تارکین وطن کا بحران

باربار مکہ مکرمہ کی جانب مڑ کرحسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے ،وطن سے محبت کا ثبوت تھے ، اعداء اسلام اور کفار مکہ کی مسلسل ایذارسانی کے باوجود اس سرزمین سے قلبی لگاؤ اور الفت و انسیت کااظہارکرر ہے تھے اور یہ کہ رہے تھے کہ اے سرزمین مکہ ایک دن میں ضرور لوٹ کر آؤں گا۔
یقیناًوطن کی محبت ہر کسی کو ہوتی ہے ، مشہور مقولہ ہے وطن کی محبت ایمان کا جز ہے ،کوئی بھی اپنے وطن کو چھوڑ کر کہیں اور نہیں جاناچاہتا ہے لیکن ذرا سوچئے شام ، عراق، فلسطین، لیبیا ، افغانستان ،افریقہ اور دیگر ممالک کے ان لاکھوں لوگوں کے بارے میں جو اپنے جان کے تحفظ کے لئے ، اپنی نسل کی بقا کے لئے ، اپنے بچوں کو زندگی فراہم کرنے کے لئے در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ، کبھی یورپ کا رخ کرہے ہیں ، کبھی ترکی کو اپنی جائے پناہ سمجھنے میں عافیت سمجھتے ہیں ، کبھی جرمنی کو اپنی آخری پناہ گاہ بنانے پر مجبور ہوتے ہیں ،کبھی ہنگڑی، آسٹریا ،فرانس اور دیگر ملکوں کا رخ کرتے ہیں تو کبھی سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک میں پناہ تلاشتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔اپنے وطن کو الوداع کہ کر ،آباواجداد کی سرزمین کو چھوڑ کر ، اپنی جائیداد اور گھر بار کو ترک کرکے ہجرت کرنے والے یہ لوگ دوسرے ملکوں کا رخ تجارت کی غرض سے نہیں کررہے ہیں ، سیاحت کے مقصد سے نہیں جارہے ہیں ،رشتہ داروں سے ملاقات ان کا مشن نہیں ہے بلکہ یہ جائے پناہ تلاش کررہے ہیں ، زندگی گزارنے کا ٹھکانہ تلاش رہے ہیں کہ کیوں کہ ان کا اپنا ملک خون کا ڈھیر بن چکا ہے ، ان کے گھر بار اجڑ چکے ہیں ،ان کے اقربااور رشتہ دار جدا ہوچکے ہیں ، بموں اور توپوں نے ان سے جینے کا حق چھین لیا ہے ، مسلسل ہونے والی بم باری سے ان کے آنکھوں کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں ،ان کی زندگی جہنم بن گئی ہے ،ملکی خانہ جنگی اور بڑھتی ہوئی بدامنی نے انہیں اپنے وطن کو نم آنکھوں کے ساتھ الوداع کہنے پر مجبور کررکھاہے۔
عالی سطح پر اس وقت سب سے بڑا مسئلہ مہاجرین اور تارکین وطن کے بحران کا ہے ،اقوام متحدہ کے ادرہ برائے مہاجرین کی رپورٹ کے مطابق اب تک کل 41 ملین لوگ اپنے وطن سے ہجرت کرچکے ہیں ۔جن ممالک سے لوگ ہجرت کررہے ہیں ان میں شام ،فلسطین ، لیبیا ، افریقہ اور افغانستان سر فہرست ہے جن میں سے نصف مہاجرین کا تعلق شام سے ہے اور بقیہ کا دیگر ملکوں سے ۔ مہاجرین کو پناہ ددینے کے حوالے سے یورپی ممالک میں مسلسل اختلاف ہے ، پولینڈ، ہنگری، دی چیک ریپبلک اور سلواکیہ جیسے ممالک پناہ گزیوں کو اپنے یہاں پناہ دینے کے سخت مخالف ہیں ، یہ اس بات کے بھی قائل نہیں ہے کہ مہاجرین کو کو لازمی کوٹہ فراہم کردیا یا جائے ۔ہنگڑی نے اپنے باڈر پر خاردار باڑ لگارکھاہے ،آسٹریا نے اپنے باڈر کو سیل کردیا ہے ، سلواکیہ ،کروئشیا اور دیگر ریاستیں مہاجرین کی کشتیوں کو اپنے یہاں اترنے کے بجائے دوسرے ملکوں کی جانب روانہ کردیتی ہیں ۔یورپی یونین کے ملکوں میں جہاں بغیر پاسپورٹ کے آمدورفت کا سلسلہ تھا اس کو بدل کر پاسپورٹ قانون متعارف کرادیا گیا ہے ۔
شام اور دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد اس وقت جرمنی اور ترکی میں پناہ گزین ہے ، جرمنی کی چانسلر انجیلامرکل کا رویہ مہاجرین کے تئیں شروع سے نرم رہا ہے ، اپوزیشن کی مخالفت کے باجود انجیلامرکن اپنے موقف پر قائم رہی اور مہاجرین کے لئے اس نے اپنے دروازے بند نہیں کئے ۔ سال نوکی آمد کے موقع پر ایک خطا ب کے دوران انہوں نے جرمن قوم سے کہاکہ’’ نئے آنے والوں کے انضمام کے لیے وقت، ہمت اور رقم درکار ہو گی لیکن مجھے یقین ہے کہ بڑی تعداد میں لوگوں کی آمد اور انضمام کی جو شدید ذمہ داری عائد ہوتی ہے آج ہم اسے صحیح انداز میں نبھا سکتے ہیں، پھرکل یہ ہمارے لیے ایک موقع کی صورت میں سامنے آ سکتی ہے،انہوں نے جرمنی میں بڑی تعداد میں اسلامائزیشن مخالف جلوسوں کا انعقاد کرنے والی تنظیم پیگیڈا کا کا ذکر کئے بغیر جرمن قوم سے مطالبہ کیا کہ وہ ان لوگوں کی پیروی نہ کریں جو سردمہر ہیں یا جن کے دلوں میں نفرت ہے، اور جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ صرف وہی جرمن ہیں اور دوسروں کے ساتھ امتیاز برتنا چاہتے ہیں‘‘۔ ڈی ڈبلیو کی رپوٹ کے مطابق سال 2015 میں جرمنی نے اپنے یہاں دس لاکھ سے زائدمہاجرین کو پناہ فراہم کیا ہے اور سال 2016 میں بھی اس مسئلہ سے نمٹنے کا عزم دہرایا ہے ۔
مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد ترکی میں پناہ گزین ہے جہاں 24 لاکھ سے زیادہ مہاجرین پناہ لئے ہوئے ہیں ،ترکی نے قومی آمدنی کا 3 فی صد حصہ مہاجرین کے لئے وقف کررکھاہے ، یہاں مہاجرین کو تمام طرح کی سہولیات فراہم کرائی گئی ہے ، گذشتہ دنوں ترکی نے 7 ہزار 351 افراد ورک ویزا پرمٹ جاری کرکے اپنے یہاں کام کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے اور کہاہے کہ ہماری خواہش ہے کہ شامی مہاجرین سرکاری امداد سے نہیں بلکہ اپنے خون پسینے سے ترکی کی ترقی میں ہمارا ہاتھ بٹائیں۔
مہاجرین کا بحران اس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ،یورپ کے کچھ ممالک مہاجرین کے تمام دروازے بند کرچکے ہیں توکچھ ان کا استقبال کررہے ہیں جس میں جرمنی سرفہرست ہے ،کچھ ایسی تصویر بھی سامنے آئی ہے جس میں یہ دیکھا جارہا ہے کہ جرمنی کی عوام تارکین وطن کا سرحد پر استقبال کررہی ہے ،مہاجرین کی اولین خواہش بھی جرمنی جانے کی ہوتی ہے وہاں پہونچ کر انہیں محسوس ہوتاہے کہ اپنی منزل مل گئی ہے ۔ترکی نے انسانیت نوازی اور اخلاقی اقدار کا اعلی نمونہ پیش کرتے ہوئے مہاجرین کو پناہ دینے کے حوالے سے فراخدلی کا مظاہر ہ کررہا ہے ، سعودی عرب نے بھی شامی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کو اپنے یہاں پناہ دے رکھا ہے ، گذشتہ دنوں قبل سعودی فرماں شاہ سلمان ایک خطاب کے دوران یہ بھی کہاتھاکہ شامی مہاجرین ہمارے بھائی ہیں ہم ان کے ساتھ مہاجرین نہیں بلکہ بھائیوں جیسا سلوک کرتے ہیں ۔
مہاجرین کو پناہ دینا ، تارکین وطن کو ٹھہرانا یقیناًانسانی ہمددری کی اعلی مثال ہے لیکن دنیا کی سپر پاورطاقتوں سے سے سوال یہ ہے کہ ہجرت اور ترک وطن کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے ؟ لوگ اپنے وطن کو ،گھر بار کو چھوڑ کر جانے پر مجبور کیوں ہیں ؟کیا وہ شوق اور اپنی رضامندی سے اپنے وطن کو الوداع کہ رہے ہیں ؟ یورپ میں رہنے کی خاطر مہینوں سمندروں کا چکر کاٹ رہے ہیں ؟ ٹرینوں ، بسوں اور کشتیوں میں اپنی جانیں گنوارہے ہیں ؟ عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ کے لئے ضروری ہے کہ ہجرت کے اسباب کا سد باب کرے، جن ملکوں میں خانہ جنگی جاری ہے وہاں قیام امن کی کوشش کرے ،شام ،فلسطین ،عراق اور لیبیا کو مزید تباہی کی نذر کرنے کے بجائے یہاں امن وسلامتی کے قیام کے مسئلے پر خاص توجہ دے ، مہاجرین کو پناہ دینے کے سلسلے میں اقدام کرنے کے بجائے ان کے ہجرت نہ کرنے کے اسباب پر اپنی کاروائی کرے اور یقینی بنائے کہ کسی کو اپنا وطن چھوڑنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے کیوں کہ معاشرتی زندگی کا سب سے دشوار کن لمحہ اپنے کو الودا ع کہنا ہے ۔ انٹر نیٹ پر اس طرح کی خبریں بھی ہے کہ یورپ اور جرمنی میں پناہ گزین مسلم تارکین وطن بڑی تعداد میں ترک مذہب کرکے عیسائیت کو اختیا کررہے ہیں ،بہتر زندگی جینے کی خواہش میں وہ اپنے سابقہ مذہب کو چھوڑ رہے ہیں ، یہ خبر اس اندیشہ کو تقویت فراہم کرتی ہے کہ اسلام دشمن عناصر مسلم ملکوں میں خانہ جنگی پیداکرکے مسلمانوں کو ترک وطن کرکے یورپ میں پناہ لینے پر مجبور کررہے ہیں ، انسانی ہمدردی کا راگ الاپ رہے ہیں ، ہجرت کے دوران لاکھوں موت کے شکار ہوئے مسلمانوں سے قطع نظر کرتے ہوئے ایک ایلان کردی کی تصویر وائر ل کرکے مسلمانوں پر رحم کرنے، اور ان کا ہمدرد اور محسن بننے کا کریڈٹ اپنے نام کررہے ہیں ۔ 
اور پھر وہاں ان کا مذہب تبدیل کرارہے ہیں ، جو اپنے مذہب اسلام پر قائم ہیں انہیں دہشت گرد قراردے رہے ہیں ،اسلام فوبیا کا پیر پیگنڈا کررہے ہیں ،ان کے وجود کو اپنے ملک کے لئے خطرہ قراردے رہے ہیں ۔ مسلم ممالک میں خانہ جنگی اور مہاجرین کے ساتھ یورپ ،امریکہ ہمدردی ایک بڑی سازش کا شاخسانہ ہے جسے سمجھنا بر وقت ضروری ہے ، اس کے سد باب کے لئے خود مسلم رہنماؤں کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی ہوگی ، اقتدار کی جنگ اور مسلکی تعصب سے اوپر اٹھ کر مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے اور امن وامان قائم کرنے کی حکمت پر سوچنا ہوگا۔ اسلام پر ہورہے حملہ کے تئیں غور وفکرکرنا ہوگا ۔ اسلام دشمن عناصر کی سازش کو ناکام بنانے کے لئے از خود میدان میں آنا ہوگا۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی 
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

«
»

سیاست نہیں مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم پر توجہ ضروری

آریس ایس کے دل کی بات زبان پر آگئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے