بابری مسجدکا مسئلہ!ملت سے ایک سوال

یہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین باب، دن ہے اور جو لوگ اس کو بھول گئے ہیں یا بھولنا چاہتے ہیں وہ بے حس ہیں اور اگر خدانخواستہ یہ ملک اور یہان کی گنگا جمنی تھذیب بھی تباہ ہو جائے تو ان کو کچھ دردتکلیف نہ ہو گی۔بابری مسجد کی شہادت کا زخم ایسا ہے کہ جو مندل نہین ہوتا بابری مسجد کی شہادت کو 23 سال گزرگئے۔فسادات میں تین ہزار سے زائد مسلمان شہید ہوئے، لیکن کوئی ملزم گرفتار نہ ہو سکا۔چھ دسمبر 1992 کوانتہاپسندہندؤوں کے ایک گروہ نے بابری مسجد پر دھاوا بول دیا۔ یہ مسجد مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر نے 1527 میں اترپردیش کے ضلع ایودھیہ میں تعمیر کرائی تھی۔ انتہا پسند ہندووں کا دعویٰ تھا کہ بابری مسجد ہندو دیوتا رام کی جائے پیدائش پر قائم کی گئی تھی۔1859میں انگریز حکمرانوں نے عبادت کی جگہ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اندر والا حصہ مسلمانوں کے لئے جبکہ باہر کا حصہ ہندووں کیلئے مختص کر دیا گیا تھا۔ 1949ء میں مسجد کے اندر سے مورتی ملنے کے بعد ہونے والے فسادات کی وجہ سے بھارتی حکومت نے مسجد کے دروازے بند کرا دیئے۔ 1984ء میں ہندو کمیونٹی نے مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کیلئے وشوا ہندو پریشد پارٹی کی قیادت میں ایک تحریک چلائی۔ بعد میں اس تحریک کی قیادت بھارتیا جنتا پارٹی کے رہنما لال کرشنا ایڈوانی نے سنبھال لی۔ 1986 میں ضلعی جج نے مسجد کے دروازے کھلوا کر ہندووں کو اپنی عبادت کرنے کا حکم دے دیا۔ 1991 میں اتر پردیش میں بی جے پی کی حکومت آئی اور 1992 کو سیکڑوں ہندووں نے مسجد کو شہید کر دیا۔ مسجد کی شہادت کے بعد بھارت میں ایک مرتبہ پھر ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے۔ گودھرا، گجرات ٹرین حملوں سمیت ان فسادات میں تین ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا 23 سال گزرنے کے باوجود بابری مسجد کی شہادت کے کسی بھی ملزم کوسزا نہیں ہو سکی ہے۔ اقدام کو کیسے قانونی درجہ حاصل ہوا اسکی سب سے اچھی روداد بھارتیہ جنتا پارٹی کے شائع کردہ White Paper on Ayodhya and Rama Mandir

«
»

دل دردمندان کے لیے امارت شرعیہ بہار کاایک اہم پیغام

ہندوستان کی سیکولرازم امیج پر دھبہ ہے بابری مسجد کا انہدام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے