ماؤلنکرہال کی آواز پر مسلمان کہیں لبیک

کیا یہ واضح نہیں کرتا کہ وہ 900 سے زیادہ ملک کے لئے قابل فخر دانشوروں کی آواز کو کانگریس اور بائیں بازو کی سازش سے زیادہ کچھ بھی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں؟
ایوارڈ واپس کرنے والی کرشنا سوپتی جو سب سے زیادہ بزرگ معمر اور معذور ہونے کی وجہ سے وہیل چیئر پر تشریف لائی تھیں۔ انہوں نے درد بھرے لہجہ میں فرمایا کہ میں ملک کو بیدار کرنے اور اسے کسی بڑی مصیبت سے بچانے کے لئے یہاں اس حالت میں آئی ہوں۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ ہماری ناراضگی پر جو لوگ سوال اُٹھا رہے ہیں وہ پڑھیں کہ ہم نے کانگریس کے دور اقتدار میں بھی ایوارڈ واپس کئے تھے۔ محترمہ نے فرمایا کہ بابری سے لے کر دادری تک جو کچھ ہوا اسے آر ایس ایس کے لوگ بہادری سمجھتے ہیں۔ جبکہ یہ بہادری نہیں بزدلی ہے۔ انہوں نے آغے کہا کہ یہ بہت خطروں کا وقت ہے۔ اس لئے ہم سب کو بیدار ہونا چاہئے۔ اسی اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ ہم نے ایمرجنسی کی مخالفت میں اور 1984 ء میں سکھوں کے قتل عام نیز 2002 ء میں گجرات میں ہوئے شرمناک واقعات کے وقت بھی آواز بلند کی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا احتجاج کبھی نہیں ہوا ہے اور اتنے بڑے بڑے اتنی تعداد میں کبھی نہیں سامنے آئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کانگریس کے دَور میں جو ہوا وہ کس فرد کا اور وقتی مسئلہ تھا۔ لیکن آج سب یہ سمجھ رہے ہیں کہ آنیو الے ساڑھے تین برس پوری حکومت کا پٹری سے اُترکر چلنا ملک کو اس قابل نہیں چھوڑے گا کہ پھر اسے برسوں کی محنت کے بعد بھی کوئی پٹری پر لاسکے۔
کیا یہ معمولی بات ہے کہ پروفیسر ایم ایم کلبرگی مسٹر گووند پانسرے چوٹی کے مدبر اور مفکر تھے وہ مسلمان بھی نہیں تھے۔ صرف ان کے افکار اور ان کے سوچنے کا ڈھنگ الگ تھا۔ یہ ملک برداشت نہ کرے اور انہیں موت کی سزا دے دی جائے؟ اور قاتل گرفتار نہ ہوں؟ بیشک مودی صاحب کو ملزم نہیں قرار دیا جاسکتا لیکن اخلاق کے قتل کا جو سبب بیان کیا گیا کہ اس کے گھر میں گائے کا گوشت رکھا ہے اور اس کا مندر سے اعلان کیا گیا اور خود ہندوؤں کے کہنے کے مطابق ایک ہزار سے زیادہ ہندو تحقیق کرنے کے لئے نہیں اسے قتل کرنے کے لئے پہونچ گئے۔ کیا یہ اس لئے نہیں تھا کہ جنہوں نے یہ سب کیا انہیں اطمینان تھا کہ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑے گا۔ اُترپردیش میں حکومت بیشک ملائم سنگھ کی ہے لیکن پولیس سردار پٹیل کی مہربانی سے ہندو ہے۔ وہ اگر تماشہ دیکھتی رہی یا اس نے آتے ہی دنگائیوں پر گولی نہیں چلائی تو اس کی وجہ اس کے علاوہ کیا تھی کہ اخلاق بھی مسلمان تھے اور ان کا بیٹا بھی مسلمان تھا۔
ماؤلنکر ہال کے اس انتہائی عظیم اور بامقصد اجلاس میں شکر ہے کہ کئی نمایاں مسلمان شریک تھے حیرت اس پر ہوئی کہ اردو کے چوٹی کے شاعر منور رانا کیوں نہیں تھے؟ اُمید تو نہیں ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ انہیں مدعو نہ کیا گیا ہو۔ اگر ایسا تھا تب بھی ایک مخلص کی حیثیت سے ہمارا خیال ہے کہ انہیں وہاں شریک بھی ہونا چاہئے تھا اور بولا تھا بھی چاہئے تھا۔ ان کے دوست اور ہر بڑے مشاعرے میں ان کے ہم پلہ سمجھے جانے والے راحت اندوری نے ایوارڈ واپسی کی تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اتنا ہی بڑا قدم ہے جیسے اسمبلی میں بھگت سنگھ کا بم پھینکنا۔ انہیں بھی منور رانا کے ٹی وی سوشل میڈیا میں بیانات سے دُکھ ہوا ہے۔ انہوں نے بھی کہا کہ منور سے کہیں نہ کہیں چوک ہوئی ہے۔ مودی کو بے ضرورت بار بار بڑا بھائی کہنا اور جوتے اٹھانے کا محاورہ کے طور پر استعمال کرنا کچھ زیادہ ہوگیا۔
سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ مودی سرکار کے ہر وزیر نے اتنی بڑی تحریک کو کانگریس کا کھیل بتاکر اس کا قد کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ صدر محترم نے بھی دو بار اس ماحول پر اپنی تشویش کو ظاہر کیا ہے اور یہ معمولی بات نہیں ہے۔ 1961 ء میں جبل پور سے شروع ہونے والی مسلم کشی جس نے نہ جانے کتنے ہزار مسلمانوں کی جان لی اور نہ جانے کتنے خاندان کو برباد اور مواضعات کو تاراج کئے اور جو جمشید پور، بھاول پور، کلکتہ، راوڑکیلا، اُترپردیش کے مراد آباد میرٹھ، فیروز آباد اور ہر شہر سے ہوتی ہوئی گجرات میں 2002 ء میں سانس لینے کے لئے رُکی تب بھی کل ہونے والے ماؤلنکر ہال سے کہیں کم کوئی اجتماع نہیں ہوا۔ دانشوروں، ادیبوں اور قلمکاروں سے انفرادی یا کہیں کہیں اجتماعی طور پر جو ہوسکا وہ انہوں نے ضرور کیا۔
اس وقت بھی بات شاید یہ تھی کہ ہر کوئی اسے وقتی ابال سمجھ رہا تھا لیکن یہ ماحول اس وقت بھی تھا کہ دنگائی اور فسادی کو یہ یقین تھا کہ اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا؟ جس کا ثبوت اس سے بڑا کیا ہوگا کہ پورے بہار، بنگال، اُڑیسہ، اُترپردیش اور مہاراشٹر میں کسی ایک ہندو کو یا پولیس والے کو نہ سزا ہوئی نہ اس پر جرمانہ ہوا۔ آج کل ایک بہت بڑا ہندو دہشت گرد چھوٹا راجن میڈیا کا موضوع بنا ہوا ہے۔ اس کے کارناموں اور اس کی داؤد ابراہیم سے دشمنی بھی تذکرہ میں آرہی ہے اور داؤد ابراہیم کا 1993 ء میں بم دھماکوں سے رشتہ کوئی نہیں بھولتا لیکن سب نے قسم کھالی ہے کہ جسٹس سری کرشنا کی رپورٹ میں جن ہندو تنظیموں کی طرف اور پولیس کی شرکت اور چشم پوشی کے متعلق اشارہ کیا ہے اس کی سزا تو کیا اس کا ذکر بھی نہیں کیا جائے گا صرف اس لئے کہ وہ سب کے سب ہندو ہیں۔ جنہیں دہشت گرد کہنا بھی جرم ہے۔
آج ابتدا دادری سے نہیں کرناٹک سے ہوئی ہے اور محمد اخلاق سے نہیں پروفیسر ایم ایم کلبرگی سے ہوئی ہے۔ اگر بات صرف اخلاق یا مین پوری اور ہماچل یا گائے تک رہتی تو شاید ماؤلنکر ہال تو کیا جنتر منتر پر بھی دس بیس دانشور مشکل سے جمع ہوتے۔ اب اگر مسلمانوں نے اسے اپنی مکمل حمایت دے کر اسے اپنانے میں کوتاہی کی تو بہت بڑا نقصان ہوگا۔
بہار کا الیکشن وہ الیکشن ہے جو ہر پانچ سال کے بعد ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس سال ہونے والے الیکشن میں بہت کچھ بدلا ہوا ہے۔ جیسے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا اپنے سب سے بڑے حریف شری لالو یادو سے مل کر الیکشن لڑنا یا لالو اور نتیش کا سب سے پرانی دشمن پارٹی کانگریس کے ساتھ محاذ بنانا۔ جسے مودی صاحب یہ کہنے کے بجائے کہ کانگریس لالو کی گود میں بیٹھ گئی ہے یہ کہہ رہے ہیں کہ لالو اور نتیش کانگریس کی گود میں بیٹھ گئے ہیں۔ یہ سب بیشک اتنا ہی بے تکا ہے جتنا یہ کہ رام ولاس پاسوان اور مانجھی شری مودی کے سایہ میں الیکشن لڑرہے ہیں۔ یا بی جے پی کا صدر کہہ رہا ہے کہ اگر بی جے پی ہار گئی تو پاکستان میں پٹاخے چھوٹیں گے۔ اور یہ کہنا کہ لالو نتیش جیت گئے تو بہار میں گلی گلی گائے کے گوشت کی دکانیں کھل جائیں گی۔
اور اس سے زیادہ نئی بات کیا ہوسکتی ہے کہ بی جے پی کے صدر کے ہوتے ہوئے اور بہار کے صوبائی لیڈروں کی فوج ہوتے ہوئے یا وزیر ہوتے ہوئے وزیر اعظم کے متعلق این ڈی ٹی وی انڈیا کے رپورٹر منورنجن بھارتی کہیں کہ پانچویں دَور کے لئے مودی نے ساری طاقت جھونک رکھی ہے۔ پورا ملک حیران ہے کہ کیا ملک نے 280 سیٹیں جتاکر اور 31 فیصدی ووٹ دے کر اس لئے انہیں وزیر اعظم بنایا تھا کہ وہ صوبوں میں ہونے والے الیکشن لڑائیں یا دوسرے ملکوں کی سیر کریں اور خود انہوں نے لوک سبھا کے الیکشن سے پہلے وعدوں کی جو جھڑی لگائی تھی اس کا ذکر نہ کرکے دونوں سے ہر جلسہ میں 25 سال کا حساب مانگیں؟ اور ملک میں ہونے والے اتنے اہم معاملات کے بارے میں جن سے پوری دنیا میں ملک کی بدنامی ہورہی ہے یا تو کچھ نہ کہیں اور اگر کہیں تو وہی جو بھاگوت صاحب کہہ رہے ہیں یا راج ناتھ اور جیٹلی جو اور زیادہ شرم اور ندامت کی بات ہے۔
پنڈت نہرو کے زمانہ میں تو یہ لعنت تھی ہی نہیں لیکن اندرا گاندھی اور ان کے بعد کے وزیر اعظم کوئی ایسا نہیں ہے جس کے زمانہ میں صوبائی الیکشن نہ ہوئے ہوں؟ کیا مودی صاحب بتا سکتے ہیں کہ کسی بھی وزیر اعظم نے ان سے آدھی تقریریں کی ہوں۔ یا کسی ایک نے وہ زبان استعمال کی ہو جو مودی مخالفوں کے لئے ہر دن کررہے ہیں اور جس کے بارے میں پوری ذمہ داری سے ہم لکھ رہے ہیں کہ وہ فاتح بدہن۔ اگر جیت بھی گئے تو ہار سے بدتر یہ جیت ہوگی اور اگر ہار گئے اور اس کے بعد انہوں نے استعفیٰ دے کر اقتدار میں رہنے سے توبہ نہ کی تو تاریخ انہیں جن شرمناک جملوں سے یاد کرے گی وہ زندگی بھر ان کے ضمیر میں چبھتے رہیں گے۔(

«
»

جھوٹ بولے تو بولتے چلے گئے

بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اِتراتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے