قانون ساز اداروں میں مسلمانوں کی گھٹتی ہوئی نمائندگی لمحۂ فکریہ

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

سلیم الفطرت برادران وطن کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو ایک مضبوط قیادت بنانی ہوگی
ملک میں ہونے والے ہر الیکشن کے بعد ملّی حلقوں میں یہ موضوع ہمیشہ زیر بحث آتا رہا کہ آخر ملک کی پارلیمنٹ اور ریاستوں کی اسمبلیوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کیوں کم ہوتی جارہی ہے۔ حالیہ لوک سبھا الیکشن کے نتائج نے بھی مسلمانوں کو مایوس کر دیا۔ 543رکنی لوک سبھا میں صرف 24مسلم ممبروں کی موجودگی واقعی ہمارے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ 1980 کے ساتویں لوک سبھا الیکشن میں پہلی مرتبہ 49مسلم ارکان منتخب ہوئے تھے۔ 1952کے پہلے لوک سبھا الیکشن سے لے کر 2024میں ہوئے اٹھارویں لوک سبھا تک پھر کبھی اتنی تعداد منتخب نہیں ہو سکی۔ 2014کے الیکشن کے بعدسے مسلم نمائندگی میں مسلسل گراوٹ آتی جا رہی ہے۔ 2014میں 24، 2019میں 26اور اب 2024 میں پھر سے 24 مسلم ا رکان لوک سبھا کا انتخاب اس بات کی علامت ہے کہ مسلمانوں میں ابھی بھی سیاسی شعور کی کمی ہے یا پھر مسلم قیادت اپنا اعتماد کھوتی جا رہی ہے۔ جمہوریت میں جس طبقہ کو سیاسی غلبہ حاصل ہوتا ہے وہی ملک کے قومی ثمرات میں اپنا حصہ بھی پاتا ہے۔ قانون ساز اداروں میں مسلمانوں کی برائے نام نمائندگی سے ان کے مسائل نہ صرف جوں کے توں ہیں بلکہ ان میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہاہے۔ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی ہو یا ان کی معاشی بدحالی ہو اس کا تعلق ان کی سیاسی بے وزنی سے ہے۔ ملک کے وہ طبقے جو کل تک سماجی اور سیاسی شعبوں میں دوسروں پر انحصار کرتے تھے آج وہ طبقے ملک کی سیاست کو اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں نے اقتدار کے سرچشموں سے اپنے آپ کو دور رکھ کر اپنی آنے والی نسلوں کو بھی دوسروں کا دست نگر بنادیا ہے۔ ملک کی چودہ فیصد آبادی کا اپنا کوئی سیاسی ایجنڈا نہ ہو یہ خود ایک حیرت انگیز بات ہے۔ الیکشن کے موقع پر مختلف بولیاں سیاست کے بازار میں گونجتی ہیں لیکن بعد میں یہ ساری بولیاں صدا بہ صحرا ہوجاتی ہیں۔ حالیہ لوک سبھا الیکشن میں مسلمانوں نے متحد ہو کر سیکولر پارٹیوں کے حق میں ووٹ دیا اور انہیں کامیاب بھی کروایا۔ لیکن ان سیکولر پارٹیوں نے پھر سے مسلمانوں کے تعلق سے وہی رویہ اختیارکرنا شروع کر دیا جو سابق میں رہا۔ گزشتہ ایک مہینہ کے دوران ملک کے مختلف علاقوں میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات پر سیکولر پارٹیوں کی خاموشی سے مسلم طبقہ میں ان پارٹیوں کے تعلق سے ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے۔ ملک کی بعض با اثر شخصیات نے کانگریس کو یہ وارننگ بھی دے دی کہ اگر کانگریس قائدین مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے تو یہ ضروری نہیں کہ مسلمان آئندہ ان کا ساتھ دیں گے۔ اترپردیش، جھارکھنڈ اور دیگر مقامات پر جن مسلمانوں کو ہجومی تشدد کا شکار بناکر ہلاک کر دیا گیا ان کے افراد خاندان اب بھی انصاف کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ مہاراشٹرا کے ضلع کولہا پور میں ہندو شر پسند عناصر نے ایک مسجد کو آگ لگادی اور مسجد کے میناروں پر زعفرانی جھنڈا لہرادیا۔ مسلمانوں کے مکانات اور دکانات کو لوٹا گیا۔ اس معاملے میں بھی سیکولر پارٹیوں کی جانب سے مسلمانوں کو انصاف دلانے کے لیے آگے نہ آنا مسلمانوں کے اس شک کو یقین میں بدل دیتا ہے کہ یہ پارٹیاں اب بھی ہندو ووٹ کے متاثر ہونے کے ڈر سے مسلمانوں کی کھلے انداز میں حمایت نہیں کرتیں۔ سیکولر پارٹیوں کی تاریخ رہی کہ وہ مسلمانوں سے ہمدردی جتاتی ہیں لیکن مدد کے لیے آگے نہیں آتیں۔
جمہوریت میں آہ و زاری کرنے یا شکوہ و شکایت کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ جمہوریت میں اس کی آواز سنی جاتی ہے جس میں اپنی بات کو منوانے کی طاقت و صلاحیت ہو تی ہے۔ علامہ اقبال نے جمہوریت کی اسی کمزوری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ :
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گِنا کر تے ہیں تولا نہیں کرتے
جمہوریت کے بارے میں اسلام کا کیا نقطہ نظر ہے یہ موضوع اس وقت زیر بحث نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں بھارتی جمہوری نظام میں ملک کے مسلمانوں کا کیا رول ہونا چاہیے اس پر راقم السطور کا فوکس ہے۔ یہ بات صاف اور واضح ہے کہ آزادی کے 75سال گزرجانے کے بعد بھی اس ملک کا مسلمان ہر الیکشن کے موقع پر حیران و ششدر ہوتا ہے کہ وہ اس الیکشن میں کیا رول ادا کرے۔ ایک طرف فرقہ پرستی کا دیو منہ پھاڑے اس کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور دوسری طرف بھانت بھانت کی سیکولر پارٹیاں ان کے ووٹ بٹورنا چاہتی ہیں۔ مسلمان فرقہ پرست پارٹیوں کو اپنا اور ملک کا دشمن نمبر ایک سمجھ کر سیکولر پارٹیوں کے حق میں اب تک اپنے ووٹ کا استعمال کرتے آئے ہیں۔ اب یہ بات کوئی راز کی نہیں رہی کہ سیکولر پارٹیاں بھی فرقہ پرست پارٹیوں کا سا تھ دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہی ہیں۔ ملک کی بیشترپارٹیوں نے سیکولر ازم کی دہائی دیتے ہوئے بھی فرقہ پرست عناصر سے ہاتھ ملایا اور انہیں حکومت بنانے کا بھی موقع دیا۔ موجودہ این ڈی اے حکومت اس کی مثال ہے۔ ملک کی دو اہم سیکولر پارٹیوں کی حمایت سے ہی بی جے پی مرکز میں تیسری مرتبہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔اب ملک میں کسی سیاسی پارٹی کا کوئی سیاسی نظریہ یا اصول نہیں رہا ۔ ہر ایک پارٹی حصول اقتدار کی دوڑ میں لگی ہوئی ہے۔ مصلحت پرستی اور مفاد پرستی کے اس دور میں کسی سیکولرسیاسی پارٹی سے مسلمانوں کی بے جا توقعات انہیں مزید مایوس کر دے گی۔ مسلمانوں کے مسائل سے سیکولر پارٹیوں کی چشم پوشی اور دوسری طرف ہندتو طاقتوں کی مسلمانوں کے خلاف مسلسل للکار اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس ملک کے مسلمان اپنا سیاسی لائحہ عمل خود ترتیب دیں۔ صرف ایک ہفتہ کے اخباری بیانات کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوجائے گا کہ ملک میں نفرت و عناد کو پھیلانے کی کوشش کس تیزی کے ساتھ جا ری ہے۔ اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ نے اعلان کر دیا کہ ہندوؤں کے مندروں کے پاس مسلمان کوئی دکان نہ لگائیں۔ کانوڑ یاترا کے موقع پر حکومت نے یہ احکام جاری کیے ہیں کہ تمام دکانات ، ہوٹلوں وغیرہ پر مالکین کے نام بھی لکھیں جائیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ کس کی ملکیت ہیں۔ اس طرح فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے کی کوشش حکومتی سطح پرکی جارہی ہے۔ یوپی میں کئی مسلمانوں کو نوکریوں سے محروم کر دیا جا رہا ہے اور اب ان سے خانگی روزگار کے مواقع بھی چھین لیے جا رہے ہیں۔ یوپی کے بعد مدھیہ پردیش سے بھی خبریں آ رہی ہیں کہ وہاں بھی یہ قوانین نافذ کر دیے جائیں گے۔ آسام کے چیف منسٹر ہیمنت بسوا سرما تو ہر دن مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔ انہوں نے ایک نیا شوشہ چھوڑا کہ کچھ برسوں بعد آسام مسلم اکثریتی ریاست بن جائے گی۔ انہوں نے اپنی ریاست میں یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کا بھی اعلان کر دیا۔ گزشتہ دنوں دہلی یونیورسٹی کے نصاب میں منوسمرتی کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس پر ہنگامہ ہونے کے بعد یوجی سی نے اس کی منظوری نہیں دی۔ لیکن یہ وقتی اقدام ہے۔ کبھی بھی ایسی چیزوں کو نصاب میں شامل کردیا جائے گا جو مسلمانوں کے عقیدہ سے ٹکراتی ہیں۔ حالات کی یہ سنگینی بیس، بائیس کروڑ مسلمانوں کو دعوت فکر دیتی ہے کہ وہ اس آزاد اور جمہوری ملک میں کیسے اپنے حال اور مستقبل کو بہتر بناسکتے ہیں۔ اس پر غور و خوض کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔
بھارتی مسلمانوں کو ملکی سیاست میں قائدانہ رول ادا کرنے کے لیے چند انقلابی اقدامات کرنے ہوں گے۔ سب سے پہلے تو حالات کا ادارک ہو کہ اس وقت ملک کے مسلمان کس دوراہے پر کھڑے ہیں۔ اپنی بقاء اور ترقی کے لیے انہیں کن کن محاذوں پر کام کرنا ہے۔ مسلمانوں کے ملّی تشخص کو ختم کرنے کے لیے جو سازشیں رچائی جا رہی ہیں اس سے بھی واقف ہونا ضروری ہے۔ ایک منظم انداز میں مسلمانوں کو فرقوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔ حکومت سے مراعات حاصل کرکے مسلمانوں کے بعض رہنماء اور دانشور اس کام کو انجام دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ پسماندہ مسلمان کی ایک نئی اصطلاح نکال کر غریب مسلمانوں کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ قوم پرستی کا نشہ چڑھا کر مسلمانوں کو باور کرایا جا رہا ہے کہ ملک پہلے ہے مذہب بعد میں ہے۔ یہ قوم پرستانہ سیاست کے کڑوے پھل کھلا کر ہی مسلمانوں کو سیاست میں حاشیہ پر لا کھڑا کر دیا گیا۔ اسی ذہنیت نے مسلمانوں کو کسی بھی سیاسی پارٹی کا محض ووٹ بینک بناکر رکھ دیا۔ اب اس خول سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے سیاسی منظر نامے کو دیکھیں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ اس ملک کے ہر طبقہ نے اپنی سیاسی شناخت کو منوانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ آج اس ملک کی سیاست، دلتوں، پسماندہ طبقات اور مختلف ذات برادریوں کے اطراف گھومتی ہے۔کسی سیاسی پارٹی میں ہمت نہیں کہ پسماندہ طبقات کو جو تحفظات دیے گئے ہیں انہیں ختم کر دے یا کم کردے۔ جس وقت ان تحفظات کے تعلق سے مجلس دستور اسمبلی میں مباحث ہو رہے تھے اس وقت مسلمانوں کو بھی تحفظات دینے کی بات آئی تھی۔ لیکن بڑی عیاری سے مسلمانوں کو تحفظات سے محروم کر دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج مسلمان تعلیم اور روزگار میں ملک کے تمام طبقات سے پیچھے ہیں۔ ملک کی پارلیمنٹ اور ریاستوں کی اسمبلیوں میں مسلم نمائندوں کی قابل لحاظ تعداد ہوتی تو مسلمانوں کے لیے تحفظات کی فراہمی کا راستہ بھی نکل آتا۔ ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے باوجود کوئی ٹھوس نمائندگی قانون ساز اداروں میں نہ ہونے سے مسلمان حکومت پر یا پھر اپوزیشن پارٹیوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان خود اعتمادی کے ساتھ سیاسی طور اپنے آپ کو متحد کریں۔ اپنے ساتھ وہ ملک کے ان طبقوں کو بھی ساتھ لیں جو گز شتہ کئی صدیوں سے اپنے حقوق اور آزادیوں سے محروم ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس ملک میں صرف مسلمان ہی حالات کا شکار نہیں ہیں بلکہ ملک کی ایک بڑی آبادی اب بھی ظلم اور ناانصافی کی چّکی میں پِس رہی ہے۔ ذات پات پر مبنی ملک کے سماجی و سیاسی ڈھانچہ نے ملک میں ایک اضطرابی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ملک کو اس ہیجان انگیز ماحول سے نکالنے کی ذ مہ داری بھی مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔ غیر مسلموں کی بڑی تعداد اس وقت ملک میں ہونے والے واقعات سے دل برداشتہ ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ ملک میں نفرت اور عداوت کی فضاء میں اضافہ ہوتا جائے ۔ ایسے سیلم الفطرت افراد کو مسلمان ساتھ لے کر انسانی برادری کو جوڑنے کا کام کر سکتے ہیں اور اس سے ملک کی آلودہ سیاست کا بھی خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ مسلمان اپنے دل و دماغ پر مسلط احساس کمتری کو جذبہ خود اعتمادی سے بدل ڈالیں تو حالات کے بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔ محرومیوں اور حق تلفیوں کا ہی رونا رویا جاتا رہے تو صدیاں بھی کافی نہیں ہوں گی۔ بھارتی سیاست کے سنگلاخ میدان میں کا میابی کے لیے مسلمانوں کو حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے یہ طے کرنا ہے کہ آیا وہ ملکی سیاست میں کشکول لیے دوسروں کے سامنے کھڑے رہنا گوارا کرتے ہیں یا پھر جس طرح ہندوستان کی آزادی میں ہم نے میر کاروں کا جورول ادا کیا ہے اب ملک و ملت کی تعمیر میں بھی یہی قائدانہ کردار ادا کرنا چا ہتے ہیں۔ اس بات کا ٖفیصلہ جتنا جلد ہو مسلمانوں کو کرلینا چاہیے۔

«
»

۲۰۱۹ سے پہلےعظیم اتحاد کی پہلی شکست

تخلیق انسانی کا مقصد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے