نام نہاد جہادی تحریکیں اور۰۰۰

پاکستان، افغانستان، عراق، شام میں طالبان اور داعش جس طرح مسالک کی بنیاد پر مسلمانوں پر حملے کرتے ہوئے دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دے رہے ہیں اس سے عام شہری خوف و ہراس کے ماحول میں زندگی گزاررہے ہیں اور عالمی سطح پر مسلمانوں کی بدنامی ہورہی ہے جبکہ اسلام امن و سلامتی والا مذہب ہے ، اسلام میں دہشت گردی کو کہیں جگہ نہیں اور جو تنظیمیں جہاد کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس سلسلہ میں مختلف اسلامی ممالک کی جانب سے فتاوے جاری کئے گئے ہیں کہ اس قسم کی دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دینے والوں کا تعلق مسلمانوں سے نہیں ہوسکتا۔ ایک طرف نام نہاد جہادی شدت پسند تحریکیں یعنی طالبان ، النصرہ فرنٹ اور دولت اسلامیہ (داعش)، حوثی قبائل اور دیگر شدت گروپوں کی جانب سے شام، عراق، افغانستان، پاکستان، ترکی، یمن، لیبیاء، مصر، سعودی عرب، کویت ، نائجیریاوغیرہ میں مسالک کی بنیاد پر فائرنگ ،بم دھماکے اور خود کش حملوں کے ذریعہ قتل عام کررہے ہیں اوریہ حملے عباتگاہوں ، درسگاہوں،صحابہ کرام و سلف صالحین وغیرہ کی مزارات اور دیگر عام شاہراؤں پر کئے جارہے ہیں ۔گذشتہ دنوں سعودی عرب کے شہر ابہا کے پولیس کیمپ میں واقع مسجد میں خودکش حملہ کیا گیا جس میں 17افراد جاں بحق ہوئے جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ ان شدت پسندوں تنظیموں کے حوصلے بلند کس طرح ہوئے اور انہیں امداد کون فراہم کرتے ہیں اس سلسلہ میں تجزیہ نگاروں کے مطابق بعض ممالک بشمول سعودی عرب، عرب امارات اور ایران پر الزام ہے کہ سعودی عرب و دیگر عرب ممالک سنی جنگجوؤں کا تعاون کرتے ہیں اور ایران پر الزام ہے کہ وہ عراق، شام،یمن، بحرین وغیرہ میں شیعہ ملیشیاء گروپوں کی مدد کررہا ہے۔ اگر واقعی ان ممالک کی جانب سے سنی اور شیعہ گروپوں کی مدد کی جارہی ہے تو عالمِ اسلام کے لئے ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پریہ مدد خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔لیکن سعودی عرب مملکت میں کسی بھی دہشت گردی کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے شدت پسندوں سزائیں دے رہا اور دوسرے ممالک میں بھی شدت پسندگروپ سے تعلق رکھنے والے سعودی شہریوں کو وارننگ دے رکھی ہے اس طرح سعودی عرب کی تقلید کرتے ہوئے دوسرے ممالک بھی شدت پسند گروپوں کے خلاف متحد ہوجائیں تاکہ عالمِ اسلام میں دہشت گردانہ کارروائیاں ختم ہوجائیں اورعوام خصوصاً امن و سلامتی کی زندگی بسر کریں ۔ آج عالمِ اسلام میں مسلمان، مسلمانوں کے خون کے پیاسے دکھائی دے رہے ہیں۔ 
یمن میں حوثی قبائل اور سابق یمنی صدر علی عبداللہ صالح کے وفادار،موجودہ یمنی صدر عبد ربہ منصور ہادی کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے انہیں بے دخل کرنے کی کوشش کئے، مختلف ذرائع کے مطابق سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کا دعویٰ ہیکہ حوثی باغیوں کو ایران کی حمایت و تعاون حاصل ہے جبکہ ایران اس سے انکار کرتا رہا لیکن امریکہ نے بھی حوثی باغیوں کو ایران کی جانب سے تعاون کو صحیح قرار دیا۔ یمنی صدر کی درخواست پر سعودی عرب کی قیادت میں دیگر عرب ممالک کے اتحادنے حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر حملے کرتے ہوئے انہیں پسپا کیا اور یمنی صدر کے اقتدار پر فائز رہنے کے لئے ممکنہ کوششیں کرتے ہوئے حوثی باغیوں کے خلاف فضائی کارروائی کی اورحوثی باغیوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا ۔ یمنی صدر اور دیگر وزراء کئی ماہ سے سعودی عرب میں قیام کے بعد یمن کے شہر عدن واپس ہوچکے ہیں اور عدن کو حوثی باغیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے تین ہزار سیکیوریٹی اہلکاروں کو عصری آلات سے لیس متعین کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ مختلف گوشوں سے یہ خبریں عام ہیں کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں اور گذشتہ ماہ ایران اور چھ عالمی ممالک کے درمیان جوہری معاہدہ طئے پاگیا ہے اس سلسلہ میں عالمِ اسلام میں تشویش پائی جارہی ہے کیونکہ ایران کے جوہری معاہدہ طے پانے سے اس کی طاقت میں اضافہ ہوگا اور وہ خطہ میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کرے گا۔ امریکہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے حکمرانوں کو یہ بتانے کی کوشش کررہا ہے کہ یہ جوہری معاہدہ مشرقِ وسطیٰ کے تحفظ کا ضامن ہے۔ان دنوں امریکی وزیر خارجہ جان کیری مصر، قطر و دیگر ممالک کے دورے پر ہیں۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں دوشنبہ کے روز امریکی وزیر خارجہ نے چھ رکنی خلیج تعاون کونسل ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ملاقات کی اس موقع پر انہوں نے عرب اتحادیوں کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں ’’خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوششوں کے مقابلے کے لئے باہمی تعاون میں اضافے کے اقدامات ‘‘ پر بات کی۔ جان کیری نے کہا ہے کہ ایران خطے کو غیر مستحکم کرنے کی سرگرمیوں میں ملوث ہے انکا کہنا تھا کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے باز رکھنے کیلئے جوہری معاہدہ ضروری تھا۔ اس سے ایک روز قبل وزیر خارجہ نے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ویانا میں طے پانے والے معاہدے پر مکمل عمل درآمد کیا گیا تو مصر اور خطے کے دیگر تمام ممالک کی سلامتی کا تحفظ یقینی ہوسکے گا۔وزیر خارجہ مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی سے بھی ملاقات کی۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہیکہ طالبان، داعش جیسی نام نہاد جہادی تنظیمیں جس طرح اپنے بھائیوں کا ہی خون بہارہی ہیں اگر وہ واقعی جہاد کرنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ فلسطین میں عام شہریوں بشمول معصوم بچوں و خواتین پر ظلم و بربریت ڈھانے والے اور انہیں ہلاک کرنے والے اسرائیلی درندوں سے جہاد کرنا چاہیے۔
فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر نابلس میں یہودی درندوں کے ہاتھوں ایک معصوم شیرخوار فلسطینی بچے کو زندہ جلائے جانے کے وحشیانہ واقعے پر فلسطینی عوام سخت غم وغصے میں ہیں اور یہودی دہشت گردوں سے انتقام لینے کے لیے پرعزم ہیں۔ دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی نے ایک نئے سیکیورٹی پلان کے تحت غرب اردن میں فلسطینی شہریوں کو یہودی شرپسندوں کے خلاف مزاحمتی کارروائیوں سے سختی سے منع کرنے کا حکم دیا ہے۔لبنانی اخبارالرائے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس نے ایک خصوصی فرمان کے ذریعے اپنے ماتحت تمام سیکیورٹی اداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ شیرخوار فلسطینی کے بہیمانہ قتل کے رد عمل میں اسرائیلی فورسز اور یہودی آباد کاروں پر حملوں کو سختی سے روکیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے حساس مقامات پر سیکیورٹی اہلکاروں کی اضافی نفری تعینات کرنے کا بھی حکم دیا ہے تاکہ فلسطینی شہریوں کی جانب سے یہودی آباد کاروں اور اسرائیلی فوج کے خلاف کسی قسم کے مزاحمتی حملوں کو روکا جاسکے۔یہ اقدامات اس لئے بھی کئے جارہے ہیں تاکہ فلسطینی شہریوں کے خلاف اسرائیلی حکومت اور فوج کی جانب سے پھر کوئی ظالمانہ کارروائیاں کسی بہانے کے سبب دوبارہ شروع نہ کئے جائیں۔ 
ملا اختر منصور طالبان کے نئے سربراہ
گذشتہ دنوں ملا محمد عمر کے انتقال کی توثیق ہوگئی اس کے بعد ان کی جگہ ملا اختر منصور کو طالبان کا نیا سربراہ بنایا گیا ہے۔ خبروں کے مطابق افغان طالبان نے اپنی شوریٰ کے اجلاس کی ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں تحریک طالبان کے سینکڑوں اراکین نئے سربراہ ملا اختر منصور سے وفاداری کا عہد کر رہے ہیں۔پیر کو جاری ہونے والی اس ویڈیو میں شوریٰ کے اجلاس میں ملا اختر منصور کو طالبان کا نیا سربراہ تعینات کئے جانے کو بتایا گیا تاہم ویڈیو میں ان کا چہرہ چھپایا گیا ہے۔افغان طالبان کی جانب سے یہ ویڈیو ایک ایسے موقع پر جاری کی گئی ہے، جب ملا عمر کی ہلاکت کے بعد نئے امیر کی تعیناتی پر اختلافات کی خبریں سامنے آئیں ۔اس سے قبل طالبان کے سینئر رہنماؤں نے بتایا تھا کہ ملا اختر منصور کو طالبان شوریٰ کی مشاورت کے بغیر تحریک کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔گذشتہ ہفتے ملا عمر کی ہلاکت کی تصدیق کرنے کے بعد طالبان نے ملا اختر منصور کو باضابطہ طور پر تحریکِ طالبان کا سربراہ مقرر کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔برطانوی میڈیا کے مطابق یہ ایک غیر معمولی ویڈیو ہے جس میں طالبان کے شوریٰ کے اجلاس ہوتے دکھایا گیا تاکہ مخالفین کو یہ باور کروایا جا سکے کہ نئے سربراہ کو بڑی تعداد میں طالبان اراکین کی حمایت حاصل ہے۔
طالبان اور افغان حکومت 
افغانستان میں امریکہ اورنیٹو کے کمانڈر جنرل جان کیمبل نے کہا ہے کہ طالبان شدت پسندوں میں افغان حکومت کا تختہ الٹنے کی طاقت نہیں ٗاتحادی افواج افغانستان کوشدت پسندوں کے خلاف جنگ میں تنہا نہیں چھوڑیں گی۔کابل کے شمال میں بگرام ایئرفیلڈ میں کمانڈکی تبدیلی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنرل کیمبل نے کہا کہ طالبان شکست کھارہے ہیں اوردشمن افغانستان کی اتحادی حکومت کواقتدارسے الگ نہیں کرسکتی۔ انھوں نے کہا کہ افغان فورسزکی کامیابی امریکی افواج کیلئے بڑی خوشخبری ہے ۔انہوں نے کہا کہ طالبان کے لئے یہ حقیقی وقت ہے کہ وہ ملک کی بہتری کیلئے کام کا آغازکریں ، ہتھیارپھینکیں اورصدرغنی کی امن مذاکرات کے میزپربیٹھنے کی پیشکش پرغورکریں۔
افغانستان میں طالبان اور داعش کے درمیان جھڑپیں 
افغانستان طالبان کے امیر المؤمنین ملا محمد عمر کے انتقال اور ملا اختر منصور کے نئے سربراہ کی حیثیت سے رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد طالبان اور داعش کے درمیان جھڑپے ہوئیں ہیں۔ طالبان میں بھی ملا اختر منصور کو سربراہ ماننے میں اختلافات پائے جارہے ہیں ۔ دونوں متحارب تنظیموں نے ایک دوسرے کے گھر بھی نذر آتش کردیئے ۔میڈیا رپورٹ کے مطابقیہ جھڑپیں صوبہ ننگر ہار کے لال پور اور دوربابا داعش کے طالبان پر حملے کے بعد شروع ہوئیں جس میں کم و بیش 26افراد ہلاک ہوئے ہیں۔سرحدی پولیس کے سربراہ کے مطابق داعش کے طالبان پر حملوں کے بعد جھڑپوں کے دوران دونوں متحارب تنظیموں نے ایک دوسرے کے گھر بھی نذر آتش کردیئے ۔دریں اثناء سکیورٹی فورسز نے صوبہ ہرات میں طالبان کی بچھائی گئی متعدد بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانے کا بھی دعویٰ کیاہے ۔
ترکی کی معیشت پر دہشت گردی کا اثر
ترکی کی معیشت کا استحکام گذشتہ کئی برسوں سے سیاحتی آمدنی سے ہورہا ہے لیکن دہشت گردی اور نام نہاد جہادی کارروائیوں کی وجہ سے اب ترکی کو سیاحوں کی آمد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ محکمہ اعداد و شمار کے مطابق سیاحت سے آنے والی آمدنی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ وزارتِ سیاحت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق روس اور فرانسسی سیاح اب بہت کم ترکی آرہے ہیں جبکہ اس سال جنوری سے جون کے دوران سب سے زیادہ سیاح جرمنی سے آئے ہیں۔ جن کی تعداد لگ بھگ دو ملین بتائی گئی ہے۔ جبکہ روسی سیاحوں کی تعداد 1.45بتائی گئی ۔ ہوٹلوں کے ایوی ایشن کے صدر تیمور بیاندر کے مطابق سیاحوں کی تعداد میں کمی کی سب سے بڑی وجہ ترکی میں ممکنہ دہشت گردی کا ہونا ہے۔ (یو این این)

«
»

کیا حق ہے ہمیں آزادی منانے کا

بیٹی‘ اپنی اور پرائی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے