مسلم معاشرہ برائیوں کی دلدل میں۰۰۰ ذمہ دار کون؟

جبکہ آج مسلم معاشرہ میں جہاں لڑکے تعلیم حاصل کررہے ہیں وہیں لڑکیوں کی تعلیم میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور زیادہ تر لڑکیاں عصری تعلیم میں آگے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ لڑکیوں کی اعلیٰ و عصری تعلیم مسلم معاشرہ میں تباہی کا سبب بن رہی ہے۔ تعلیم سے انسان سدھرتا ہے لیکن مسلم معاشرہ سدھرنے کے بجائے پستی کی طرف بڑھتا جارہا ہے۔ مسلم علمائے کرام اور دانشوان قوم و اساتذہ کرام اور والدین کو اس جانب توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ معاشرے کی بگاڑ کا سبب بچپن میں دینی ماحول فراہم نہ کرنا بھی شامل ہے۔ آج ہمارے شہر حیدرآباد کا اگر سروے کیا جائے تو شاید ہی چند مساجد ایسے ملیں گے جہاں پر بعد فجر یعنی صباحیہ اوقات میں دینی تعلیم کا نظم ہو۔ الحمد للہ شہر حیدرآباد و دیگر شہروں و قصبوں میں دینی مدارس کا جال بچا ہوا ہے ، اعلیٰ و عصری تعلیم کے اسکولس و کالجس کی کوئی کمی نہیں۔ کمی ہے تو دینی تعلیم کے صباحیہ مدارس کی۔ کمی ہے تو ادب واخلاق کی تعلیم دینے والے اساتذہ کی۔ آج ہزاروں مسلم نوجوان ایسے ملیں گے جنہیں صحیح طرح قرآن مجید پڑھنے نہیں آتا ۔ کئی نوجوان نماز تو پڑھتے ہیں لیکن وہ صحیح طریقہ سے نابلد ہیں۔ نماز کی پابندی تو کرتے ہیں لیکن ننگے سر نماز پڑھتے ہیں جبکہ پیارے حبیب ، رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے پیارے پیارے عظیم المرتبت صحابہ کرام نے کبھی ننگے سر نماز نہیں پڑھی ۔ یہی نہیں بلکہ احادیث نبوی ﷺ سے پتہ چلتا ہے کہ حضور سرور کونین ﷺ نے بازار جاتے وقت بھی ننگے سر جانے سے منع فرمایا ۔ بیت الخلاء جانے کیلئے بھی سر پر اوڑھنے کی ترغیب دی گئی۔ اس کے باوجود ہمارا تعلیم یافتہ معاشرہ سر پر اوڑھنے کو اہمیت نہیں دیتا۔ کئی لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں اسلامی تعلیمات سے آگاہی حاصل ہیں ، اس کے باوجود وہ اللہ کے رسول ﷺ کے اسوئے حسنہ پر چلنے کو اہمیت نہیں دیتے ۔ اگر انکے پاس اللہ کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت ہوتی تو عملی طور پر اسوۂ حسنہ کو اپنانے میں اہمیت دیتے۔ اگر سر پر ٹوپی پہننا معیوب سمجھا جاتاہے تو پھر ان کا اسلام سے تعلق بھی معیوب سمجھا جائے گا کیونکہ جو شخص یا نوجوان اپنے نبی کریم ﷺ اور صحابہ کی سنتوں کو اپنانے میں شرم محسوس کرتا ہے یا اسے اتنی اہمیت نہیں دیتا جتنی دینی چاہیے تو پھر ایسے مسلمان سے اسلام کی بقاء و سلامتی کے لئے کیا امید رکھی جاسکتی ہے۔ مسلمانوں کو اس طرح ہونا چاہیے کہ دیکھنے والے کفار و مشرکین بھی اسلام کی سربلندی اور عظمت کے قائل ہوجائیں ۔ آج مسلم خاندانوں کا حال اتنا خراب ہوگیا ہے کہ جو کام اسلام نے مسلمانوں کو کرنے کی ترغیب دی وہی کام مسلمانوں کے بجائے غیر مسلم بجا لارہے ہیں۔ آج ہمارے گھروں میں خیر و برکت کیوں ختم ہوتی جارہی ہے۔ ایک دور تھا جب مسلمان اس ملک میں صاحبِ ثروت تھے لیکن آج مسلمانوں کی اکثریت چپراسی اور نوکرسے بھی گری ہوئی ہے۔ ہمارے شہر کے مسلم علاقوں کی گلیوں کا رات میں سروے کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ نصف رات گزرنے کے بعد سے مسلم نوجوانوں کی بیٹھک ہوتی ہے ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو شادی شدہ ہیں جنکی اولاد ہے اس کے باوجود یہ نوجوان مرد اپنے گھروں میں وقت دینے کے بجائے دوست احباب میں وقت ضائع کررہے ہیں۔ صبح سویرے اٹھنے کے بجائے دس ، گیارہ بجے اٹھتے ہیں ۔ یہ صرف ان مرد نوجوانوں کا ہی حال نہیں بلکہ کئی مسلم گھرانوں میں خواتین و نوجوان لڑکیوں کا بھی یہی حال ہے۔ لڑکیاں اور خواتین کے ہاتھوں میں ہمیشہ سیل فون لگا رہتا ہے جس کے ذریعہ وہ گیم کھیلتی ہیں یا چاٹنگ وغیرہ میں مشغول رہتی ہیں اور یہ سلسلہ ہر روز رات دیر گئے تک جاری رہتا ہے۔اسکول اور کالج جانے والے لڑکیاں بھی صبح اسکول و کالج کے وقت سے صرف چند منٹ قبل اٹھتی ہیں اور وہی لباس جو سوتے وقت زیب تن کیا ہوا تھا اسی کے اوپر برقعہ پہن کر اسکول یا کالج چلی جاتی ہیں۔ کئی کالجس کے انتظامیہ اور اساتذہ کو مسلم طالبات سے شکایت ہوتی ہے کہ بیشترطالبات صاف ستھرے کپڑے پہن کر نہیں آتے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں رات کا بیشتر حصہ جاگتے ہوئے ضائع کردیتے ہیں ، کھانے پینے کی بھی انکے پاس کوئی اہمیت نہیں۔ خصوصاً طالبات اسکولس اور کالجس میں بغیر ناشتہ کئے چلے آتے ہیں اور بعض لڑکیاں دوپہر کا ٹفن لاتے ہیں لیکن وہ بھی تقریباً اسی طرح یا نصف سے زیادہ بچا ہوا واپس گھر لے جاتے ہیں۔ ان نوجوانوں کو نہ کھانے پینے کی پرواہ ہے ، نہ نیند کی پرواہ ہے اور نہ اسلامی ماحول میں زندگی گزارنے کی پرواہ۔ بچوں کی عادات سدھارنے اور بگاڑنے میں سب سے اہم والدہ کا رول ہوتا ہے لیکن آج مسلم معاشرہ کی مائیں اپنی اولاد کو بگاڑنے میں اہم رول ادا کررہی ہیں۔ باپ بھی اس میں برابر کا ذمہ دار ہیں ۔ گھر کا ماحول اگر بگڑا ہوا ہوتو بچوں کی صحیح ڈھنگ سے پرورش ممکن نہیں۔ ماں باپ اپنی اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت کے لئے اہم ذمہ دار ہوتے ہیں ، اساتذہ کا رول تو اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ وہ تو اسکول یا مدرسہ میں جتنا ممکن ہوسکتا ہے ادب و اخلاق کی تعلیم دیں گے لیکن گھر کا ماحول بھی بہتر ہونا چاہیے۔ ٹیلی ویژن پر اخلاق سوز سیریلس ، اشتہارات اور فلموں کے بعدآج انٹرنیٹ کا استعمال خصوصاً سوشل میڈیا کے ذریعہ ماحول انتہائی عریانیت اور فحاشی کی طرف بڑھتا جارہا ہے۔ آئے دن بے حیائی عام ہوتی جارہی ہے۔ والدین اپنی اولاد کو بھاری ، کثیر رقم خرچ کرکے فون دلاکر گناہوں کے دلدل میں ڈال رہے ہیں۔ بچے پڑھائی کی جانب دھیان دینے کے بجائے بے راہ روی کا شکار ہورہے ہیں اور والدین کے ہوش اس وقت ٹھکانے لگ رہے ہیں جب بچے انکے ہاتھ نکل جارہے ہیں۔ مسلم معاشرہ کو ہمارے ملک میں دیگر ابنائے وطن کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کئے جارہے ہیں۔ مذہبی آزادی حاصل ہے۔ چند فرقہ پرست ، زہریلے بھگوا قائدین اسلام کے خلاف وقتاب فوقتاً بیانات دیتے ہیں لیکن فی الحال مسلمان اس ملک میں آزادانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ مسلمانوں کو دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہے۔ ہر مسجد میں مسلمان اپنی اولاد کی تربیت کے لئے دینی ماحول فراہم کرنے کے لئے صباحیہ و مساعیہ تعلیم کا انتظام کرسکتے ہیں۔ اگر ہر محلہ کے بڑے بزرگ بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کیلئے پہل کریں تو انشاء اللہ ہماری یہ اور آنے والی نسلیں مسلم معاشرہ کے لئے ہی نہیں بلکہ ملک کیلئے اہم رول ادا کرسکتی ہیں۔ علمائے کرام اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے طلبا و طالبات کی تعلیم و تربیت کے لئے کم از کم اپنے قیمتی وقت میں سے ہر روز دو گھنٹے بھی مسجد یا مدرسہ میں دیں تو یہ ایک عظیم کام ہوگااس سے مسلم نوجوان جس بے راہ روی کا شکار ہورہے ہیں اور چوری، ڈاکازنی، چین کھینچنے کے واقعات، ہوٹلنگ،پبس(جہاں حیاء سوز حرکات ، شراب نوشی وغیرہ میں ملوث)، طلاق و خلع کے واقعات میں جس طرح نظر آتے ہیں اس میں کمی واقع ہوگی۔ گھروں میں والدین بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے اسلامی ماحول فراہم کریں اور اسکولوں و کالجوں میں اساتذہ کرام انکی صحیح طرح تعلیم و تربیت کریں گے تو یہ سب کے لئے بہتر ہوگا ورنہ آج جس طرح مسلم بچے اورنوجوان تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں اس میں مزید اضافہ ہوگا جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے کہ آج سے چند سال قبل مسلم نوجوانوں کا جرائم کی دنیا میں بہت کم نام دکھائی دیتا تھا لیکن آج مسابقتی دورکے حوالے سے مسلم نوجوان برائیوں میں بھی مسابقت لے جانے کی کوشش کررہے ہیں۔ کاش والدین و اساتذہ کرام اور علمائے اسلام اس جانب توجہ دیتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کریں تو انشاء اللہ العظیم ہمارے معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

«
»

دہشت گردی کو بڑھاوا دینے والے آخر کون۰۰۰؟

موہن بھاگوت: ہوئے تم دوست جس کے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے