اردو کے حق میں پاکستانی سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ

یہ عرضداشت ایک شخص کوکب اقبال نے داخل کی تھی اور 17برسوں کی قانونی جنگ کے بعد یہ فیصلہ آیا ہے۔ چیف جسٹس جواد۔ ایس۔ خواجہ کی سربراہی والی تین رکنی بنچ نے آٹھ ستمبر کو اردو زبان میں ترجمہ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے9؍ نکات پر عمل درآمد کی ہدایت دی۔ یہ نکات ہیں: آئین کی دفعہ251کے احکامات یعنی ’اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے اور صوبائی و علاقائی زبانوں کے فروغ‘ کو بلا غیر ضروری تاخیر فوراً نافذ کیا جائے۔ حکومت کی جانب سے اس عدالت کے روبرو عہد کرتے ہوئے جولائی 2015میں اس حوالے سے عمل درآمد کی جو میعاد مقرر کی گئی ہے اس کی ہر حال میں پابندی کی جائے۔ قومی زبان کے رسم الخط میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں باہمی ہم آہنگی پیدا کریں۔ تین ماہ کے اندر وفاقی اور صوبائی قوانین کا قومی زبان میں ترجمہ کر لیا جائے۔ بغیر کسی غیر ضروری تاخیر کے نگرانی کرنے اور باہمی ربط قائم رکھنے والے ادارے دفعہ 151کو نافذ کریں اور تمام متعلقہ اداروں میں اس دفعہ کا نفاذ یقینی بنائیں۔ وفاقی سطح پر مقابلہ کے امتحانات میں قومی زبان کے استعمال کے بارے میں حکومتی اداروں کی سفارشوں پر عمل کیا جائے۔ عوامی مفاد سے تعلق رکھنے والے عدالتی فیصلوں یا ایسے فیصلے جو دفعہ 189کے تحت اصول قانون کی وضاحت کرتے ہوں، کو لازماً اردو میں ترجمہ کروایا جائے۔ عدالتی مقدمات میں سرکاری محکمے اپنے جوابات حتی الامکان اردو میں پیش کریں تاکہ عام شہری بھی موثر طریقے سے اپنے قانونی حقوق نافذ کروا سکیں۔ اور آخری یہ کہ اس فیصلے کے بعد اگر کوئی سرکاری ادارہ یا اہلکار دفعہ251کے احکامات کی خلاف ورزی کرے گا تو جس شہری کو بھی اس کے نتیجے میں نقصان پہنچے گا اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہوگا۔ان نکات پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں بھی اردو کو وہی مسائل درپیش ہیں جو ہندوستان میں ہیں۔ عدالت نے اس بات پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا کہ آئین میں اس اندراج کے باوجود کہ پندرہ سال کے اندر اندر انگریزی کی جگہ پر اردو کو رائج کر دیا جائے، حکومتوں نے اس سلسلے میں کوئی کوشش نہیں کی۔ عدالت نے زور دے کر کہا کہ حکومتوں نے اس بارے میں زبردست کوتاہی برتی ہے اور اب یہ کوتاہی برداشت نہیں کیا جائے گی۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر پاکستانی عوام نے زبردست خوشیاں منائیں اور اس امید کا اظہار کیا کہ اب اردو کو اس کا جائز حق مل جائے گا۔ اس بارے میں 13ستمبر کی شام کو آرٹس کونسل کراچی میں ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں عوام نے بڑی پرجوش شرکت کی۔ اس بارے میں روزنامہ جنگ کراچی کی ایک رپورٹ کے مطابق ’اہل وطن کے دلوں میں سپریم کورٹ کی جانب سے اردو کو سرکاری زبان قراردینے کے فیصلے کی کس قدر اہمیت ہے اس کا اندازہ اتوار 13 ستمبر کی شام کو ہوا جب آرٹس کونسل کراچی میں ’تحریک قومی زبان‘ کی جانب سے اور ادارہ ’جنگ‘ کے اشتراک سے ’نفاذ اردو کانفرنس‘ منعقد ہوئی اور عوام کی کثیرتعداد نے اس میں جوق در جوق شرکت کی۔ ان میں ہر طبقہ زندگی کے لوگ شامل تھے جو ہفتے بھر کی ایک چھٹی بھی اس کانفرنس پر قربان کرنے چلے آئے۔ حالانکہ بھرپور خدشات تھے کہ نفاذ اردو کانفرنس کا یہ پروگرام کامیاب ہوگا یا نہیں۔ کیونکہ سنجیدہ وعلمی تقاریب کے نصیب میں زیادہ تر کم سامعین ہی لکھے ہوتے ہیں اور پھر ایسے میں اتوار کی سہ پہر کا پروگرام ۔خود آرٹس کونسل کے افسران کہہ رہے تھے کہ پروگرام میں حاضرین کی بھرپور شرکت تو کیا اوسط تعداد کی شرکت کا بھی امکان کم ہی ہے۔ کیونکہ اتوار کے دن تو لوگ یا تو آرام ہی کرتے ہیں یا عزیزوں دوستوں سے ملنا ملانا کرلیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اتوار کی شام کو اگر کوئی میوزیکل پروگرام بھی رکھا گیا ہے تو وہ ناکام ہی رہا ہے یہ تو پھر ایک سنجیدہ و علمی تقریب ہے۔ لیکن اللہ کریم نے زبان اردو کے عاشقوں کی لاج رکھ لی اور ان سب خدشات کو باطل کردیا اور نفاذ اردو کانفرنس کی اس تقریب میں نہ صرف مدعوئین نے بھرپور شرکت کی بلکہ دونوں طویل اجلاسوں میں ان کے ولولے بھی ماند نہ پڑے اور لاریب کہ ان عاشقان اردو کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ یہ تقریب اردو کو سرکاری زبان بنانے کے فیصلے پہ اظہار مسرت و تشکر کی بھی تقریب تھی، لہٰذا خصوصی طور پر بنوایا گیا بڑا اور لذیز کیک بھی کا ٹا گیا جسے برسر مسند موجود ہر فرد نے مل جل کر کاٹا اور ہال میں بیٹھے حاضرین نے مزے لے لے کر کھایا‘۔ اس تقریب میں جسٹس جواد خواجہ کو ’محسن اردو‘ اور ملک کا سب سے بڑا شہری اعزاز’نشان پاکستان‘ دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ ہر سال آٹھ ستمبر کو ’یوم اردو‘ منانے اور اردو کے حوالے سے نمایاں خدمات انجام دینے والے کو ایک نیا شہری اعزاز ’نشان اردو‘ تفویض کرنے کا اعلان کیا گیا۔ آئندہ مقابلے کے امتحانات یعنی سی ایس ایس کو اردو میں کروانے اور اہم عالمی زبانوں کی اہم کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرانے اور اہم علاقائی ادب کو اردو میں منتقل کرنے کی تجویز بھی منظورکی گئی۔ 
سپریم کورٹ کے فیصلے پر اس تقریب کے انعقاد اور اس میں عوام کی پرجوش شرکت سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ عوام تو اردو سے محبت کرتے ہیں مگر حکومتیں اس کو اس کا جائز حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حکومتوں کے دوہرے رویے کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف اردو کو اس کا حق دینے سے گریز کیا گیا اور دوسری طرف 1947 میں مشرقی پاکستان پر اردو کو قومی زبان کی حیثیت سے تھوپ دیا گیا اور اسے قومی شناخت قرار دیا گیا۔ جبکہ وہاں بنگالی اکثریتی زبان ہے۔ جس کا نتیجہ اس شکل میں برآمد ہوا کہ وہاں لسانی انقلاب آیا اور بالآخر مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے الگ ہو کر ایک نئے ملک کی شکل میں عالمی جغرافیہ کے منظرنامہ پر ابھرا۔ حالانکہ حکومت کی وہ کوشش غیر آئینی تھی۔ کیونکہ آئین کی دفعہ28 زبان، رسم الخط او رتہذیب کے تحفظ کی یقین دہانی کراتی ہے۔ حکمرانوں کی دوہری سیاست اور لسانی تعصب کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ کے ابتدائی ادوار کے ایک صدر آغا خاں نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ عربی کو قومی زبان بنایا جائے۔ لیکن پاکستانی عوام نے اسے مسترد کر دیا۔ اس کے بعد جنرل ضیاء الحق نے اسے لازمی قرار دے دیا تھا لیکن وہ فیصلہ بھی نہیں چلا۔ بہر حال وہاں کے عوام تو چاہتے ہیں کہ اردو کو حقیقی معنوں میں قومی زبان بنایا جائے اور اسے دفتری زبان کے طور پر رائج کیا جائے۔ لیکن سیاست دانوں کی سیاست آڑے آتی رہی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ اگر چہ یہ فیصلہ آگیا ہے کہ لیکن اس کے نفاذ کی تیاری نہیں ہے۔ کیونکہ اس سے قبل سپریم کورٹ نے اپنے جن فیصلوں کا اردو میں ترجمہ کروایا ہے ’ڈیلی پاکستان‘ کے مطابق وہ غلطیوں کا پلندہ ہے۔ سپریم کورٹ نے زیریں عدالتوں کو اردو میں فیصلے سنانے کا حکم دیا تھا جو نہیں چل سکا۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ فیصلوں کو اردو میں منتقل کرنے کے لیے باتنخواہ ترجمہ نگار رکھنے کے بجائے فاضل ججوں کو چاہیے کہ وہ اپنے فیصلے اردو ہی میں لکھیں۔ پاکستان میں قومی زبان اردو ہے تو دفتری زبان انگریزی ہے۔ اس کے علاوہ کئی علاقائی زبانیں بھی ہیں جن میں پنجابی، پشتو، سندھی، بلوچی اور کشمیری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ پاکستان میں 2008کی مردم شماری کے مطابق وہاں سب سے زیادہ پنجابی بولنے والے ہیں یعنی 44فیصد، اس کے بعد پشتو، سندھی اور سرائکی بولنے والے ہیں۔ پانچویں نمبر پر اردو ہے یعنی ساڑھے سات فیصد سے کچھ زائد افراد اردو بولتے ہیں۔ اس کے بعد بلوچی کا نمبر ہے جسے بولنے والے ساڑھے تین فیصد سے کچھ زائد ہیں۔ لیکن بہر حال دوسری زبانیں بولنے والوں نے بھی اردو میں زبردست خدمات انجام دی ہیں جیسے کہ فیض احمد فیض او راحمد فراز وغیرہ۔ تاہم یہ بات اہل اردو کے لیے باعث مسرت ہے کہ پاکستانی سپریم کورٹ نے اردو کو اس کے جائز حق کے لیے ایک اہم فیصلہ سنایا اور اب وہاں بھی یوم اردو کا انعقاد کیا جائے گا۔

«
»

مسلمانوں کے نام ،قربان شدہ بکرے کا ای میل

الٰہی یہ تیرے مولوی بندے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے