکے آرٹیکل ۵کے تحت ٹریبونل قائم کرنے کی بجائے نظرثانی کا سلسلہ شروع کیاگیا۔نظرثانی کاعمل گرفتاری کے ۱۸ماہ کے بعدہوتاہے اوراس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی نتیجتاًبہت بڑی تعدادمیں ایسے لوگوں کو قید رکھا گیا جنہیں ہرگز قید نہیں رکھاجاناچاہئے تھا۔بلاشبہ یہ عمل منفی نتائج کاباعث بنا کیونکہ اس سے افغان عوام کے دل ودماغ اورذہنوں میں امریکاکے خلاف شدیدنفرت جاگزیں ہوگئی۔
بگرام کے قیدخانے کی تعمیرنوکے بعد’’پروان قیدخانے‘‘کانام دیاگیا۔اسے ۱۰ستمبر۲۰۱۲ء کوافغان حکام کے کنٹرول میں دیاگیاتھاجس سے امریکامزیدذمہ داری سے بچ گیاباایں ہمہ ۶۷غیرافغانی قیدی اوباماحکومت کی تحویل ہی میں رہے۔ان میں سے چندایک کو۲۰۰۲ء میں دوسرے ملکوں سے گرفتارکیاگیاتھااورغیرمعمولی داروگیر کے دوران بگرام میں رکھاگیاتھا۔امریکی حکام نے ان قیدیوں میں سے بعض کوالقاعدہ کاکارکن قراردے رکھاتھا۔بعض قیدیوں کورہاکئے جانے کے قابل قراردیاجاچکاہے لیکن وہ اب بھی قیدمیں ہیں ۔۲۰۰۹ء میں ان میں سے تین افرادکے مقدمات واشنگٹن ڈی سی کے ڈسٹرکٹ جج جان ڈی بیٹس نے سنتے ہی فوری طورپران تینوں قیدیوں کوعدالت میں پیش ہونے کاحکم دیا اس سے قبل گوانتاناموبے میں قیدافرادکوبھی یہ حق دیاجاچکاتھا۔ان دونوں زندانوں میں قیدافرادکے مقدمات میں اس یکساں فیصلے کاسبب یہ تھاکہ ان کے مقدمات ایک جیسے تھے بہرحال اوباماحکومت نے یہ فیصلہ تسلیم نہیں کیااوراس کے خلاف اپیل کردی۔اب جبکہ ایک سال بعدافغانستان میں جنگ ختم ہونے کوہے،یہ قیدی ہنوزقانون کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔گوانتاناموبے اوربگرام میں ابتدا ء ہی سے یہ ایک بڑامسئلہ تھاکہ امریکانہ صرف قیدیوں کی شناخت کاتعین کرنے میں ناکام رہابلکہ اپنے ’’اتحادیوں‘‘افغانستان اور پاکستان کے گرفتارکئے ہوئے افرادکواپنی تحویل میں لے کربھی اس نے پانی کومزیدگدلاکیا۔امریکاکے ان اتحادیوں نے اس زمانے میں بے شمارافرادکوپکڑکرامریکاکے حوالے کیاجب امریکامشتبہ افرادکی گرفتاری پربڑی رقوم انعام کی مدمیں اداکررہاتھا۔واضح رہے کہ امریکانے القاعدہ یاطالبان سے تعلق رکھنے کے شبہ میں گرفتارکئے گئے افرادکے عوض پانچ ہزارڈالرفی کس اداکئے تھے۔
بش حکومت نے اس معاملے کودرست اندازمیں نمٹانے کی بجائے گوانتاناموبے ،افغان جیلوں،سی آئی اے کے حراستی مراکزمیںیاان کے چلائی جانے والی بلیک سائٹس میں قیدیوں پرتشدد اوردورانِ تفتیش انہیں رشوت دیکردہمکاکراقبالِ جرم کرانے کی روش برقراررکھی۔ان قیدیوں سے مسلسل بے رحمانہ تفتیش کی جاتی،یہاں تک کہ وہ تفتیش کنندہ کی مرضی کی باتیں شروع کردیتے تھے۔ایک قیدی نے ایسی ہی تفتیش سے تنگ آکر ۱۲۰دیگرقیدیوں پرجھوٹے اورناقابل اعتبارالزامات لگائے۔اس کانتیجہ وہی نکلاجس کاڈرتھایعنی یہ کہ انٹیلی جنس آپریشن غیرمعمولی حدتک بے نتیجہ ثابت ہوا۔قیدیوں نے جھوٹے بیانات دیئے جس سے تفتیش کاروں کوکوئی فائدہ نہیں ہوا۔حکومت نے سرکاری سطح پراب تک اس ناکامی کااعتراف نہیں کیاہے۔گوانتاناموبے امریکی حکومت کی بہت بڑی بے انصافی اورشرمناک بدنامی کاایک سمبل بن چکاہے۔اوبامااوران کے مشیرگوانتاناموبے میں تمام قید۱۶۴ قیدیوں کے بارے میںیہ غلط تاثردیتے رہے کہ یہ انتہائی خطرناک ہیں حالانکہ ان میں درجن بھرافرادہی ’’دہشتگردی‘‘میں ملوث پائے گئے تھے۔انٹرایجنسی گوانتاناموبے ریویوٹاسک فورس اوبامانے پہلی مرتبہ صدارت کاعہدہ سنبھالنے کے بعدقائم کی تھی۔اس فورس نے ۸۴ قیدیوں کورہائی کے قابل قراردیاتھالیکن کانگرس کے خوفزدہ جنونی ارکان کی قانون سازی کے باعث آج بھی یہ قیدمیں ہی گل سڑرہے ہیں۔
فروری۲۰۱۳ء میں گوانتاناموبے کے قیدیوں نے بھوک ہڑتال شروع کی جس پرامریکاکے اندراورپوری دنیامیں شدیدغم وغصے کی لہردوڑگئی۔اوبامانے ۲۳مئی کوقومی سلامتی سے منسلک معاملات پراپنی ’’اہم ‘‘تقریرمیں وعدہ کیاکہ گوانتاناموبے سے قیدیوں کی رہائی کاسلسلہ ایک مرتبہ پھرشروع کردیاجائے گامگرچارماہ میں صرف دوافرادکورہاکیاگیا۔نائن الیون کے واقعے کوبارہ سال بیت جانے کے بعداوباماکے پاس موقع ہے کہ وہ جرأت مندانہ اقدام کرتے ہوئے بگرام میں قیدغیرملکیوں کویاتورہاکردیں یاان پرفردِجرم عائد کریں ، اپنے اورعالمی برادری کے باربارکئے گئے اس عہدکی بھی پاسداری کرتے ہوئے گوانتاناموبے کارسوائے زمانہ عقوبت خانہ بندکرکے اپنی اخلاقی اورانسانی ذمہ داریاں پوری کریں وگرنہ تاریخ کے صٖفحات میں یادگارمذاق کے عنوان سے ضرورلکھاجائے گاکہ دنیاکاایک ایساعہدبھی گزراہے جہاں ظالموں کوامن کے’’ نوبل‘‘ انعام کامستحق قرار دیا گیا تھا ۔

«
»

صبر کرو ۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

قانون ساز اداروں میں مسلمانوں کی گھٹتی ہوئی نمائندگی لمحۂ فکریہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے