دہشت گردی: اقوامِ ہند کے لئے لمحۂ فکریہ

آج جبکہ ہندوستان دنیا کے سامنے ایک بڑی اقتصادی طاقت بننے کی بھر پور صلاحیت کا حامل ہے اسے دہشت گردی اور اندرونی خلفشار کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک ملک کے اقتدار پر قابض رہنے والی طاقتیں ابھی تک اس حقیقت کو گلے سے نہیں اتار پا رہی ہیں کہ وہ انسان جس کے خلاف انہوں نے سخت ترین پروپیگنڈہ مہم چلائی، اقلیتوں اور کمزور طبقات کو ڈرانے دھمکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ملک کی اقلیتیں اور کمزور طبقات اسی انسان کی حکومت میں اپنے بہتر مستقبل کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اور اسی حقیقت سے خوف زدہ یہ طاقتیں ملک میں خلفشار کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ وزیرِ اعظم کے ترقی کے ایجنڈہ کو روکا جاسکے۔ یہ ہمارے ملک کی داخلی کیفیت ہے جس کا یہاں محض سرسری تذکرہ کیا گیا ہے۔ 
فی الوقت ملک کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اسلامک اسٹیٹ( آئی ایس) کی دہشت گردی ہے جو صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے سامنے ایک بڑے خوف کے طور پر ابھر نے کی کوشش کررہی ہے۔ آئی ایس کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کسی ایسی تنظیم کا نام ہے جسے مسلمان چلا رہے اور دنیا بھر میں دہشت کا ماحول پیدا کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایس کا اسلام سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ عرض کردینامیں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو محبت، اخوت، بھائی چارے، امن اور سلامتی کا درس دیتا ہے اور دنیا کی کوئی بھی ایسی تنظیم جس کے ایجنڈہ میں دہشت گردی، بے گناہوں کا قتلِ عام، معصوم بچوں اور خواتین کو موت کے گھاٹ اتارنا، حکومت یا کسی مخصوص تنظیم کے کسی عمل کا بدلہ لینے کے لئے اس ملک یا تنظیم سے وابستہ کسی بے گناہ کا سر کاٹنا، عوام میں خوف کی صورتِ حال پیدا کرناشامل ہو سب کچھ ہوسکتی ہے مگر اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔ یہ محض اسلام کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کو مشقِ ستم بنائے جانے کے لئے کسی ایسی طاقت کے ذہن کی پیداوار ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے وجود سے دنیا کو پاک کرنے کی سازش کرکے مسلمانوں اور اسلام کو موردِ الزام ثابت کرنے کی مذموم کوشش کر رہی ہے۔
حالیہ دنوں میں آئی ایس نے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر دہشت گردی کے واقعات رونما کرکے ملک میں خوف و دہشت کے حالات پیدا کرنے کی دھمکی دی ہے جس سے نہ صرف بر سرِ اقتدار طبقہ میں بلکہ ملک کے ہر صاحبِ فکر و نظر حلقہ میں بے چینی پائی جاتی ہے اور ہر سمت سے آئی ایس کی بڑی سطح پر مذمت کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ مگر کیا صرف مذمت ہی آئی ایس کی غیر انسانی کارگزاریوں کا علاج ہے۔
لکھنؤ کے خالد رشیدصاحب فرنگی محلی نے بھی آئی ایس کے خلاف فتویٰ جاری کیا ہے کہ آئی ایس کی بڑے پیمانے پر مذمت کی جائے۔ یہاں میرا ماننا ہے کہ صرف فتوے جاری کرنا یا آئی ایس کی مذمت کرنا مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ مسئلہ کا حل یہ ہے کہ آئی ایس کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی مہم شروع کی جائے۔ ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا میں جہاں بھی عوامی سطح پر کوئی مہم شروع کی گئی ہے اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ کسی بھی دہشت گردی کا اس سے بڑا علاج کوئی نہیں کہ ملک کی عوام سڑکوں پر اتر کر اس کے خلاف متحد ہوجائے۔ 
ہم مساجد کے لئے، منادر کے لئے، مدارس کے لئے، مذہبی جلسوں اور دھارمک پروگراموں کے لئے بڑے پیمانے پر عوام سے چندہ کرنے کے لئے دروازہ در دروازہ جاتے ہیں اور اپنی اس چندہ کی مہم میں بڑے پیمانے پر کامیاب بھی ہوتے ہیں تو کیا ہم اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ دہشت گردی جیسے بڑے مسئلہ کے حل کے لئے جس میں نہ ہماری مساجد محفوظ ہیں، نہ منادر، نہ گرجے، نہ گرودوارے، نہ اسکول کالج اور یونیورسٹیاں، نہ خانقاہیں، نہ ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتیں، نہ نوجوانوں کی جانیں ہم ایک ایک دروازے کی کنڈی بجاکر لوگوں کو دہشت گردی کے خلاف متحد نہیں کرسکتے؟
میرا خیال ہے کہ کسی بھی دہشت گردی کا سامنا کرنے کے لئے ہمیں عوامی مہم چلانی ہوگی محض مذمتوں سے کام چلنے والا نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ دہشت گرد تنظیمیں اتنی بے حس ہوتی ہیں کہ ان پر کسی لعنت، کسی مذمت اور کسی خوشامد کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ان کا مقصد صرف اور صرف تباہی ہوتا ہے جس کا سدِ باب یہ ہے کہ جہاں بھی کوئی ایسا مشکوک انسان نظر آئے جس سے انسان دشمنی کی کسی حرکت کا اندیشہ ہو اسے فوری طور پر پکڑ کر پولیس کے حوالے کریں۔آپسی جھگڑوں کو بالائے طاق رکھیں، فکری اختلافات کو فراموش کریں، مذہبی اور مسلکی اختلافات سے اوپر اٹھ کر صرف ایک ہندوستانی بن جائیں اور آئی ایس کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر سطح پر خود کو تیار کریں۔
یاد رکھیں کہ کوئی بھی دہشت گرد اپنی کارروائی انجام دیتے وقت نہ ہندو ہوتا ہے، نہ مسلمان، نہ سکھ، نہ عیسائی وہ صرف انسانیت کا دشمن ہوتا ہے اور انسانیت کے ہر دشمن کو کیفرِ کردار تک پہنچانا ہر انسان کا مذہبی اور اخلاقی فریضہ ہے جو ہم متحد ہوکر ہی انجام دے سکتے ہیں۔
ملک کے تمام دانشوروں، سیاست دانوں، علمائے کرام، سادھوؤں، سنتوں، گروؤں، پادریوں، جین مذہب کے پیشواؤں، صوفیائے کرام، سماجی کارکنان، اساتذہ، طلبأ غرض کہ معاشرہ کے ہر ذمہ دار کو آئی ایس کے خلاف میدانِ عمل میں آکر عوامی بیداری پیدا کرنی ہوگی۔ آئی ایس کے خلاف قلم کے توسط سے، تقاریر کے توسط سے گھر گھر جاکر پیغام کے توسط سے لوگوں کو متحد کرنا ہوگا تاکہ وہ ملک سے اس دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے دامِ درمے، قدمِ سخنے اٹھ کھڑے ہوں اور تمام اختلافات سے پرے ایک ہوکر ہندوستان کی سالمیت کے لئے کام کریں۔

«
»

مسلمانوں کے نام ،قربان شدہ بکرے کا ای میل

الٰہی یہ تیرے مولوی بندے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے