اس سے دنیا مرید ہوتی ہے

دو دن سے مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی تعزیتی بیانات اور ڈاکٹر عبدالکلام سے متعلق تاثرات پڑھ کر اور سن کر محسوس ہورہا ہے کہ جو بددیانت ہیں وہ بھی دیانتداری کے قدر دان ہیں۔ اچھے تاثرات دراصل ان کے سوئے ہوئے ضمیر کو آواز ہے۔ چونکہ ایمانداری، دیانتداری، حب الوطنی کا جذبہ آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ اس لئے اب جو گنے چنے ایماندار، دیانتدار، محبان وطن رہ گئے یا گذر گئے‘ ان کی قدر و قیمت بڑھ گئی ہے۔ برسوں پہلے ایک فلم ریلیز ہوئی تھی ’’کاغذ کی ناؤ‘‘ جس کے بعض مکالمات بڑے سبق آموز تھے۔ جس کے ایک منظر میں پردیپ کمار باپ کی حیثیت سے اپنے بیٹے راج کرن کو ایمانداری اور بے ایمانی کا فرق سمجھاتے ہیں کہ عام طور پر ایمانداری کے لئے انعام اور گولڈ میڈل دیا جاتا ہے کیوں؟ اس لئے کہ ایماندار نہ ہونے کے برابر ہے۔ جب کوئی بھولے بھٹکے ایماندار مل جاتا ہے تو اُسے انعام دے دیا جاتا ہے۔ بہرحال اے پی جے عبدالکلام ایماندار بھی تھے‘ اپنے پیشے سے انہیں محبت بھی تھی‘ اپنے وطن کیلئے جاں نثاری سے زیادہ اسے آسمان کی بلندیوں تک پہنچانے کا جذبہ ان میں موجود تھے۔ انہوں نے کچھ پانے کی کبھی جستجو نہیں کی۔ اپنے ملک کو اس قدر دیا کہ ملک اور اس میں رہنے والوں کو ان کی خدمات، مقام اور مرتبہ کا احساس ہوا اور انہوں نے انہیں بھارت رتن بھی دیا، صدر جمہوریہ کی کرسی بھی۔ مگر ان دو اعزازات کے باوجود ڈاکٹر عبدالکلام کے رویے، لہجے، روز مرہ کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ راشٹرا پتی بھون میں بھی عبدالکلام ہی تھے۔ وہ عوام میں رہنا چاہتے تھے۔ راشٹراپتی بھون جاکر جب انہیں احساس ہوا کہ وہ عوامی زندگی سے الگ تھلگ ہوکر رہ گئے ہیں تو انہوں نے راشٹراپتی بھون کے دروازے عوام کے لئے کھول دےئے۔ بھلے ہی وہ پارلیمانی سیشن کے آغاز کے موقع پر روایتی انداز میں پارلیمنٹ ہاؤز جاتے رہے ہوں گے مگر جب کبھی انہیں موقع ملا بحیثیت صدر جمہوریہ ہند بھی وہ جہاں کہیں بھی گئے وہاں انہوں نے ڈاکٹر عبدالکلام کی چھاپ چھوڑ دےئے۔ مولانا ولی رحمانی کی خانقاہ رحمانیہ (مونگیر) گئے تو خانقاہی نظام میں پروان چڑھنے والے طلباء سے سورہ فاتحہ کی تفسیر بیان کی۔ جب سائنسدانوں کے ساتھ بات چیت کا موقع ملا تو اس موقع کو غنیمت جان کر انہوں نے سائنسدانوں کو یہ سکھایا کہ سائنس و ٹکنالوجی کا ملک کی ترقی کے لئے استعمال کیسے کیا جاسکتا ہے۔ ایروناٹیکل انجینئر کی حیثیت سے طیاروں اور میزائلوں سے ان کی دلچسپی فطری تھی مگر انہوں نے ہر اُس شعبہ میں دلچسپی لی اور متعلقہ افراد کی رہنمائی کی کہ کس طرح ان شعبوں کے ذریعہ انسانیت کی خدمت کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے جب معذوروں کے لئے بیساکھیاں دیکھیں تو ان بیساکھیوں کا وزن ہلکا کرنے کا گُر بتایا۔ جب وہ ڈی آر ڈی ایل (حیدرآباد) کے ڈائرکٹر تھے تو ان کے ایک ساتھی نظام انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسس میں زیر علاج تھے۔ جن سے ملاقا ت کے لئے ڈاکٹر کلام نمس آیا کرتے تھے۔ یہاں ماہر امراض قلب اور اس وقت کے ڈائرکٹر نمس ڈاکٹر سوما راجو سے ان کی اکثر بات چیت ہوتی۔ جب انہیں پتا چلا کہ Stents امپورٹ کرنا پڑتا ہے تو انہوں نے دیسی ٹکنالوجی کا استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور ڈیفنس ٹکنالوجی کو عوامی مفاد کے لئے بھی استعمال کی غرض سے سوسائٹی فار بائیومیڈیکل ٹکنالوجی (SBMT) تشکیل دی اور پھر 1994ء میں ڈاکٹر کلام اور سوما راجو کی مشترکہ کاوشوں سے دیسی Stents تیار کئے گئے جسے کلام۔راجو اسٹنٹس کا نام دیا گیا۔ اس وقت اس کی لاگت 10ہزار روپئے تھی جبکہ یہی اسٹنٹس 75ہزار روپئے میں امپورٹ کئے جاتے تھے۔ ڈاکٹر عبدالکلام ایک سائنسدان تو تھے ہی وہ ایک اچھے ٹیچر یا استاد بھی تھے اور انہوں نے دو سال پہلے ایک انگریزی اخبار کو یوم اساتذہ کے موقع پر دےئے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر عوام انہیں ایک اچھے ٹیچر کی حیثیت سے یاد رکھیں تو یہ ان کے لئے باعث اعزاز ہوگا۔ وہ جہاں بھی جاتے خود بخود ٹیچر بن جاتے۔ وہ بچوں میں بچہ بن کر ان کی نفسیات کے مطابق انہیں کچھ نہ کچھ سکھانے کی کوشش کرتے، ان کا حوصلہ بڑھاتے، انہیں اپنی زندگی کے مقصد کا تعین کرنے کی تلقین کرتے۔ اور اس موقع پر ان کی نصیحت آمیز الفاظ اقوال زرین بن جاتے۔ جیسا انہوں نے تلقین تھی کہ ’’خواہ تو وہ جو انسان کو سونے نہ دے‘‘ اسی طرح جب کسی نے ان سے ترقی اور کامیابی سے متعلق سوال کیا تو ڈاکٹر کلام نے کہا تھا ’’جب انسان کے دستخط آٹوگراف بن جائے تو یہ کامیابی ہے اور تبدیلی‘‘۔
ڈاکٹر عبدالکلام کو آج ان کی وفات پر ہر فرد خراج عقیدت کیوں پیش کرتے ہیں۔ اس لئے کہ ڈاکٹر عبدالکلام نے کبھی خود کو میزائل بینک، بھارت رتن یا صدر جمہوریہ یا اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ بہتر نہیں سمجھتے۔ انہوں نے ہندوستان کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچایا۔ ان کی نگاہیں ہمیشہ خلاؤں میں ہندوستانی ترنگے کو تلاش کرتی مگر ان کے قدم ہمیشہ زمین پر ہی رہتے ورنہ جس سطح کے ڈاکٹر عبدالکلام تھے وہاں پہنچنے کے بعد اکثر و بیشتر خود کو آسمانی مخلوق سمجھنے لگتے ہیں اور زمین پہ بسنے والوں کو کیڑے مکوڑے سمجھنے لگتے ہیں اور جب وہ اعلیٰ عہدوں سے سبکدوش ہوتے ہیں تو ان کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے بھی کم ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالکلام کی سادگی کا اندازہ ایک اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ایک تقریب کی کرسی صدارت محض اس لئے قبول نہیں کی کہ یہ کرسی شہ نشین پر رکھی گئی دوسری کرسیوں کے مقابلے میں جسامت میں بڑی تھی۔ جبکہ صدارت کے لئے تو مقابلے ہوتے ہیں۔ تقاریب میں کرسی صدارت اگر عام کرسیوں سے مختلف نہ ہو تو بیٹھنے میں تکلف کیا جاتا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق ڈاکٹر کلام نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے انفارمیشن ٹکنالوجی سنٹر کو ان کے نام سے موسوم کیا جائے۔ اگر اس منصب کے لوگوں کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں انداز ہوتا ہے کہ وہ بعض تقاریب میں شرکت انہی شرائط پر کرتے ہیں کہ سنگ بنیاد کی تختی پر ان کا نام ہو۔ کسی ہال، آڈیٹوریم یا کسی سنٹر کو ان کے نام سے موسوم کیا جائے۔
ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام جنہوں نے ہندوستانی خلائی تحقیقاتی ادارے (اسرو)، ڈی آرڈی او اور ڈی آر ڈی ایل کے ذریعہ ہندوستان کے لئے طیارہ سازی سے لے کر میزائل سازی تک ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔ جنہوں نے اگنی، آکاش، پرتھوی اور ناگ جیسے میزائلس تیار کرنے والی ٹیموں کی قیادت کی۔ جنہوں نے دنیا کے پہلے سوپر سونک کروز میزائل (برہموز) کی تیاری کے لئے ہند۔روس کے درمیان باہمی تعاون کو ممکن بنایا۔ اور ڈائرکٹر جنرل ڈی آر ڈی او کے علاوہ وزیر دفاع کے سائنٹیفک اڈوائزر کی حیثیت سے ہندوستان کی نیوکلیر تجربات میں گراں قدر رول ادا کیا۔ اتنی عظیم شخصیت سادگی کی ایک مثال تھی۔ ان کا دھیما اور شگفتہ لہجہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیتا۔ مختلف کنونشنوں کے دوران کئی بار ایسی تصاویر شائع ہوئیں جس میں ہندوستان کی عظیم ہستی کولنچ کے دوران عام مندوبین کے ساتھ پلیٹ لئے ہوئے قطار میں دکھائی دیا۔ وہ جس سے ملتے وہ خود کو بہت بڑا سمجھتا۔ یہ ڈاکٹر کلام کے لہجہ کا کمال تھا۔یہ لہجہ ان کی عظمت کی گواہی دیتا تھا۔ بچپن میں پڑھا ہوا ایک سبق جانے کیوں اس موقع پر یاد آنے لگا۔
’’ایک بادشاہ اپنے وزیر، سپاہیوں اور درباریوں کے ساتھ شکار کے لئے گیا۔ جنگل میں جنگلی جانوروں کی آواز سے کچھ ایسی ہلچل مچی کہ افراتفری میں سب ایک دوسرے سے بچھڑ گئے اور جب حالات قابو میں آئے تو ایک دوسرے کو تلاش کرنے کے لئے نکل پڑے۔ جنگل میں ایک مقام پر نابینا صاحب بیٹھے ہوئے تھے بادشاہ کے گروہ میں شامل ایک شخص نے اس نابینا سے پوچھا ابے او اندھے ۔ یہاں سے کوئی گیا ہے؟ نابینا نے جواب دیا بھائی میں اندھا آدمی ہوں مجھے کیا پتہ کہ کون یہاں سے گیا ہے۔ کچھ دیر بعد ایک اور شخص نابینا کے پاس آیا اور پوچھا بڑے میاں یہاں سے کوئی گیا ہے؟ نابینا نے جواب دیا ہاں! بھائی کوئی گیا ہے۔ میں اندھا ہوں کون گیا مجھے کیا پتہ۔ کچھ دیر بعد خود باشاہ سلامت نابینا کے پاس پہنچے پوچھا شاہ صاحب کیا یہاں سے کوئی گذرا ہے؟ نابینا نے جواب دیا ہاں! آپ سے پہلے دو لوگ گذرے‘ پہلا شخص شاید آپ کا غلام ہوگا، دوسرا شخص یقیناًوزیر ہوگا اور آپ بادشاہ سلامت ہیں۔ بادشاہ کو تعجب ہوا پوچھا‘ شاہ صاحب آپ کو تو دکھائی نہیں دیتا پھر آپ نے کیسے جان لیا۔ نابینا شخص نے جواب دیا کسی کو پہچاننے کے لئے اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے اس کے لہجہ سے اس کی حیثیت اور اس کا حسب و نسب کا پتہ چل جاتا ہے‘‘۔
بہرحال اچھا لہجہ انسان کی پہچان ہے۔ شاندار کار، عالیشان عمارتیں خوش لباسی سے انسان بڑا نہیں ہوتا۔ اس کے لہجے سے انسان کی بڑائی اور عظمت کا پتہ چلتا ہے۔ پھلدار درخت زمین پر جھکے ہوتے ہیں اسی طرح واقعی جو بڑے لوگ ہیں بڑے انسان ہیں وہ دوسروں سے ادب و احترام سے ملتے ہیں اور یہی ان کا مقام بلند کرتا ہے۔ بقول شاعر:
جھک کے ملنا بھی بڑی کرامت ہے
اس سے دنیا مرید ہوتی ہے

«
»

کیا گرداس پور کا واقعہ آخری فیصلہ کیلئے کم ہے؟

نتین یاہو: اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے