مسلمانوں کے مسائل ۔ بابری سے دادری تک

سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق معیشت اور تعلیم میں مسلمانوں کا حصہ صفر کے قریب ہے ۔وہ ترقی کے تمام شعبوں میں بے حد پسماندہ ہیں ، ان کی حالت شیڈولڈ کاسٹ اور شیڈولڈ ٹرائب سے زیادہ گئی گذری ہے۔کبھی کبھی ان کے لئے مراعات کا اعلان کیا جاتا ہے ، لیکن یہ سہولیات اور مراعات انہیں نہیں دی جاتی ہیں ،پھر اسی کے ساتھ ان کے ساتھ زیادتیاں ہوتی ہیں، جھوٹا الزام لگاکر انہیں قتل بھی کردیا جاتا ہے جیسا کہ دادری میں ہوا ، فسادات میں ان کا قتل عام ہوتا ہے، ان کو تحفظ فراہم کحرنے میں حکومت کا رکارڈ مایوس کن ہے ، سکیوریٹی فورسز میں مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کے برابر ہے ، انہیں ہر طرح کی زیاتیوں کا شکار بنایا جاتا ہے ، نسل کشی اور نسلی تطہیر کے عذاب سے انہیں گذرنا ہوتا ہے ، جھوٹے الزمات میں انہیں پوٹا اور ٹاڈا کے تحت گرفتار کیا

جاتا ہے ان کا انکاونٹر کیا جاتا ہے یاکئی کئی سال کے لئے انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاجاتا ہے مدرسوں کو شبہات کے دائرہ میں لانے کی کوشش ہوتی ہے ۔ دینی جماعتوں کے کا موں میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے ء مسلمانوں کو غیر ملکی اور حملہ آور اور غدار قرار دے کی ان کی شبیہ خراب کی جاتی ہے ،گھر واپسی کے نام پر ان کا مذہب بدلنے کی کوشش ہوتی ہے اسکولوں میں سوریہ نمنسکار اور یوگا اور گیتا کا پاٹھ وغیرہ کے ذریعہ مسلم بچوں پر ہندو تہذیب کو مسلط کرنے کی کوشش ہور ہی ہے ۔بابری مسجد کی جگہ پر مورتیاں رکھ دی گئی ہیں جن کی پوجا ہوتی ہے اور وہاں رام مندر بنانے کا منصوبہ ہے، مسلمانوں کی اکثریت کی زبان اردو کو دیس نکالا دؒ یا جارہا ہے بڑی کمپنیوں کے ڈائرکٹر اور اعلی عہدہداروں اور سینیر اگزیکیوٹیو کی فہرست اٹھاکر دیکھ لیجئے مسلمان ایک فی صدی بھی نہیں ملیں گے اس سکٹر میں پسماندہ طبقات کے لئے حکومت نے خصوصی رعایت برتنے کی سفارش کی تھی لیکن اس کا فائدہ مسلمانوں کونہیں بلکہ دلتوں کو ملا ، تجارت تعلیم اور ملازمت ہر جگہ مسلمانوں کی نمائندگی بیحد کم ہے ،ان کی حالت قابل رحم ہے تعلیمی اداروں میں اس سی اس ٹی کے لئے رزرویشن ہے اس کا فائدہ ان کو پہونچا ہے وہ ملازمتوں میں بھی نظر آتے ہیں لیکن مسلمانوں کے لئے نہ تعلیمی اداروں میں رزرویشن ہے اور نہ نوکریوں میں ان کے لئے کوٹا ہے نہ جاب مارکٹ میں ان کی کوئی جگہ ہےٍ ، اس لئے وہ اچھی ملازمتوں میں اعلی منصب پر آسانی کے ساتھ نظر نہیں آتے ہیں ان کا وجو د غیر موجود اور معشوق کی موہوم کمر کی مانند معدوم ہوتا جارہا ہے ’’ ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے ‘‘ آئی اف اس اور آئی پی اس ، ریلوے اور محکمہ صحت ،او ر دیگر محکموں میں ان کا فی صد ۱۴ اوۃر ۱۵ فی صد ہونا چاہئے تھا لیکن دو تین فی صد ہے ، جارحانہ قوم پرستی کی یہ’’ نامہربانیاں‘‘اس قوم کے ساتھ روا رکھی گئی ہیں جس نے کئی سو سال تک اس ملک میں عزت کے ساتھ حکومت کی ہے اور غیر مسلموں کے ساتھ بحیثت مجموعی فراخ دلی اور رواداری کا معاملہ کیا ہے ہندوستان کی جنگ آزادی میں بھی مسلمانوں کا حصہ کسی سے کم نہیں ہے ۔انہوں نے اس چمن کو اپنے خون سے سینچا ہے۔ اہل قلم نے اس موضوع پر کتابیں تصنیف کی ہیں لیکن یہاں پھولوں کے ساتھ کانٹوں کا معاملہ کیا جارہا ہے اس سے آگے بڑھ کر ہندتوا کے لیڈرمستقبل میں ’’ مسلم مکت بھارت‘‘ بنانے کا اعلان کر چکے ہیں ۔پہلے ساورکر ، گولوالکر اور ہیڈگیوار کے مسلم دشمنی پر مبنی نظریات انفرادی نظریات تھے زیادہ سے زیادہ ایک بہت چھوٹے فرقہ سے اس کی نمائندگی ہوتی تھی لیکن اب یہی باد سموم ہے جو وطن کے چمن میں چل رہی ہے اور پھولوں کو مرجھا دے رہی ہے ۔ نئی حکومت کا نعرہ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ ایسا خواب ہے جو شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ہے ۔اور نہ اس پر عمل کر نے کا پر خلوص ارادہ ہے ۔
یہاں مسائل کی شناخت کے طور پر ان باتوں کا ذکر کیا گیا ہے بحری سفر میں سمت سفر تلاش کرنے سے پہلے پوزیشن فکسنگ ضروری ہوتی ہے اس لئے آگے کا لائحہ عمل طے کرنے سے پہلے موجودہ حالت کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے ۔ اس وقت ٍ یہ سنگین صورت حال ہے جس سے نکلنے کا راستہ ہمیں ڈھوڈھنا ہے ،آج مسلمانوں کے مسائل پر غور کرنے والوں کو کسی متعین سوچ تک پہونچنے کی ضرورت ہے اور پھر اس سوچ کو لائحہ عمل میں ڈھالنے کی ضرورت ہے اور پھر لائحہ عمل کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے ۔ بہت قابل قدر ہیں وہ لوگ جنہوں نے ملت کے غم کو اپنا غم بنایا ہے وہ رات دن اس کیلئے سرگرم عمل رہتے ہیں ،ہم یہاں مسلم قیادت کو مطعون کرنا نہیں چاہتے مسلم قیادت پر لاف زنی خطرناک رجحان ہے ،آزادی کےٍ بعد اور تقسیم وطن کے بعد کے جانگسل حالات میں مسلم قیادت نے بہت سے قابل تعریف کام کئے ہیں اس کا اعتراف نہ کرنا احسان ناشناسی ہے ناشکری ہے ،اورمسلم قیادت کو طنزتشنیع کا نشانہ بنانا زبان درازی ہے ، مسلمانوں کی زوال پذیر معیشت اور افتصادی بدحالی کے باوجود یہی مسلم قیادت تھی جس نے برادران وطن تک حق کا پیغا م پہنچانے کے لئے ملک کی تمام علاقائی زبانوں میں قرآن مجید کے ترجموں کا اہتمام کیا ، ہندی اور مقامی زبانوں میں سیرت اور اسلام کے تعارف کی کتابیں شائع کیں ، قریہ بہ قریہ کو بہ کو دینی تعلیم کے ادارے قائم کئے ، ایک بڑی ریاست میں گاوں گاوں بچوں کو دینی تعلیم دینے اور اردو زبان سکھانے کے لئے مکتب کا جال بچھا دیاگےأ مسلمانوں کو اچھا مسلمان بنانے اور ان کے اندر ایمانی روح پھونکنے کیلئے اور ان کا رشتہ نماز سے اور مسجدوں سے جوڑنے کے لئے شہر بہ شہر اور گاوں گاوں تبلیغ کی جماعتیں پہونچیں، جن کی کوششوں سے لاکھوں لوگ نمازی اور ہزاروں تہجد گذار ہوئے ، ایسے تھنک ٹینک سامنے آئے جنہوں نے مسلم ایشوزپر مسلمانوں کے جدید اور قدیم تعلیمیافتہ لوگوں کو اور صاف دل برادران وطن کو بھی جمع کیا اور مسلمانوں کے امپاورمنٹ پر تحقیقی کتابیں بھی پیش کیں اورمسلم ایشوز پڑ سمینار بھی کئے آزاد ہندوستان میں فرقہ ورانہ فسادات کے بعد مسلم قیادت کے لوگ ایک پلیٹ فارم پر جمع بھی ہوئے اور انہوں نے ملک کے دورے بھی کئے ، غیر مسلموں کے انسانی ضمیر کو خطاب کرنے کے لئے انسانیت کے نام پر بھی کچھ دردمند علماء کھڑے ہوئے اور انہوں نے برادران وطن کو خطاب کیا۔مسلم پرسنل لا پر خطرات کے باد ل منڈ لائے تو مسلم قیادت نے زبردست اتحاد کا ثبوت دیا ،مقابلہ کے امتحانات میں مسلم نوجوانوں کی تربیت کے لئے بھی ادارے قائم ہوئے، جنوبی ہندوستان میں میڈیکل کالج اور انجینرنگ کالج بھی مسلمانوں نے قائم کئے الغرض یہ کہنا درست نہیں کہ ہندوستان میں مسلم قیادت نے کوئی کام نہیں کیا ، اس طرح کا الزام غلط ہے اوریہ الزام لگانے کے لئے بے خبری عقل کے ساتھ بے مہری دل کی بہت بڑی مقدار درکار ہے۔ لیکن آزادی کے بعد سے بتدریج حالات اتنے سخت اور سنگین ہو گئے ہیں کہ گذشتہ پچاس ساٹھ سال پہلے سے جو کوششیں کی گئیں ہیں اور کی جارہی ہیں وہ اب ناکافی ثابت ہورہی ہیں اب نئے حالات میں نئی تدبیریں اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ 
’’ ہے جنوں تیرا نیا پیدا نیا ویرانہ کر ‘‘ 
ہمیں پھر سے اپنے کاموں کا جائزہ لیناہے اور نئے عزم اور نئی قوت کے ساتھ عمل کی شاہ راہ ڈھونڈنی ہے اور اس شاہراہ پر صبر وساتقامت کے ساتھ چلنا ہے ’’وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر‘‘ مسلمانوں کے تمام مسائل کو مختصر لفظوں میں Nut shell میں بیان کیا جائے تو ہم اسطرح کہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کو اکثریت کا ایک طبقہ ان کا جائز دستوری اور جمہوری حق دینے کیلئے تیار نہیں ہے یہ طبقہ پہلے مختصر تھا اب بتدریج بڑا ہوگیا ہے اوروہ سیاہ وسفید کامالک بھی بنتا جارہا ہے اور اب اقتدار کی کنجی بھی اس کے ہاتھ میں آگئی ہے ۔ اب ہم مسائل کے حل کے بارے میں سوچیں اور قرآن سے رہنمائی حاصل کریں تو درج ذیل باتوں پر ہمیں غور کرنا ہوگأ 
۱۔ ہمیں اس آیت پر غور کرنا ہوگا لاتستوی الحسنہ ولا السیءۃ ادفع بالتی ہی أحسن فاذا الذی بینک وبینہ عداوۃ کأنہ ولی حمیم وما یلقاہا الذین صبروا مایلقاہا الا ذو حظ عظیم ( نیکی اور بدی برابر نہیں ہوسکتی ، بدی کو نیکی کی بہترین شکل سے دور کرو پھر تم دیکھو گے کہ تمہارے اور جس شخص کے درمیان تمہاری دشمنی ہے وہ تمہارا گہرا دوست بن گیا لیکن یہ خوبی نہیں ملتی ہے مگر انہیں جو صبر اختیار کرتے ہیں اور انہیں جو بڑی قسمت والے ہیں ) قرآن نے حل یہ بتایا ہے کہ برائی کو اعلی درجہ کی نیکی سے ہٹاو یعنی نیکی بھی معمولی درجہ کی نہیں بلکہ بلندترین اور بہترین ہونی چاہئے یعنی دشمن کے ساتھ ایسا سلوک ہونا چاہئے جو دل کو جیت لے ، اگر ایسا سلوک کیا جائے گا تو جو تمہارا دشمن تھا وہ تمہارا دوست بن جائے گا ، قرآن کہتا ہے کہ اس کے لئے اعلی درجہ کا صبرو تحمل درکار ہے اور یہ بڑی بخت آوری کی بات ہے ۔ مسلمانوں کو اعلی درجہ کی ایمانی اور اخلاقی قوت درکار ہے، اللہ سے تعلق کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ، دشمن کے ساتھ حسن سلوک کے لئے اس کے ساتھ تعلقات استوار کرنا ضروری ہے ۔ مسلمان جہاں کہیں بھی رہتے ہوں غیر مسلم پڑوسیوں سے ،برادران وطن سے ان کے روابط استوار ہونے چاہئیں اور ان کی حسن اخلاق کا اچھا نقش غیر مسلموں کے دلوں پر قائم ہونا چاہیے،غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کا مطلب مداہنت نہیں ہے یعنی ہمیں دین وایمان کے جسی جز سے دستبردار ہونے کی ضرورت نہیں۔ لیکن ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ظلم وستم کی دلدوز تاریخ کے باوجود ملک کے خمیر مبں شرافت اور روحانیت کا جز بھی موجود ہے خاکستر میں دبی ہوئی اس چنگاری کو شرارہ بنانے کی ضرورت ہے اس کے لئے ہمیں متصوفانہ نرمی فراخ دلی وسعت نظری اور توسع اختیار کرنے کی ضرورت ہوگی خدمت خلق اور خدمت انسانیت کو اپنا شعار بنا نا ہوگا اور ضرورت پیش آجائے تو عارضی طور پرمستقبل کے بڑے فائدہ کے لئے اور حقوق کی بازیابی کے لئے اپنے کسی جائز حق سے بھی دست بردار ی اختیار کی جاسکتی ہے ۔ یہ حلال کو حرام کرنا نہیں ہے بلکہ حکمت عملی ہے ، اور اعتماد کی بحالی اور خلیج کو پاٹنے کی ایک کوشش ہے ،اس کی مثال ہمیںیہاں مسلمانوں کے دور حکومت میں بھی ملتی ہے ، بابر نے اپنے بیٹے ہمایوں کو جو نصیحت کی تھی وہ رکارڈ میں ہے، اس نے کہا تھا کہ ’’ بیٹے یہ ملک ہندوستان مختلف مذہبوں کا گہوارہ ہے ۔ یہ اللہ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں یہاں کی بادشاہت عطا کی ہے ،ہمیں اپنے دل سے تمام امتیازات کو نکال دینا چاہئے ،اور ہر فرقہ کے ساتھ اس کی روایات کے مطابق انصاف کرنا چاہئے ، انتظامی معاملات میں لوگوں کا دل جیتنے کے لئے گائے کی قربانی سے اجتناب کرو ، اپنی حکومت کی سرحدوں میں عبادت گاہوں اور مندروں کو نقصان نہیں پہونچانا ، حکومت کا ایسا ڈھنگ نکالو کہ مملکت میں رہنے والے تمام لوگ بادشاہ سے خوش ہوں اور بادشاہ اپنی عوام سے خوش ہو ، اسلام عمدہ اعمال سے فروغ پاسکتا ہے خوف سے نہیں ( خوف دلا کر نہیں)‘‘ یہ نصیحت جو بابر نے کی تھی ، توسع رواداری اور حکمت عملی ہے جس کی جھلک ہمیں صلح حدیبہ میں نظر آسکتی ہے یعنی مستقبل کے بڑے فائدہ کے لئے بعض حقوق میں تنازل اختیار کرنا ،ملک میں امن وآمان کے لئے اور اعتماد اور اتحاد کی فضا پیدا کرنے کے لئے جائز حق سے تنازل اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔کیونکہ اس ملک میں مسلسل کشمکش کی فضا مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہے اور دعوت کے کام کے لئے تو یہ فضا سم قاتل ہے ۔مسائل کا ڈھونڈہنے میں ہمارے پیش نظر یہ حقیقت بھی ہونی چاہئے کہ اس ملک میں پرامن بقائے باہم اور مذاہب کے یکساں احترام کی مضبوط روایت بھی موجود رہی ہے اس مدفون یا کمزور روایت کو سہارا دے کر مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ہمیں غور کرنا ہوگا ہم اس روایت کو کیسے مضبوط کریں 
۲۔ ہمیں اس حقیت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ظلم اور نا انصافی اور استحصال کا شکار یہان دوسری اقلیتیں بھی ہیں اور دلت گروپ ، اوبی سی ، اس سی ، اس ٹی یعنی پسماندہ طبقے بھی یہاں انصاف سے محروم ہیں اور وہ اعلی ذات کے مقابلہ میں بہت بڑی اکثریت میں ہیں ہمیں اس پر بھی غور کرنا ہوگا ہم ان سے تعلقات کیسے استوار کریں اور کیسے ان کی مدد کریں اور کیسے اپنے لئے ان کی مددحاصل کریں اور ہمیں اگر خو دکو مستحکم کرنا ہے تو آگے بڑھ کر ہمیں پیشقدمی کرنی ہوگی اور سماج کے محروم طبقہ کو گلے سے لگانا ہوگا ہمیں ان کی مدد کرنی ہوگی کچھ لوگوں کو اس کام کے لئے فارغ ہونا گا ۔
۳۔ غیر مسلموں سے اور خاص طور پر پسماندہ طبقات سے قریبی تعلقات اس لئے بھی ضروری ہے کہ مسلمان امت دعوت ہیں اور دعوت کے لئے کامیابی کے امکانات سماج کے محروم طبقہ میں زیادہ ہیں ۔ہمیں پوری سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور کرنا ہوگا کہ مسلمانوں اور دلتوں کے درمیان قربت کیسے ہو تعلقات کیسے استوار ہوں میل جول کیسے بڑھے ۔اور ان کو اسلام سے کیسے قریب کیا جائے۔ہمارے سامنے اسپین کی تاریخ ہے جہاں مسلمانوں نے سات سو اسی (۷۸۰) سال حکومت کی تھی جہاں مسلمانوں نے مسجد قرطبہ جیسی عالی شان مسجد تعمیر کی تھی جہاں مسلمانوں نے مدینۃ الزہراء جیسا شہر آباد کیا تھا جس کو دیکھ کر سیاح آج بھی دنگ رہ جاتے ہیں جہاں بڑے بڑے علماء ، فن طب کے ماہرین اور سائنس داں پیدا ہوئے جہاں بڑ ے بڑے مصنفین اور ادباء نے اپنے اپنے میدان میں پیشوائی کی، وہاں اولیاء بھی پیدا ہوئے ، لیکن علوم وفنون میں پیشوائی کام نہیں آئی ،زہدوتصوف بھی کام نہیں آیا ۔ مسلمان وہاں اکثریت مبں کبھی نہیں رہے ،مسلمانوں نے وہاں اکثریت کو یعنی عیسائیوں کو اسلام کی دعوت نہیں دی اس لئے مسلمانوں کو ایک دن ملک کو چھوڑدینا پڑا ۔ اللہ تعالی کو نہ اسپین کی مسجد قرطبہ کی پرواہ ہے نہ دہلی کی جامع مسجدکی پرواہ ہے ۔ نہ خانقاہوں کی پرواہ ہے ، اللہ کے بندوں کو ایمان کی دعوت دینا اصل کام ہے ۔ پہلے خانقاہوں کے ذریعہ ہندوستان میں دعوت اور تبلیغ کا کام ہوتا تھا اب خانقاہیں درگاہیں بن گئی ہیں ، اس ملک کو اسپین جیسے انجام سے بچانا ہے توغیر مسلموں سے تعلقات اور دعوت کے کام کو اولیت دینی ہوگی ہندو ازم کے مطالعہ کا شعبہ مدارس اور دوسرے اداروں میں قائم کرنا ہوگا اور ایسے علماء تیار کرنے ہوں گے جو ہندووں سے بھی زیادہ ان کے مذہب کو جانتے ہوں اور ہندووں کی کی زبان میں ڈائلاگ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔
۴۔ ہندوستان میں اور اس جدید عہد میں مسلمانوں کو اپنی جگہ بنانے کے لئے ایک ہمہ گیر تعلیمی انقلاب کی ضرورت ہے،یہ وہ زینہ ہے جس کے ذریعہ مسلمان ترقی کی بلندی تک پہونچ سکتے ہیں ،ہندوستان میں تعلیم اور معیشت میں مسلمانوں کی حصہ داری تین فی صد سے بھی کم ہے جب کہ آبادی سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ۱۴ فی صد کے قریب ہے ، شمالی ہند کی تین ریاستوں اترپردیش بہار اور مغربی بنگال میں مسلمان ملک کی پور ی مسلم آبادی کا نصف ہیں لیکن معیشت اور تعلیم میں ان کا حصہ صفر کے قریب ہے ، محرومیوں کا بنیادی سبب تعلیم اور معیشت میں پسماندگی ہے جسے دور کرنے کی اشد ضرورت ہے ، دستور میں یہ ضمانت دی گئی ہے کہ اقلیتیں اپنے تعلیمی ادارے قائم کرسکتی ہیں اور انہیں چلا سکتی ہیں ، دستور میں دفعہ ۴۶ کے رہنما اصول میں کہا گیا ہے کہ حکومت عوام کے کمزور طبقات کے تعلیمی اور معاشی مفادات کو فروغ دے گی ، عیسائیوں نے بے شمار تعلیمی ادارے قائم کئے ، مسلمانوں کو رکاوٹ کے باوجودصبر واستقلال کے ساتھ اس میدان میں کام کرنا ہے ۔ مسلم قیادتوں کو اندھیرے کا شکوہ کرنے کی بجائے اپنے حصہ کی شمع جلانے کی کوشش کرنے چاہئے ، مسلمانوں کی جتنی مرکزی اور ریاستی قیادتیں ہیں انہیں اچھے معیار کے ایسے اسکول قائم کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے جن میں مذہبی اخلاقی اور اردوکی تعلیم کا نظم ہو۔اس وقت اچھے معیار کے عصری اسکولوں کے قائم کرنے کی شدید ملی ضرورت ہے اور یہی بھی کار ثواب ہے ۔
۴۔ اس ملک میں ہماری ایک اہم ضرورت باہمی اتحاد و اتفاق ہے ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی تنظیم ایک سے زیادہ تنظیموں میں بٹ جاتی ہے اور باہمی الزام اور دشنام اور اتہام کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ بعض دردمند دل اتحاد کو قائم کرنے کے لئے سنجیدگی کے ساتھ متوجہ ہوے ہیں اور اس کے لئے انہوں نے اقرار نامہ اور عہد نامہ بھی تیار کیا ہے ۔ یہ بات کبھی ذہن سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ اتحاد کا حکم قرآن کا منصوص حکم ہے اور نص قطعی سے ثابت ہے ، لیکن یہ بات سمجھ لینے کی ہے کہ اتحاد لفظ اتحاد کو دہراتے رہنے سے نہیں پیدا ہوتا ہے ۔ جس طرح پانی آکسیجن اور ہائیڈروجن سے مرکب ہوتا ہے اسی طرح سے اتحاد بھی کچہ مرکب صفات کا نام ہے اتحاد کچہ اخلاقی خصوصیات کا حاصل ضرب ہے ۔ اگر قوم میں یہ صفات پیدا ہوجائیں گے تو اتحاد خود بخود پیدا ہوجائے گا ۔ اور یہ صفات ہیں دوسروں کا احترام ،دوسروں کے مفاد کو اپنے مفاد پر ترجیح دینا عیوب کی پردہ پوشی اور غیبت سے مکمل پرہیز ، نرمی اور خوش اخلاقی ، دوسروں کے ساتھ تعاون ۔ امت میں ان صفات کو عام کرنیکی ضرورت ہے ۔ اگر یہ صفات نہیں پیدا ہوں گی تو اتحاد نہیں پیدا ہوگا اور اگر یہ صفات پیدا ہوجائیں گی تو مسلم معاشرہ گلستان محبت میں بدل جائے گا اور خیرخواہی اور باہمی تعاون کی فضا پیدا ہوجائے گی ۔ان اخلاقی صفات کو پیدا کرنے کیلئے جمعہ کے اردو خطبات کو وسیلہ بنانا چاہئے،
۵۔ مسلمانوں کے بہت سے ضروری کاموں میں ایک ضروری کام انتخابی اسٹریٹجی تیار کرنا بھی ہے تاتکہ مسلمانوں کے ووٹ تقسیم نہ ہوں اور مسلم دشمن فرقہ پرست عناصر غالب نہ آسکیں اس کے لئے بھی مختلف قیادتوں کا باہمی اعتماد اور اتحاد ضروری ہے ، مسلمانوں کے بہت سے ضروری کاموں میں تعلیمی اور اقتصادی ترقی کے لائحہ عملتیار کرنے پر فوری توجہ کی ضرورت ہے اس ملک میں مسلمانوں کے کام ’’ملٹی لائین ہائی وے ‘‘Multiline High Way کی حیثیت رکھتے ہیں ہمیں بیک وقت کئی محاذوں پر کام کرنا ہے اس کے لئے الگ الگ صلاحیتوں الگ جماعتوں تنظیموں اور ان جی اوز کی ضرورت ہے یہ ساری تنظیمیں ایک دوسرے کا تکملہ ہوں گی اور ان کے درمیان افتراق اور اختلاف نقصان دہ گا ، ہمیں کبھی آپس میں باہمی مشاورت بھی کرنی ہوگی اور مل کرکے بیٹھنا بھی ہوگا اس کے لئے اس میدان کے ماہرین کی مشاورت اور خود احتسابی ضروری ہے ۔باہمی مشاورت سے اور خود احتسابی سے بہت سے کاموں کا نیا میدان سامنے آئے گا ، قابل مبارکباد ہیں وہ لوگ جو ملت کے غم کو اپناغم بناتے ہیں اور ملت کے مسائل پر غور کرنے کے لئے جمع ہوتے ہیں۔

«
»

ایک اوردادری!

سیکولرزم کا راگ اور مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے