نتیش کمار کی دہری پالیسی

ترقی کی منزلیں تعلیم سے جڑی ہیں اور کون ہے جو تعلیم میں اساتذہ کے کردار سے انکار کرے۔ اور یونیسکو اور عالمی ادارہ محنت نے سفارش کی تھی کہ اساتذہ کی تنخواہیں ان کی تعلیمی قابلیت کے لحاظ سے کم از کم اتنی ہونی چاہئے جتنا کہ دوسرے شعبوں میں۔ انہیں اتنے وسائل فراہم کیے جائیں کہ وہ اپنے خاندان کی کفالت کرسکیں اور مالی لحاظ سے اتنے مضبوط ہوں کہ مزید تعلیم کے ذریعے اپنی قابلیت میں اضافہ کرسکیں۔
بہار میں تعلیم کے مسئلے کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ نظام تعلیم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جب تک ان کے حالات کار بہتر نہیں ہوں گے ان سے اچھی کارکردگی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ایک خوشحال استاد ہی صحت مند تعلیمی ماحول کی ضمانت دے سکتے ہیں لیکن حکومت بھار کی صحت کو ناگوار نہ گزرے تو کیا ان سے یہ بات پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ آپ نے ماں اور باپ کا درجہ رکھنے والے استاد محترم تنخواہ کی ادائیگی کیے لیے اور اپنے حق کے لیے نتھے اساتذہ کو تو بیدردی سے سڑک پر پٹوا یا اور خوب بیعزت کیا اور جب اس سے دل نہیں بھرا تو گرفتار بھی کیا، شاید قصور اساتذہ ہی کا تھا کہ وہ اپنا حق مانگنے اس کے پاس چلے گئے جن کا تعلیم اور اساتذہ کے احترام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں، وہ ہمیشہ کی طرح زمانہ جاہلیت میں ہی رہنے والے ہیں، انکو کیا پتہ کہ استاد کی کیا حیثیت ہوتی ہے. آج حکومتِ بھار نے شاگردوں کو کیا درس دیا ہے؟ یہ درس دیا کہ استاد کی سرے عام بے عزتی کرو ؟ استاد کو مارو ؟ استاد پر بدترین تشدد کرو ؟ استادوں کو سڑک پر بالوں سے پکڑ کر گھسیٹو؟ ان کو انکا حق مانگنے پر حوالات میں بند کر دو ایک مجرم کی طرح؟ آج کے اس عمل پر صرف یہی کہا جا سکتا ہے نتیش کمار بھی اب سیکولر نہ رہے بلکہ ان کے یہاں بھی افسر شاہی کا دبدبہ ہے اور اردو، مدارس،اور مسلمانوں کی کوئی اہمیت نہیں صرف اور صرف ووٹ بینک کیوں کہ نتیش حکومت نے اپنی پہلی مدت کار کے دوران مسلمانوں کی فلاح اورترقی کے لیے دس نکاتی پروگرام خود ہی بنایا اور خود ہی اسے زندہ دفن کردیا۔ دوسری مدت کار کے دوران تو اس پروگرام کا ذکر تک نہیں کیا۔
اردو کو بہار میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ ضرور حاصل ہے، مگر نتیش حکومت کے دوران بہار کے اسکولی نصاب میں اردو کی لازمیت ختم کردی گئی ہے اور جب اردو کی لازمیت ہی نہیں رہی تو فارسی کی اہمیت تو از خود ختم ہوگئی۔ فارسی کی بات کون کرے، اب تو اردو کی درسی کتابیں اور اردومیڈیم اسکولوں کے لیے اردو میں دوسرے مضامین کی کتابیں تقریباً نہیں چھپتی ہیں۔ چھپتی بھی ہیں تو اردو طلباء کو دستیاب نہیں کرائی جاتیں۔ ریاست کے ہر اسکول میں اردو یونٹ قائم کرنے کا نتیش حکومت کا وعدہ ،وعدۂ معشوق بن کر رہ گیاہے۔ اردو اساتذہ کی جو منظورشدہ سیٹیں پہلے سے ہیں ، وہ بھی ہزاروں کی تعداد میں خالی رہ گئیں۔ محکمہ راج بھاشا کے اردو ملازمین کی خالی اسامیاں بھی خالی ہی رہ گئیں۔ اردو کے عملی نفاذ کے لیے قائم کیاگیا اردو ڈائریکٹریٹ ہاتھی کا دانت بن کر رہ گیاہے۔ اردو مشاورتی کمیٹی اپنے چیئرمین کی طرح ہی نہ کچھ سنتی ہے نہ دیکھتی ہے، بلکہ معذور اور مجبور محض ہے۔ کمیٹی کے سربراہ زیادہ تر غیر ملکی دورے پر رہتے ہیں، حالانکہ تنخواہ اور دیگر سہولیات وہ بلاتامل حاصل کرتے رہتے ہیں،وہاں پر ان کی مذہبی غیرت اور حمیت بھی انہیں للکارتی نہیں ہے۔
سرکاری امدادیافتہ مدارس کی حالت تو بدتر ہے ہی مدارس کے اساتذہ اور ملازمین کو آج بھی سرکاری ملازمین کے مساوی تنخواہ اور پنشن وگریٹی چیوٹی کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ انہیں آج بھی تیسرے تنخواہ کمیشن کی سفارش کے مطابق انتہائی قلیل اور ذلت آمیز تنخواہ مل رہی ہے، جب کہ دیگر سرکاری ملازمین ساتویں تنخواہ کمیشن کی سفارش کے ساتھ کافی ہینڈ سم سیلری حاصل کررہے ہیں۔ 2459 مدارس کو منظوری دینے کے معاملوں میں بھی ابھی تک عمل نہیں ہوسکا ہے۔ 4جنوری 2012کو مدرسہ بورڈ کی تشکیل کی گئی تھی اس کا چیئرمین ایک مبلغ ممتاز عالم کو بنایاگیا ہے جو بہار مدرسہ ایکٹ 1982کے شرائط وضوابط کو پورانہیں کرتے تھے۔نتیش حکومت نے فرسٹ ڈویڑن میں میٹرک پاس کرنے والے طلباء اور طالبات کو یک مشت 10ہزار روپے کا حوصلہ افزائی وظیفہ دینے کا فیصلہ 2007 سے کیاہے، مگر اس سے مدرسہ بورڈ کے فارغین کو مستثنیٰ رکھاگیاہے نیائے کے ساتھ وکاس یعنی ترقی کے ساتھ انصاف کا خوش کن نعرہ دینے والی نتیش حکومت ریاست کے اقلیتی عوام کو ترقیات کا فائدہ پہنچانے میں ناکام تو رہی ہے اور اب جب مدارس کے اساتذہ اپنے حق کیے لیے حکومت کو متوجہ کیا تو حکومت نے ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا اور ان کو سڑکوں پر دوڑایا گیا جب کہ حکومت کو اس وقت ان کے مسائل کو سنجیدگی کے ساتھ لینا چاھیے تھا اور الیکشن میں مسلم ووٹ لینے کیے لیے ہی سہی ان کے مطالبے کو سنا جاتا۔ واضح ہو کہ ریاست میں چھوٹے چھوٹے مکاتب اور تعلیمی مراکز کے علاوہ 6 ہزار مدارس اسلامیہ ہیں۔ ان میں سے صرف 1128 مدارس حکومت سے امداد یافتہ ہیں۔ 2776 مدارس غیر امداد یافتہ۔ مگر بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجو کیشن بورڈ سے ملحق ہیں۔ ان کے علاوہ 500 مدرسۃ البنات ہیں اور 1500 ا?زائدمدارس نظامیہ ہیں۔ جن 1128 مدارس کو حکومت کی منظوری اور امداد حاصل ہے وہ جگن ناتھ مشرا اور لالو۔ رابڑی حکومت کی دین ہیں۔ نتیش حکومت کے دوران کسی ایک مدرسہ کو بھی منظوری نہیں ملی ہے۔نتیش حکومت میں 500 مدرس? البنات میں سے صرف 9 کو منظوری حاصل ہوئی ہے اور مدارس کے اساتذہ اور ملازمین کا مہنگائی بھتہ 125 فیصد سے بڑھا کر 300 فیصد کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہوا ہے۔ تنخواہوں پر نظر ثانی اور پنشن و گریچویٹی جیسے دیرینہ مطالبات پر بھی کوئی دھیان نہیں دیا جاتا ہے۔ نتیش حکومت کے 10 نکاتی اقلیتی فلاحی پروگراموں میں شامل مدارس کی جدید کاری اور کمپیوٹر کاری کے علاوہ تنخواہوں میں باقاعدگی لانے کے منصوبہ پر عمل ایک فیصد بھی نہیں ہو سکا ہے۔ مدارس کے اساتذہ اور ملازمین کو تیسرے پے کمیشن کی سفارشوں کے مطابق ہی تنخو اہ مل رہی ہے جب کہ ریاست کے دیگر اساتذہ اور ملازمین چھٹے پے کمیشن کی سفارشوں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مدارس کے اساتذہ کی تنخواہ سرکاری چپراسی کی تنخواہ سے بھی کم ہے اور سبکدوشی کے بعد انہیں ایک پیسہ کا بھی سہارا نہیں ہے کیوں کہ پنشن،میڈیکل الائنس، پی ایف یا گریچویٹی کا کوئی نظم نہیں ہے۔ یعنی سبکدوشی کے بعد یا اچانک موت کی صورت میں مدارس کے اساتذہ اور ملازمین کے اہل خاندان کو ایک پیسہ بھی نہیں ملتا ہے۔ نتیش حکومت نے اپنی پہلی مدت کار کے دوران ان باتوں پر دھیان نہیں دیا۔ 2776 ملحقہ مدارس میں سے ایک کو بھی منظوری نہیں دی۔ جب انتخاب کا وقت قریب ا?یا تو کابینہ کی ا?خری میٹنگ میں ان میں سے 2459 مدارس کو اپ گریڈ کرنے اور انہیں منظوری دینے کا اصولی فیصلہ لیا۔ لیکن ظاہر ہے کہ انتخاب کے وقت لئے گئے فیصلے پر عمل ممکن نہ ہو سکا۔ دوبارہ اقتدار میں ا?نے کے بعد بھی اب تک اس سلسلہ میں کوئی پیش رفت تو کیا کوئی چرچا بھی نہیں تھا، اسی لیے مدارس کے اساتذہ نے بھوک ہرتال پر تھے تو ان پر لاٹھی کی برسات کی گئی، تعلیم جسے مقدس پیشہ سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ جو ظلم و ستم ہوا ہے اسے نتیش کمار کی سکولرزم کا لبادہ تار تار ہو گی۔ 

«
»

فخرالحکماء حکیم سید ضیاء الحسن کی فنِ طب کیلئے خدمات

مسلم قیادت کا فقدان !ایک لمحہ فکریہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے