وہ دو جنہیں دولت نام کی لونڈی نے بزدل بنا دیا

رام جیٹھ ملانی، مہیش بھٹ، منی شنکر ایئر، شتروگھن سنہا، سیتا رام یچوری جیسے بہت ممتاز لیڈروں نے اور سپریم کورٹ کے دو ریٹائرڈ ججوں نے بھی کچھ ایسا ہی کہا ہے کہ یعقوب کی خودسپردگی اور خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کے بعد اسے پھانسی دینا انصاف نہیں ہے۔
کل پہلے سلمان خاں کا بیان سنایا گیا۔ اس کے فوراً بعد اُن کے والد سلیم خاں کا بیان سنایا گیا کہ سلمان کے بیان کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے۔ اس کے باوجود شیوسینا اور ہندو سینا کے بہادروں نے سلمان خاں کے مکان پر دھاوا بول دیا۔ اُن کے خلاف نعرے لگائے۔ اُن کے پتلے جلائے، ننگا ناچ ناچنا اور دھمکیاں دیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اندر جو کہیں چھپا ہوا چھوٹا سا مسلمان تھا وہ ڈر گیا اور دولت نام کی لونڈی نے اسے بزدل بنا دیا اور اس نے معافی مانگ لی۔ اب اگر کوئی سلمان خاں سے معلوم کرے کہ تم نے کس بات کی معافی مانگی؟ کیونکہ یہ اور اس سے زیادہ باتیں تو ریٹائرڈ جج اور پارٹیوں کے ہندو لیڈر بھی کہہ رہے ہیں، سوائے سیاست اور جمہوریت کی سڑی ہوئی لاش کی جیسی بدبو دینے والے سبرامنیم سوامی اور رام دیو نام کے مودی نواز بابا کے کہ وہ ایسی ہی باتوں سے پہچانے جاتے ہیں۔
سلمان خاں کے باپ سلیم خاں کا یہ کہنا کہ اس کی بات کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے کا مطلب کیا ہے؟ وہ بچہ نہیں ہے۔ اتنا کما رہا ہے جس کا سلیم خاں نے خواب بھی نہ دیکھا ہوگا عمر کے اعتبار سے بھی وہ ادھیڑ کہے جانے والوں میں شامل ہے پھر سنجیدگی سے نہ لینے کی اپیل کرنے کے اس کے علاوہ کیا معنی ہیں کہ وہ بھی اُن کے بیان کو لکشمی دیوی کی مرضی کے خلاف سمجھتے ہیں؟ مہیش بھٹ اور نصیرالدین شاہ بھی اسی دنیا کے آدمی ہیں۔ رام جیٹھ ملانی اس وقت بی جے پی سے الگ ہیں لیکن وہ بہت بڑے اس کے حمایتی ہیں اور شتروگھن سنہا فلمی دنیا کے بھی ہیں اور بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ ہیں۔
ہندو سینا کیا ہے؟ یہ ہم نہیں جانتے لیکن شیوسینا مرکزی اور صوبائی حکومت کا حصہ ہے اس کے آدمیوں نے پہلے دونوں ریٹائرڈ ججوں اور چالیس بہت ممتاز سیاسی لیڈروں کے پتلے کیوں نہیں جلائے؟ انہیں دھمکیاں کیوں نہیں دیں؟ صرف اس لئے کہ اب بولنے کا حق بھی مسلمان کو نہیں ہے وہ بھی صرف ہندو اور سکھ کو ہے؟ ہم اپنی برادری میں اب تک اکیلے مسلمان تھے جو لکھ رہے تھے اور اس لئے لکھ رہے تھے کہ سی بی آئی کے کہنے کے مطابق اگر یعقوب میمن بم دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ ہے تو اسے وہ جانے یا عدالت۔ اس کے بنائے ہوئے مقدمہ پر بھروسہ کرکے یعقوب کو موت کی سزا دی جائے یا عمر قید کی۔ لیکن اسی ممبئی کے ان ہی دنوں میں جو جسٹس کرشنا کی رپورٹ کے مطابق دو ہزار مسلمان مار دیئے گئے اُن کے مجرموں کا کیا ہوا؟ بم دھماکوں سے 257 ہندو مرجائیں تو وہ دہشت گردی ہے اور رائفلوں، بندوقوں اور تلواروں سے دو ہزار مسلمان مرجائیں تو وہ کیا ہے؟ کمیشن نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کو قتل کرنے میں پولیس کے افسر اور سپاہی بھی ہندوؤں کے ساتھ تھے اور باقی پولیس والے صرف قتل ہونے کا تماشہ دیکھ رہے تھے۔ اس رپورٹ کی مسلمان 21 برس سے دہائی دے رہے ہیں۔ لیکن ہر چینل بم دھماکوں سے گرنے والے مکانوں کو تو دکھا رہا ہے مرنے والوں کے وارثوں کو بھی دکھا رہا ہے لیکن کسی بھی چینل نے آج تک مسلمانوں کو قتل ہوتے اور تڑپتے نہیں دکھایا اس لئے کہ ہر چینل کے مالک بھی ہندو ہیں ایڈیٹر بھی ہندو اور رپورٹر بھی ہندو یا ہندو کے نوکر۔
کل اتوار تھا سب جانتے ہیں کہ خبریں نہ آنے کے برابر آتی ہیں لیکن ہم جیسے بھوکوں کو چین کہاں؟ ہم نے 6:00 بجے شام کو آج تک کھول دیا تو ایک مذاکرہ چل رہا تھا اس میں ایک مسلمان ابوعاصم اعظمی کو چار ملک کے بادشاہ گھیرے ہوئے تھے کہ آپ بم دھماکوں کو بابری مسجد سے کیوں ملا رہے ہیں؟ آخرکار وہ ڈر گئے اور صفائی دینے لگے کہ میں بابری مسجد سے نہیں ملا رہا۔ جی چاہا کہ ہم چیخ کر کہیں کہ یہ صرف بابری مسجد سے ہی متعلق ہے۔ بابری مسجد کا غم منانے کی سزا میں ابو عاصم کے بقول ڈھائی ہزار مسلمان شہید ہوئے اور جب ان جانے پہچانے سیکڑوں قاتلوں میں سے ایک کو بھی سزا نہیں دی گئی تو کوئی تو اس کا انتقام لیتا؟ اور کچھ لوگوں نے جنہیں سچائی یہ ہے کہ کوئی نہیں جانتا انتقام کے لئے ہی یہ دھماکے کئے۔ اگر بات انصاف کی کرنا ہے تو پہلے بابری مسجد کے مجرموں کو پھانسی دو۔ پھر ڈھائی ہزار مسلمانوں کے قاتلوں کو پھانسی دو اور اس کے بعد بم دھماکوں کے مجرموں کے ساتھ وہ کرو جو ہر ہندو مجرم کے ساتھ کیا ہو اور اگر ان کے ساتھ کچھ نہیں کیا تو سب کے بعد میں ہونے والی واردات کے الزام میں کسی کو پھانسی 12 کو عمرقید اور 10 اور 5 سال کی قید ایسا ہی انصاف ہے جیسا انگریز اپنے غلام ہندوؤں اور مسلمانوں کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ دستور سب کو برابر کہتا ہے اور آج کے وزیر اعظم کا نعرہ ہے سب کا ساتھ سب کا وکاس۔ اس لئے ہم بھی لکھ رہے ہیں تاکہ ہمارے جج صاحبان پر یک چشم ہونے کا الزام نہ آئے۔
ابو عاصم صاحب نے ایک سرکاری وکیل کا ذکر کیا ہے کہ وہ دو ہزار مسلمانوں کے قتل کے مقدمہ کی ان سے پیروی کرائیں۔ حیرت ہے کہ ایک سیاسی لیڈر اتنا بے خبر ہے کہ پہلے مقدمہ قائم ہوتا ہے پھر سیشن عدالت میں یا خصوصی عدالت میں اس کی سماعت ہوتی ہے اور اس وقت وکیل کا انتخاب ہوتا ہے۔ کانگریس اور شردپوار کی مسلم دشمن حکومتوں نے جب مقدمہ ہی نہیں قائم ہونے دیا تو کیسے وکیل اور کیسے جج؟ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر فوراً گرفتاریاں، مقدمات اور عدالتی کارروائی شروع ہوگئی ہوتی تو شاید ایک بھی دھماکہ نہ ہوتا سب مسلمان مقدمہ کو کامیاب کرانے میں لگ جاتے؟ ابو عاصم بھی اس لئے ڈر ڈر کر بول رہے تھے کہ وہ بھی ماشاء اللہ بڑے دولتمندوں میں ہیں۔
1947 ء کے بعد والے ہندوستان کی عدالتوں کو صحافی برادری میں شاید جتنا ہم جانتے ہیں کوئی دوسرا نہ جانتا ہوگا۔ 1965-66 ء میں ہم 9 مہینے جیل میں رہ کر دیکھ چکے ہیں کہ جیل کیا ہوتی ہے؟ 1967-68 ء میں 25 مقدموں کا سامنا کرکے دیکھ چکے ہیں کہ حکومت انتظامیہ اور پولیس کتنی بزدل ہیں اور 1978 ء سے 1998 ء تک پورے 20 سال ایک مقدمہ کا سامنا کرکے یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ عدالت میں جو انصاف کی دیوی ترازو لئے کھڑی ہے اس کی آنکھوں کے نمبر الگ الگ ہیں۔ مسلمان کو دیکھنے کا نمبر الگ ہے اور غیرمسلموں کو دیکھنے کا الگ۔
جو مقدمہ بیس برس چلا ہے اس کا جرم صرف یہ تھا کہ اس مضمون میں آج کل جیسی ہی واردات پر بحث کی تھی اور جگہ جگہ ہندو اور مسلمان لکھا تھا۔ مقدمہ یہ تھا کہ اتنی جگہ ہندو اور مسلمان کیوں لکھا؟ وہ مقدمہ شاید 12 عدالتوں میں باری باری چلا اور ہم نے ہر جج سے کہا کہ جناب آپ کو میں ہندو اور اپنے کو مسلمان نہ لکھوں تو کیا اکثریت اور اقلیت لکھوں؟ اور آپ سے کچھ عرض کروں تو کیا جناب اکثریت صاحب کہوں؟ ان کا جواب ہوتا تھا کہ گواہوں کو آنے دیجئے اور بیس برس تک کسی گواہ نے جن میں کوئی ڈی ایم تھا کوئی کمشنر تھا اور ایک سٹی مجسٹریٹ اور سب میرے جانے پہچانے تھے صورت نہیں دکھائی اور اس منقدمہ کو خارج کردیا گیا اس لئے کہ یہ ہائی کورٹ کا حکم ہے۔ ہمیں پڑھنے والوں کا حلقہ اپنے ملکوں میں بھی ہے اور نیٹ کی وجہ سے دوسرے ملکوں میں بھی۔ محبت کرنے والے محبت کا اظہار بھی کرتے ہیں اور دعائیں بھی دے رہے ہیں کہ جو ہم لکھ رہے ہیں وہ ؂
’’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘
ان سب کے دلوں کی ترجمانی ہے۔ ہم کیا اور ہمارا قلم کیا؟ لکھوانے والا وہ ہے جس نے فرما دیا ہے کہ بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
جہاں تک بولنے کا تعلق ہے تو وہ بھی صرف ایک ہی دیوانہ اسدالدین اویسی ہے۔ وہ بھی وہی کہہ رہا ہے کہ شوق سے یعقوب کو پھانسی دو لیکن جس جس کی پھانسی کو عمرقید میں تبدیل کیا ہے ان کو بھی پہلے پھانسی دو۔ بابری مسجد اور ممبئی کے قاتلوں کو بھی پھانسی دو۔ اس کے بارے میں رام دیو نے کہا ہے کہ اویسی کے خلاف ملک دشمنی کا مقدمہ چلایا جائے اور ہمارا کہنا ہے کہ جیسے گجرات کے کئی مقدمے انصاف نہ ملنے کے خوف سے دوسرے صوبوں میں چلے اسی طرح بابا رام دیو کے خلاف فریب اور 420 کا مقدمہ امریکہ، روس یا چین کی کسی عدالت میں چلایا جائے کہ اس نے 125 کروڑ ہندوستانیوں کو سادھو، سنت، سنیاسی اور بابا بن کر اور زعفرانی کپڑوں سے اپنے عیبوں کو ڈھک کر جو کالے دھن کے بارے میں دھوکہ دیا ہے اور جس کا مقصد صرف مودی کی سرکار بنواکر اربوں کھربوں روپئے اس طرح کمانا تھا کہ نہ کوئی دواؤں کی ملاوٹ کو پکڑے نہ کسی قسم کا ٹیکس وصول کرے بلکہ بلیک کمانڈوز کو اس کی جان کا محافظ بناکر اُسے ہندوستان کا سب سے بڑا دولتمند بنانے میں اس کی مدد کرے۔
اگر بابارام دیو تین سال تک صرف کالے دھن کو موضوع نہ بناتے، ملک کو یہ یقین نہ دلاتے کہ میں نہ پارٹی بناؤں گا نہ الیکشن لڑوں گا نہ وزیر بنوں گا بس کالا دھن منگواکر اپنے روپئے کو ڈالر کے برابر کرادوں گا اور ہر بھارتی کو مالامال کرادوں گا۔ اس کے بعد منصوبہ کے مطابق گرم لوہے پر مودی نے چوٹ ماری کہ میری سرکار بنی تو 100 دن میں کالا دھن آجائے گا اور ہر ایک کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع ہوجائیں گے۔ ٹی وی دیکھنے والے گواہی دیں گے کہ مودی سرکار سے پہلے بابا کی تصویر خبروں میں آتی تھی اشتہار کوئی نہیں تھا اور اب دن رات میں 100 دفعہ سے زیادہ دواؤں کے ساتھ ان کا حسین چہرہ اسکرین کو زعفرانی بناتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یا تو بابا کے اشتہار ہیں یا سیمنٹ کے یا موبائل کے جو شاید ہر چینل پر قبضہ کئے ہوئے ہیں۔
اچھا ہے کہ بابا اویسی کے اوپر مقدمہ چلائیں اور اویسی بابا پر اقوام متحدہ کی عدالت میں اس لئے کہ ہندوستان کی کوئی عدالت مودی کو اتنا بڑا ملک دینے والے بابا کے خلاف انصاف نہ کرپائے گی۔ بابا اردو کی تقریر سن کر سمجھ لیتے ہیں اس لئے انہوں نے اویسی صاحب کو نشانہ بنایا۔ وہ اگر اردو پڑھ پاتے اور سمجھ بھی پاتے تو ہم جو بیس برس سے لکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے قتل کی تحقیقات جسٹس کرشنا کو اور ہندوؤں کے دھماکوں میں مرنے کی سی بی آئی سے کیوں کرائی؟ جبکہ دونوں ایک ہی وقت کے حادثے ہیں۔ یا دونوں کی کرشنا کمیشن کرتا یا دونوں کی سی بی آئی؟ ان معاملات میں جو بے ایمانی پہلے دن سے شروع ہوئی ہے وہ آج تک اسی طرح چل رہی ہے ہم بھی ایسے سرپھرے ہیں کہ یہ جانتے ہوئے کہ اس ملک میں مسلمانوں کے لئے کچھ لکھنا یا بولنا قبرستان میں اذان جیسا ہے، لکھنے سے باز نہیں آتے۔ اسی امید پر کہ جس نے لکھنے کی معمولی سی صلاحیت دی ہے اس کے سامنے اعمال نامہ پیش ہو تو یہ اذان ہمارے حق میں گواہی دے دے۔

«
»

کیا گرداس پور کا واقعہ آخری فیصلہ کیلئے کم ہے؟

نتین یاہو: اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے