نتین یاہو: اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟
بسا اوقات یکہ و تنہا ہو جانا بھی کسی کو خودسوزی کیلئے مجبور کرسکتا ہے اور اس جوہری معاہدے کے بعد اسرائیل پہلی بار بالکل اکیلا پڑگیا ہے۔ امریکی استعمار بھی (جواس کا سب سے بڑے سہارا ہوا کرتا تھا) منہ پھیرچکا ہے۔ اس طرح وہ غلط فہمی بھی دور ہو گئی ہے کہ یہودی بلاواسطہ نہ صرف امریکہ بلکہ ساری دنیا پر راج کرتے ہیں۔ نیتن یاہو امریکہ کی ایوان نمائندگان کے ڈیموکریٹ ارکان کے ا?گے ہاتھ جوڑ کر منت سماجت کر رہا ہے کہ وہ اپنے ہی جماعت کے صدر براک اوباما کے خلاف ووٹ دیں اور ری پبلکن ارکان کے ساتھ مل جائیں جبکہ براک اوبامہ نے صاف کردیا ہے کہ اگر معمولی اکثریت سییہ تجویز مسترد بھی ہوجائے تو وہ ویٹو سے معاہدے کی توثیق کردیں گے۔ اوبامہ کو ایسا کرنے سے روکنے کیلئے دوتہائی ارکان کی مخالفت ضروری ہے جو بظاہر ناممکن ہے۔ اس طرح یہودیوں کی بابت قرآن عظیم کی یہ پیشن گوئی پھر ایک بار سچ ثابت ہو گئی کہ : 
’’یہ جہاں بھی پائے گئے، ان پر ذلت کی مار پڑی۔ کہیں اللہ یا انسانوں کی حفاظت میں انہیں پناہ مل گئی تو اور بات ہے۔ یہ اللہ کے غضب میں گھر گئے ہیں اور محتاجی اور مغلوبی ان پر مسلط کردی گئی ہے۔‘‘ (آل عمران۔۱۱۲)۔ اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک صہیونی حکومت کے خلاف صف آراء4 ہیں جس کا مظاہرہ اس سال کئی مرتبہ اقوام متحدہ کے مختلف اجلاس میں ہوچکا ہے۔ فی الحال اسرائیل محض امریکہ کے بل بوتے پر قائم ہے جو ہر مرتبہ ویٹو کا استعمال کرکے اس کو بچا لیتا ہے لیکن ممکن ہیاس بار پہلی مرتبہ امریکی صدر کا ویٹو اسرائیل کے خلاف استعمال ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہو اس جوہری معاہدے کو صہیونی ریاست کے تحفظ کولاحق سب سے بڑا خطرہ اور تاریخی غلطی قرار دیتا ہے۔ 
جوہری معاہدے کے بعدیاہو کو منانے کیلئے ایک امریکی وفد نے تل ابیب کا دورہ ضرور کیا مگر وہ بھی زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک چھڑک کر لوٹ آیا۔ امریکہ کے وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے صاف کہا کہ وہ جوہری معاہدے سے متعلق نیتن یاہو کے موقف کو تبدیل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ مبصرین کا قیاس ہے کہ امریکہ اسرائیل کوجو تین ارب ڈالر سالانہ فوجی امداد فراہم کرتا ہے جوہری معاہدے کے تناظر میں اس کے اندر معمولی اضافہ کردیا جائے گا اور ایک معمولی سی ہڈی سے اس کا بھونکنا بند ہو جائیگا۔۔ 
نتین یاہو کیلئے ایک خوشخبری یہ ہے کہ جلد ہی ہندوستان کے وزیراعظم اسرائیل کا دورہ کرنے والے ہیں۔ اس دورے کے دوران یقیناً ہندوستان اسرائیل سے بہت سارا اسلحہ خریدے گا اور ان دفاعی سودوں کی رشوت ستانی سے دونوں فریق مالا مال ہو جائیں گے۔ اس طرح ممکن ہے کچھ غم غلط ہو جائے لیکن اس کے باوجود بھی اگرنتین یاہو اپناخودکشی کا ارادہ ترک نہیں کرتا تو مودی جی کو چاہیے کہ وہ اسے ہندوستان بلاکر تاج محل دیکھنے کیلئے آگرہ روانہ کردیں جہاں اوبامہ نہیں جاسکے تھے۔ سنا ہے آگرہ میں بہت بڑا پاگل خانہ جہاں یاہو کے دماغ کا علاج بھی کیا جاسکتا ہے اور اگر پھر بھی وہ درست نہ ہو تو تاج محل سے بہتر مقام خودکشی کیلئے کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ اسی ہفتے دو پریمیوں نے وہاں خودکشی کی ناکام کوشش کر چکے ہیں ویسے حکومت کی نگرانی میں اسے کامیاب بنایا جاسکتا ہے۔ اب اس گناہِ بے لذت میں یاہو کا ساتھ کون دے گا یہ تو نہیں پتہ لیکن جو بھی اس کے ساتھ پرلوک سدھارے گا ملک و قوم کیلئے بہتر ہی ہوگا۔ 
اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو مضبوط تر بنانے کے چکر میں بھارت بھی عالمی برادری سے کٹتا جارہا ہے۔ اس کی تازہ مثال اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں فلسطینیوں پر مظالم کے کیخلاف پیش کردہ قرارداد پر بھارت کا خود کو ووٹنگ سے دور رکھنا ہے۔ اس موقع پر جبکہ امریکہ کے علاوہ ساری دنیا اسرائیل کے خلاف صف آراء4 ہو گئی تھی ہندوستان دنیا کے غیر اہم ممالک مثلاً کینیا، ایتھوپیا اور پیراگوئے کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس سے قبل ہندوستان کی ایسی درگت کبھی نہیں ہوئی۔ اس سے تو بہتر ہوتا کہ ہندوستان کھل کر اسرائیل کی حمایت کردیتا اور امریکہ کے ہمرکاب ہوجاتا اس لئے کہ ان دونوں کی مخالفت کے باوجود اسرائیل کی مذمت والی تجویز تو زبردست اکثریت سے کامیاب ہو ہی جاتی لیکن حکومتِ ہند نے اس شعر کے مصداق دوستی نبھائی کہ 
ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ پر بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مْکر جائیں گے
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے دوران جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر کونسل کی رپورٹ کا قرارداد کے ذریعے خیرمقدم کیا گیا اور اس رپورٹ کی سفارشات پر فوری عملدرآمد کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کے بعد اسرائیل کو دوسرا جھٹکا گزشتہ ہفتے اس وقت لگا جب غزہ کی ناکا بندی کو ختم کرنے کیلئے آنے والے قافلے فلوٹیلا پر بین الاقوامی سمندر میں کئے جانے والے اسرائیلی فوج کے حملے کی ازسرِ نو تفتیش کا حکم بین الاقوامی تعزیراتی عدالت نے دے دیا۔ پانچ سال قبل اس قافلہ? حریت کے ۹ لوگوں کو اسرائیلی افواج نے بین الاقوامی سمندر میں شہید کردیا تھا اور ایک زخمی بعد میں جان بحق ہوا۔ ۲۰۱۳ میں اس کے خلاف عالمی عدالت میں شکایت درج کرائی گئی تھی لیکن فاتوبسودہ نامی پراسیکیوٹر نے نومبر ۲۰۱۴ میں اس کی تفتیش کو لپیٹ دیا۔ اس حرکت کو فاضل جج صاحبان نے سنگین غلطی قرار دیتے ہوئے کر پھر سے تفتیش کا حکم صادر کردیا۔ حالانکہ اسرائیلی وزیراعظم نیاسیسیاسی فیصلہ قرار دیا ہے لیکن اسرائیل کا کثیرالاشاعت اخبار حارث اسے اسرائیل کیلئے نئی مشکلات کا ا?غاز بتاتاہے۔

گزشتہ سال ان دنوں میں غزہ کے لوگ شدید ترین ظلم و جبر کا شکار تھے۔ اس ۵۱ روزہ جنگ میں ۱۸ تا۰ ۲ ہزار ٹن آتشیں مادہ غزہ پر برسایا گیا جو ہیروشیما کے برابر کی تباہ کاری ہے۔ اسرائیل نے کل ۵ ہزار سے زیادہ حملے کئے یعنی ا وسطاً یومیہ۰۰ ۱ مرتبہ بمباری جس میں ۲۲ سو فلسطینی شہید ہوئے جن میں بچوں کی تعداد ۵۵۰ تھی۔ اسرائیل کے ۷۳ افراد مارے گئے جن میں صرف ۶ شہری اور بقیہ فوجی تھے لیکن اس کے باوجود اسرائیل نے جب دیکھا کہ یہ لوگ جھکنے والے نہیں ہیں تو حماس کی شرائط پر جنگ بندی قبول کرلی۔ اس جنگ میں اسرائیل کے شانہ بشانہ امریکہ اور مصر کھڑے تھے۔ مصر کی پشت پناہی سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کررہے تھے۔ غزہ کے ساتھ ترکی، ایران اور قطر کے علاوہ یوروپی یو نین تھی لیکن اس ایک سال میں ناقابلِ تصورتبدیلیاں واقع ہوچکی ہیں ۔ 
غزہ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کو دنیا سے رابطہ کرنے کیلئے مصر پر انحصار کرنا پڑتاہے۔ غزہ کا دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اسے اسرائیل کے ساتھ گفت و شنید کیلئے مصر کو ثالث بنانا پڑتا تھا۔ فی الحال مصری حکومت اپنے بغض و عناد کے سبب اسرائیل سے بھی زیادہ سخت موقف اختیار کئے ہوئے ہے۔اس دوران حماس نے اسرائیل کے ساتھ براہِ راست رابطے استوار کئے جس سے الفتح اور مصر دونوں کی دخل اندازی سے یکسر نجات مل گئی۔ چونکہ فی الحال محمود عباس کی سفارتی اہمیت صفر ہوکر رہ گئی ہے اس لئے وہ آئے دن مشترکہ عبوری حکومت کو برخواست کرنے کی دھمکی دیتے رہتے ہیں۔ اس دوران ٹونی بلئیر جیسا کائیاں سیاستداں بھی غزہ میں بازآباد کاری کی خاطر براہِ راست حماس سے رابطے میں ہے اور یہ گفتگو بہتر نتائج کی جانب گامزن ہے۔
سعودی عرب کے نئے فرمانروا شاہ سلمان کی آمد کے بعد سیاسی ماحول میں جو تبدیلی آئی اس کا فائدہ پہلے تو ترکی نے اٹھایا اور اپنے تعلقات درست کئے اس کے بعد حماس نے بھی اس جانب اچھی خاصی پیش رفت کی۔ ان سفارتی کوششوں کے نتیجے میں مصر کی غاصب سرکار پر دباو بنایا گیا اور یہی وجہ ہے کہ فروری میں مصر کی ایک عدالت کے حماس کو دہشت گرد قرار دے دیا تھا مگر جون میں دوسری عدالت نے اس فیصلے کو کالعدم قراردے دیا۔ رفاہ کی راہداری جو غزہ کیلئے باہر کی دنیا سے رابطے کا واحد ذریعہ ہے اوراسے نے دہشت گردی کے بہانے سے بند کررکھا تھا سعودی عرب کے دباو میں شہریوں کی سہولت کے لئے کئی بارکھولا گیا۔
حماس اور سعودی عرب کے درمیان یہ سفارتکاری گزشتہ ہفتہ ایک اہم مرحلے میں داخل ہوگئی جب حماس کے سربراہ خالد مشعل ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ عمرہ کی خاطر حرمین شریفین کا قصد کیا۔ اس وفد میں موسیٰ ابومرزوقی، صالح ارعری ،عزت الرشق اور محمد ناصر شامل تھے۔ شاہ سلمان نے اپنے وزیر دفاع کی موجودگی میں اس وفد کے ساتھ ملاقات کی اور الفتح کے ساتھ اتحاد پر زور دیا۔ حماس نے اس کام کیلئے سعودی عرب کو ثالث کی حیثیت سے تسلیم کرلیا لیکن الفتح نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ اس طرح الفتح کی مصنوعی مصالحت پسندی کا پردہ بھی چاک ہوگیا۔ اسرائیل اور مصر کے درمیان گھٹ گھٹ کرمرنے والے محمود عباس کی حالت پر فی الحال غالب کا یہ شعر صادق ا?تا ہے کہ ?
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شبِ غم بری بلا ہے مجھے کیا برا تھا مرنا ، اگر ایک بار ہوتا
سابق وزیراعظم اسماعیل ہنیہ نے تو اس دورے کو کامیاب بتایا مگر ایران جو ایک زمانے تک غزہ کا واحد سب سے بڑا حامی رہاہے اس پیش رفت سے بیچین ہوگیا۔ایرانی خبررساں ایجنسی فارس نے اس موقع پر یہ افواہ اڑا دی کہ سعودی عرب نے یمن میں حوثیوں سے لڑنے کیلئے حماس سے تعاون مانگا ہے اور خالد مشعل اپنے ۷۰۰مجاہدین کو روانہ کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ خبر میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ فلسطینی مجاہدین کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ وہ میدان چھوڑ کر نہیں بھاگتے۔ حماس کے ترجمان سامی ابو الزہری اس خبر کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ شام کے معاملے میں اسلامی تحریکات اور ایران کے درمیان بنیادی قسم کا اختلاف ہے۔ بشار کی حمایت نے ایران کی عدلانہ حیثیت کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کے جوہری معاہدے میں زبردست سفارتی کامیابی اور معاشی پابندیوں کے خاتمہ کا مسلم دنیا میں شایانِ شان استقبال نہیں ہوسکا۔
عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کے جوہری معاہدے کو جولوگ اس کے موقف میں کسی غیر معمولی تبدیلی کا شاخسانہ قرار دے رہے تھے ان کو آیت اللہ خامنہ ای کے خطبے نے مایوس کردیا۔ ایران کے روحانی پیشوا نے صاف کہا کہ متکبر امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلق میں کوئی اصولی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔ یہ معاہدہ جوہری توانائی اور اقتصادی پابندیوں کے خاتمہ تک محدود ہے۔ ایران ہمیشہ سیجوہری توانائی کو پرامن مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا دعویدار رہا ہے لیکن اگر کل کو وہ جوہری اسلحہ بنانے کا اردہ بھی کرتا ہے تو یہ معاہدہ اس کے راہ کی رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ اس کیلئے پاکستان اور شمالی ویتنام کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ 
امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان ۱۹۹۴ میں اسی طرح کا ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت شمالی کوریا نے اپنے جوہری پروگرام کو منجمد کردیا تھا لیکن یہ سمجھوتا ۲۰۰۳ میں شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے عالمی معاہدے (این پی ٹی) سے نکل جانے کے بعد ختم ہوگیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ شمالی کوریا بہت جلد جوہری بم بنانے میں کامیاب ہوگیا اور اس نے ایٹمی دھماکہ بھی کرڈالا۔ چین کے سراغرساں اداروں کے مطابق شمالی کوریا کے پاس فی الحال ۲۰ جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اس سے بڑی مثال پاکستان کی ہے۔ ?۱۹۶۷کے اندر ویانا ہی میں فرانس کی مدد سے پاکستان نے جوہری ری ایکٹر قائم کرنے معاہدہ کیا تھااور بین الاقوامی جوہری توانائی کے ادارے نے اس کی توثیق بھی کردی تھی۔ 
افسوس کہ اس وقت پاکستان کے سب بڑے حلیف امریکہ نے اس معاہدے کی مخالفت میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پر دباو ڈالا لیکن بھٹو نے اس کے سامنے جھکنے سے انکار کردیااور۱۹۷۷میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں پاکستان کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کے خلاف قرار داد منظور کر وانے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی سال امریکی تائید سے جنرل ضیاء4 الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ فرانس نے آگے چل کر جوہری معاہدہ منسوخ کردیا لیکن جنرل ضیاء4 الحق نے بھٹو کی پھانسی کے بعدبھی جوہری پروگرام منجمد نہیں کیا بلکہ اسے جاری رکھا اور جب پوکھرن میں بھارت نے 
دھماکے کئے تو اس کے جواب میں نواز شریف نے کئی دھماکے کرڈالے۔ قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ نواز شریف بھی ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں ملک بدر کردئیے گئے۔
پرویز مشرف نے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر پاکستانی جوہری اسلحہ کے بابا آدم ڈاکٹر قدیر کو نشانِ عبرت بنانے کی مذموم کوشش کی لیکن اس کا بھی جوہری منصوبے پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ ایک جائزے کے مطابق پاکستان کے پاس آج۰۰ ۱ سے زیادہ ایٹم بم ہیں۔ ہندوستان پر امریکہ نے پوکھرن کے دھماکوں کے بعد بے شمار پابندیاں لگا دی تھیں لیکن یہ حکمتِ عملی بھی موثر نہ ہوسکی۔ ہندوستان کے بموں کی تعداد بھی۰۰ ۱ کے آس پاس ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے اسرائیل نے خود چوری سے ۲۰۰ بم بنارکھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب نتین یاہو کی خودکشی والی دھمکی کو عالمی رہنما اس قدر اہمیت بھی نہیں دیتے جتنا کہ بالی ووڈ کے شائقین اداکارہ دیپکا پڈوکون کے اس بیان کودیتے ہیں جس میں اس نے کہا تھا کہ اگر وہ محبت میں گرفتار ہوگئی تو انڈسٹری کو خیرباد کہہ کر شادی رچا لیگی۔ساری دنیا جانتی ہے نہ دیپکا کو کسی سے محبت ہوگی اورنہ نیتن یاہو خودکشی کرے گا یہ سب مگر مچھ کے آنسو ہیں جو عوام کو بہلانے پھسلانے کیلئے بہائے جاتے ہیں ورنہ یاہو جیسے کینہ پرور سیاستداں سے تو موت کا فرشتہ بھی پناہ مانگتا ہے بقول شاعر
غمِ حیات سے بے شک ہے خود کشی آساں مگر جو موت بھی شرما گئی تو کیا ہوگا۔

«
»

جہیز کے خلاف ذہنی بیداری مہم نہایت ضروری

معتبرصحافی عارف عزیز سے ’’اُردوہلچل ‘‘ کے لئے جاوید یزدانی کی بات چیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے