غزل

ہر سخن ہر حرف میں ہر شعر میں
آپ ہی کی گفتگو کرتے ہیں ہم
لاکھ چہرے کو چھپائیں وہ مگر
آئینہ تو روبرو کرتے ہیں ہم
آپ بھی خنجر کو دیں آرام کچھ
اور دامن کو رفو کرتے ہیں ہم
غیر سے شکوہ شکا ئت چھوڑئیے
اپنی باتیں دو بدو کرتے ھیں ہم
کھو گئے ما ضی میں جو چہرے شکیل
ان کی خوا ہش کو بکو کرتے ہیں ہم 

غزل

الیزی بیتھ کے مونا

زندگی ہی مری بن گئی ہے غزل
ساتھ جب سے مرے چل پڑی ہے غزل

مہکی مہکی فضائیں ہیں چاروں طرف
جب سے باغِ سخن میںِ کھلی ہے غزل

وہ کہیں اوس ہے موتیوں کی طرح
تو کہیں آنسووں کی نمی ہے غزل

بات کرتی نہیں صرف محبوب کی 
وقت کے ساتھ اب چل رہی ہے غزل

ایک شاعر پہ رب کا کرم دیکھیے 
اک عطا بن کے اُس کو ملی ہے غزل

ساتھ دینے ردیف آگے آگے چلے 
قافیوں کو جو لے کر چلی ہے غزل

وہ دھلے آسماں پر دھنک رنگ ہے 
سات رنگوں کی جادوگری ہے غزل

اُس نے اٹھ کر جگایا مجھے نیم شب
اس طرح بھی کبھی جاگ اٹھی ہے غزل

لب پہ ہے واہ تو، آہ دل سے اُٹھی 
بزم میں ساز پر جب چھڑی ہے غزل

سُننے والے تو مدہوش ہی ہوگئے 
جب کسی نے مرصّع کہی ہے غزل 

بھائے موناؔ نہ کیوں اُس کی اِک اِک ادا
خوبصورت بہت، چلبلی ہے غزل

«
»

جھوٹ بولے تو بولتے چلے گئے

بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اِتراتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے