شہادتِ امام حسینؓ کے فکری پہلو

اس اعادہ نے سماجی رسوم کا جامہ پہن لیا ہے وہ ہندوستان کے مسلمانوں اور غیرمسلموں کی زندگی میں بھی گہرائی تک پیوست ہوگیا ہے اردو شعر وادب میں تو اس کو ایک باقاعدہ صنف سخن یعنی ’’مرثیہ‘‘ کا درجہ مل گیا ہے، اس کی وجہ سے زبان کو علامتوں اور تلمیحوں کا ایک خزانہ مسیر آیا ہے، انسانی ذہن اور رجحانات بھی شہادت امام حسینؓ سے اثر پذیر ہوتے رہے ہیں۔
لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے دوسرا رخ ہمیں بتایا ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں سب سے زیادہ حسینی خصوصیات کو اپنانے کی ضرورت ہے اور شہادتِ حسینؓ کے فکری و عملی پہلو پر عمل پیرا ہونا ضروری تھا، حضرت امام حسینؓ اور ان کے ولولہ انگیز کارنامہ کے چاروں طرف اوہام اور روایتوں کا ایک ایسا جال سا بُن دیاگیا کہ جس میں ان کا حقیقی چہرہ یا ان کی قربانی کا مقصد نظروں سے اوجھل ہوکر رہ گیا ہے، حالانکہ اس واقعہ سے بنی نوع انسان کو صبر واستقلال اور ایثار وقربانی کا سبق ہی نہیں فکر وعمل کی تحریک بھی ملتی ہے۔
شہادت حسینؓ میں سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ ظلم کے آگے سر نہ جھکایا جائے اور انسان اپنی خوداری اور شرف کو ظالم کے قدموں میں روندنے کے لئے نہ ڈال دے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ غیر ضروری طور پر اپنی جان کوہلاکت میں ڈالا جائے اور خونریزی سے تحفظ کی کوئی باعزت راہ ہوتو اسے تلاش نہ کیاجائے ، قتل وغارتگری، فتنہ وفساد اور ظلم وتشدد اسلام میں انتہائی ناپسندیدہ عمل ہیں، اسلام کا مطلب ہی امن وسلامتی ہے، کرۂ ارض پر آباد تمام انسانوں یہاں تک کہ چرند پرند ، حیوانوں اور چیونٹیوں تک کو اس میں امان وپناہ ہے، ہر ے بھرے درختوں کی حفاظت ماحولیات کے رکھ رکھاؤ اور انسانوں پر عائد انسانوں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم ہے لیکن اگر ظالم کسی طرح نہ مانے اور اس کی سرکشی حد سے سوا ہوجائے تو پھر اسلام ظلم کے خلاف اٹھنے اور مقابلہ کرنے کی تعلیم دیتا ہے کیونکہ ایسا نہ کیاجائے تو حق مغلوب اور باطل غالب ہوجائے گا۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کا اسوہ اسی جانب رہنمائی کرتا ہے جسے نواسۂ رسول ﷺ نے اپنے لئے چراغ راہ بنایا، نبی پاک ﷺ کی۱۳ سالہ مکی زندگی نے ظلم کو آخری حد تک برداشت کرنے کی ایک اعلیٰ مثال دنیا کو دی ہے پھر اس ظلم کی گرفت سے بچنے کے لئے سرکار دوعالم ﷺ نے اپنے رفیق حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ مدینہ منورہ کو ہجرت فرمائی جب وہاں بھی دشمنانِ خدا نے امن وچین سے نہ رہنے دیا تو آخری لمحے تک رحمت عالم ﷺ کوشش فرماتے رہے کہ دشمن اپنی دست درازیوں سے باز آجائیں لیکن جب دشمنوں نے مدینہ منورہ پر چڑھائی کردی تو اس وقت بھی باطل کی طاقت زیادہ تھی اور حق کے محافظ ان کے مقابلہ میں نصف سے بھی کم تھے اس تفاوت کے باوجود معرکہ بدر میں حق غالب آیا اور باطل مغلو ب ہوگیا۔
واقعہ کربلا کو حق وباطل کے درمیان معرکہ اسی لئے کہاجاتا ہے کہ یہ پہلی جنگ تھی جو اسلام کی شورائی جمہوریت کے تحفظ کے لئے ملوکیت اور اس کے نظام کے خلاف لڑی گئی، اسلام نے دنیا میں سب سے پہلے جمہوریت کی بنیاد رکھی تھی جسے یزید نے ڈھانے کی کوشش کی ، حضرت علیؓ کی خلافت پر امت کا اتفاق ہوچکا تھا مگر حضرت معاویہؓ نے اس سے اختلاف کیا اور شام کی گورنری کو اپنے لئے خلافت کے استحقاق کی بنیاد بنا لیا اس کی وجہ سے حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان جنگیں ہوتی رہیں اسی دوران ایک قاتل ابن ملجم نے حضرت علیؓ کو شہید کردیا، انتقال کے وقت لوگوں نے آپ سے دریافت کیا کہ اپنے بڑے بیٹے حضرت حسنؓ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کیا ہم انہیں اپنا خلیفہ بنالیں تو حضرت علیؓ کا واضح جواب تھا کہ ’’نہ میں تمہیں اس کا حکم دیتا ہوں، نہ اس سے منع کرتاہوں تم لوگ جو مناسب سمجھو وہی کرنا ، اسلام کی حقیقی جمہوریت یہی تھی حضرت علیؓ سے لوگوں کو مذکورہ سوال کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ اس وقت حضرت علیؓ اور حضرت معاویہ میں جنگ چل رہی تھی جس کا فیصلہ ہوئے بغیر امیرالمومنین حضرت علیؓ کی قاتلانہ حملہ میں وفا ت ہوئی تھی۔ اگر یہ نازک صورت حال درپیش نہ ہوتی تو کوئی حضرت علیؓ سے مذکورہ سوال بھی نہیں کرتا، اس شورائی جمہوریت کے قیام و استحکام کے لئے حضرت امام ھسینؓ نے اپنا اور اپنے ساتھیوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔(

«
»

دہشت گردی کو بڑھاوا دینے والے آخر کون۰۰۰؟

موہن بھاگوت: ہوئے تم دوست جس کے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے