انصاف کے دو پیمانے، معصوم کو سزا اور مجرموں کی رہائی؟

مثال کے طور پر گجرات کے فسادات کی سچائی کو دبانے اور کمزور کرنے میں جس طرح وہاں کی انتظامیہ کی پوری مشنری نے اپنا کردار ادا کیا، اس سے گجرات انتظام وانصرام کے ہر پرزے کا زنگ نمایاں ہوگیا۔ اسے صرف تکنیکی خامی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کے پس پشت سیاست کی موثر کار فرمائی موجود رہی ہے، سیاست کے اسی عمل دخل کے باعث واضح نظر آنے والا جرم بھی جرم نہیں رہتا بلکہ دوسری شکل اختیار کرلیتا ہے، اس کا اندازہ ۱۹۸۴ء سکھ مخالف فسادات، بابری مسجد کی شہادت ، ممبئی کے دھماکوں، گجرات کے مسلم کش دنگوں اور مالیگاؤں،اجمیر، حیدرآباد کی دہشت گرد وارداتوں کو الگ الگ زاویہ سے دیکھنے کے ذہنیت سے ہوتا ہے، اس طرزِ فکر اور طریقۂ عمل کیلئے کونسی پارٹی یا تنظیم زیادہ ذمہ دار ہے یہ کہنا مشکل ہے۔کیونکہ کانگریس کے دور حکومت سے موجودہ بی جے پی کی سرکار تک یہ ہوتا رہا ہے اور آج اس میں کافی شدت آگئی ہے۔
غیر ذمہ دار وبدعنوان مشنری کے اسی رویہ کے باعث اہم شخصیات عدالتوں سے بری ہوجاتی ہیں، ہر مرتبہ کوئی تکنیکی وجہ بری ہونے کا باعث بنتی ہے، گزشتہ بیس سال سے بااثر مجرموں نے سیاست کی پناہ لے رکھی ہے اور ان کا کلاس بھی تبدیل ہوگیا ہے اب یہ عوام کو ہی فیصلہ کرنا چاہئے کہ ان کا نمائندہ کون ہو۔
کسی نے خودسپردگی کرنے والی معروف ڈاکو سرغنہ مہر سنگھ سے سوال کیا تھا کہ آپ ججوں سے بیر نہیں رکھتے حالانکہ وہ آپ کو سزا سناتے ہیں، مہر سنگھ کا جواب تھا کہ نہیں ہماری نظر تو گواہ پر اور ان کو پیش کرنے والی پولس پر رہتی ہے، جب پولس ہی نہیں چاہے گی اور گواہ ہمارے خلاف منہ نہ کھولیں گے جج کیا کرلیں گے؟ ایک الجھے سوال کا نہایت آسان جواب مہر سنگھ نے دے دیا۔ عام آدمی ضرور اخباری خبروں کی بنیاد پر کسی واردات کے ملزم کے خلاف تصور قائم کرلیتا ہے لیکن عدالت اس کے سامنے پیش کئے گئے ثبوتوں پر اپنا فیصلہ صادر کرتی ہے، اگر گواہ نے عدالت میں ملزم کے خلاف بیان نہیں دیاتو ملزم یقیناًبری ہوگا اور عام لوگ اس کیلئے پولس یا گواہ کو نہیں عدالت کو نشانہ بنائیں گے۔
ایک طرف تو انتظامیہ کی طرف سے پیش ہونے والے استغاثہ کا یہ حال ہے کہ وہ اتنے کمزور وپھسپھسے ہوتے ہیں مجرم کو سزا نہیں ملتی اور وہ عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں، خاص طو رپر اپنے لوگ مالدار اور صاحب حیثیت کا تو بال بھی بیکا نہیں ہوتا، آج تک ایک بھی مثال ایسی نہیں کہ کسی امیر مجرم کو پھانسی کی سزا دی گئی ہو، عام طو رپر امیر اپنے سرمایہ کے بل بوتے پر سنگین سے سنگین جرم کرتے ہیں لیکن انہیں موت کی سزا نہیں سنائی جاتی، ایک دو معاملے نہیں کئی ہیں، جیسکا لال کے قتل کی واردات سب کے سامنے ایک بار میں ہوئی تھی لیکن قاتل منو شرما کوپھانسی کی سزا نہیں ملی کیونکہ اس کا باپ ونود شرما مرکزی وزیر تھا، وہ جیل میں مزے کرتا رہا، اسی طرح راجپوت آئی پی ایس سنتوش سنگھ جو دہلی کی طالبہ پردرشنی مٹو کے اغوا، ریپ اور قتل کا مجرم تھا، پھانسی پر چڑھنے سے بچ گیا ایک اور برہمن آئی پی ایس افسر روی کانت شرما ایک جرنلسٹ شیوانی بھٹناگر کے قتل کا مرتکب ہوا لیکن شک کا فائدہ ملنے پر سنگین سزا سے محفوظ رہا، جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے سربراہ شیبو سورین پر بھی قتل کا مقدمہ چلا اثر ورسوخ کی وجہ سے وہ آزاد ہوگیا، بی جے پی صدر امیت شاہ پر فرضی انکاؤنٹر کے الزامات لگے لیکن ایک کے بعد ایک وہ الزامات سے بری ہوتے رہے۔
اس کے برعکس ملک کے اقلیتی فرقے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ انہیں مختلف الزامات میں سزائیں ہورہی ہیں کئی کو پھانسی پر بھی چڑھایا جاچکا ہے ، ان کی جان ومال، عزت وآبرو کی کسی کو پرواہ نہیں، سب سے زیادہ جیلوں میں بند مسلمان ہی ہیں، کئی معاملات میں مسلمانوں کے خلاف جرم ثابت نہیں ہوتا اور عدالت انہیں بری کرنا چاہتی تو بھی انتظامیہ کی طرف سے اوپر کی عدالتوں میں اپیل کردی جاتی ہے یعنی ایک طرف مجرم سزا سے محفوظ ہیں تو دوسری جانب ملزم کی غربت اور اس کا مسلمان ہونا ہی سزا کے لئے کافی ہے۔
کسی بھی مثالی جمہوریت میں قانون کی حکمرانی ناگزیر ہے اور عدالتیں قانون کے مطابق ہی انصاف کرتی ہیں، ان سے اگر انصاف ملنے میں کوتاہی ہورہی ہے تو کیا یہ سمجھ لینا چاہئے قانون کی عمل داری ختم ہوگئی ہے، درحقیقت یہ تجزیہ سطحی ہوگا کیونکہ افراد اور انتظامیہ ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں، انتظام افراد کیلئے ہوتا ہے ، افراد انتظام کیلئے نہیں،ایسے لوگوں کے بارے میں کیا کہا جائے جو خود کیلئے انصاف چاہتے ہیں لیکن جب دوسروں کیلئے سچائی کے بیان کرنے کا موقع ملے تو سچ کے سوا سب کچھ کہہ جاتے ہیں ، عام گواہوں کو چھوڑ دیجئے، سیاست داں، صحافی یہاں تک کہ پولس کے ذریعہ تفتیش کنندگان کو عدالت کھینچ کر لانے کے لئے اکثر قانونی اختیارات کو کام میں لانا پڑتا ہے، بمشکل تمام عدالت پہونچنے والے عینی گواہ ہی جب واردات سے ناواقفیت کا اظہار کردیں یا سلسلہ واقعات پر روشنی ڈالنے کے باوجود سامنے کھڑے ملزم کی شناخت سے معذوری ظاہر کردے تو عدالت کس ثبوت کی بنیاد پر ملزم کو سزا سنائے گی۔
تعزیرات ہند کا پرانا اصول ہے کہ سوملزم چھوٹ جائیں ایک بے قصور کو سزا نہ ملے، لیکن یہ ضابطہ موجودہ اس ہندوستانی معاشرہ پر صادق نہیں آتا، جس میں مجرموں کی بالادستی دن بدن بڑھتی جارہی ہے، اسی لئے دن دہاڑے اور برسرعام ہونے والی قاتلانہ وارداتوں کے گواہ نہیں ملتے یا ان کے شاہد اسی میں عافیت سمجھتے ہیں کہ انجان بنے رہیں، خواہ بے قصور کو سزا مل جائے یا ملزم بری ہوجائے۔
عینی گواہوں کی طرح ہمارے ذرائع ابلاغ بالخصوص اخبارات بھی جرم کی چشم پوشی میں پیچھے نہیں ہیں ایک معاصر نے اس پر گرفت کرتے ہوئے صحیح لکھا تھا کہ جیسیکا لال قتل کے ملزموں کی رہائی پر جو اخبارات اپنے صفحات پر اداریے، رپورٹیں، مضامین اور مکتوب شائع کررہے تھے، انہوں نے ممبئی کے خواجہ یونس کی اس ماں کو فراموش کردیا تھا، جو انصاف کیلئے عروس البلاد کی سڑکوں پر ماری ماری پھرتی رہی ہے، یہی حال سنگھ پریوار سے جڑے ملزموں کے مقدمات کو کمزور کردینے کی اوپری ہدایات کے بعد آج نظر آرہا ہے کہ قتل ودھماکوں کے سنگین جرائم کے باوجود عدالتوں سے انہیں ضمانت مل رہی ہیں اسے انصاف کے دو پیمانے نہ کہیں تو پھر کیا کہا جائے؟

«
»

کیا گرداس پور کا واقعہ آخری فیصلہ کیلئے کم ہے؟

نتین یاہو: اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے