فضول بحث میں وقت کی بربادی سے کیا فائدہ؟

آج کے جیسے ماحول میں جب حکمراں پارٹیوں میں سے ایک پارٹی باقاعدہ اخبار میں اعلان چھاپے کہ عامر خاں کو ایک تھپڑ مارو اور ایک لاکھ روپئے لے جاؤ اور قابل احترام اور مشہور مصنفہ ارون دھتی رائے ہندو ہوتے ہوئے کہیں کہ ’جس خوف میں اقلیتیں جی رہی ہیں اس کو بتانے کے لئے عدم رواداری لفظ ناکافی ہے۔ اس کے لئے ہمیں ایک نیا لفظ گڑھنا پڑے گا اور انہوں نے الزام لگایا کہ بی جے پی ہندو راشٹرواد کے نام پر برہمن واد کو فروغ دے رہی ہے۔ دادری یا ہماچل یا بنگلور جیسے ہونے والے جگہ جگہ ایک جیسے واقعات اور ایک گورنر کا یہ کہنا کہ سی پی ایم لیڈر سلیم سور کا گوشت کھالے تو گائے کا معاملہ نہیں اٹھایا جائے گا۔ یا آسام کا گورنر کہے کہ پاکستان چلا جانا چاہئے۔‘ کیا ایسی باتیں ہیں جن پر پارلیمنٹ میں بحث کی عیاشی کی جائے؟
ایک سال سے ملک کی جو صورت حال ہے وہ صرف دیکھنے اور تسلیم کرنے کی بات ہے۔ اس پر بحث ایسا ہی ہے جیسے سورج کی دھوپ میں گرمی اور چاند کی چاندنی میں خوشگواری پر بحث کی جائے یا پارلیمنٹ میں سلیم صاحب کی طرح وزیر داخلہ کے متعلق چھپے ہوئے کسی توہین آمیز بیان کو سناکر یہ سوچنا کہ بنگال کے مسلمان اب ان کے عاشق ہوجائیں گے اور ووٹ دے دیں گے۔ انتہائی سستی اور الیکشنی حرکت ہے۔ آؤٹ لک میں جو چھپا ہے اس کے متعلق ہماری معلومات اور اپنے کانوں سنی یہ ہے کہ ’آنجہانی اشوک سنگھل نے یہ بات موہن بھاگوت سے کہی تھی کہ ہم آج آٹھ سو برس کے بعد آزاد ہوئے ہیں اور بھاگوت صاحب نے اس کی تائید کی تھی۔ موہن بھاگوت خود کوئی بات کہیں یا کسی بات کی تائید کریں اس کی حیثیت یہ ہے کہ وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور پوری حکومت میں کسی کی مجال نہیں ہے کہ وہ اس کی مخالفت کرسکے کیونکہ خود کہنا اور تائید کرنا ایک جیسا ہے۔
یہ صرف دو مہینے پہلے کی بات ہے کہ بھاگوت صاحب نے ریزرویشن کے بارے میں کہا تھا کہ وہ دستور میں صرف دس سال کے لئے دیا گیا تھا۔ اب 70 سال کے بعد جن کو ضرورت نہیں ہے ان کا ختم کرکے انہیں دیا جائے جنہیں اب زیادہ ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ حکم نہیں دیا تھا بلکہ ان کا انداز ایسا تھا جیسے اس پر بھی سوچنا چاہئے۔ لیکن جب جب بہار کے الیکشن میں مودی صاحب گئے تو ان کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ کہہ دیں کہ ’آر ایس ایس چیف نے یہ نہیں کہا ہے اور لالو یادو جھوٹے ہیں۔ پھر جب مودی کو محسوس ہونے لگا کہ الیکشن ہاتھ سے گیا تب۔ یقین نہیں ہمارا گمان ہے کہ انہوں نے آقا سے اجازت لی ہوگی اور اس کے بعد جاکر کہا اور پھر ہر جگہ کہا کہ ریزرویشن میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا۔‘
یہی بات اب ہے کہ وزیر داخلہ صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ میں نے نہیں کہا اور ہوسکتا ہے کہ آؤٹ لک کے ایڈیٹر کے پاس ان کی کسی محفل میں کی گئی بات کا ثبوت ہو ورنہ وزیر داخلہ جیسے وزیر پر ایسا الزام لگانا ہنسی کھیل نہیں ہے اور اب تک یہ خبر نہ آنا کہ وہ پرچہ ضبط کرلیا گیا ہے اور ایڈیٹر، پرنٹر، پبلشر اور مالک سب گرفتار ہوچکے ہیں۔ ثابت کرتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے کیونکہ ثبوت سلیم کو نہیں دینا وہ تو ان کے ہاتھ میں ہے اور سلیم کون ہوتے ہیں رسالہ کے مالکوں سے یہ کہنے والے کہ ثابت کرو۔ اس لئے کہ یہ حکومت کا فرض ہے۔ اور جیسے منٹوں میں آئی ایس آئی کے جاسوس ہتھکڑی لگے دکھائے گئے اسی طرح ’’آؤٹ لک‘‘ کا پورا اسٹاف سامنے کھڑا ہوتا۔ میگزین انگریزی کی تھی اس وجہ سے صرف اس کے معافی مانگنے کو کافی سمجھا گیا۔ اگر اردو کی ہوتی تو سب پر مکوکا لگا دیا ہوتا اور برسوں جیل میں پڑے رہتے۔
ہم اسے بھی عدم رواداری پر بحث کو غلط سمت میں موڑنے کی سازش قرار دیں گے کہ 27 برس کے بعد سابق وزیر داخلہ چدمبرم سے یہ کہلانا کہ سلمان رُشدی کی کتاب کو راجیو گاندھی نے ضبط کرنے کا حکم دے کر غلطی کی تھی۔ کہنے کو تو کہہ دیا کہ ’’اگر اس وقت کوئی میری رائے معلوم کرتا تو میں یہی کہتا‘‘ لیکن نہ اب وہ حکومت آسکتی ہے نہ وہ زمانہ ہاں یہ حقیقت ہے کہ ہم نے تو ہر کانگریسی وزیر کو چاہے وہ کتنا ہی تیس مار خاں ہو اندرا گاندھی سے لے کر سونیا تک سب کو دُم ہلاتے ہوئے ہی دیکھا ہے۔ اب شیخی مارنے یا کسی لالچ میں وہ کچھ بھی کہہ دیں۔
چدمبرم ہمیشہ کے سنگھی ذہنیت کے ہیں 26/11 والے حادثے میں ہندو دہشت گردوں کی سازش سے ایک بہت بہادر پولیس افسر ہیمنت کرکرے کو گمراہ کرکے مارنے کی سازش کی تحقیقات کے لئے چدمبرم سے بہت بڑے سیاست داں عبدالرحمن انتولے مرکزی وزیر اصرار کرتے رہے کہ اس سازش کی تحقیقات کرائی جائے کیونکہ ہر کسی نے کہا تھا کہ انہیں سنسان جگہ گھیرکر لایا گیا اور سب کو بھون دیا گیا جبکہ اس جگہ ان لوگوں نے ہی دو چپراسیوں کو مارکر دہشت گردوں کے ہونے کا ڈھونگ رچایا تھا اور ان کی بلٹ پروف جیکٹ کوڑے کے ڈھیر میں ملی تھی۔ لیکن چدمبرم نے اس لئے اسے نہیں مانا کہ انہیں سب معلوم تھا اور وہ خود شریک رہے ہوں گے۔ اور ان کی تائید ان ہی جیسے منیش تیواری کررہے ہیں جو برہمن واد کے پرستار ہیں اور یہ دونوں وہ ہیں جنہوں نے پہلے پارٹی کو مسلمانوں کی اور سیکولر ہندوؤں کی نظر میں قابل نفرت بنایا اور جب سمجھ لیا کہ انہوں نے بھاگوت کی فوج کا راستہ صاف کردیا تو الیکشن لڑکر ہار کی ذلت نہ اٹھانے کی وجہ سے انکار کردیا۔ ان دونوں کو کانگریس میں رکھنا اب پارٹی کو گندہ کرنا ہے۔ لیکن یہ ہمارا نہیں راہل کا مسئلہ ہے شاید جن کی قیادت انہیں قبول نہیں۔
سلمان رُشدی نے اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن عظیم پر حملہ کیا ہے وہ اسلام کے نزدیک واجب القتل ہے۔ قرآن عظیم وہ کتاب ہے جو آج اکیلی ایسی کتاب ہے جس کا ایک ایک لفظ 1500 سال کے بعد بھی محفوظ ہے اور قیامت تک اس کی حفاظت کا انتظام اللہ نے خود کردیا ہے ’’وانّالہٗ لحافظون‘‘ عام سائز میں چھ سو صفحات کی وہ ایسی اکیلی کتاب ہے جو آج کی دنیا میں کروڑوں انسانوں کے سینے میں محفوظ ہے اور قیامت تک حافظوں کی تعداد میں اس لئے اضافہ ہوتا جائے گا کہ اس کا حفظ کرنا اور یاد رکھنا ہر دن آسان ہوتا جارہا ہے کیونکہ کروڑوں موبائل بن گئے ہیں جن میں پورا کلام پاک محفوظ ہے۔ اگر کوئی حکومت پابندی ہٹاتی ہے تو ہم مسلمان جہاد تو چھیڑنے سے رہے کیونکہ وہ خودکشی ہے۔ البتہ جس کی کتاب ہے اس نے اسی کتاب میں لکھ دیا ہے کہ ’’تمام دنیا کا مالک اللہ ہے وہ جس کو جو ملک چاہتا ہے دیتا ہے اور جس سے جو چاہتا ہے لے لیتا ہے اور وہ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کردیتا ہے۔ اور بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ (آزاد ترجمہ) اور انتہائی مختصر مدت صرف 18 مہینے میں اللہ قادر مطلق نے بھاگوت کو بھی دکھا دیا اور نریندر مودی کو بھی۔ اور وہی ہے جس نے آج نیپال کو ایسا دشمن بنا دیا ہے کہ 45 چینل بند کرکے وہ ہندوستانیوں کی آواز بھی نہیں سننا چاہتا۔ وہ اگر آزمانا چاہتا ہے تو ایک چائے والے کے لڑکے کو بھی ملک دے دیتا ہے اور اگر ناخوش ہوجائے تو پرویز مشرف کی طرح اسی کے ہاتھوں ذلیل کراتا ہے جسے اس نے ایک چوہے کی طرح پکڑکر سعودی حکومت کی سفارش سے زندہ رہنے دیا تھا۔ رُشدی کی کتاب پر پابندی لگانے اور اُٹھانے کی طاقت رکھنے والوں کو ہم چیلنج کرتے ہیں کہ وہ کسی اپنی مذہبی کتاب میں وہ لکھا ہوا دکھادیں جو قرآن عظیم میں لکھ دیا گیا ہے؟
بات شروع کی تھی عدم رواداری پر لاحاصل بحث سے کہ کیوں وقت برباد کیا جا رہا ہے۔ مودی صاحب ہوں یا جیٹلی ہر کوئی ہاؤس چلنے کی بات اس طرح کررہا ہے جیسے 1952 ء کے بعد یہ پہلی بار ہورہا ہے۔ کیا یہ بے شرمی کی انتہا نہیں ہے کہ منموہن وزارت کا آخری سال تاریخ کا وہ سال تھا جس میں سب سے کم کام ہوا اور سب سے زیادہ وقت برباد ہوا۔ لیکن سُشما سوراج اور اڈوانی جی نے لوک سبھا میں اور ارون جیٹلی نے راجیہ سبھا میں پورے سال ہاؤس نہیں چلنے دیئے۔ اب سونیا کو چائے پر بلانے اور آل پارٹی میٹنگ بار بار بلانے کے بجائے ان تینوں کو پورے ملک، قوم اور تمام ممبروں سے ہاتھ جوڑکر معافی مانگنا چاہئے کیونکہ اپیل کرنے کا اخلاقی حق کھودیا ہے اور ہاتھوں میں گیتا لے کر وعدہ کرنا چاہئے کہ اگر کبھی حزب مخالف بننا پڑا تو غنڈہ گردی اور ہزاروں کروڑ کی بربادی نہ کریں گے نہ ہونے دیں گے۔

«
»

غدارِ وطن کون؟شاہ رخ ،عامر،دلیپ کمار ،یاآر ایس ایس

سنگھ پریوار کے نشانے پر ہر مسلمان، عامرخان ہو یا ٹیپوسلطان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے