اسلام میں چار شادیاں ۔دشمنانِ اسلام کاہتھیار

قارئین سے گذارش ہے کہ وہ اپنے خاندان اور ماحول میں موجود جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو یہ مضمون پڑھ کرسنائیں تاکہ وہ اپنے غیرمسلم دوستوں کا تشفی بخش جواب دے سکیں )
عہدوسطیٰ سے 18ویں صدی کے مفکرین اور 19ویں صدی کے مستشرقین تک جس میں ولیم موئیر (William Muir) اور ہنری لہمین (Henry Lehmenn) شامل ہیں تمام ناقدین نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے دو گوشوں یعنی آپ ؐ کی جنگوں اور آپؐ کی ازدواجِ مطہراتؓ کو مسلسل ہدفِ تنقید بنایا ہے۔
وولیٹئرVoltaire) اور والنی (Volney) نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو ہر قسم کے اوچھے الزام سے متہم کیا ہے۔متعدد شادیوں کو لیکر آپ ؐ کو شہوت پرست انسان کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔ نعوذبااللہ! تقریباًیہی قابلِ اعتراض مواد بیسویں صدی کی تحریروں میں بھی دوبارہ نمودار ہوتا نظر آتا ہے۔ ان میں سلمان رشدی جیسا مصنف اگلی صف میں نظر آتا ہے۔ دراصل افتراء پردازی ان ذہنوں کی پیداوار ہے جو خود اپنی شہوانی اور نفسانی جذبات کے پیمانے دوسروں پر منطبق کرتے ہیں اور اپنے ہی آئینہ میں ان کو بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔
ولیم موئیر(William Muir) جس کی تحریروں پر مسلمانوں نے کافی لعن طعن کیا،حالانکہ موئیرنے اپنی تصانیف کوذاتِ اقدسؐ کے ساتھ بدگوئی اور طنز و تشنیع سے مکمل طور پر محفوظ رکھا تھامگر رشدی نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے خلاف بیہودہ افسانے ڈھال کر، جو اہانت آمیز کردار سازی کی ہے اس کا ثانی نہیں ۔ اس سے مسلمانوں کے جذبات شدید مجروح ہوئے ہیں کیوں کہ مسلمان ازواجِ مطہراتؓ کو ’’تمام مسلمانوں کی ماؤں‘‘ کا درجہ دیتے ہیں۔
پیغمبر اسلامؐ کی متعدد شادیاں دشمنانِ اسلام کے لئے اہم نظریاتی ہتھیار رہے ہیں۔ اس میں آپؐ کے عہدرسالت کے حالات کی لاعلمی، قبائلی معاشرت کی کم فہمی، مذہبی تعصب اور منافرت سبھی عنصر شامل رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں دشمنانِ اسلام کا رویہ غلط فہمیوں کی حوصلہ افزائی کا رہا ہے تاکہ حضرت محمدؐ کی اصل تعلیمات کی پردہ پوشی کی جاسکے اور دنیا میں تہذیب و تمدن اور ثقافت کو دیئے گئے اسلام کے عطیات کو اس پورے منظرنامہ سے پسِ پشت ڈالا جاسکے۔
یک زوجگی (Monogamy) اور تعدد ازدواج (Polygamy) 
سادہ الفاظ میں تعدد ازدواج کامطلب ہے کہ ایک ہی وقت میں کئی بیویاں رکھی جائیں اور یک زوجگی اس کو کہاجاتاہے کہ آدمی ایک ہی وقت میں ایک ہی بیوی رکھے۔ اس سلسلہ میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ خود مغرب میں یک زوجگی (Monogamy) حالیہ صدیوں میں رائج ہوئی ہے ورنہ وہاں کی عوام صدیوں سے تعدد ازدواج (Polygamy) کے قائل رہی ہے۔ تاریخ میں متعدد شادیاں کرنے کا رواج رہا ہے اور یہ مردوں کے سماجی مرتبہ کی علامت سمجھاگیا۔ سوائے حضرت عیسیٰؑ کے تمام انبیاء نے متعدد شادیاں کی ہیں۔ حضرت عیسیٰؑ البتہ اپنی مختصر زندگی میں کنوارے ہی رہے۔
آج چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم، مشرق ہو یا مغرب، ایک سے زائد بیویاں یا جنسی پارٹنر رکھے جاتے ہیں۔ چند ممالک میں اس کی قانونی اجازت ہے، چند ممالک میں قانونی اجازت نہ ہونے کے باوجود لوگ یہ طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ چند اور ممالک میں شادیاں کم اور محض جنسی پارٹنرشپ کا رواج عام ہو چکا ہے۔ کچھ اور جگہوں پر اعلانیہ شادی لیکن مخفی طور پر غیر ازدواجی جنسی تعلقات روا رکھے جاتے ہیں۔ جنوبی آفریقہ کے موجودہ صدر جیکب زوما چار بیویوں کے شوہر ہیں اور وہاں کے قبائلی قانون اس کی اجازت دیتے ہیں۔ فرانس کے آنجہانی صدر فرانکوئس متران کی دوسری غیر سرکاری بیوی کا راز اس وقت فاش ہوا جب ان کی دوسری بیوہ (پہلی بیوی کی موجودگی میں) ان کے جنازے میں شرکت کے لئے تشریف لائیں۔ اخلاقیات کے ماہرین چاہیں یا نہ چاہیں، یہ امر واقعہ ہے کہ ایک سے زائد بیویاں یا جنسی پارٹنر رکھنے کا رواج ہر معاشرے میں اعلانیہ یا خفیہ طور پر جاری ہے۔
149 یک زوجگی کا قانون در اصل مردوں کو بغیر ازدواجی ذمہ داریاں قبول کئے ہوئے اپنے لئے کثیر جنسی پارٹنرشپ میں اضافہ کی سہولت پیداکرتا ہے۔
149 سخت گیریک زوجیت (Strict Monogamy) زنا کاری، حرام کاری، بے وفائی، جنسی بے راہ روی، حرامی اولاد اور عام جنسی بے راہ روی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے،
یہودیت میں تعدد ازدواج
مقدس توریت اور تلمود کے عہد میں قدیم اسرائیلی باشندے ایک سے زائد بیویاں رکھا کرتے تھے۔ کبھی کبھار ان کی تعداد سینکڑوں تک پہنچتی تھی۔ تلمود اور شریعت موسوی کے پیروکا روں کی ایک سے زائد بیویاں ہوا کرتی تھیں۔ 
انسائیکلوپیڈیا بیبلیکا(Encyclopedia Biblica) کے مطابق ’’ایک عام یہودی کو چار شادیاں کرنے کی اجازت تھی جبکہ ایک بادشاہ یا حکمران آٹھ عورتوں سے شادی کا مجاز تھا۔‘‘ 
کثیر ازدواجی تعلقات کی روایات دسویں صدی عیسوی کے اواخر تک برقرار رہیں یہاں تک کہ ربّی گِرشوم بن یہودہ (960-1030 AD) نے اس کے خلاف حکم نامہ جاری کیا اور اس کے خاتمے کا حکم دیدیا۔ البتہ شیفارڈک یہودیوں میں یہ طرز عمل 1950ء تک جاری رہا۔ 1950 ء میں اسرئیل میں یہودیوں کے چیف ربّی کی آفس نے ایک سے زیادہ خواتین سے شادیوں کی عام ممانعت کردی۔
مگر یہ خیال کرنا کہ تعدد ازدواج اب یہودیوں میں مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے غلط ہوگا۔ نامور یہودی مصنفین مثلاً ایس.ڈی. گوایٹین کی کتاب ’’یہودی اور عرب‘‘ ایل.ٹی. ہاب ہاؤس کی کتاب ’’مارلس ان اوالیوشن‘‘ (Morals in Evolution) اور ای.اے. ویسٹرمارک کی کتاب ’’اے شارٹ ہسٹری آف میرج‘‘ (A Short History of Marriage) جیسی کتابیں اس بات پر شاہد ہیں کہ یہودیوں میں کثیر ازدواجی تعلقات کا طرز عمل اب بھی جاری ہے۔ 
عیسائیت میں کثیر زوجیت
انجیل کے دور نزول میں کثیر زوجیت (Polygamy) کو سماجی قبولیت حاصل تھی اور لوگ بڑی تعداد میں ایک سے زائد شادیاں کیا کرتے تھے۔ حضرت عیسیٰؑ نے کبھی کثیر زوجیت کی مخالفت نہیں کی۔ اسے مذہبی اور اخلاقی لحاظ سے صحیح تسلیم کیا جاتا تھا اور معاشرے میں مروج سمجھا جاتا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انجیل نے اس موضوع پر کوئی کلام نہیں کیا ہے۔ انجیل نہ اس کی ممانعت کرتی ہے اور نہ اس کی تحدید۔ کچھ لوگوں نے انجیل کی اُس آیت میں جس میں دس کنواریوں (Ten Virgins) کا تذکرہ کیا ہے کو کثیر زوجیت کی قبولیت اور جواز کے طور پر تعبیر کیا ہے۔ اس تعبیر کو پیغمبروں کی ان داستانوں سے بھی تقویت ملتی ہے جن میں ان کی متعدد بیویوں یا شادیوں کا تذکرہ ہے۔
149 علاوہ ازیں ایسے کتنے ہی عیسائی حکمران اور بادشاہ گذرے ہیں جن کی متعدد بیویاں تھیں۔ فریڈرک ولہم دوم اور فلپ نے بالترتیب چرچ اور سینٹ لوتھر کی اجازت کے ساتھ ایک سے زائد عورتوں سے شادیاں رچائیں۔
149 1650عیسوی میں منعقدہ نیور مبرگ کانفرنس میں یہ متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ لوگوں کو انسانی آبادی کی قلت کو دور کرنے کے لئے ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دی جائے۔
149 اسی طرح امریکہ میں مارمان (Mormon) کرسچین فرقہ میں اب تک کئی خواتین سے بیک وقت شادیوں کا رواج چلا آرہا ہے۔ اس عیسائی فرقے کے بیشتر پیرو کار یوٹاہ (Utah) ، وائیومنگ (Wyouming) وغیرہ ریاستوں میں بستے ہیں، اس فرقہ میں آج بھی کافی تعداد میں کثیرالزّوج مرد ملتے ہیں۔ مارمان عیسائیوں کی معاشرت پر لکھی گئی کتاب ’’خفیہ تقریبات‘‘ Secret Ceremonies پڑھئے جو مصنفہ ڈیبورہ لا کے (Deborah laake) نے لکھی ہے۔
149 اسی طرح آفرو۔ ایشین چرچ Afro-Asian Church کے پادری بھی کثیر زوجیت کو خواتین سے بے وفائی اور زنا کاری اور بیویوں کے تبادلے جیسی قبیح برائیوں پر ترجیح دیتے ہیں۔
149 عیسائیت میں یک زوجیت کے تصور اور نظرئیے کو پال نے متعارف کرایا۔ اس عہد میں عیسائی قوانین میں کافی ترمیمات بھی ہوئیں۔ اس نظرئیے کے متعارف کرانے کی پشت پر عیسائیت اور یونانی ورومن کلچر میں تطبیق پیدا کرنے کا مقصد تھا جہاں یک زوجیت کا قانون تھا مگر لوگ بڑی تعداد میں غلام عورتیں رکھ سکتے تھے اور انہیں جنسی تعلقات کے لئے استعمال کرنے کی اجازت تھی۔ اس کا سیدھا مفہوم یہ تھا کہ کثیر ازدواجی تعلقات قابل قبول تھے مگر شادی قانونی طورپر صرف ایک ہی ہوسکتی تھی۔
149 اولین عیسائی نظریات کے مطابق ’’عورت گناہوں کا مجموعہ ہے‘‘ اور مرد کے لئے یہ بہتر ہوگا کہ وہ شادی ہی نہ کرے مگر اس کلیہ کے نتیجہ کے طور پر انسانیت کا خاتمہ ہو جاتا لہٰذا اس میں ترمیم کرکے یک زوجیت کو بادل نخواستہ قبول کرلیا گیا۔
ہندومذہب میں کثیر زوجیت
دور قدیم کے ہندو ستان میں کثیر زوجیت نہ صرف قابل قبول تھی بلکہ عام طور پر رائج تھی۔ رِگ وید، دیگر ہندومت کی مقدس کتب اور ویکی پیڈیا کے مطابق ہندوؤں کے سب سے بڑے دیوتا رام کے والد راجہ دشرتھ کی تین سے زیادہ بیویاں تھیں۔ ان میں سے تین کیکئی، سمترا اور کوشلیا کے نام معروف ہیں۔ بھگوان کرشنا کی 16

«
»

محبت کی تلوار:جس نے کافر کو نہیں کفر کو کاٹ ڈالا

قانونی کارروائی یا انتقامی سیاست

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے