مسلم او بی سی کے حقوق کی آواز

اس طرح سے ان کے پورے خاندان کا شجرہ گنوادیتے۔عملی زندگی میں تووہ سب کام کرتے جو اسلام نے منع کیے ہیں۔لیکن جب ان کو یہ بتایا جاتا کہ بھائی برادریاں یہ کوئی مذہب ومسلک نہیں ہے بلکہ یہ جو تقسیم ہے یہ پیشوں کی بنیاد پرہے۔ مذہب سے اس کا کچھ بھی لینا دینا نہیں۔اور یہ ا?ج سے نہیں ہے بلکہ صدیوں سے چلاآرہا ہے۔
پورے ملک کامنظرنامہ کچھ اسی طرح کا تھا۔تقسیم ملک نے مسلمانوں کا شیرازہ بکھیردیا تھا۔ مسلمانوں کے گایوں کے گاؤں فسادات نے تباہ کردیے تھے۔سرکاری نوکریوں کے دروازے مسلمانوں کے لئے تقریباََ بند کردیئے گئے تھے۔ بڑے بڑے کاروبار تباہ و بربادہوگئے ،شہرو ں میں تو کچھ حد تک خوشحالی تھی،لیکن دیہاتوں میں تو ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ملک کی معیشت غیر مسلموں کے ہاتھوں میں آچکی تھی۔مسلمان اور دلتوں کے علاوہ دوسرے طبقات کے اندر تعلیم یافتہ افراد کی کمی نہیں تھی۔اس لیے اعلی سرکاری عہد وں سے لے کر چپراسی کے عہدے تک اعلی ذات کے ہندؤوں کا غلبہ تھا۔
ڈاکٹربابا صاحب امبیڈکرنے اپنی قوم کیلئے دستور میں بہت ساری مراعات رکھ دی تھیں ،اس کی بنیاد پر دلت و پسماندہ طبقات کے لوگ خصوصاََ ہندو?ں کی برادریاں ریزرویشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرکاری دفتروں اور دیگر پبلک سیکٹر میں نظر آنے لگیں۔اس کی وجہ سے دوسرے طبقوں نے بھی سراٹھاناشروع کیا ،گجر ،جاٹ،کرمی،یادو،بھومی ہار ،بنجارہ ،مالی جیسے سماجو ں میں قائدین اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنے سماج کو منظم کرکے ووٹوں کی طاقت کو استعما ل کرتے ہوئے حکومت پر دباؤ دال کرکئی مراعتیں حاصل کرلی ،وہ خودبھی حکومت میں شریک ہوئے اور اپنے اپنے سماج کے لوگوں کو سرکاری عہدوں پرفائز کروایا۔ایک طرف وہ تعلیم بھی حاصل کررہے تھے دوسری طرف ریزرویشن ہونے کی وجہ سے نوکریوں میں آسانی سے لگ بھی جاتے تھے۔
مسلمانوں کا بر ا حا ل تھا نہ ان کے پاس تعلیم تھی نہ ریزوریشن تھا اور نہ ہی لیڈر شپ کہ جس کے بل بوتے پر وہ ملک کی سیاست پراثر انداز ہوتے اور اپنے لیے کوئی اعلی مقام حاصل کرتے۔یقیناًمسلمانوں کے کچھ رہنما ان کی تعلیمی ،سیاسی،سماجی واقتصادی حالات کو مستحکم اور بہتر بنانے کیلئے کوشاں تھے۔لیکن ان کی کاوشیں بہت زیادہ بارآور نہیں ہوپارہی تھیں۔
1970۔80کی دہائی میں سماجی و اقتصادی طورپر کمزور طبقات کے لیے ریزوریشن کی بات کی جانے لگی،ملک گیر سطح پر مختلف برادریوں کی تنظیمیں وقائدین جن میں کرپوری ٹھاکر ،چودھری برہم پرکاش،رام ولاس پاسوان،رام نریش یادو،شردیادوجیسے قدآور لیڈر سیاسی،سماجی واقتصادی طورپرریزرویشن کے لیے آواز بلندکرنے لگے۔ 1967میں حکومت مہاراشٹر نے پہلی بار ریا ست میںO.B.Cکی فہرست جاری کی۔
تقریباََ اسی زمانے میں کروڑوں مسلمانوں میں سے ایک شخص ان تمام حالات کا جائزہ مہاراشٹرکے جالنہ جیسے پسماندہ شہر میں بیٹھ کرلے رہاتھا۔اس وقت جب وہ مسلمانوں میں اسطرح کی باتیں کرتاتو اس کا مذاق اڑایاجاتا،اس سے کہا جاتا ’’میاں ابھی تم بچے ہو‘‘’اسلام میں کہاں ذات پات ہے،؟فرقہ یا جماعت کا تصور کہاں ہے ؟اسلام تومساوات کاعلمبردارہے اور تم اسلامی مساوات کے خلاف کام کررہے ہو۔یہ اور اس طر ح کی دسیوں باتوں سے دوچار ہونا پڑا ؤ
اس فاصلو ں کے دشت میں رہبر وہی توہے جس کی نگاہ دیکھ لے صدیوں کے پاربھی 
حکومت مہاراشٹرنے جوفہرست شائع کی تھی اس میں کچھ مسلم برادریوں کے نام بھی شامل تھے۔ اور یہی وہ tuig pointہے ،جہاں سے شبیر احمد انصاری سامنے آتے ہیں۔
شبیر احمد انصاری جالنہ کی متوسط ودیندار گھرانے میں ہوئی۔ابتدائی وہائی اسکول کی تعلیم جالنہ میں حاصل کی۔طالب علمی کے زمانے ہی سے سماجی ،مذہبی کاموں میں دلچسپی ہونے کی وجہ سے اس وقت کے مذہبی،سماجی اور سیاسی رہنماؤوں سے استفادہ کرتے رہے۔خصوصاََپسماندہ طبقات و مسلمانوں کی مختلف برادریوں کو منظم کرنے ان کے حقوق اور حکومت سے ملنے والی مراعتیں ،ریزوریشن کی ضرورت و اہمیت پرجلسے کرنا ،تقریریں کرنا،دھرنے و مورچہ دینااور ملک میں جہاں بھی سماجی انصاف اور پسماندہ طبقات کے رہنماؤوں کے اجلاس ہوتے اس میں شرکت کرتے ہوئے اپنے خیالات کااظہار کرتے رہنا ان کے زندگی کا مقصد ہوگیا تھا۔گھرکی معاشی حالات نہایت کمزورتھی،اس لیے ذریعہ معاش کے لیے ایک چھوٹی سی دکان خیاطی(ٹیلرنگ )کھول رکھی تھی۔لیکن حوصلے بلند تھے جذبات سچے تھے قوم و ملت کی ہمددری کے جذبہ سے سرشار تھے؟
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر لوگ ساتھ ا?تے گئے اور کارواں بنتاگیا
ایک شخص ایک کارواں بن گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے شبیر انصاری پورے مہاراشٹر میں چھاگئے۔انہوں نے ریاست کے مختلف گاؤو ں،تعلقہ جات اورشہروں میں سینکڑوں کی تعدادمیں پروگرام لینا شروع کردیے، مخالفت بھی ہوئی ،پذیرائی بھی ملی،مخالفت کی پرواہ کیے بغیر کارواں چلتا رہا۔
مہاراشٹر کے سماجی،سیاسی منظرنامہ پر 1978 میں آل انڈیا مسلم او بی سی آرگنائزیشن کی صور ت میں ایک تحریک نمودار ہوئی۔اور پھر یہ تحریک پورے ملک میں پھیل گئی۔ملک میں اس وقت جنتا پارٹی کی حکومت تھی ،مرارجی ڈیسائی وزیر اعظم نے 1978میں منڈل کمیشن کے نام سے پسماندہ طبقات کی زمینی صورت حال پر کام کرنے کے لئے قائم کیا۔31۔12۔1980کو منڈل کمیشن نے اس و قت کے صدرجمہوریہ ہند 
سجنواریڈی کو اپنی رپورٹ پیش کی 25۔11۔1981کو پارلیامنٹ میں پسماندہ طبقات کے ممبران نے اسپیکر کاگھراؤکیا اور منڈل کمیشن کی رپورٹ کو نافذکرنے کا مطالبہ کیا۔7?دسمبر1981 کو دہلی میں راشٹریہ پچھڑا ورگ مہا سنگھ کا قیام عمل میں آیا،جس کی پہلی قومی کانفرنس میں چندرجیت یادو،رام لکھن گپتا،جے پال سنگھ کشپ جیسے سنیئر لیڈران کے ساتھ کانسی رام ،شبیر احمد انصاری موجودتھے۔
آل انڈیا مسلم اوبی سی آرگنائزیشن کی تحریک پر11جولائی1982ریاستی سطح کی کانفرنس بلائی گئی۔اسی طرح24?اپریل 1983کو ممبئی میں راشٹریہ پچھڑا ورگ کا دوسرا اجلاس بلایا گیا ت۔5?فروری 1984کومراہٹوڑہ کے شہرمیں تاریخی اجلاس منعقد کیا گیا۔یہ شبیراحمد انصاری کی زندگی کی پہلی کامیابی تھی کہ( انہوں نے چراغ تلے روشنی دکھائی،گھرکی مرغی کو دال نہیں بریانی بناکر پیش کیا۔)اس تاریخی اجلاس کی صدارت چوہدری برہم پرکاش کی۔دوسری کامیابی شبیر احمد ا نصاری کو اس صورت میں ملی کہ آل انڈیا مسلم اوبی سی آر گنائزیشن کی پہلی قومی کانفرنس دہلی کے مشہور ماؤلنکر ہال میں29?جون1996کوطلب کی گئی جس میں شرد پوار،اس وقت کے وزیر سماجی بہبود بلونت سنگھ،رامووالیا نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت فرمائی ا aور آل انڈیامسلم اوبی سی آرگنائزیشن کی تحریک سماجی انصاف کے لیے تعاون دینا کا وعدہ کیا۔12جون 1997کو دوسری قومی کانفرنس یوپی کے تاریخی شہر و دارالخلافہ لکھنؤمیں منعقد ہوئی ۔تیسری کانفرنس اورنگ آباد (مہاراشٹر )میں مشہور فلمی اداکار دلیپ کمار صاحب کی صدارت میں 1998 میں منعقد ہوئی۔
1999میں مہاراشٹرکے اسمبلی انتخابات منعقد ہونے والے تھے اور شبیر انصاری اس وقت مسلم پسماندہ طبقات اور برادریوں کے رہنمابن کر پوری ریاست میں اپنا دبدبہ قائم کرچکے تھے۔کانگریس حکومت کو آل انڈیامسلم او بی سی آرگنائزیشن کی سیاسی طاقت کا بخوبی اندازہ تھا اس لیے اس نے آرگنائزیشن سے سیاسی سمجھوتہ کرتے ہوئے ریاستی اسمبلی کی پانچ سیٹیں دی گئیں جس میں3 جگہوں پراس کے نمائندے کامیاب ہوئے اور دوسری دوجگہوں پردوسرے نمبر پررہیں۔
شبیر انصاری مسلم اوبی سی اور سماجی انصاف کے علمبردار کے طورپرپورے ملک میں مشہور ہوگئے اور آج بھی ملک میں مسلم اوبی سی کا جہاں تذکرہ ہوتا ہے وہ شبیر احمد انصاری کے بغیر نامکمل ہوتا ہے۔آل انڈیا مسلم او بی سی آرگنائزیشن کی وجہ سے ہزاروں مسلم بچوں نے کاسٹ سرٹیفیکیٹ نکالے اور میڈیکل،انجرئینگ اوردوسرے بے شمار تعلیمی ضرورتوں کے لیے استعمال کرکے فائدہ اٹھایا،نہ صرف طلباء کو اس کافائدہ پہنچابلکہ سیاسی اعتبار سے زبردست طریقے سے مسلمانوں کو اس کافائدہ ہوا۔اسمبلی،کارپوریشن ،ضلع پریشد،پنچایت سمیتی کے انتخابات میں ذات کا داخلہ ہونے کی وجہ مسلمان سیاست میں نظر آنے لگے۔حکومت مہاراشٹرسے مسلم برادریو ں کے لئے بے ثمار جی آرG.R نکالے، ان تاریخی جی آر میں7دسمبر1994 کا وہ تاریخی جی �آر ہے جو مسلم پسماندہ طبقات کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ جی آر شرد پوار کی ہدایت پرجاری کیاگیا،اس جی آرکی ملک کے کسی صوبے میں نہیں ملتی۔اس جی آر کے تحت آئندہ اوبی سی کا تعین کسی بھی مذہب کے بنیاد پر نہ کرتے ہوئے ، پیشوں کی بنیاد پربشمول ان جماعتوں و برادریوں کو آج ہمیں جو میئر ،ضلع پریشدکے صدور۔سرپنج،پنجایت و غیرہ میں جو مسلم چہرے نظر آرہے ہیں وہ شبیر احمد انصاری کاوشوں کا ہی ثمرہ ہے۔ اللہ ان کی حفاظت کرے

«
»

ڈاکٹر وحید انجم کی انسانیت نواز افسانچہ نگاری

بہار کے عوام نے ادا کی ذمہ داری اب عظیم اتحاد کی باری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے