کیا نہیں کوئی غزنوی کارگہ حیات میں

مسلم ممالک میں اسلام اور اسلام کی تعلیمات اجنبی بنتی نظر آتی ہیں، عریانیت اور فحاشی وبداخلاقی کے افسوسناک مظاہروں نے وہاں موجود رہنے والوں سے حیا و شرم کے تمام تقاضے ختم کردیئے ہیں، ایک پورا مغربی کلچر تہذیب و ترقی کے نام پر ان پر تھوپ دیا گیا ہے، ہر قسم کے غیر اسلامی شعار و تمدن کے لیے ان مسلم ممالک کی زمین فراخ دل ثابت ہورہی ہے، اور مسلم ممالک کے سربراہ ایسے سیر چشم، فیاض و وقت کے حاتم بنے ہوئے ہیں،کہ انہیں اپنی اسلامیت اپنے عقیدے ،اپنے اسلاف کی تاریخ کا بھی خیال نہ رہا، اوراس دریادلی اورجو دو سخا کی روایت میں بہہ کر کفرو شرک کے راستے سرزمین عرب میں کھول دیئے ۔
اس سے میری مراد چند دن پہلے نریندر مودی کی سیرو تفریح والی یاترا ہے، پچیس سے زیادہ ملکوں میں اب تک گھوم چکے نریندرمودی صاحب ابو ظبی کی شیخ زائد مسجد میں بھی پہونچ گئے، اور مسجد میں رب کے نام کی صدا بلند ہونے کے بجائے مودی مودی کے نعرے لگتے رہے، اور وہاں کے بے غیرت حکمراں بجائے اس کو اسلام کی دعوت دیتے، اور اپنے اخلاق سے متاثر کر کے اس کے دل میں ایمان و یقین کے دیئے جلاتے خود ہی اپنے یہاں بھی کفر و شرک کی ناپاکیوں کو رواج دینے کے لیے ان کے سامنے بچھ گئے، جہاں کی فضائیں تکبیر کے کلمات سے گونجتی تھی اب ان فضاؤں میں کفرو شرک کی گھنٹیوں کی آوازیں بھی ہوں گی،شیطان کی پوجا بھی ہوگی، غیر اللہ کی عبادت بھی ہوگی،شرک کی نجاستیں بھی ہوں گی، جس لعنت کو ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ نے آج سے چودہ سو سال قبل ختم کرنے کے لیے کہا تھا ’’کفر کو جزیرۃ العرب سے نکال دو‘‘، آج وہی مشرکانہ ماحول اپنی تہذیبی چکاچوند کے ساتھ اپنے لاؤ لشکر سمیت وہاں پر در آیاہے، شیطان کے چیلوں نے دیار عرب میں پھر سے بت پرستی کو رواج دینا شروع کردیاہے،اور اس کے ساتھ ہی سرکار دوعالم ﷺکی وہ پیشین گوئی پوری ہوتی نظر آرہی ہے، جس میں آپ ﷺ نے قرب قیامت کے تعلق سے ایک کھلی نشانی میں ذوالخلصہ کے بت خانے کا ذکر کیاہے،بخاری کی روایت میں ہے، ( لا تقوم الساعۃ حتی تضطرب آلیات نساء دوس علی ذی الخلصۃ) کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ دوس قبیلہ کی عورتیں ذو الخلصہ(بت خانہ) کا چکر نہیں لگائیں گی ، میرے آقا کی پیشین گوئی کو پورا ہونا ہی تھا لیکن اتنی جلد اس کے ظہور کے بارے میں سوچا تک نہ تھا۔
یہ چیز ہم مسلمانوں کے لیے لمحۂفکریہ ہے،ادھر ہندوستان میں پچھلے بیس سالوں سے ہم لوگ بابری مسجد کے معاملہ میں الجھے ہوئے ہیں، اور وہاں مسجد بنانے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی،معاملہ حل ہونے کے بجائے پیچیدہ ہوتاجارہاہے،دسیوں مسجدیں جہاں صدیوں ایک اللہ کی عبادت ہوتی رہی، مسلمانوں کے سجدے ٹپکتے رہے، قرآن کی تلاوتوں سے ان کے درو دیوار گونجتے رہے، آج وہی مسجدیں نمازو ذکر کی آوازوں کے لیے ترس رہی ہیں،ان مسجدوں کو بت خانوں میں تبدیل کرنے کی سازشیں رچنے والے،مسلمانوں کے قاتل، ملک میں مسلمانوں کی موجودہ پستی کے ذمہ دار ، مسلمانوں کو زک پہونچانے اور ان کو سر عام رسوا کر نے کے لیے رات دن کوششیں کرنے والے ، مسلم اقلیتوں کی جان و مال عزت و آبرو کو برباد کرنے کی تاک میں لگے رہنے والے ،مسجدوں، درگاہوں، عوامی سیر گاہوں میں بم دھماکوں کے ذریعہ سے دہشت کی فضا بنانے والے آر یس یس اور ان کے چیلے مسلم ملکوں میں جا کر بت خانے تعمیر کررہے ہیں،اور مودی اینڈ کمپنی اس کو اپنی کامیابی کا ایک بڑا قدم سمجھ رہی ہے۔
ہمارے عرب حکمراں یہی فیاضی اور سخاوت کا مظاہرہ کاش ان مسلمان پناہ گزینوں اور جنگ کے مارے ہوئے ان کلمہ گو بھائیوں کے لیے کرتے، جن کے لیے نہ اپنوں کے پاس ہمدردی کے کلمات ہیں، اور نہ اغیار کے پاس ان کے لیے کسی طرح کے انسانی جذبات ہیں،وہ لوگ پناہ کے لیے اسلامی سرزمین کا رخ کرنے کے بجائے یورپ و امریکہ کا رخ کررہے ہیں، اور وہی یورپ و امریکہ کی حکومتیں بڑی فراخی کے ساتھ ان لوگوں کے لیے پناہ گاہیں فراہم کرنے جارہی ہیں،اور یہ کسی اندرونی ہمدردی یاانسانی جذبہ کے تحت نہیں ہے ، بلکہ اس کے پیچھے ان لوگوں کا شیطانی دماغ کچھ اور تانے بانے بننے میں مصروف ہے ،کہ ان پناہ گزینوں میں عیسائی مشنریاں عیسائیت کی تبلیغ کریں گی،ان میں الحاد و لادینیت کی وبا پھیلائی جائے گی، ان کو تہذیب کے نام پر بے حیا ئی کی تعلیم دے جائے گی، ان میں بداخلاقی کو عام کردیاجائے گا، ان کے اندر سے ایمان و احتساب کو ختم کردیاجائے گا،اور اس کے بعد ان کے نام تو مسلمانوں کے ہوں گے، لیکن ان کے کام و دہن کافروں سے کم نہیں ہوں گے،ان کی لڑکیاں کچھ عرصے بعد فحاشی کے اڈوں میں جسم فروشی کرنے اور نائٹ کلبوں میں ڈانس کرنے اور سیاحوں کو خوش کرنے کے لیے اپنی عزت و ناموس بیچ رہیں ہوں گی،ان کے لڑکے یورپ کی جامعات میں ذہنی و فکری ارتدادکی تعلیم حاصل کررہے ہوں گے،کاش کہ عرب حکمرانوں کو کوئی سمجھا تاکہ اپنی قوم وملک کی دولتوں پرڈاکہ ڈال کر بھاگنے والے حکمرانوں کو پناہ دینے کے بجائے شام و فلسطین کے ان معصوم بچے بچیوں کے لیے پناہ گاہوں کا انتظام کرتے، تو کم ازکم ان کا ایمان تو محفوظ رہتا،ان کی عزت و ناموس تو بچ جاتی، آج وہ ظلم کے مار ے لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے سرزمین کفر کی طرف بھاگ رہے ہیں۔
یہی عرب کے عیاش حکمراں مصر کے ڈکٹیٹروں کے ظلم میں پسے ہوئے اخوان اور ان سے ہمدردی رکھنے والے مسلمانوں کے خلاف اپنے قصور وایوانوں میں بیٹھ کر قراردادیں پاس کرتے ہیں، اور ان کو ختم کرنے کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول رہے ہیں،یہ ان اسلاف کے بدترین اخلاف ہیں جن کے اسلاف نے اسلام کی خاطر اپنے آپ کو قربان کیا، اپنے گھر بار وطن و دیار کو چھوڑا، اجنبیت اختیار کر کے ایسے ملکوں میں گئے جہاں اسلام کی روشنی نہیں تھی، لات و منات و سومنات کو ڈھاکر اسلام کی سربلندی کی کوششیں کرتے رہے، ان کے لیے بھی ہیرے جواہرات کے نذرانے پیش کئے جاتے تھے ، ان کے سامنے بھی دنیا جہاں کی پیش کشیں کی جاتی تھی ، ان کے سامنے بھی دنیا اپنی پوری رعنائیوں اور خوبصورتیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتی تھی ، لیکن وہ توحید کے ماننے والے ،اسلام کے جیالے، کفر وشرک کی صفیں الٹنے والے، بتوں پر قیامت ڈھانے والے،شہادت کے شیدائی ایسے تھے کہ یہ پیش کشیں ،یہ دنیا جہاں کی رعنائیاں اور دلفریبیاں ان کے سامنے مچھر کے پر کے برابر حیثیت نہیں رکھتی تھی۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
ابھی ماضی قریب میں جب حجاز کے حکمراں ہندوستان آئے تو ہندوؤں کے مضبوط گڑھ بنارس میں موجود مندروں پر چادریں ڈال دی گئی تاکہ اس غیرت مند مسلمان کی نظر بتوں پر نہ پڑے، اس وقت پورا عالم کفر اس مرد مسلمان کی ایمانی شان کے سامنے مبہوت نظر آرہاتھا،سچ ہے جوتاجدار مدینہ کی غلامی اختیار کرتے ہیں وہ اگر بادشاہ بھی ہوتے ہیں، تب بھی اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کے دلوں میں ان کا رعب و دبدبہ قائم کردیتے ہیں، اور کفر ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتاہے، صنم خانے بھی منہ چھپالیتے ہیں۔
ادنیٰ سا غلام ان کا گذرا تھا بنارس سے 
منہ اپنا چھپاتے تھے شرما کے صنم خانے 
ان حکمرانوں کی آمد پر ہند کے اہل اقتداراپنے بت کدوں کو بھی پردے میں رکھنے پر مجبور تھے، اور آج وہی عرب چند ڈالروں کے خاطرصنم خانے تعمیر کرارہے ہیں، بت پرستی کو رواج دینے پر تلے ہوئے ہیں۔
پاسباں مل گئے کعبہ سے صنم خانے کو 
قرب قیامت میں ذوالخلصہ کے بت خانے کا چکر تو ایک علامت کے طور پر ہے، ابھی تو ہندوستان میں عظمت اسلام کا ظہور ہونا باقی ہے، یہاں پر کفر کی مغلوبیت اور اہل اسلام کی حاکمیت کو پھر عود کرکے آناہے، وقت کے قطب اور تیرھویں صدی کے مجدد محی السنۃ امام الائمۃ حضرت سید احمد شہیدرحمۃ اللہ علیہ کی اس سلسلہ میں پیشین گوئیاں بھی موجود ہیں کہ انگریزوں کے اقتدار ختم ہونے کے بعد اہل اسلام کی حکومت یہاں قائم ہوگی، لیکن کب قائم ہوگی یہ تو وقت اور حالات بتائیں گے، موجودہ حالات تو اصلاً اہل ایمان اور اہل کفر کی اس خطرناک جنگ کا پیش خیمہ ہیں جو عنقریب مشرق و مغرب میں برپاہوگی، اس کے ہراول دستے تو برسرپیکار ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس جنگ میں اہل ایمان کے ساتھ ساتھ کون کون شامل ہوتے ہیں، اور اہل کفر کے خیمہ میں کون کون سے نام نہاد مسلمان جا بستے ہیں ۔

«
»

فخرالحکماء حکیم سید ضیاء الحسن کی فنِ طب کیلئے خدمات

مسلم قیادت کا فقدان !ایک لمحہ فکریہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے