مدارس کے ضعیف العمر اوربیمار اساتذہ

ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگانے والے حضرات ان کے نظام تعلیم وتربیت سے واقف نہیں ہیں یا پھر وہ تعصب میں گرفتار ہیں اور مسلم دشمنی میں منفی باتیں کرتے ہیں۔ملک کی آزادی اور اس کی تعمیر وترقی میں فضلائے مدارس وجامعات کا بڑا اہم کردار رہا ہے ۔۱۵؍اگست اور ۲۶؍جنوری کے موقع پر بہت سی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں اور ان میں مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو یاد کیا جاتا ہے ،ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہم اس سلسلے میں تحریر وتقریر کے ذریعے فیض یافتگان مدارس وجامعات کی قربانیوں اور ان کی خدمات سے ملک کی نئی نسل کو واقف کرائیں۔
ملک کے نونہالوں کی تعلیم وتربیت میں جن حضرات نے اپنی جوانی کے بیش قیمت ماہ وسال لگادیے ،یہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ ایسے حضرات کی ضعیفی اور بڑھاپے کے لیے نہ ملک کوئی انتظام کرتا ہے اور نہ ہماری ملت ان کے بارے میں فکر مند ہے ۔ریٹائرمنٹ کی عمر کے بعد بھی ان میں بعض حضرات کی خدمات کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک ان کے جسم میں جان باقی رہتی ہے لیکن یہی اساتذہ کرام اگر تدریس کے دوران یا ضعیفی میں کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہوجائیں جس پر دوچار لاکھ روپے خرچ ہورہے ہوں تو کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا۔مدارس وجامعات میں اساتذہ کرام کو جو مشاہرہ دیا جاتا ہے وہ بہت کم ہوتا ہے ،اس میں بہ مشکل وہ اپنی فیملی چلاپاتے ہیں۔اس قلیل آمدنی میں بچت کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔اپنے بچوں کی شادی یا اپنے ذاتی گھر کی تعمیر ان کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں۔
سرکاری تعلیمی اداروں میں تدریسی خدمات انجام دینے والے اساتذہ اپنے مستقبل کو لے کر بہت زیادہ فکر مند نہیں ہوتے بلکہ انھیں اطمینان ہوتا ہے کہ سرکاری سطح پر ان کے لیے ایک قابل لحاظ رقم مختص ہوچکی ہے جوذمہ داری سے سبک دوش ہونے کے بعد انھیں مل جائے گی یا پنشن کے نام سے تاحیات ایک معقول رقم انھیں ملتی رہے گی جس سے ان کا بڑھاپا سکون کے ساتھ گزر جائے گا۔اس کے برعکس دینی مدارس وجامعات میں جو محترم اساتذہ کرام تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں ،وہ اپنے مستقبل کو لے کر بہت فکر مند ہوتے ہیں ۔ملک اور ملت کے بچوں کی تعلیم وتربیت کا فریضہ انجام دینے والوں میں یہ فرق وامتیاز حددرجہ تکلیف دہ ہے ،اس سلسلے میں ملک کو بھی سوچنا چاہئے اور ملت کو بھی۔دینی مدارس کے تعلق سے جو منفی سوچ اس ملک میں بنی ہوئی ہے اور جو اب کسی حد تک مستحکم ہوتی جارہی ہے ،اس کے ہوتے ہوئے مدارس کے اساتذہ کو سرکاری طور پر کوئی سہولت یا مدد حاصل ہوگی ،اس کا تصور بھی محال ہے۔کیا ملت اس سلسلے میں کچھ کرسکتی ہے یا وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہے ،اس پر ہمیں ضرور سوچنا چاہئے۔
بار بار یہ خیال دل ودماغ کو پریشان کرتا ہے کہ ہم سیکولر اور لادینی نظام کے مقابلے میں کسی دینی نظام کو کیسے کامیاب بناسکتے ہیں اور کیسے کسی شخص سے کہہ سکتے ہیں کہ اہل اسلام جو نظام چلاتے ہیں ،اس میں انسان کے بنیادی حقوق محفوظ ہیں ۔جس استاذ نے مشقت کی زندگی گزاری ہے اور جس کے بچوں نے اپنے باپ کو چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے دوسروں سے قرض مانگتے دیکھا ہے اور گھر میں عسرت اور تنگی کی زندگی دیکھی ہے کیا ان بچوں کے دل میں اس نظام کے تئیں کوئی ہم دردی پیدا ہوسکتی ہے بلکہ وہ اس نظام سے بے زار ہوجائیں گے اور اپنے باپ کو دنیا کا سب سے زیادہ ناکام انسان سمجھیں گے۔ایک طرف دینی مدارس وجامعات کے اساتذہ کی تصویر یہ ہے لیکن دوسری طرف ان کی انتظامیہ یا صدر اور ناظم کی تصویر دوسری ہے۔ان کے پاس زندگی کی ساری آسائشیں ہیں۔گھروں میں ان کی خواتین بیش قیمت لباس زیب تن کرتی ہیں،زیورات سے لدی رہتی ہیں ،پورا گھر خوشبو سے مہکتا رہتا ہے اور کھانے پینے کی اشیا کی فراوانی ہر وقت ان کے دستر خوان پر ہوتی ہے۔اس قبیلے کی اکثریت اپنے بچوں کو ان کے اپنے مدارس وجامعات میں تعلیم نہیں دلاتی بلکہ ان کے بچے عصری تعلیمی اداروں میں بھاری بھرکم فیس ادا کرکے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔حیرت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب یہ دیکھا جاتاہے کہ انتظامیہ کی خاصی بڑی تعداد کے پاس کوئی خاص ذریعہ آمدنی نہیں ہے لیکن ان کے اخراجات کم ہونے کا نام نہیں لیتے۔بلکہ ہر دوتین سال بعد گراں قیمت نئی گاڑیاں دروازے پر جھومتے ہاتھی کی طرح نظر آتی ہیں۔
ممکن ہے بعض حضرات پوری درد مندی کے ساتھ یہ بات کہیں کہ سرکاری اور پرائیویٹ نظام میں یہ فرق تو رہے گا ہی۔مدارس کے پاس اتنی رقم کہاں ہے کہ وہ اپنے بیمار اساتذہ کا علاج کراسکیں یا خدمات سے سبک دوش کیے جانے کے انھیں کوئی پنشن جاری کرسکیں۔جن حالات میں اس ملک میں دینی مدارس اپنا کام کررہے ہیں ،اس میں یہی کیا کم ہے کہ وہ طلبہ کے قیام وطعام اور اساتذہ کے مشاہروں کا انتظام کرلیتے ہیں۔اس کے لیے مدارس کی انتظامیہ شب وروز محنت کرتی ہے اور لوگوں سے ان کی زکوۃ،صدقات اور عطیات جمع کرکے کسی نہ کسی طرح اس نظام کو قائم رکھنے میں کامیاب ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مدارس کا نظام چلانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ملت کو مدارس کی انتظامیہ کی ان خدمات واحسانات کا اعتراف ہے لیکن اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ اسی نظام سے ایک ایسی چیز کو نہ جوڑا جائے جو انسان کے بنیادی حقوق سے تعلق رکھتی ہے ۔کیا اسلام اتنا سنگ دل ہوسکتا ہے کہ ایک استاذ کی جوانی وتوانائی کا ایک ایک قطرہ کشید کرلینے کے بعد اسے بڑھاپے میں بے یارومدد گار چھوڑ دے یا اس کی بیماری میں اسے سہارا نہ دے۔جس استاذ نے ملت کی دوتین نسلوں کی تربیت کی ہے ،جن کے دلوں میں اپنے لیے احترام پیدا کیا ہے ،اب اپنی ضعیفی اور بیماری میں سماج کے سامنے اپنی عزت نفس اور خودداری کو نیلام کردے۔پنشن جاری کرنے یا کسی ہنگامی صورت حال میں کوئی خاص مدد بہم پہنچانے کا نظام پوری دنیا میں مروج ہے ۔انسانی حقوق کے تعلق سے دنیا اب اس قدر آگے جاچکی ہے کہ کارخانوں کے مزدوروں کے بھی حقوق متعین ہیں۔کسی ناگہانی کے موقع پر ان کو یا ان کے بچوں کو سہارا ملتا ہے ۔ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم ابھی تک انسان کے بنیادی حقوق کا نہ ادراک کرسکے ہیں اور نہ اپنے دینی سماج کو اس کی تفہیم کراسکے ہیں۔ذیل میں چند ایک تجاویز ملت، مدارس کی انتظامیہ اور فیض یافتگان مدارس کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کی جارہی ہے ،امید ہے کہ ان پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا اور اہل قلم سے درخواست ہے کہ اس سلسلے میں آپ اپنی تجاویز اور مشوروں سے بھی نوازیں تاکہ ایک مسئلے کی سنگینی کا احساس پیدا کیا جاسکے اور اپنے بچوں کے اساتذہ کرام کی عزت وناموس کی حفاظت ہوسکے۔
(۱)مدارس کے نظام میں پنشن کی اسکیم پر غور کیا جائے۔بعض دینی مدارس نے اپنے یہاں یہ اسکیم نافذ کررکھی ہے ،ان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے ۔ہماری حکومت پنشن کی اسکیم کو کیسے چلاتی ہے ،اس کے ماہرین سے مشورہ لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔اساتذہ کرام کو جو مشاہرہ دیا جاتا ہے ،اسی سے کچھ رقم ماہ بہ ماہ مختص کی جائے اور اس کا الگ حساب کتاب رکھا جائے ۔کسی استاذ کو کوئی ہنگامی ضرورت پیش آئے تو اس کی مدد کی جائے۔اس نظام کو شفافیت کے ساتھ قائم کیا جائے ۔انتظامیہ اساتذہ کے درمیان کوئی فرق وامتیاز نہ کرے اور نہ عزیز واقارب کو بغیر کسی وجہ کے ترجیح دینے کی مذموم کوشش کی جائے۔اسلام عدل وقسط،مساوات اور انصاف کا علم بردار مذہب ہے ،اگر اس کے اپنے گھر میں اس کا یہ امتیاز نمایاں نہیں ہوتا تو پھر کوئی ضرورت نہیں ہے کہ زبان سے اسلام کا نام لیا جائے ،اللہ کا دین ایسے دوہرے کردار کے حاملین کا محتاج نہیں ہے۔ایک چھوٹے سے دینی نظام میں اسلام کی بنیادی تعلیمات کی دھجیاں بکھیر کر جو تعفن ہم پھیلاتے ہیں،اس سے ہمارا پورا سماج بیمار ہوجائے گا ۔پیٹ بھرنے کے لیے کوئی دوسرا پیشہ اختیار کیا جاسکتا ہے ،کسی پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن اسلام کے نام پر یہ اجازت کسی کو ہرگز نہیں دی جاسکتی کہ وہ امانت میں خیانت کرکے ایک بابرکت اور پاکیزہ نظام کو اپنی خواہشات کا آلۂ کار بنالے۔
(۲)ملت کے سرمایہ دار اور اصحاب ثروت حضرات سے درخواست کی جائے کہ وہ اس اہم اور سنگین مسئلے کو سمجھیں ۔مدارس کو تعاون دیتے وقت الگ سے ایک خاص رقم اس اسکیم کو قائم کرنے کے لیے دیں اور انتظامیہ کو مجبور کریں کہ وہ اپنے ضعیف العمر اور بیماراساتذہ کے لیے اس کا انتظام کرے ۔صرف یہی نہیں بلکہ یہ بھی دیکھیں کہ اس اسکیم پر عمل کیا جارہا ہے یا نہیں۔رفاہی ادارے اور عطیہ دہندگان کی ہی سستی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے مدارس کے نظام میں بے اعتدالی کو راہ مل گئی ہے ۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی اکثریت غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے ۔محرومیوں کا شکار یہ بچے جب میدان عمل میں اترتے ہیں تو خود اعتمادی اور کسی حدتک جراء ت اور ہمت سے تہی دست ہوتے ہیں۔مجبوری میں بہت کچھ سہتے اور برداشت کرتے ہیں۔لیکن کیا ایسا استاذ اپنے طلبہ میں وہ کردار پیدا کرسکے گا جو سماج کی دینی قیادت کے لیے مطلوب ہے۔اگر ملت کے اصحاب ثروت بیدار ہوجائیں تو اس عذاب سے اساتذہ کو باہر نکالا جاسکتا ہے۔ رفاہی ادارے ملت کا عظیم سرمایہ ہیں ۔اگر ملت نے ان پر اعتماد کیا ہے تو ان کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ اس اعتماد کو مجروح نہ ہونے دیں۔بعض رفاہی ادارے جدید تقاضوں کے پیش نظر کمپیوٹر،سلائی مشین اور دست کاری کے دوسرے آلات خوش دلی سے فراہم کرتے ہیں۔لیکن پھر پلٹ کر نہیں دیکھتے کہ ان کا کیا ہورہا ہے۔کسی مہمان، عطیہ دہندہ یا رفاہی ادارے کے سربراہ کی آمد پر مہینوں سے بند پڑے کمپیوٹر لیب میں جو جھاڑ پونچھ کی جاتی ہے،مشینوں پر جمی دھول کی تہہ صاف کی جاتی ہے اور وقتی طور پر جو چمک دمک اور سیکھنے سکھانے کا تسلسل دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے ،یہ ملت کی امانت میں بدترین قسم کی خیانت ہے ۔اس سے ماہرین علوم شریعت کو تو بہر حال دور رہنا چاہئے۔یہ ملت اور اس کے بچوں کے ساتھ انصاف نہیں ہے کہ کسی رفاہی ادارے سے انجینئرنگ کالج کی عالی شان عمارت تعمیر کرالی جائے اور پھر اسے چمگادڑوں کا مسکن بناکر چھوڑ دیا جائے یاکسانوں کو اجازت دے دی جائے کہ تم اس میں اپنے جانوروں کا بھوسہ بھرلیا کرو۔اللہ کی کتاب کے نام پر اکیڈمی کی بھاری بھرکم عمارت بنادی جائے اور پھر اسے سیلن کھانے کے لیے خالی چھوڑ دیا جائے۔اگر آنکھیں سلامت ہیں،بصیرت زندہ ہے ،ضمیر مرا نہیں ہے تو ان عجائبات کا مشاہدہ ہر کوئی کرسکتا ہے۔آخر کب تک اپنے اندر کی آواز کو ہم دباتے رہیں گے،گھٹن بڑھ گئی تو دم نکل جائے گا۔ہندوستان کی ملت اسلامیہ اپنی تاریخ کے بہت نازک دور سے گزررہی ہے ،ہمارا دینی نظام ہی اس کا واحد سہارا ہے ،جو اس کی تہذیب،ثقافت،مذہب اور تشخص کی حفاظت کرسکتا ہے۔اس نظام کو جواب دہ اور ذمہ دار بنائیں۔اس تحریر کو تنقید نہ سمجھیں ،لکھنے والا بھی اسی نظام کا حصہ ہے ،ایک پریشان دل کی یہ آواز ہے ،خدارا اسے سنیں اور محسوس کریں۔
(۳)ایک استاذاپنی تدریس کے ماہ وسال میں سیکڑوں طلبہ کی تعلیم وتربیت کرتا ہے۔ان کی زندگیوں کوسنوارتا ہے اور انھیں اس قابل بناتا ہے کہ وہ میدان عمل میں اتر کر اپنے فرائض انجام دے سکیں۔استاذ بوڑھا ہوتا ہے،اس کے تلامذہ بالعموم جوان ہوتے ہیں۔استاذ کی کارکردگی سمٹتی جارہی ہوتی ہے اور اس کے شاگردوں کی کارکردگی وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی ہوتی ہے ۔شاگردوں میں بھی سب ایک جیسے نہیں ہوتے،کوئی امیر بنتا ہے اور کوئی بہت زیادہ امیر،کوئی تجارت میں لاکھوں کماتا ہے تو کسی کو زیادہ آمدنی والی ملازمت مل جاتی ہے۔کیاملک اور بیرون ملک میں پھیلے ہوئے ایک استاذ کے شاگردوں کی اپنے محترم استاذ کے تعلق سے کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟جس استاذ نے علم دیا،اپنی زندگی کے تجربات سے فیض یاب کیا ،لکھنا اور بولنا سکھایا ،بھلے برے کی پہچان عطا کی ،دنیا میں سر اٹھاکر جینے کا سلیقہ سکھایا ،اگر آج وہ بیمار ہے،اگر اس کی ضعیفی نے اسے بستر پر ڈال دیا ہے،اس کے اعضائے جسم اس قابل نہیں رہ گئے کہ اپنی ضروریات پوری کرسکے تو کیا اس کی شاگردوں کی ذمہ داری نہیں ہے کہ اس کی اس مشکل وقت میں خبرگیری کریں۔یہ کیسی قساوت قلبی ہے کہ اللہ کا دیا ہوا ہمارے پاس سب کچھ ہے اور ہم ایک بیمار استاذ کا علاج نہیں کراسکتے ،اس کی ضعیفی کا انتظام نہیں کرسکتے۔اسلام کی عمومی تعلیم تو تمام کمزور طبقات کے لیے یہ ہے کہ ان کی مدد کی جائے تو بھلا ہمارا استاذ جو آج مشکلات سے دوچار ہے ،اس کا حق دار کیوں نہیں ہے۔استاذ کی خودداری اور عزت نفس اسے اجازت نہیں دیتی کہ کسی شاگرد کے سامنے دست سوال دراز کرے اور نہ وہ خود کو اس قابل پاتا ہے کہ اس کے سامنے اپنا دکھڑا لے کر بیٹھ جائے لیکن کیا ایک شاگرد کو اتنی سمجھ نہیں ہے کہ استاذ کن حالات سے دوچار ہے ،ان کا چہرہ کیا کہہ رہا ہے،ان کی آواز اور اعضاء کی کپکپاہٹ کیا کہانی سنارہی ہے۔شاگردوں کی طرف سے اپنے محترم اساتذہ کی خبرگیری اور ان کے ساتھ ہمدردی اور تعاون کا سلسلہ رہنا چاہئے ۔مجھے ذاتی طور پر ایسے بعض خوش نصیب اور سعادت مند ساتھیوں کا علم ہے جو ہمیشہ اپنے اساتذہ کا خیال رکھتے ہیں اور ان سے جو بھی ہوسکتا ہے،وہ اپنی استطاعت کے مطابق کرتے ہیں۔
لیکن یہاں کیا یہ ممکن ہے کہ تلامذہ اپنے اساتذہ کے لیے ایسا کچھ انتظام کرسکیں کہ انھیں پنشن بھی ملے اور ناگہانی مصیبتوں میں ان کی مدد بھی ہوسکے۔اوپر جس اسکیم کا ذکر آیا ہے،اس میں شاگردوں کی بھی شمولیت ہوسکتی ہے ۔مدارس کی طرف سے قائم کیے جانے والے فنڈ میں ہر شاگرد اپنے اساتذہ کے لیے کچھ نہ کچھ ماہانہ یا سالانہ تعاون کرے ۔دانہ دانہ مل کر ذخیرہ اور قطرہ قطرہ مل کر سمندر ہوتا ہے۔ہر شاگرد اپنے استاذ کے لیے اگر ماہانہ صرف دس روپے مدرسے کے پنشن اسکیم میں ڈال دے تو ایک بڑی رقم ہمارے پاس جمع ہوجائے گی اور ہم دنیا پر یہ ثابت کرسکیں گے کہ آج بھی ہمارا دینی نظام انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرسکتا ہے۔
(۴)اسلام نے سودی نظام کے مقابلے میں اپنا ایک ایسا معاشی نظام ترتیب دیا تھا جس میں ضرورت مندوں کو آسانی سے قرض حسنہ مل جاتا تھا اور مضاربت کا طریقہ رائج کیا تھا جس میں ددلت گردش کرتی رہتی تھی ،وہ منجمد نہیں ہوتی تھی۔اگر فرد پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا تو کیا تجارتی فرم بھی نہیں کھولے جاسکتے جس میں مضاربت کے شرعی اصولوں کی روشنی میں بینکوں میں جمع رقوم استعمال کی جائیں ۔بہت سے اللہ کے بندے ایسے ہیں جو سودی نظام کا حصہ نہیں بننا چاہتے لیکن ان کے سامنے کوئی بدل نہیں ہے۔مدارس کے پاس جو روپے جمع ہوتے ہیں،وہ بھی منجمد رہتے ہیں۔اگر مضاربت کا تجربہ چھوٹی سطح پر کیا جائے تو اس سے فائدہ ہوسکتا ہے ۔اسی میں اساتذہ کی تنخواہوں سے ماہ بہ ماہ وضع کی جانے رقم،پنشن اسکیم میں اصحاب ثروت سے ملنے والا تعاون اور شاگردوں کی طرف سے ملنے والی امداد بھی جمع کی جاسکتی ہے اور اس کو بارآور بنایا جاسکتا ہے۔ہمارے ملک میں مضاربت کے کئی ایک تجربے کیے گئے اور وہ ناکام بھی ہوگئے ،کتنے لوگوں کی رقمیں ڈوب گئیں اور وہ خالی ہاتھ ہوگئے ،اس تعلق سے کئی ایک کمپنیوں کے تجربات ہمارے سامنے ہیں لیکن مجھے یہ بات بھی معلوم ہے کہ ان کمپنیوں نے لوگوں کو لبھانے کے لیے غیر فطری کام کیے اور آمدنی سے زیادہ منافع دینے کی کوشش کی ،نتیجہ یہ ہوا کہ وقت سے پہلے یہ کمپنیاں ٹوٹ گئیں ۔تجارت کے فن سے واقف لوگ ہی اس قسم کا کاروبار چلاسکتے ہیں اور کامرس میں اعلی تعلیم حاصل کرنے والے ہی اسے دیکھ سکتے ہیں۔مجھے اس تجویز پر اصرار نہیں ہے ،ویسے اسلام نے مضاربت کا جو راستہ کھولا تھا ہم نے عملاً اسے بند کررکھا ہے ۔امام بخاری اور امام ابن تیمیہ رحمہما اللہ کی سیرت سے یہ کہیں نہیں معلوم ہوتا کہ انھوں نے کوئی تجارت کی تھی یا کسی کی ملازمت قبول کی تھی۔گھرمیں جو سرمایہ موجود تھا ،وہ مضاربت ہی پر لگا ہوا تھا اور اسی کی آمدنی سے ان کی گزر بسر ہوتی تھی۔آج کوئی استاذ کچھ روپے اپنے اخراجات سے اگر بچاتا بھی ہے تو اس کے بڑھنے کا کوئی واضح اور سود سے محفوظ راستہ نہیں ہے۔اگر مضاربت کا مسئلہ کسی طرح ہم حل کرسکیں تو یہ ملت پر ایک بڑا احسان ہوگا اور شاید ہم مدارس وجامعات کے ضعیف العمر اساتذہ کو پنشن دینے اور بیمار اساتذہ کا علاج کرانے کے قابل ہوسکیں۔عملی اقدام سے پہلے ذہن سازی کی ضروت ہوتی ہے ،اگر ہمیں کسی چیز کی فکر لاحق ہوجائے تو اس کی کوئی نہ کوئی عملی شکل ضرور متعین ہوجائے گی۔امید ہے کہ اہل فکر ودانش وقت کے اس اہم اور سنگین مسئلے پر غور کریں گے اور اپنے خیالات وتجاویز سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کریں گے۔

«
»

جھوٹ بولے تو بولتے چلے گئے

بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اِتراتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے