دل کوامید بہت ہے کہ اجالاہوگا!

کسی کی بلاوجہ دعویداری نہیں ہوتی، نہ کوئی ہمیں بیچ پاتا نہ کسی جیب میں ہمیں خریدنے کی طاقت ہوتی، نہ کسی سے ہماری بے وجہ دوستی ہوتی، نہ کسی سے ہماری دشمنی ہوتی۔درمیان میں ایک وقت ایسا آیا تھا جب کچھ لوگوں نے دیر سے ہی سہی اس ضرورت کو محسوس کیا تو دو ’خالص مسلم پارٹیاں‘ ،انڈین مسلم لیگ اور مجلس اتحاد المسلمین بنایا مگر بدقسمتی سے ان دونوں کی ولادت باسعادت بھی بے احتیاطی کا شکار ہوگئی۔ کیرلا کی انڈین مسلم لیگ کو لوگوں نے اسی مسلم لیگ کا ایک ایڈیشن سمجھ لیا جو پاکستان بناکر لکیر کے اس پار چلی گئی تھی، لہٰذا انڈین مسلم لیگ کے ساتھ لوگوں کا رویہ:
ہمیں بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں
تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں
والا رہا۔ مجلس اتحاد المسلمین گو کہ ایسے کسی الزام سے پاک رہی مگر وہ بھی ایک عرصہ تک جذباتی سیاست کا خاندانی ادارہ بنی رہی۔ حالانکہ پارٹی کے بانی صلاح الدین اویسی مرحوم کی وفات کے بعد چھوٹی سی اس پارٹی کی کمان ان کے فرزند ارجمند اسد الدین اویسی نے بڑی ہوش مندی سے تھامی ہے اور ان کی عوامی خدمات کی وجہ سے پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے وقت میں جب مسلم سیاست کے بڑے بڑے چہرے اپنی زبان بھی بھول گئے تھے اور اپنے سیاسی جلسوں میں یہاں تک کہ صحافیوں سے اپنی ذاتی ملاقاتوں میں بھی وہی اسکرپٹ پڑھتے تھے جو پارٹی ہائی کمان کی میز سے گزر کے آتی تھی۔ اسد الدین اویسی اور ان کے ایم ایل اے بھائی اکبرالدین اویسی حیدرآباد کی آزاد فضا میں اپنی من چاہی صدا بکھیرتے رہے۔ ان کے ’دارالسلام‘ کو دس جن پتھ جیسے آستانوں سے کوئی مناسبت نہیں تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کو منافقت کی زبان نہیں آتی، گو کہ ان کی بعض غیر ضروری جوشیلی تقریروں کے ہم قائل نہیں بلکہ سخت ناقد ہیں کیوں کہ کانٹے کا جواب کانٹے نہیں نفرت کا جواب نفرت نہیں ہے اور نہ مذہبی جنون کا جواب مذہبی جنون ہے ، مگر یہ ہے کہ آج فرقہ پرست سیاست کے اندھیرے میں اس چراغ کی اہمیت ناقابلِ انکار ہے،ان دونوں کی مخالفت میں اپنے ہی گھروں سے طوفان اٹھے اور خوب واویلا مچایا گیا کہ مسلمانوں کو الگ سے کسی سیاسی پارٹی کی ضرورت نہیں۔ وہ اس لیے چیخ رہے تھے کہ خود ان کا اپنا سیاسی وجود خطرے میں پڑ گیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے مگر چونکہ اس سے ان کی سیاسی چاکری خطرے میں پڑ رہی تھی اس لیے وہ اس کی خود غرضانہ مخالفت کررہے تھے۔ اور اْن کی پشتوں پر وہی لوگ تھے، جنھوں نے انھیں ماہانہ تنخواہوں پر اپنی سیاسی کمپنیوں میں ملازم رکھا ہوا تھا اور جن کے ذریعہ انھوں نے مسلمانوں کو اپنا ’’ووٹ بینک‘‘ بنا رکھا تھا۔ آج کمپنی ٹھپ ہوگئی ہے اورا بھی ملازمین اپنے گھروں میں ’بیکاری‘ کے دن کاٹ رہے ہیں، تب بھی انھیں خیال نہیں آتا کہ اگر وہ خود متحد ہوکر کچھ کرنا چاہیں تو یقینی طور پر کرسکتے تھے لیکن اس مخالفت کی وجہ سے ملک کے کروڑوں مسلمان اس وقت سیاسی سطح پر ایک ایسی زمین ہیں جو کسی کی نہیں ہے۔ 
اور یہی حال اب تک ہے جب بھی کوئی اس سیاسی مفلسی کے عالم میں مسلم مسائل کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو مسلمانوں سے کہا جاتا ہے کہ اس کو ووٹ دینا گویا فرقہ پرست کو مدد کرنا ہے اور بی جے پی کا ہوا دکھا کر مسلمانوں کو اور احساس کمتری میں مبتلا کر دیتا ہے آنے والے بہار الیکشن میں اویسی کی آمد پر سیاسی مبصرین کے تجزیہ دیکھیے، لیکن آپ خود غور کریں کہ مسلمانوں نے کانگریز کے بعد لالو کا دامن تھاما تو ان کو کیا ملا، ملا تو صرف احساس کمتری اور بی جے پی کا خوف اور بہار کی بدترین حالت ، لالو کے بعد اقتدار جب نتیش کمار نے سنبھالا تو کچھ کرکے دکھایا تھا کچھ سڑکیں بنوائیں۔ امن و قانون کی صورت حال اور غنڈہ گردی پر کسی حدتک قابو پایا ، لیکن بجلی و پانی کی صورت حال خاصی ابتر رہی اور اب تک ہے جو نئی سڑکیں بنی تھیں وہ اب خستہ ہوچکی ہیں اور جو نہیں بن سکی تھیں وہ ہنوز جوں کی تو ہیں۔ بدعنوانی اور کرپشن کی وجہ سے ریاستی سرکار یا مرکزی حکومت کی اسکیموں پر خاطر خواہ عمل نہیں ہورہا ہے نہ ہی نئی صنعتوں کا قیام عمل میں آرہا ہے اور نہ ہی ریاست میں سرمایہ کاری ہورہی ہے۔ نکسلی تحریک و تشدد کا اثر ریاست کے دس اضلاع سے بڑھ کر 23اضلاع میں ہوچکا ہے۔
مسلمانوں کے ساتھ اردو کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے اس کا احوال ضبط تحریر میں لانے کے لئے ایک طویل مضمون لکھنا ضروری ہے۔ ہم صرف چند واقعات کا ذکر کریں گے۔ رحمانی فاؤنڈیشن نے تعلیمی اداروں کے قیام کے لئے پوٹھیا (ضلع کشن گنج) میں قیمت دے کر زمین خریدی پولیس اس زمین پر قبضہ اس وجہ سے نہیں دلاسکتی ہے کہ اس زمین پر آدی واسی آباد ہیں!۔ پولیس کو ان پر سختی کرنے سے احتراز ہے۔ بہار کی وزارت تعلیم نے اسکولوں کے نصاب سے بعض جگہ اردو اور فارسی خارج کردی ہے۔ مدرسہ ایجوکیشن کے ملازمین کی حالت دوسرے تعلیمی اداروں کے ملازمین کے مقابلہ میں بدتر ہے۔ حکومت کی بے ایمانی کی انتہا یہ ہے کہ اقلیتوں کے لئے مرکزی حکومت کی فلاحی اسکیموں کی رقم مسلمانوں پر بہت کم خرچ کی جاتی ہے جو خرچ کی جاتی ہے اس کو بھی ریاستی حکومت اپنے کھاتے میں ڈال دیتی ہے بہار کے ایک نوجوان (قتیل) کو پونا جیل میں ہلاک کردیا جاتا ہے۔ نتیش کمار نے احتجاج، قاتلوں سزا کا مطالبہ اور معاوضہ کی ادائیگی کے مطالبے تو خیر دور کی بات ہے قتیل کی لاش پونا سے بہار لانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ بہار سے سعودی عرب گئے فصیح محمود کو ہندوستانی ایجنسیاں ہندوستان لانے میں کامیاب رہتی ہیں لیکن خاصے عرصے تک فصیح کے بارے میں ان کی اہلیہ پریشان رہتی ہے۔ عدالت عظمیٰ سے رجوع ہوتی ہے اور نتیش نے کچھ نہیں کیا۔ تملناڈو اور پنجاب کی حکومتیں راجیو گاندھی اور بینت سنگھ (وزیر اعلیٰ پنجاب) کے قاتلوں کو بچانے کے لئے ریاستی اسمبلیوں سے سیاسی دباؤ ڈال سکتی ہیں لیکن اپنی ریاست کے لوگوں کو بچانے کے لئے نتیش ’’بکاؤ‘‘ قسم کے مسلمان سیاسی قائدین کو خریدنے اور مدرسوں اور خانقاہوں کے نام پر رقمیں بٹورنے والی مذہبی شخصیات کو اپنے ارد گرد جمع کرکے مسلم دوستی کا ڈھونگ رچاتے ہیں، نتیش کوئی دودھ کے دھلے ہوئے نہیں ہیں اور کانگریس پر تو مسلمان 67سالوں سے بھروسہ کرتے ہوئے آرہے ہیں۔ واضح رہے کہ نتیش کمار نے فلاحی کام تو بہت کیے ہیں لیکن ان کی ذہنیت بھی مودی سے کچھ کم نہیں ہے،برسوں بی جے پی کے وفادار رہنے کے بعد وہ محض ایک سیاسی داؤ پیچ کھیل کر بی جے پی سے الگ ہوئے ہیں،نظریہ ان کا بھی وہی آر ایس ایس والا ہی ہے،اور لالو سے اتحاد ان کی مجبوری ہے،اگر اتحاد نہیں کرتے تو مانجھی کی طرح بے یارو مددگار ہوتے۔ سیاسی مفلسی کے اس سخت دور میں مسلمانوں کی اس چھوٹی سی پارٹی کا بہار میں ایک متبادل کے طور پر ابھرنا مسلمانوں کے لیے بہت خوش آئند ہے۔ یہ ایک عظیم ذمے داری بھی ہے جس کا ادراک یقینی طور پر اسدالدین اویسی کو بھی ہوگا۔ انھیں چاہیے کہ وہ جذباتیت کی سطح سے مزید اوپر اٹھیں اور جس دلت مسلم سیاست کا آغاز انھوں نے مہاراشٹر میں چار دلت امیدواروں کو کھڑا کرکے کیا تھا، اسی طرح بھار میں بھی کریں اور ان کو یہاں مہاراشٹر سے زیادہ فائدہ ہوگا کیوں کہ یہاں ہم بہار کے مسلمانوں کی فیصد ضلع وار بتارہے ہیں تاکہ اندازہ ہوجائے کہ مسلمان بہار کی سیاست میں کیا مقام رکھتے ہیں اور اگر مسلمان متحد ہوکر ووٹنگ کریں گیے تو کامیابی صد فیصد ہے۔ بہار کے کشن گنج کا علاقہ مسلم اکثریتی علاقہ مانا جارہا ہے وکی پیڈیا رپورٹ کے مطابق وہاں 78 فیصد مسلمان ہیں۔ کٹیہار43، ارریہ 41، پورنیہ 37، دربھنگہ 23، سیتا مڑھی 21، مغربی چمپارن بتیا 21، مشرقی چمپارن موتیہاری19، بھاگلپور18، مدھوبنی18، سیوان18، گوپال گنج17، سپول17، شیوہر16، مظفر پور 15، سہرسہ14، بیگوسرائے13، گیا12، جموئی12، نوادہ11، مدھے پورہ11، اورنگ ا?باد11، کیمور(بھبوا)10، رہتاس10، سمستی پور10، سارن10، ویشالی10، جہان آباد8، مونگیر30، پٹنہ8، بھوجپور7، نالندہ7، شیخپورہ7، بکسر6 اور لکھی سرائے میں 4فیصد ہیں۔ اگر مسلمان پورے اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ مجلس کا دامن تھام لیں تو وہ ضرور کامیابی سے ہمکنار ہوجائیں گے لوگ الفاظ پر نہیں اعمال پر یقین رکھتے ہیں۔اس لیے انھیں ان چہروں کو آگے کرنا ہوگا، جو پارٹی کے سیکولر موقف کی علامت مانے جاتے ہیں اور جن کے ذریعے سے وہ بہارکی سیاست کی مین اسٹریم میں بہت آسانی سے اوربہت جلد جگہ بناسکتے ہیں۔
یہ موقع غنیمت ہے جب ملک کا میڈیا چاہے کسی غرض سے بھی ہو، انھیں توجہ دے رہا ہے۔ انھیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ انھیں یہ بھی کرنا چاہیے کہ وہ ملک و قوم کی سچی فکر رکھنے والے دیگرایماندار سیاسی شخصیات اور پارٹی کو بھی خود سے جوڑنے کی کوشش کریں تاکہ وہ صبح تیزی کے ساتھ نکھر سکے جس سے نرم وجود پر یاس انگیز اندھیروں نے اپنا پنچہ گاڑ دیاہے۔
دور تک صبح کے آثار نہیں تھے، لیکن
دل کو امید بڑی ہے کہ اجالا ہوگا

«
»

یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

ہندو پاک امن دشمن کون۰۰۰؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے