دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب : حیات وخدمات

  دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم اور استاذ حدیث،آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن،فتنہ مودودیت کے بیخ کن، مسلک حق کے ترجمان،عربی زبان وادب کے شہسوار،عظیم قلم کار اور اعلیٰ درجے ترجمہ نگار حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب 72/سال کی عمر میں 30/جولائی 2021ء جمعہ کو بعد نمازِ جمعہ تقریباً ساڑھے تین بجے مظفر نگر کے ایک اسپتال میں انتقال کرگئے:انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔

   یوں تو آپ کی طبیعت کوئی طویل زمانہ سے خراب نہیں تھی،بل کہ انتقال سے بس تین ماہ پہلے آپ کی طبیعت ہاتھ کی ہڈی ٹوٹنے سے خراب ہوئی تھی اور پھر اس ایک مرض نے آپ میں کئی ایک امراض کے وجود کا ایک بڑا محرک بن گیا،اور پھر آپ پر 30/جولائی 2021ء کو دوپہر ڈھائی بجے دن میں، وہ وقت بھی آگیا،جس وقت کا ہرایک پر آنا یقینی ہے،مگر فرق،بس صرف آگے اور پیچھے کا ہے،جسے مالک الملک نے اپنی ازلی کتاب’ قرآن مجید ‘میں :’كل نفس ذائقة الموت’ (ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے)سے تعبیر کیا ہے۔ آپ کے جنازہ کی نماز دارالعلوم/ دیوبند کے احاطہ مولسری میں گیارہ (11)بجے رات میں ادا کی گئی،نماز جنازہ دارالعلوم/ دیوبند کے مہتمم اور شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی-زید مجدہ- نے پڑھائی اور پھر آپ کو علم وادب کے مدفن ‘مزار قاسمی ‘میں دفن کردیا گیا۔

   حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب خدا ترس،عابد وزاہد،نیک خو،خلیق ،متحمل مزاج،نرم دل اور متواضع الخلق تھے۔ آپ کی نیک طبعی،نظم و نسق میں مہارت،نرم گفتاری،خوش اطواری کا اساتذہ دارالعلوم اور طلبہ دارالعلوم میں ایک عام چرچا تھا۔جب کبھی دارالعلوم کے احاطہ میں کسی کے درمیان ان صفات کا تذکرہ ہوتا،تو سبھوں کے قاشئہ قلب میں حضرت- علیہ الرحمہ – کا نام مع شکل وصورت ضرورآجاتا۔ یقینا ذکر کردہ صفات ایسی ہیں،جو انسان کو ایک حقیقی انسان بنانےمیں اہم کردار ادا کرتی ہیں،صفدر مرزاپوری کا شعر ہے:تواضع خلق و ہمدردی مروت نرم گفتاری* یہی باتیں ہیں جو انساں بنا دیتی ہیں انساں کو۔

حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب سے میری پہلی ملاقات 2016ء میں دارالعلوم/ دیوبند کے احاطہ میں افریقی منزل کے سامنے ہوئی تھی۔ اس وقت ابھی دارالعلوم/ دیوبند میں میرا نیا داخلہ (درجہ عربی ششم میں)ہواتھا اور شیخ الاسلام منزل میں، مجھے ابھی ابھی نئی سیٹ ملی تھی اور تعلیمی دور کے آغاز کو ابھی بس سولہ سترہ دن ہی ہوئے ہوں گے،کہ میں ایک روز صبح سویرے چائے نوشی کے ارادے سے’ فلاح ہوٹل ‘ کی طرف جارہا تھا ،شیخ الاسلام منزل ابھی پار ہی کیاتھا اور افریقی منزل کے رو برو قدم رکھا ہی تھا کہ حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب نے مجھے اپنی طرف بلایا،چناں چہ میں حضرت کے پاس گیا اور سلام کیا،تو حضرت نے جواب دیا اور فرمایا ‘میں مولانا عبد الخالق سنبھلی ہوں اور یہاں میرے ہم نام ایک اور استاذ حضرت مولانا عبد الخالق مدراسی صاحب ہیں’۔ آپ کا نام ؟میں نے کہا: انوار الحق ،پھر حضرت نے کہا کہ آپ کا داخلہ کیا امسال ہی ہوا ہے؟تو میں نے کہا :جی حضرت ! اسی سال میرا داخلہ ہواہے،تو حضرت نے کہا کہ :کس درجے میں داخلہ ہواہے؟ میں نے کہا:درجہ عربی ششم میں،تو حضرت نے کہا ماشاءاللہ! اور پھر کچھ پیسے دیے اور فرمایا کہ کچھ کیلے لادیں! تو میں نے مسجد رشید کے سامنے ایک کیلے فروخت کرنے والے سے کیلے خرید کر حضرت کی خدمت میں پیش کردیا۔ حضرت سے میری پہلی ملاقات ہی نے مجھے حضرت کا گرویدہ بنادیا۔میں حضرت کی نرم گفتاری اور خوش اخلاقی سے بہت متاثر ہوا۔

   حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب سے مجھے دورہ حدیث شریف کے سال( 2018ء )میں کتب احادیث کی ایک اہم کتاب ‘ابن ماجہ شریف ‘پڑھنے کا شرف حاصل ہواہے۔ حضرت کا درس عشاء بعد ہوتاتھا۔حضرت ٹھہر ٹھہر کر اور خوب مزے لے کر قراءتی اسلوب میں حدیث شریف کی عبارت پڑھتے اور ہر حدیث کا ترجمہ عموماً دو مرتبہ کرتے تھے،اس پر اثر انداز کے ذریعہ حضرت دورانِ درس ہی طلبہ کو سبق یاد کرا دیتے تھے،جو حضرت -علیہ الرحمہ- کے ایک باکمال استاذ ہونے کی ایک بڑی دلیل تھی۔حضرت کی آواز میں اس قدر شیرینی تھی کہ(حضرت کا درس عشاء کے بعد ہونے کے باوجود بھی)کبھی دل اکتاتا نہیں تھا اور دلی خواہش یہی ہوتی کہ کاش حضرت اپنی شیریں گفتاری کے ذریعہ کچھ اور دیر ہمارے کانوں میں رس گھولتے ،تو اور بہتر ہوتا۔ 2019ء میں حضرت سے مجھے رد مودودیت پر محاضرات بھی سننے کا موقع ملا ہے -فللہ الحمد والشکر۔

    ضلع مرادآباد کے قصبہ سنبھل میں جناب نصیر احمد کے یہاں حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی کی پیدائش 4/جنوری 1950ء کو ہوئی ۔ آپ کے والد گرامی جناب نصیر احمد صاحب بھی آپ ہی طرح خوش گفتار ،خوش مزاج،خوش اخلاق،خدا ترس،نیک خو اور سادگی پسند انسان ہونے کے ساتھ ایک بہترین شاعر بھی تھے۔

آپ کی ابتدائی تعلیم کی ابتدا مدرسہ خیر المدارس سے ہوئی،پھر آپ اپنے استاذ محترم مولانا مفتی محمد آفتاب علی خان کے ساتھ مدرسہ شمس العلوم چلے گئے اور یہاں آپ نے جناب حافظ فرید الدین صاحب کے پاس حفظ قرآن کریم کی تکمیل کرکے حافظ قرآن بن گئے۔ فارسی اور عربی اول سے عربی چہارم تک کی تمام کتابیں بشمول شرح جامی، آپ نے حضرت مولانا مفتی آفتاب علی خان صاحب سے پڑھی ہیں، اور 1968ء میں آپ کا داخلہ دارالعلوم /دیوبند میں عربی پنجم میں ہوگیا۔

  دارالعلوم/ دیوبند سے آپ کی فراغت سن 1972ء میں ہوئی۔آپ نے دورہ حدیث شریف کے سال میں سوم پوزیشن سے بڑی کامیابی حاصل کرکے ایک ذہین ،محنتی اور صلاحیت مند طالب علم ہونے کا ثبوت دیاتھا۔ آپ کو چوں کہ عربی زبان وادب سے بڑی محبت تھی ،اس لیے آپ نے فراغت کے بعد دارالعلوم /دیوبند سے ایک سال تکمیل ادب بھی کیاہے ۔ آپ کے دارالعلوم/ دیوبند کے اساتذہ میں: حضرت مولانا فخر الدین صاحب مرادآبادی،حضرت مولانا قاری محمد طیّب صاحب ،مولانا مفتی محمود الحسن صاحب،مولانا شریف الحسن صاحب ،مولانا نصیر احمد خان صاحب،مولانا وحید الزماں کیرانوی صاحب،مولانا حسین احمد بہاری صاحب مولانا معراج الحق دیوبندی صاحب،مولانا محمد سالم قاسمی صاحب ،مولانا اسلام الحق اعظمی صاحب اور مولانا عبد الاحد دیوبند صاحب کے نام آتے ہیں۔

   1973ء میں خادم الاسلام ہاپوڑ میں بحیثیت استاذ آپ کا تقرر ہوا،یہاں آپ نے چھ سال تک تدریسی خدمات انجام دیں ،پھر آپ 1979ء میں مدرسہ جامع الہدی/ مرادآباد چلے گئے،یہاں آپ نے تین سال تک تدریسی مشاغل کو جاری رکھا اور پھر 1982ء میں درس وتدریس کے لیے آپ کا تعین دارالعلوم /دیوبند میں ہوگیا۔تعین اور انتخاب کے وقت سے لے کر انتقال تک یعنی 2082ء سے 2021ء تک آپ نے دارالعلوم/ دیوبند ہی میں تدریسی خدمات انجام دی ہیں۔ آپ میں انتظامی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے، 2008ء میں دارالعلوم دیوبند کے ارباب حل وعقد نے آپ کو دارالعلوم/دیوبند کا نائب مہتمم بنادیا۔ماشاء اللہ !آپ نے بحیثیت نائب مہتمم دارالعلوم/ دیوبند کی مثالی خدمات انجام دی ہیں۔واضح رہے کہ آپ اسی عہدے پر رہتے ہوئے ‘مزار قاسمی’میں مدفون ہوئے ہیں۔

 حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب- رحمۃ اللہ علیہ -کئی دفع دارالعلوم/ دیوبند کے ناظم امتحان بھی رہ چکے ہیں۔

   حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب اچھے قلم کار اور بہترین انشاپرداز بھی تھے۔ آپ کے قلمی کارناموں میں ایک ‘ فتاویٰ عالمگیری جز 51/ کا ترجمہ’دوسرا ‘تحسین المبانی فی علم المعانی میں ضمیمہ کا اضافہ’تیسرا ‘عبدالمجید عزیز الزندانی الیمنی کی کتاب التوحید کا ترجمہ’ اور چوتھا ‘ رد مودودیت پر پانچ حصوں پر مشتمل علمی محاضرات ہیں،ان کے علاؤہ بھی آپ نے بہت سے علمی اور ادبی مضامین بطور یادگار چھوڑ رکھے ہیں۔

  حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب ایک زبردست قلم کار ہونے کے ساتھ ایک مقبول خطیب بھی تھے۔آپ کا بیان انتہائی سادہ،مگر ادبی اور شیریں ہوتاتھا۔ آپ کو آپ کے جادو بیانی کی بناء ہندوستان کے مختلف صوبوں سمیت ملک نیپال میں بھی بار بار بلایا جاتا رہا ہے۔الغرض آپ نے بیان و خطابت کے ذریعہ بھی دین اسلام کی بڑی خدمت کی ہے۔

   آپ کے پس ماندگان میں بیوہ بیوی کے علاوہ تین صاحب زادے اور چار صاحب زادیاں ہیں۔

  یقینا حضرت نائب مہتمم مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب کے انتقال سے دارالعلوم/ دیوبند ایک سینئر استاذ حدیث اور مخلص منتظم سے محروم ہوگئی ہے۔

 اللہ تعالیٰ حضرت الاستاذ کے جملہ خدمات کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور درجات بھی بلند وبالا کرے آمین یارب العالمین ۔

«
»

تخلیق انسانی کا مقصد

منی پور کا دورہ کب کریں گے۔۔۔؟ وزیراعظم کے مجوزہ یوکرین دورہ پرکانگریس کا سوال

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے