زندگی کے اصل اہداف سے کیا ہم بے خبرہیں۔۔۔!

ہم اپنے اِرد گرد کے منظر پر غور کرتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ بعض لوگ کسی ہدف کا کوئی تصور ہی نہیں رکھتے نہ کوئی منزل،جیسے کوئی ہدف اب تک طے ہی نہ کیا ہو لیکن دوڑ میں سب کے ساتھ پھر بھی شامل ہوں۔خود اپنی ذات کے بارے میں بھی اکثر یہ محسوس کرکے خوف ہوتا ہے کہ ہم بھی ایسی ہی کسی دوڑ میں شامل تو نہیں جو بے مقصد ہے یا جس کا کوئی ہدف ہی نہیں!
اتفاقاً کبھی کوئی ہم سے استفسار کربیٹھے کہ اِس دنیا میں آپ کا ہدف کیا ہے؟تو شاید کوئی جواب ہم سے نہ بن پڑے۔یہ اندیشہ اِس بات کی طرف اِشارہ کرتا ہے کہ فی الواقع ہمارا کوئی واضح ہدف نہیں ہے۔ہمیں تنہائی میں کبھی غور کرنا چاہیے کہ کیا حقیقتاً ہمارا کوئی ہدف نہیں؟یا اگر ہے بھی تو وہ کیا اہداف ہیں، جن کی خاطر ہم اِس دوڑ دھوپ میں مصروف ہیں؟ کیوں کہ زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں ہم کوئی نہ کوئی کام کرتے ہی رہتے ہیں جو بغیر کسی مقصد کے ممکن نہیں ہو سکتے، کیونکہ زندہ اِنسان کی کوئی حرکت کسی مقصد کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔مثلاً ہم کار میں سفر کر رہے ہیں یا ٹرین میں سوار ہیں اور کوئی ہم سے دریافت کرے کہ آپ کہاں جارہے ہیں تو ہم کبھی یہ نہیں کہتے کہ ہمیں خبر نہیں ! بلکہ پوری قوت اور وضاحت کے ساتھ ہم اپنی منزل بھی بتاتے ہیں اور کسی بے تکلف دوست کے استفسار پر ہم سفر کا مقصد بھی بتا دیتے ہیں۔لیکن حیرت ہوتی ہے کہ ہم سفرِ دنیا کے بارے میں نہ کبھی سوچتے ہیں اور نہ کبھی کسی کو پوچھتے ہیں۔اگر اس طرح کا کوئی سوال آجائے تو شاید ہم جواب بھی نہ دے پائیں۔آخر ایسا کیوں ہے؟ ظاہر ہے ہم اِس سلسلے میں کسی بھاری مغالطے کا شکارہیں اور اِس مغالطے کے ساتھ اِس زندگی کے سفر کی ناکامی کا جوکھم اٹھا رہے ہیں۔
مغالطے کئی قسم کے ہیں جو شعوری بھی ہیں اور غیر شعوری بھی۔مثلاً ہم اِس سفرِ دنیا کو عیش کوشی کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں، یا اِسے اگر کسی منزل کے حصول کا راستہ سمجھتے بھی ہیں تو صرف موت تک کا راستہ سمجھتے ہیں جس کے بعد بس خاک ہو کر رہنا ہے۔مغالطے کی اِس تباہ کن صورتحال سے باہر نکلنے کی صورت کیا ہے؟اگرفی الواقع آدمی اپنی زندگی کے سفر کی مقصدیت متعین کرنے میں سنجیدہ ہے ، تو اِسے اپنی زندگی پرغور و فکر شروع کرناہوگا۔ ماضی کی طرف مُڑ کر وہ دیکھے اورسوچے کہ اُس کا ماضی کیسے اور کن مصروفیات میں گزرا،پھر یہ کہ وہ اپنے غیر یقینی مستقبل کے لیے کس پروگرام کا وہ خواہاں ہے۔پھر اپنے اندرون کا وہ جائزہ لے اور دیکھے کہ اُس کے دل و دماغ اپنی اگلی زندگی کو لے کر کن کیفیات و محسوسات سے گزر رہے ہیں اوراِس زندگی اوراس دنیا سے روانگی کے بعدکی زندگی کے بارے میں اُس کے مشاہدے اور غورو فکر کا کیا نتیجہ نکل رہا ہے۔ اُس کے فکر و نظر کو ایمان و یقین کاکوئی ایسا سہارا بھی حاصل ہے جو اُسے صحیح نتیجے پر پہنچا سکے !!
مخلصانہ غور وفکر کا سب سے اولین نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ یہ دنیا ہماری فائنل منزل نہیں ہے۔ پھر یہ بھی کہ یہ دنیا ہمارے طویل سفر کی منزل بھی نہیں، بلکہ ایک اسٹیشن ہے۔ غور و فکر کا یہ نتیجہ اپنے اہداف کے تعین کے سلسلے میں ایک اہم رول اد ا کرے گا۔اپنی زندگی کو ایک نصب العین سے روشناس کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا۔ اور شاید یہیں سے ہمیں اپنے اہداف کو مقرر اور اپنے نصب العین کو طے کرنے میں ہمیں مدد ملے گی۔ ہمارے موقف کے تعین یا اِ س کی وضاحت میں صفائی محسوس ہوگی اورہمارامذکورہ مغالطہ بھی دور ہو سکے گا۔
اس پر کشش اور سراب کی مانند دنیا بڑی دلربا ہوتی ہے۔ اِس میں موجود اشیاء دل کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔اِن پر کشش اشیاء کی محبت میں گرفتار ہونا عام سی بات ہے۔یہی ہماری منزل بن جاتے ہیں۔اور اِن ہی کو ہم اپنا ہد ف بنا کر زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن اگر ایسے اہداف کو ہم حاصل بھی کرلیں تو وہ کب تک ہمارے پاس رہیں گے؟سورۂ نحل(۱۶)میں اِس سوال کا جواب چودہ سو سال پہلے بڑے احسن طریقے سے دیا گیا ہے:’’ انسانو! جو کچھ تمہارے پاس ہے، اسے تو ختم ہی ہونا ہے اور جو اللہ کے پاس ہے ، وہی ابدی اور باقی رہنے والاہے۔ اور صبر کرنے والوں کو ، ہم ضرور اجر اورانعام دیں گے اس سے بھی احسن اور خوبصورت، جو عمل کرکے وہ آئے ہونگے۔ ‘‘(۹۶)۔سورۂ آلِ عمران(۳) کی ایک سو پچااسیویں آیت میں تودُنیاوی زندگی میں حاصل کیے جانے والے اہداف کی بے ثباتی کو بار بار اور صاف صاف بیا ن کر دیا گیا ہے: ’’اور دُنیا کی یہ زندگی ختم ہونے والی جنس کے علاوہ کچھ نہیں۔ سامانِ زندگی اور متاع ہے، جو استعمال ہوکر ختم ہوجائے گااور بہر حال دھوکہ کا سامان ہی ثابت ہوگا۔ ‘‘(۱۸۵)۔
ہمارا تجربہ بھی اور ہماری منطق ودانش بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ بے اصل اہداف جو دھوکہ کا سامان ثابت ہونے والے ہیں اور اِن کا حصول کبھی بڑی کامیابی نہیں کہلا سکتا۔ تو اِن ا ہدافِ عبث کو ہدف بنانے میں عقلمندی نہیں ہے۔ اِن چھوٹے موٹے ا ہداف کو اپنا مقصدبناکر ہم بڑی کامیابی کا سودا کر دیں گے۔
ہمارا دل و دماغ، ہمارا شعور اور ہمارااندرون اِس بے وقعت ہدف اور عظیم ہدف کے درمیان پائے جانے والے فرق کو محسوس کرے اور زندگی کے اہداف پر نظر ثانی کرے۔ اپنے مختصر سے دنیوی ہدف کو حقیقی ہدف کے تابع بنائے اور ابدی زندگی پر نظریں مرکوز کر لے جو کبھی ختم نہ ہونے والی اُخروی زندگی ہے۔ اپنے کارناموں، اپنے اہداف اور اپنے نصب العین کو کتابِ ہدایت میں موجودرہنما خطوط کی روشنی میں نئے سرے سے متعین کرے۔
کتابِ ہدایت کی ستراویں سورۃ بنی اسرائیل (۱۷)کی میں اصل ہدف کا نہایت صاف انداز میں ذکر ملاحظہ ہو: ’’ اور جس کسی کا ہدف آخرت ہو اور اس نے(اِس کے حصول کی) بھرپورکوششیں بھی کی ہوں اور(اپنے اِس ہدف کے حصول میں) وہ ایماندار بھی رہا ہو تو یہی وہ لوگ ہوں گے جن کی کوششوں کو شرف قبولیت بخشا جائے گا۔ جنہوں نے اپنا ہدف دنیا کو بنارکھا ہے اِنہیں بھی ہم ہی (اِس دنیا میں) دے رہے ہیں اور جنہوں نے آخرت کو اپنا ہدف بنایا ہے اُنہیں بھی ہم ہی دیں گے اور آپ کے رب کی عطا اور بخشش(کے اِس فیضِ عام ) کو کوئی روک(بھی) نہیں سکتا۔ ‘‘(۱۹تا ۲۱)۔
ایماندارانہ طرز عمل کے ساتھ ، ایمان کی بیش بہا دولت کو لے کر جو آخرت کے رُخ پر اپنی دنیا کو موڑتا رہا اوراس کے لئے جہدِ مسلسل اور کوششِ پیہم سے کام لیتا رہا تو اسکی کوششوں کو ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا۔اللہ تعالے صرف رب المسلمین نہیں بلکہ رب العالمین ہے۔ہم دیکھتے رہتے ہیں کہ وہ تو اس دنیا میں سب کو نوازتا رہتاہے، یہاں تک کے اپنے دشمنوں کو بھی وہی نواز رہا ہے اور اُن کی زندگیوں کی ضروریات کو اپنی رحیمی اور کریمی کے حوالے سے پوری کر رہا ہے۔ لیکن وہی ہمیں خبر دے رہا ہے کہ متاعِ دنیا بے ثبات ہے اور بے اصل بھی ہے اور جس کی زوال پذیری کو ہم روز دیکھ بھی رہے ہیں۔لیکن ہمارا ایمان اِس قدر مستحکم ہو کہ اِس دنیا میں ہم اُس کے اُخروی اِنعامات و نوازشات کے سوالی بنیں اور اِن ہی کو اپنا ہدف بنائیں پھر اِس کے حصول کی پورے جوشِ ایمانی کے ساتھ محوِ سعی و کوشش ہو جائیں۔واضح رہے کہ کسی کی کوششوں کو ہمارا رب ضائع نہیں جانے دیتا۔بے شک ،رب تعالےٰ کاکیا ہوا وہ وعدہ جو سورۂ انبیاء(۲۱) میں موجود ہے، یقیناوفا ہو کر رہے گا۔یہ ہمار ا یقین بھی ہے اور ایما ن بھی:’’ اور جو کوئی عملِ صالح اور کارِ خیرکرے گا اور وہ ایمان والا ہو گا ، تو اس کی کوششوں کی ناقدری نہیں کی جائے گی اور بے شک ہم ان کوششوں کو ریکارڈ بھی کر رہے ہیں۔ ‘‘(۹۴)کوششوں میں
ایمانداری،نیتوں میں خلوص،ارادوں میں خدا ترسی کی پرکھ کے بعد اللہ اپنے وعدوں کو وفا کرے گا۔ اِس جائزے کی اطلاع ہمیں رب تعالےٰ نے سورۂ نجم(۵۳) کی میں دے دی ہے:’’ کیا انسان کو خبر نہیں پہنچی کہ موسیٰ علیہ السلام پر نازل کئے گئے صحیفے میں کیا کچھ درج تھا؟ اور ابراہیم علیہ السلام ، جو وفا کے ہر پیمانے پر کھرے اترے، اُن پر نازل شدہ صحیفوں میں کس بات کا تذکرہ تھا؟ یہی تذکرہ تھا اور اسے پھر سے سن لو کہ انسان کو وہی کچھ ملے گا، جس کے لئے اس نے سعی اور محنت کی ہوگی۔ اور بے شک اس کی سعی اور کوششوں کو جانچا اورپرکھا بھی جائے گا۔پھر اسے پورا پورا اجر دیا جائے گا۔‘‘(۳۶تا ۴۱)۔
قیامت کے دن انسانیت جب اپنے امتحان کا رزلٹ معلوم کرنے اور اپنے رب کے سامنے حساب کے لئے حاضر ہوگی اس وقت ممتحن خود رب العالمین ہوگا۔ کائنات کا کوئی ذرہ اپنے رب سے نہ تو غائب رہ سکے گا، نہ کہیں چھپ ہی پائے گا ،نہ بچ کر کہیں بھاگ ہی سکے گا۔ ہر فرد کے اعمال و افعال ، اِرادوں اور نیتوں کو پرکھا جائے گااور نتائج ڈکلیر کیے جائیں گے ۔اِس سے پہلے ہمیں اِس کی تیاری کرنی ہوگی جیسا کہ ایک مضمون ہمیں حدیث شریف کے ذخیروں میں ملتا ہے : اَحْکِمِ السَّفِیْنَۃَ فَاِنَّ الْبَحْرَ عَمِیْقٌ خَفِّفْ ظَھْرَکَ فَاِ نَّ الْعَقَبَۃَ کَعُوْدٌ وَاسْتَکْثِرِ الزَّادَ فَاِنَّ السَّفَرَ طَوِیْلٌ
وَاسْتَخْلِصْ فِی الْعَمَلِ فَاِ نَّ النَّاقِدَ بَصِیْرٌ۔۔۔’’ کشتی کو مضبوط بنالے، دریا بڑاعمیق ہے ۔پیٹھ کے بوجھ کو خفیف اور ہلکاکرلے، گھاٹی بڑی دشوار ہے ۔ زادِ سفر ساتھ لے لے۔۔۔ سفر بڑا طویل ہے۔، عمل میں اخلاص پیدا کرلے۔۔۔،بے شک، پرکھنے والے کی نگاہ بڑی تیز ہے۔ ‘‘
قولِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی روشنی ہماری زندگی کی راہوں کو روشن کررہی ہے۔ کتاب اللہ کی آیات ہمارے نقوشِ منزلِ مقصود کے دھندلے پن کو ہٹا رہی ہیں۔ اپنی شخصیت کو سنوارنے نکھارنے کا سنہری موقع اور اِس کے لیے درکار وقت ابھی ہمارے ہاتھ میں ہے۔ازحد ضروری ہے کہ اپنے تمام تر توجہات کو یکجا کیا جائے۔۔۔ انتہائی عظیم مقصد کے لئے ۔۔۔منزل مقصود پر اپنی نظریں مرکوز کرلی جائیں۔ اِخلاص وللہٰیت کے ساتھ۔۔۔ اپنی ہر سعئ مبروک کواپنے رب کی رضا کے لیے پیش کریں۔۔۔ اپنی مغفرت کی خاطر ۔ 
ہم اپنی ذات کی اصلاح پر اپنی تمام ترتوجہات کو مرکوز کرلیں ۔ اپنے ا ہداف کو درست کر لیں۔اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی مسلسل کوششیں جاری رکھیں۔کثیرالاطراف مقاصد کے بجائے خیر کے کاموں میں اپنی ساری صلاحیتوں کو لگادیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ قرآن کے الفاظ میں:’’ بے شک تمہاری کوششیں متضاد ہیں، مختلف ہیں، جدا جدا ہیں۔ ‘‘(سورۂ لیل:۹۲آیت:۴)کے مصداق ہماری کوششیں تضاد کا شکار ہوکر ہمارے دامنِ فلاح کو چاک نہ کردیں ۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ جس نے آخرت کے اہداف کو سامنے رکھا اور اِن کے حصول کی جدوجہد کی،اُس نے دنیاوی اہداف کو بھی حاصل کرلیا اور ساتھ ہی ساتھ آخرت کے اپنے زادِ آخرت میں بھی اضافہ کر لیا۔
دُنیاوی اغراض پر دین کی بھینٹ چڑھانے والے ہم دنیا پرستوں کی کبھی آنکھیں کھلیں گی بھی یا نہیں۔ کیا ہم اپنے اصل اہدا ف کے تعین سے غافل ہیں ؟

«
»

مسلمانوں کے مسائل ۔ بابری سے دادری تک

داعش کا بڑھتا خطرہ اور علماء اسلام کا اتحاد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے