بہار میں این ڈی اے کی ذلت آمیز شکست :اسباب وتجزیہ

ان کا یہ قول ۲۰۰۵ ء اور ۲۰۱۰ء کے الیکشن میں اگرچہ سچ ثابت نہیں ہوا تھا تاہم اس دفعہ درست ثابت ہوا ، لالو نے پیش گوئی کی تھی کہ :ہم ۱۹۰ سیٹیں جیت رہے ہیں اور ۱۷۸ سیٹیں جیت کر لالو نے سارے چینلس کو جھوٹا ثابت کر دیا ۔
بہار الیکشن کی گونج اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک میں بھی سنی جا رہی تھی ،عالمی تجزیہ کاروں کی نگاہیں اس پر ٹکی ہوئی تھیں ،ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب اور رواداری کا سوال تھا ،سیکولرازم کی بقا اور شناخت کا مسئلہ تھا ،لیکن قربان جا ئیے بالغ نظر بہاری ووٹرس پر جنہوں نے بی جے پی اور این ڈی اے کے بڑھتے قد م کو روکا نہیں بلکہ توڑ دیا ۔۲۰۱۶ء میں مغربی بنگال ،کیرالہ ،آسام،تمل ناڈو،پانڈیچری اور۲۰۱۷ء میں اترپردیش ، اتراکھنڈ ،گوااور منی پور کو سرپٹ دوڑ کر قبضہ کرنے کا جو خواب بی جے پی نے دیکھا تھا ا ب ا بیساکھی کے سہارے جانا پڑے گا۔
بہار میں ذلت آمیز شکست کا محاسبہ کرنے کے لئے ۹؍نومبرکو بی جے پی پارلیمانی بورڈکی مٹینگ بلائی گئی تھی جس میں اس کے سر کردہ قائدین موجود تھے ،مٹینگ کے بعد ارون جیٹلی نے پریس کانفرنس کر کے ہار کا ٹھیکرا مہا گٹھ بندھن پر پھوڑ دیا ،اس نے کہا :جے ڈی یو ،آر جے ڈی اور کانگریس کا متحد ہو کر لڑنا ہماری شکست کی وجہ بنی ، ہمارا اندازا تھا کہ تینوں پارٹیاں ایک دوسرے کو ووٹ ٹرانسفر نہیں کر سکیں گی لیکن ہمارا یہ اندازہ غلط تھا ،،جب صحافیوں نے موہن بھاگوت کے ریزرویشن والا بیان کے متعلق سوال کیاتو جیٹلی نے بڑی ڈھٹائی سے کہا:ایک بیان سے ہار جیت کا فیصلہ نہیں ہوتاہے،اور یقیناًجیٹلی نے درست کہا ہے ،میرا یہ ماننا ہے کہ ایک نہیں چنداسباب تھے جن کی وجہ سے این ڈی اے کی کراری شکست ہوئی ہے مثلاً (۱)اقلیت اور پسماندہ طبقات کا عدم تحفظ کا شکار ہونا (۲)ان کے خلاف دن بدن تشدد اور نفرت بڑھنا (۳)یوگی،پراچی،ساکشی،گری راج ،اور اب کیلاش کا ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنا (۴)بی جے پی حکومت کو ان پر لگام نہ کسنا اور بھونکنے کے لئے چھوڑ دینا (۵)بیف اور گائے کے نام پر اخلاق،زاہد اور انعام کا قتل کرنا (۶)صحافی کلبرگی، پانسرے اور دابھولکر کا مرڈر ہونا (۷) ادیبوں ،دانشوروں ،مصنفوں اور فلمی ستاروں کا ایوارڈ واپس کرنا (۸)موہن بھاگوت کا ریزرویشن کے خلاف مدعا اٹھانا (۹) مودی کے ذریعہ بہاری کا ڈی این اے اور امیت شاہ کے ذریعہ بی جے پی کی ہار پر پاکستان میں پٹاخے چھوڑے جانے کا بیان دینا (۱۰) اور سب سے اہم ۱۸ ماہ سے مرکزی سرکار کی جملے بازی اور مہنگائی سے عوام کا بے حال ہونا ہے ،لیکن افسوس بی جے پی ترجمان ان حقائق کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کر رہا ہے اور بے غیرتی سے صرف اپوزیشن کے ٹھوس اتحاد کو ہی شکست کا سبب بتا رہا ہے ، نیزہار کے مذکورہ اسباب اور ذمہ داری کسی پر بھی عائد کرنے سے گریز کر رہا ہے جبکہ عالمی میڈیا اور تجزیہ نگار شکست کے ذمہ دار وزیر اعظم مودی اور بی جے پی صدر امیت شاہ کی جوڑی کومان رہے ہیں ،سہارا گروپ کے ایڈیٹر سید فیصل علی نے ایک بی جے پی ترجمان سے پوچھا کہ: اگر بہار میں بی جے پی کامیاب ہوتی تو اس کا سہرا یقیناً مودی اور امیت شاہ کے سر جاتا کیونکہ مودی نے بتیس ریلیاں کیں ،امیت شاہ ۴۵ ایام بہار میں ڈیرہ جمائے رہے اور الیکشن کی مانیٹرنگ کرتے رہے ،لیکن کیا اب شکست کی ذمہ داری بھی انہیں تسلیم کر لینی چاہئیں؟ انہوں نے بغلیں جھانکتے ہوئے جواب دیا :ہار جیت اجتماعی ہوتی ہے یہ این ڈی اے کی شکست ہے ،،جبکہ برٹش کا موقر اخبار دی گارجن نے صاف کہا ہے کہ ’’مودی کے اندر ووٹ حاصل کرنے کی صلاحیت ختم ہو گئی ہے ۔مرکز اور مہاراشٹر میں بی جے پی کی حلیف پارٹی شیو سینا نے اپنے اخبار ‘’سامنا‘‘میں لکھا ہے کہ ’’مودی کو شکست کی ذمہ داری قبول کر لینی چاہیے،جن کے پاؤ ں زمین میں نہیں ہوتے ہیں ان کا یہی حشرہوتا ہے ،یہ انتخاب ملک کے مستقبل کی سیاست کے لئے ٹرننگ پوائنٹ ہے، یہ بی جے پی کی شکست نہیں بلکہ خودکشی ہے ‘‘بی جے پی کے سابق مرکزی وزیرارون شوری نے مودی،شاہ اور ارون جیٹلی پر ہار کا ٹھیکرا پھوڑا ہے تو اب بی جے پی کے سینئر لیڈران لال کرشن اڈوانی ،مرلی منوہر جوشی ،یشونت سنہا اور شانتا کمار نے بھی مودی اور امیت شاہ کے خلاف مورچہ کھول دیا ہے ،ان لوگوں نے مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ:موجودہ لیڈر شپ کو بہار کی ہار کی ذمہ داری لینی چاہئے،الیکشن میں ہار کا تجزیہ وہ لوگ نہ کریں جو اس الیکشن کا انتظام دیکھ رہے تھے ،پارٹی کو چند افراد نے یرغمال بنا رکھا ہے ،، جبکہ بیگو سرائے سے بی جے پی ممبر پارلیامنٹ بھولا پرساد نے مودی اور شاہ کو خوب کھری کھری سنائی ہے ،شتروگھن سنہا تو پہلے سے ہی مودی اور شاہ کے خلاف بغاوت کا بگل بجا چکے ہیں ۔باوجود اس کے بقراط و سقراط نے ابھی تک شکست کی ذمہ داری نہیں لی ہے اور نہ ہی بی جے پی پارٹی میں کسی کی اوقات ہے کہ مودی اور شاہ کے گلے میں ذلت آمیز شکست کا ہار ڈالے ،کیونکہ اس وقت بی جے پی کا مطلب ہے مودی اور شاہ کی جوڑی ۔
بی جے پی کے ہی حکم دیو نارائن سنگھ ،اشونی کمار چوبے ،بہار کے سابق وزیر اعلیٰ اورہم کے صدر جیتن رام مانجھی ،لوج جن شکتی پارٹی کے چراغ پاسوان ہار کی وجہ موہن بھاگوت کے ریزرویشن والے بیان کوہی مانتے ہیں ،جبکہ یہ آواز اٹھنے کے فوراً بعد امیت شاہ بھاگوت کے دربار میں جا پہونچے اور صفائی دی کہ آپ کا بیان شکست کی وجہ نہیں ہے اور بدلے میں موہن بھاگوت نے امیت شاہ کو ڈانٹ پلا دی کہ ہمارے بیان کو عوام کو سمجھانے کے بجائے ایسا تاثر دیا گیا کہ گویا اس بیان پر بی جے پی اور آر ایس ایس مد مقابل ہے ۔
بہر حال بی جے پی پارلیمانی بورڈ نے اعلیٰ کمان کا دفاع کیا ہے ،اپنے آقا موہن بھاگوت کے بیان کو درست قرار دیا ہے اور شکست کی ذمہ داری مہاگٹھ بندھن پر پھوڑ دیا ہے ،تاہم ذمہ داران شکست اور اسباب شکست جو بھی ہوں ،بہار کے سیکولر عوام نے عدم رواداری اور نفرت و تشدد کے خلاف اتحاد کے ساتھ ووٹ دے کر این ڈی اے بالخصوص بی جے پی کا کچومر نکال دیا ہے ۔اور بتا دیا ہے کہ یہ جیت امن پسندوں کی ہے ،برائی پر اچھائی کی جیت ہے ،راون پر رام کی جیت ہے ،نفرت پر محبت کی جیت ہے ،عدم رواداری پر رواداری کی جیت ہے ، ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی جیت ہے ۔

«
»

فرانس پھرلہولہان!

غزل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے