مسلم آبادی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ…

ویسے امریکی تحقیقاتی ادارے PEW نے اپنے حالیہ ریسرچ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ اگلے 35برس میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کی رفتار دوگنی ہوجائے گی۔ اور وہ 2.76بلین تک پہنچ جائے گی۔ ہندوستان میں مسلم آبادی دنیا کی کسی بھی مسلم ملک کی آبادی سے تجاوز کرجائے گی اور انڈونیشیا سے سبقت لے جائے گی۔ مسلم آبادی میں اضافہ کی رفتار تیز ہونے کی کئی وجوہات بتائی گئی ہیں۔ سب سے پہلے تو مسلم خواتین پر اللہ کی خاص رحمت ہے کہ ان میں سے اکثریت صاحب اولاد ہوتی ہیں‘ دیگر مذاہب کی خواتین کے مقابلے میں یہ کثیر العیال ہوتی ہیں مثال کے طور پر ہر ایک مسلم خاتون کو اوسطاً تین بچے تولد ہوتے ہیں۔ جبکہ عیسائی خواتین کی اوسط 2.7 اور دیگر غیر مسلم خواتین کی اوسط 2.3 ہے۔ بہت کم مسلم خواتین بانجھ پن کی شکار ہوتی ہیں۔ توکل، قناعت بھی مسلمانوں کی کثیر العیال کی ایک وجہ ہے کیوں کہ صاحب ایمان مسلمانوں کا یہ ایقان ہے کہ دنیا میں آنے والا ہر بچہ اپنا رزق ساتھ لاتا ہے۔ گذشتہ 60برس کے دوران دیگر اقوام کی طرح بعض مسلمان بھی بچہ اور زچہ کی صحت ایک چھوٹا خاندان خوشحال خاندان کے پُرفریب نعروں سے متاثر ہوکر خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کرنا شروع کیا اس کے علاوہ میڈیکل سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے منفی اثرات کو قبول کرتے ہوئے جنس کے تعین کے امتحانی مراحل سے گذرتے ہوئے دختر کشی کے جرم کے بھی مرتکب ہوئے ورنہ مسلم آبادی میں اور بھی اضافہ ہوتا۔
مسلمان دنیا کی دوسری بڑی اکثریت ہے۔ تقریباً پچاس مسلم ممالک ہیں۔ سعودی عرب کی صدفیصد آبادی مسلمان پر مشتمل ہے۔ بیشتر مسلم ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں تاہم یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بیشتر مسلم ممالک داخلی انتشار کی شکار ہیں یا پھر اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں یا پھر دہشت گردی کے الزامات کی آڑ میں ان ممالک پر دوسرے ممالک حملہ آور ہوتے رہتے ہیں جن سے ان کی معیشت تباہ و برباد ہوتی ہے۔ گذشتہ پچاس برس کا جائزہ لیا جائے تو یہ شرمناک حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ مسلم ممالک یا عالم اسلام اس نصف صدی کے دوران تباہ و برباد ہوتا رہا۔ 1965ء میں ہند۔پاک جنگ، 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ، صومالیہ کی خانہ جنگی، ایران۔عراق جنگ، 1991ء کی خلیجی جنگ، بوسینیا کا بحران، چیچنیا کی جنگ، کوسوو کی لڑائی، 1982 سے 2000ء تک 18برس تک جنوبی لبنان کا تنازعہ، 1948ء سے آج تک کشمیر کا تنازعہ 1999ء میں ہند۔پاک کارگل جنگ، 2001 سے اب تک جاری افغانستان کی جنگ، 2003ء میں عراق پر حملہ، لبنان پر شام کا قبضہ، سوڈان کی خانہ جنگی، 2006 کی لبنانی جنگ، چیچنیا میں جاری دوسری جنگ، شمال مغربی پاکستان کی خانہ جنگی، صومالیہ کی 2009ء کی جنگ، بہار عرب 2011ء، لیبیا میں جنگی مداخلت، شام کی خانہ جنگی، نائیجریا میں شورش، اسرائیل۔غازہ تنازعہ۔ یہ تو روز مرہ کے معاملات میں شامل ہوچکے ہیں۔ اب سعودی عرب جیسے امن پسند ملک میں بھی داعش کی دہشت گردی کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہ تو بات تھی مسلم ممالک کی۔ چین، فلپائن، مائنمار میں مسلمانوں کی نسل کشی، وقتاً فوقتاً کی جاتی رہی ہے۔ پاکستان، عراق، شام، جیسے ممالک میں مسلم آبادی پر کنٹرول یا خاتمہ کے لئے غیر مسلم دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ آپس میں دشمنوں کا رول نبھالیتے ہیں۔
جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے 1857ء کے غدر میں انگریزوں نے مسلمانوں کا خون بہایا۔ 1947ء کے بعد انگریزوں کے کھدرپوش اور خاکی نیکر والے ایجنٹس نے مسلمانوں کو جانی اور مالی نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ آزادی سے لے کر آج تک 50ہزار سے زائد مسلم کش فسادات ہوئے۔ ستمبر 1948ء میں پولیس ایکشن کے نام پر حیدرآبادی مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ ممبئی، گجرات، بھاگلپور، ہاشم آباد، ملیانہ، جلگاؤں، میرٹھ، مظفرنگر اور جانے کہاں کہاں مسلم دشمن طاقتوں نے سرکاری سرپرستی میں مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی۔ مگر مسلمانوں کا معاملہ شاخ زیتون کی طرح ہے۔ ایک پتا ٹوٹتا ہے کئی نئے پتے نمودار ہوتے ہیں اور دشمن ہر مردم شماری کے بعد ہاتھ مل مل کر دل ہی دل میں یہ کہنے کے لئے مجبور ہوجاتے ہیں ’’کیا بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں تمہاری‘‘۔
مسلمان بلاشبہ آج آبادی کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے مگر اس حقیقت سے ہم انکار نہیں کرسکتے کہ جن کی آبادی مٹھی بھر ہے یا مسلمانوں کے مقابلے میں کم ہے وہ ہر شعبہ حیات میں مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب اور ترقی یافتہ ہے۔ چاہے وہ تعلیمی میدان ہوں، یا سائنس و ٹکنالوجی یا پھر صنعت و تجارت اور معاشیات کے شعبے جات ہوں۔ مسلمان کہیں کہیں کبھی کبھار نظر آجاتے ہیں اور ان میں سے بھی بیشتر صرف نام کے مسلمانوں ہوتے ہیں عمل اور کردار دوسروں سے بھی زیادہ گھناؤنا ہوتا ہے۔ انہیں قوم اپنا اثاثہ سمجھتی ہے‘ اور وہ خود کو قوم سے الگ تھلگ رکھنے میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔
مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے بلاشبہ دشمنان اسلام خوفزدہ ہیں۔ انہوں نے اسلاموفوبیا کی ایک نئی اصطلاح ایجاد کی اور ایک منظم طریقہ سے اسلام کو پھیلنے سے روکنے کے لئے کوشاں ہیں۔ جب وہ اپنی اس کوشش میں ناکام ہوتے ہیں تو مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے دس خطرناک ممالک میں 8مسلم ممالک ہیں جن میں پاکستان سرفہرست ہے۔ سوڈان، شام، عراق، افغانستان ان خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔
ہندوستان میں بھی مسلمانوں کے خلاف صیہونی اور مغربی سازشوں کے تحت کارروائی کی جاتی رہی ہے۔ پہلے دینی مدارس کو نشانہ بنایا جاتا رہا کیوں کہ دشمنان اسلام اس حقیقت سے واقف ہیں کہ دینی مدارس اسلام کے مضبوط قلعے ہیں۔ ان مدارس سے نکلنے والے طلبہ جب ابنائے وطن میں دین اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی دیگر مذاہب کے لوگ اس کی حقانیت سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ اگر وہ دائرہ اسلام میں داخل نہ بھی ہوں تب بھی وہ اسلام اور مسلمانوں سے متعلق اپنی نظریات بدلنے کے لئے مجبور ہوجاتے ہیں۔ جب مدارس کے خلاف سازشیں ناکام ہوئیں تو انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے مسلم نوجوانوں کو اپنا نشانہ بنایا۔ سائنس و ٹکنالوجی، انجینئرنگ جیسے شعبہ جات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے مسلم نوجوانوں کو ان کے اسلامی کردار اور وضع قطع کو بنیاد بناکر دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی اور دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ پہلے دینی مدارس کے طلبہ اور اب عصری تعلیم حاصل کرنے والے مسلم نوجوان بھی دہشت گرد ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ یہ سازشیں بھی اکثر و بیشتر ناکام ثابت ہونے لگی ہیں۔
ہندوستان میں یا دنیامیں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے۔ تو اس میں بہت زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا کہ قیامت سے قریب مسلمان اکثریت میں ہوں گے۔
آبادی کے لحاظ اکثریت میں ہونا کمال نہیں جب مسلمان تعداد میں کم تھے تو ان کا رعب و دبدبہ ساری دنیا پر طاری تھا کیوں کہ اخلاق و کردار کے لحاظ سے مضبوط تھے۔ اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا تھے۔ چند سو مسلمان ہزاروں کے لشکر پر غالب آجاتے تھے کیوں کہ ان کے لئے دنیا قید خانہ کے مماثل تھے۔ آج مسلمان کروڑوں کی تعداد میں ہیں مگر ان کا کوئی وزن نہیں۔ کوئی حیثیت نہیں۔ کوئی آواز نہیں۔ جہاں تک اس ملک کا تعلق ہے ہماری آبادی تو الحمدللہ! بڑھتی جارہی ہے مگر قانون ساز ایوانوں میں ہماری نمائندگی کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔حالیہ عرصہ کے دوران مسلم خواندگی کے تناسب میں بھی اضافہ ہوا مگر بے روزگاروں کی شرح بڑھ گئی اس لئے کہ ہم ڈگری یافتہ جاہلوں کو پیدا کرتے ہیں اور جن کی تعداد ہم سے بہت کم ہے وہ اپنی قابلیت کے لحاظ سے ہم سے آگے ہے یہی وجہ ہے کہ کل تک جنہوں نے ہماری جوتیاں اٹھائی تھیں آج ہم ان کی محکوم ہیں۔ اس لئے آبادی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ضرورت اس بات کی ہے کہ قابل مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ ہر شعبہ حیات پر ہمارا اثر ہو اور اس ملک کا نظام ہمارے فیصلوں کے مطابق ہو۔

«
»

فرانس پھرلہولہان!

غزل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے