’سپر ہسپتال‘ بڑے ہونے کا مطلب اچھا ہونا نہیں

’’میرے والد نے ایک بستر کے لیے رجسٹریشن کرائی تھی اور پیسے بھی دیے تھے لیکن انہیں ابھی تک کوئی جگہ میسر نہیں آ سکی ہے۔‘‘ کیموتھراپی کی غرض سے دنیا کے اس سب سے بڑے ہسپتال کا رخ کرنے والے اس مریض کو بستر کے لیے دو دن تک انتظار کرنا پڑا۔چین میں اقتصادی ترقی کے نتیجے میں متوسط طبقہ پھیلتا جا رہا ہے۔ لوگ صحت کی اچھی سہولیات کی خاطر بڑی رقوم بھی ادا کرنے کے لیے تیار ہیں جبکہ حکومت کی طرف سے بھی انہیں مراعات دی جاتی ہیں۔ لیکن ایک ارب سے زیادہ آبادی کے حامل اس ملک میں ہر کوئی اس نظام سے خاص خوش نہیں ہے۔ ملک کے متعدد پبلک ہسپتالوں میں ہزاروں کی تعداد میں اضافی بستر لگانے کے باوجود مریضوں کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔بیجنگ حکومت مریضوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ اپنے علاج معالجے کے لیے چھوٹے اور مقامی ہسپتالوں سے رجوع کریں
چین کے سولہ ہسپتال ایسے ہیں، جہاں مریضوں کے لیے تین تین ہزار سے زائد بستروں کی گنجائش ہے۔ دوسری طرف امریکا کا سب سے بڑا NewYork۔Presbyterian ہے، جہاں کل بستروں کی تعداد دو ہزار 478 ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چین میں صحت عامہ کے شعبے میں بہتری کی کوششوں کے باوجود بھی بیجنگ حکومت ملکی عوام کو شاید مکمل طور پر مطمئن نہیں کر سکی۔ چینی حکومت کے لیے یہ شعبہ انتہائی پریشانی کا باعث بھی قرار دیا جاتا ہے۔احتیاطی تدابیر اور انتظامی مسائل کے باعث بیجنگ حکومت نے گزشتہ موسم گرما میں ایک حکم نامہ جاری کیا تھا، جس میں پبلک ہسپتالوں کو تاکید کی گئی تھی کہ وہ زیادہ مریضوں کو خدمات فراہم کرنے کی خاطر ہسپتالوں میں اضافی بستر مت لگائیں۔ تاہم ہسپتالوں کے انتظامی ماہرین زیادہ سے زیادہ مریضوں کے علاج اور آمدنی کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ چین کی سنہوا یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر لیو ٹنگ فنگ کہتے ہیں کہ اگر ہسپتالوں کو ٹھیک طریقے سے کام کرنا ہے، تو ان میں توسیع کرنا ہو گی۔
’چھوٹے ہسپتال بھی اچھے ہیں’۔بیجنگ حکومت مریضوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ اپنے علاج معالجے کے لیے چھوٹے اور مقامی ہسپتالوں سے رجوع کریں لیکن عوام کا خیال ہے کہ بڑے ہسپتالوں میں زیادہ بہتر سہولیات ہوتی ہیں اور وہیں ان کا بہتر علاج ہو سکتا ہے۔ اس لیے زیادہ تر مریض کسی معمولی سی بیماری یا تکلیف کی حالت میں بھی کسی چھوٹے کلینک یا ہسپتال کے بجائے شہروں میں واقع بڑے بڑے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ یوں ان بڑے ہسپتالوں پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔چین کے کچھ ہسپتال تو اتنے بڑے ہیں کہ انتظامی معاملات کے لیے انہوں نے اپنے پولیس اسٹیشن بھی بنا رکھے ہیں۔ ڑَینگ ڑْو یونیورسٹی ہسپتال تو اتنا بڑا ہے کہ وہاں ڈاکٹروں کو ایک وارڈ سے دوسرے وارڈ میں فوری طور پر پہنچنے کے لیے رولر اسکیٹس کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔
چین میں لوگ صحت کی اچھی سہولیات کی خاطر بڑی رقوم بھی ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔اگرچہ مریضوں کی بڑی تعداد ان بڑے ہسپتالوں کا رخ کر رہی ہے لیکن یہ طبی مراکز اب تنازعات کے گڑھ بھی بنتے جا رہے ہیں۔ طبی نوعیت کے قانونی مقدمات کے ماہر وکیل لی ہوئی جیان کہتے ہیں کہ مریض بڑے ہسپتالوں کا رخ اس لیے کرتے ہیں کہ وہاں اچھے اور قابل ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ لیکن مریضوں کے اس بوجھ کے مقابلے میں ڈاکٹروں کی قلت ہو چکی ہے اور اس لیے یہ ہسپتال اب کم تجربہ کار ڈاکٹر بھی بھرتی کر رہے ہیں۔
امریکا میں یونیورسٹی آف پینسلوانیا ہیلتھ سسٹم سے وابستہ ایسوسی ایٹ چیف میڈیکل آفیسر نیل فشمین کا کہنا ہے کہ جب ایک ہی ہسپتال میں بہت زیادہ مریضوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے تو وہاں انفیکشن پھیلنے کا خطرہ بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ چین میں وْو ہان نامی علاقے کی ہْوآ ڑونگ یونیورسٹی آف میڈیسن اینڈ ٹیکنالوجی سے وابستہ ایسوسی ایٹ پروفیسر ما جِنگ ڈونگ کا کہنا ہے کہ چھوٹے میڈیکل ہسپتال صحت عامہ کی ایک بڑی ضرورت کو پورا کرنے کے قابل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چین کے بڑے ہسپتالوں کا رخ کرنے والے ساٹھ تا 80 فیصد مریضوں کا علاج مقامی طبی مراکز میں بھی ہو سکتا ہے۔

«
»

کیا حق ہے ہمیں آزادی منانے کا

بیٹی‘ اپنی اور پرائی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے