کیا مسلمان بن کر رہنا جرم ہے ؟

آئے دن یہاں اس طرح کا واقعہ پیش آتا رہتا ہے اور ہندوستان بھر کے مسلمان اس طرح کی دوہری پالیسی کا سامناکرتے رہتے ہیں لیکن یہ کبھی نہیں سوچا گیا تھا کے ہندو اپنی جائے عبادت کو بھی مسلمانوں کے قتل کے لئے استعمال کریں گے ۔ مندر سے کسی مسلمان کے قتل کا فتوی جاری کرکے اس کا قتل کرنے کے لئے عوام کی بھیڑ اکٹھا کی جائے گی ۔ کسی فرضی بات کی افواہ اڑاکر کسی انسان کی جان تک لے لی جائے گی لیکن اب یہ سب بھی ہوگیا ہے ۔اور ایک مندر کے لاؤڈ اسپیکر سے بیف کھانے کی افواہ اڑاکر کے ایک بے گناہ انسان کی ہزاروں درندوں نے جان لے لی ہے۔
سوموار کی شب میں دہلی سے متصل اتر پردیش کے نوئیڈا کے بسہاری گاؤں میں ایک شریف مسلمان اخلاق احمد کے حوالے سے مندر کے مائک میں جاکر یہ منادی کرائی گئی کہ اس کے گھر میں گائے کا گوشت پک رہا ہے لہذا سب وہاں جمع ہوجاؤ۔ مندر کے لاؤڈ اسپیکر سے یہ اعلان ہوتے ہی مرحوم اخلاق احمد کے گھر پر ایک جمع غفیر ہوگیا ۔ گھر کا دورازہ توڑ کر گھر میں داخل ہوئے ہجوم نے ایک طرف سے گھر میں موجود سبھوں کی پٹائی شروع کردی ،کسی نے تلوار کا استعمال کیا ، کسی نے بھالاکا ، کسی گڑاسا کا کسی نے لکڑی اور جو کچھ لے کر نہیں آیاتھا اس نے اخلاق احمد کے گھر موجود سلائی مشین اور دیگر چیزوں سے ہی پٹائی شروع کردی ۔ان درندوں نے گھر میں موجود پوری فیملی کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا، 50 سالہ اخلاق احمد کو گھسیٹ کر باہر نکالا اور مارتے مارتے موت کی آغوش میں سلادیا ،ان کے بیٹے دانش کے ساتھ بھی اسی طرح کی غیر انسانی حرکتیں کی گئیں جو ابھی ہسپتال میں موت و حیات کے درمیان ہچکولے کھارہا ہے ۔ان کی بیٹی اور اہلیہ غم سے نڈھال ہے ۔ اپنی نگاہوں کے سامنے خود پٹائی کھانے اور باپ بھائی کو مارے جانے کا دلدوز منظر ان کے لئے ایک مستقل عذاب بن چکا ہے ۔ صبر کا تمام پیمانہ لبریز ہوچکا ہے ۔ بیف کے الزام میں کسی مسلمان کو مارنے کا یہ پہلاواقعہ نہیں ہے بلکہ جس وقت نوئیڈا میں وحشی درندے اس خوفناک واردات کو انجام دے رہے تھے اسی وقت ممبئی سے اسی نوعیت کی یہ خبر آرہی تھی کہ وہاں ایک کمپنی میں کام کررہے یعقوب نامی مسلمان کو ان کے ساتھیوں نے یہ کہ کر قتل کردیا ہے کہ بہت قربانی کا گوشت کھاکر آئے ہواب ہم تمہارا گوشت کھائیں گے۔تفصیل کے مطابق یعقوب عبد الحسن ممبئی کی ایک کمپنی ٹویوٹا میں ملازمت کررہا تھا جب وہ منگل کو کمپنی میں گیا تو اس کے ساتھیوں نے اس سے سوال کرنا شروع کردیا کہ کیسے عید منایا ،کیا کیا اور اسی دوان اس کا قتل کردیاگیا جس کی تحقیق پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد پولس کے ذریعہ کی گئی تفتیش سے ہوئی ہے اور کمپنی میں کام کرنے والے ایک ساتھی قتل کا اعتراف کرلیا ہے۔جس وقت میں یہ مضمون لکھ رہی ہوں میرے سامنے ایک اور خبر کانپور کی ہے جہاں ایک گاؤں میں ہندو برادری کے لوگوں نے ایک مسلمان کو دہشت گردبتاکر قتل کردیا ہے ۔
ایک دودن کے اندر پیش آنے والے یہ تین واقعات ہیں ۔ تینوں کی نوعیت تقریبا یکساں ہے جس میں بے گناہ افراد کا قتل اکثریتی طبقہ کے لوگوں نے اپنی طاقت کے زعم میں کیا ہے ۔ کہیں بیف کھانے کی افواہ پھیلاکر کہیں دہشت گرد ثابت کرکے تو کہیں عید قرباں منانے کی پاداش میں ۔سوال یہ ہے کہ اکثریتی طبقہ کے لوگ ایسا کیوں کررہے ہیں ۔ قانونی اختیارات ان کے ہاتھوں میں کب سے اور کیسے آگیا ہے ۔ میں مانتی ہوں کہ ہندوستان کی اکثر ریاستوں میں بیف پر پابندی ہے وہاں گائے کا ذبح کرنا قانوی طور پر جرم ہے ۔ دہشت گردی جرم عظیم ہے ۔ دہشت گرد قانون کی نگاہ میں مجرم ہے لیکن ان اسباب کی بناپر قانون نافذ کرنے کا اختیار اور مجرم ٹھہرانے کا حق کس کا ہے ۔ پولس کا انتظامیہ کا یا عوام کا ۔ 
موضوع بحث یہ نہیں ہے کہ اخلاق کے گھر میں گائے کا گوشت پک رہا تھا یا نہیں اور نہ ہی اس سے مطلب ہے کہاں گائے کا ذبیحہ جرم ہے اور کہاں نہیں موضوع بحث یہ ہے کہ ہندوستان میں جرم ثابت کرنے کا حق ، الزامات عائد کرکے قتل کرنے کا اختیار ،سزا سنانے کا استحقاق اکثریتی طبقہ کے ہاتھوں میں کب سے آگیا ہے اور کس نے یہ تمام اختیارات انہیں فراہم کردیئے ہیں ۔ یہ کوئی پہلاوقعہ نہیں ہے جس میں اکثریتی طبقہ کے لوگوں نے اس طرح کی افواہ پھیلاکر مسلمانوں کا قتل کیا ہوبلکہ ہندوستان بھر میں اس طرح کے واقعات موقع بہ موقع پیش آتے رہتے ہیں ۔ مختلف فرضی الزامات لگاکر مسلمانوں کا قتل کردیا جاتا ہے ۔آخر کیوں ؟
کیا اس ملک میں مسلمانوں کو رہنے کا حق نہیں ہے ۔ کیا یہاں مسلمان ہونا جرم ہے، کیا یہ ملک سیکولر اسٹیٹ کے بجائے ہندو راشٹر ہے اور اس جرم کی پاداش میں قتل کرنے کا اختیار یہاں کی انتظامیہ کے بجائے اکثریتی طبقہ کو حاصل ہے کہ جب چاہے جس کا چاہے ، جیسے چاہے قتل کردے ، عزت و آبر و کے ساتھ کھلواڑ کرے اور نہ جانے کس کس طرح کے بھیانک جرائم کے ارتکاب پر آمادہ ہوجائے ۔
اچھے دنوں کا نعرہ لگاکر اقتدار پر قابض ہونے والے نریندرمودی کی دور حکومت میں پے در پے پیش آنے والے واقعات سے یہ صاف ہوگیا ہے ملک میں فرقہ پرستی کا زہر گھولا جارہا ہے ۔ مذہب کے نام ہندو مسلم کی سیاست کی جارہی ہے ۔ اکثریتی طبقہ کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف مشتعل کیا جارہا ہے ۔ وقتا فوقتا مسلمانوں کا قتل کراکر مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے اور ہندوبرادری کے لوگوں کو قانون سے بالاتر رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔میں سمجھتی ہوں کہ اگر معاملہ بر عکس ہوتا ، مسلمانوں کے ہجوم نے کسی ہندو کا کوئی افواہ اڑاکر قتل کیا ہوتا تو آج پورے ہندوستان کا نقشہ مختلف ہوتا ۔ پوری پوی کی مسلم بستی پر دہشت گردی اور فرقہ پرستی کا الزام عائد کرکے ہر ایک کی گرفتاری ہوچکی ہوتی۔ پولس اور انتظامیہ انتہائی مستعد نظر آتی ۔ عدالتوں سے ان تمام کے لئے پھانسی کا فیصلہ سنا دیا جاتا ، وزیر اعظم ، صدر جمہوریہ او ردیگر تمام سیاست داں اپنے اپنے غم کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ۔ میڈیا میں ہفتوں یہ بریکنگ نیوز بن کر چلتا لیکن یہاں مقتول بے گناہ مسلمان اور قاتل اکثریتی طبقہ ہے ۔ بیف کی افواہ اڑاکر قتل کا شرمناک کھیل کھیلا گیا ہے اس لئے ماضی کی طرح یہ واقعہ بھی تاریخ کا گم نام حصہ ہوجائے گا ، نہ مجرموں کو سزا ملے گی اور نہ ہی اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لئے کوئی کاروائی ہوگی بلکہ جانچ ایجنسیاں کسی مسلمان کوہی مجرم ثابت کرنے کی کوشش کرے گی۔ فریج میں رکھے بکرے کے گوشت کو گائے کا ثابت کرکے بزرگ مرحوم اخلاق اور ان کی فیملی کو ہی مجرم گردانا جائے گا ۔ مودی حکومت کے وزیر مہیش شرما کے بیان سے اس کے اشارے بھی مل چکے ہیں جوا س خونی وارادات کو اتفاقی واقعہ کہ کرمجرموں کی حوصلہ افزائی کی وکالت کررہے ہیں ۔مہاپنجایت منعقد کرنے کی باتیں کررہے ہیں ۔ اس واقعہ کے لئے یوپی کی سماج وادی حکومت بھی برابر کی ذمہ دار ہے جہاں لاء اینڈ آڈر کا نظام بحران کا شکار ہے ۔ اکھلیش حکومت میں تقریبا دوسو سے زائد فسادات ہوچکے ہیں جس میں سب سے زیادہ مسلمانوں کا جانی و مالی نقصان ہوا ہے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ۔یہ سب اس لئے ہورہا ہے کہ مجرموں کے ساتھ نرم رویہ اپنا یا جارہا ہے ۔ فرقہ پرستی پھیلانے والوں کے ساتھ چشم پوشی کی جارہی ہے ۔ انہیں ان کے کئے کی سزا نہیں دی جارہی ہے۔

«
»

مسلمانوں کے مسائل ۔ بابری سے دادری تک

داعش کا بڑھتا خطرہ اور علماء اسلام کا اتحاد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے