عربوں کو اس بات کا بھی علم ہو گیا تھا کہ اسرائیل 1963 ہی میں نیوکلیر طاقت بن چکا ہے اور اب دنیا کی کوئی بھی طاقت اسے شکست دے نہیں سکتی . اسکے باوجود 1973 کی جنگ ہو گئی جس میں اسرائیل اپنی شکست کے سبب نیوکلیر ہتھیار استعمال کر نے کی سوچنے لگا . مگر عین وقت پر امریکی امداد نے اسے روک لیا . عربوں میں اتنی صلاحیت نہیں تھی اور آج بھی نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کو دھمکی دے سکے کہ وہ اسکے دیمونا شہر میں موجود نیوکلیر پلانٹ کو ایک خفیہ حملہ میں اڑا دیں گے جبکہ اسرائیل عربوں کو برابر ایسی دھمکیاں دیتا آ رہا تھا اور 1981میں اس نے عراقی نیوکلیر پلانٹ کو تحس نحس کر دیا . اسرائیل کو 2005 میں اس بات کا علم ہو گیا کہ ملک شام خود کو نیوکلیر پاور بنانے کی کوششووں میں لگا ہوا ہے . شام اپنی ترکی کی سرحد کے قریب خفیہ طور پر نیو کلیر ہلانٹ بنا نے میں مشغول تھا . اس کا علم امریکہ کی سی آی یے کو نہیں تھا جبکہ اسرائیل کو معلوم ہو گیا تھا مگر اسکے پاس ٹھوس ثبوت نہیں تھے . یہ پلانٹ شمالی کوریا کے سائنٹسٹوں کی مدد سے بنایا جا رہا تھا . یہ اگر مکمل ہو جا تا تو یہاں نیوکلیر بم بھی بن سکتے تھے . اس دوران اسرائیلی وزیر اعظم ولمارٹ ترکی کے ذریعہ شام کے ساتھ امن مذاکرات میں مشغول تھے . وہ کسی بھی حالت میں عرب ممالک کو نیوکلیر بننے دینا نہیں چاہتا تھا . شام کو روکنے کے لئے اسرائیل کے پاس دو راستے تھے . جاسوسی ایجنسی موساد کے چیف میر داغن اور وزیر اعظم نے طئے کیا کہ یا تو شام کی اس کوشش کو اقوام متحدہ کے سامنے بے نقاب کر کے شام پر اقوام متحدہ کے ذریعہ دباو ڈالنا ہے یا خود اسرائیل ہوائی حملہ کے ذریعہ اسے برباد کر دینا ہے . ایک راستہ یہ بھی سوچا گیا کہ یہ بات امریکہ کو ثبوت کے ساتھ بتا کر خود اس کی جانب سے ہوائی حملہ کروانا ہے . اسرائیل نے یہ راز سب سے پہلے امریکہ کو بتایا مگر سی آی اے نے تحقیقات کے بعد پایا کہ وہ تو صرف بجلی پیدا کر نے کی کوشش تھی . اس نے پایا کہ شام کو کہیں سے بھی یورینیم نہیں مل رہا تھا اور نہ ہی اس کے پلانٹ میں بم بنا نے کی صلاحیت موجود تھی . اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم یہود باراک ہوائی بمباری کے مخالف تھے کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ شام بھیانک جنگ چھیڑ سکتا ہے اور اپنے ساتھ حسب اللہ (جسکے پاس ہزاروں راکٹ تھے ) کو بھی استعمال کر سکتا ہے . اسرائیل اس پلانٹ کو اس طرح تباہ کر نا چاہتا تھا کہ اسد کو شرمندگی بھی نہ ہو اور وہ مخالفت بھی نہ کر سکے اور ساتھ ہی امن مزاکرات بھی جاری رکھ سکے . وہ حملہ اس طرح کر نا چاہتے تھے کہ اسد کے وقار کو ٹھیس نہ لگنے پائے اور وہ آواز بھی نہ اٹھا سکے . اسرائیل کو اس بات کا بھی ڈر تھا کہ ایران بھی حملہ نہ کر دے . انہوں نے طئے کیا کہ حملہ ایسی خاموشی کے ساتھ کیا جائے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے پائے کہ کس نے حملہ کیا اور نہ ہی اسکا ذکر کسی کے سامنے کیا جائے تاکہ شام کی عزت بھی برقرار رہے اور کام بھی بن جائے . اس بات کو لیکر اسرائیل 2007 میں دن رات مشق کر نے لگا اور معلومات بھی اکھٹا کر نے لگا . اس نے اپنے جاسوس ( جو اکثر مسلمان عرب ہی ہوا کر تے تھے ) وہاں طعنیات کر دیا اور وہاں کے مدافعتی نظام پر پر گہری نگاہ رکھنے لگے . 5.9.2007کی رات11.30 بجے امریکہ سے حاصل کئے ہوے F-15 لڑاکو بمبار اسرائیل کے رامت ڈیوڈ حیفہ کی جنوبی ایر فیلڈ سے اڑان بھرے اور دھوکہ دینے کے لئے مخالف سمت مغرب میں Mediteranian Sea سمندرپر اڑنے لگے اور پھر یکایک انہوں نے شمال مشرق کی طرف رخ کیا اور چھ ستمبر کی صبح صادق شامی ہوائی حدود میں داخل ہوے اور ترکی کی سرحد سے قریب ریگستان میں بننے والے زمین دوز شامی نیوکلیر پلانٹ پر دو ہزار پاونڈ کے ایسے زبردست بم برسائے جس سے زمین دوز پلانٹ کے پرخچے اڑ گئے . پھر وہ جیٹ ترکی کی فضائی حدود میں داخل ہوے اور اپنے فالتو تیل کے خالی ٹینک ترکی کی سر زمین پر گرا دیے جس سے ترکی کی فوج غذبناک ہو گئی مگر بزدلوں کی طرح خاموش رہی ( یہ ترکوں کو وارننگ تھی کی وہ اگر چاہتے تو سچ مچ کے بم بھی ترکی پر برسا سکتے تھے ) . فورا اولمرٹ نے ترکی کے وزیر اعظم اردگان کو فون کر کے سب کچھ بتا دیا اور کہا کہ اسرائیل کا ارادہ ترکی کو زک پہنچانا نہیں تھا . چونکہ ترکی دونوں کے درمیان امن مزاکرات کروا رہا تھا اسلئے اولمرٹ نے ترکی سے درخواست کی کہ وہ اسد کو بتا دے کہ اسرائیل اپنے شمالی محاذ پر شامی نیوکلیر پلانٹ برداشت نہیں کر تا اور ساتھ ہی یہ کہے کہ اسرائیل کے شام کے خلاف کوئی جارہانہ خیالات نہیں ہیں اور وہ شام پر کوئی حملہ کر نا نہیں چاہتا . اسد بلکل خاموشی سے یہ سب کچھ برداشت کر نے کے لئے راضی ہو گئے کیونکہ اسرائیل امن مزاکرات کو جاری رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا . دوسرے دن شام نے حملہ کا ذکر کئے بغیر صرف اتنا کہہ دیا کہ اسکے فضائی حدود میں دخل اندازی ہوی ہے . امریکہ کے صدر بش سے بھی درخواست کی گئی کہ وہ خاموشی اختیار کرے . یہ تمام سچائی قریبا چھ ماہ بعد دنیا کے سامنے آئی . اب یہاں سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ جب شام اسرائیل کے ساتھ حالت جنگ میں تھا تو وہ اتنا غافل کیوں تھا اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کیوں نہیں کر پایا ؟ کیوں اسکے لڑاکو بمبار اپنے راڈر پر اس دخل اندازی کو دیکھ نہ سکے اور کیوں بمباری کر کے لوٹنے والے اسرائیلی بمباروں کو مار نہیں گرایا ؟ کیوں انہیں خیریت کے ساتھ واپس لوٹنے دیا ؟ . ترکی جو ناٹو جنگی معاہدے کا ممبر ہے وہ اپنی فضائی حدود میں داخل ہو نے والے بغیر ہتھیاروں کے اسرائیلی جہازوں کو کیوں روک نہیں پایا . کیا ہم سب سمجھ لیں کہ شام اور ترکی بغیر دانتوں اور ناخن والے شیر ہیں . دنیا بھر کے مسلمانوں کو یقین تھا اور آج بھی ہے کہ ترکی ایک زبردست ملٹری طاقت ہے مگر 2007 کہ اس واقعہ نے سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں . مصر کے پاس 863جنگی طیارے ہیں ، شام کے پاس 695 ، سعودی عرب 977 ، اردن کے پاس 324جنگی طیارے ہیں مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسرائیل جب چاہے اور جہاں چاہے حملہ کر سکتا ہے اور بغیر نقصان کے لوٹ بھی سکتا ہے . اس مسلہ پر جب چند نوجوان عربوں سے بات ہوی تو انہوں نے بتایا کہ عرب حکمران کبھی متحد نہیں ہونگے اور کبھی کچھ نہیں کریں گے کیونکہ انکے ذاتی اور خاندانی مسائل انکے لئے سب سے اہم ہیں اور انکے لئے اقتدار میں رہنا سب سے اہم ہے .آج عرب ممالک کی حالت ایسی ہے کہ وہ متحد ہو کر بھی اسرائیل سے لڑ نہیں سکتے . مصر جو عربوں کی سب سے بڑی ملٹری طاقت ہے اس نے اسرائیل سے امن معاہدہ کر لیا ہے اور اپنے تمام علاقے واپس لے لئے ہیں . جب تک عرب ممالک میں ملٹری ڈکٹیٹر ہیں وہ بلکل جنگ کے لئے تیار نہیں ہونگے . سعودی عرب کا بھی اسرائیل کے ساتھ امن کا خفیہ معاہدہ ہو چکا ہے اور ویسے بھی اس کی فوج جنگجو نہیں ہے کیونکہ اسکے زیادہ تر فوجی کرائے کے سپاہی ہیں . اردن بھی 1994میں اسرائیل سے معاہدہ کر چکا ہے حالانکہ بیت المقدس جو اسی کے قبضہ میں تھا وہ اب اسرائیل کے ہاتھ لگ چکا ہے . ویسے بھی اردن کو اب عربوں کی جنگی صلاحیت پر بھروسہ نہیں رہا . آج شام خانہ جنگی کی وجہ سے اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ وہ اب آیندہ پچاس برس تک بھی اسرائیل سے جنگ نہیں کر سکتا . اس نے اپنے تمام کیمیکل ہتھیار مغربی ممالک کو سونپ دیے ہیں جیسے فلمی کہاوت ہے کہ ایک مچھر آدمی کو ہجڑا بنا دیتا ہے ویسے ہی ایک بشار الاسد کا خاندان اپنے ذاتی مفاد کے لئے پورے ملک کو ہجڑا بنا دیا ہے . لبنان عرب ممالک کی اس کمزوری کے سبب جنگ میں حصہ لینے سے قاصر ہے . صرف حماص اور دیگر فلسطینی تنظیمیں ہیں جو بار بار جنگ کے لئے تیار ہو جا تے ہیں . انکے پاس میزائل تو ہیں مگر زیادہ نقصان پہنچانے والے بم نہیں ہیں . اگر عرب ممالک چاہے تو انہیں مہلک ہتھیار دے سکتے ہیں مگر وہ دے نہیں رہے ہیں کیونکہ انمیں اسلامی جوش و جذبہ نہیں ہے . ایسے میں ایک بات یقینی ہے کہ عرب کسی بھی جنگ میں اسرائیل کو ہرا نہیں سکتے . ایسے میں اسرائیل سے مقبوضہ علاقے واپس لینے کا ایک ہی داحد راستہ ہے ” بغیر جنگ کے جنگ جیتنا ” . اسکے لئے تین راستے ہیں . پہلا ۔ ملٹری طور پر اسرائیل سے زیادہ طاقتور بننا .اسرائیل صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے اس لئے اس سے زیادہ طاقت ور بننا ضروری ہے تاکہ وہ سمجھ لے کہ اگر اس نے جنگ کو دعوت دی تو عرب اسکی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے . اگر جنگ ہوی تو عربوں کو کئی بلین ڈالر کا خرچ آئے گا اور ہزاروں عربوں اور یہودیوں کی جانیں جائینگی . اگر وہی کئی بلین ڈالر کے جدید ترین ہتھیار مغربی ممالک ، روس اور چین سے خرید کر اسرائیل کو جانکاری دیں تو اسرائیل تذبذب میں پڑ جائے گا اور بات چیت کے لئے راضی ہو جائے گا . ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ موجودہ حالت ہی میں مصر ، شام ، سعودی عرب ، اردن ، ایران اور عراق چند سالوں کے لئے ہی سہی ایک دکھاوے کا فیڈریشن بنا دیں اور اسرائیل کو دھمکائیں تو امریکہ اور اسرائیل دونوں جھکنے لگیں گے . اگر عرب حکمران انور سادات کی طرح عقل اور حکمت سے کام لیں تو یہ بہت اچھی ترکیب ہے . اب عرب حکمرانوں میں تھوڑا بھی ایمان کا جذبہ ہے تو وہ بیت المقدس کو دوبارہ حاصل کر نے کے لئے تیار ہو جائیں گے . دوسرا راستہ یہ ہے کہ دکھاوے ہی کے لئے سہی اقوام متحدہ کو نوٹس دینا ہے کہ اسکے عربوں کو انصاف نہ دینے کے سبب تمام عرب ممالک اس بات پر غور کریں گے کہ کیوں نہ اقوام متحدہ سے الگ ہو جائیں اور خود عرب ممالک کا ایک الگ اقوام متحدہ بنا لیں . چونکہ عرب ممالک پیٹرول سے مالامال ہیں اور مشرق وسطی میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں اسلئے دنیا بھر کے ممالک اسرائیل اور امریکہ پر دباو بنائیں گے کہ وہ عربوں کو تمام مقبوضہ علاقے واپس کر دے . تیسرا راستہ مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں ہے . اس میں وقت اور دولت دونوں لگیں گے مگر کامیابی یقینی ہے . سب سے پہلے عرب ممالک کو Nuclear Non Proliferation Treaty کو نکار کر باہر آنا ہو گا . پھر اعلان کر نا ہو گا کہ جب اسرائیل نیوکلیر بن سکتا ہے تو انہیں بھی نیوکلیر بننے کا حق ملنا چاہیے . اس بات پر ہر جگہ اڑ جانا اور ہر محفل میں اسے دھراتے رہنا عربوں کے حق میں ہو گا . اگر ایران بھی اس پر اڑ جاتا تو وہ ضرور بہت جلد نیوکلیر پاور بن جا تا تھا . اب جونکہ عرب ممالک کو مغربی ممالک سے فلسطینی تنازعے میں مدد ملنے کی امید نہیں ہے اسلئے مصر ، سعودی عرب ، ایران اور عراق میں سے کسی نہ کسی کو نیوکلیر ضرور بننا چاہیے . انہیں چاہیے کہ روس ، چین اور شمالی کوریا سے مدد لیں اور کھلم کھلا نیوکلیر بنیں . اسرائیل عربوں کی اس متحدہ طاقت کے خلاف ویسا ہوائی حملہ کر نے کی حماقت نہیں کرے گا جیسا اس نے عراق اور شام کے خلاف کیا تھا . تب امریکہ اور یوروپ عربوں کو انکے مقبوضہ علاقے واپس دلانے پر مجبور ہو جا ئیگے . اس طرح عرب ایک جنگ عظیم سے بچ جا تے اور بغیر جنگ کئے اپنا مقصد بھی حاصل کر لیں گے . نیوکلیر بننا یا نہ بننا الگ بات ہے مگر دنیا کو اور خصوصا مغربی ممالک کو دھمکی دینا عین حکمت ہے . یہ ایک ایسا مسلہ ہے جس پر تمام مسلمانوں کے درمیان ڈبیٹ کر نا اور راستے تلاش کر نا ضروری ہے . آج مشرق وسطی میں صرف اسرائیل ہی ایک ایسا ملک ہے جو قریبا ایک سو سے زیادہ نیوکلیر بم رکھتا ہے اور انہیں جب چاہے اپنے مخالف ملکوں پر یعنی عرب ممالک پر استعمال کر سکتا ہے . اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب اسرائیل کو نیوکلیر بم بنانے اور رکھنے کی اجازت ہے تو اسکے ہمسایہ عرب ممالک کو کیوں نہیں ؟ یوروپ اور امریکہ کو یہ حق کس نے دے دیا کہ وہ جسے چاہے نیوکلیر بم بنانے کی کھلی چھوٹ دے دے اور جسے چاہے روک دے ؟ چناچہ پانچ مئی 2015کو مصر ، سعودی عرب اور کچھ دیگر عرب ممالک نے اقوام متحدہ میں یہ تجویز رکھی کہ پورے مشرق وسطی کو نیوکلیر فری زون بنا دیا جائے جسکا مطلب یہ ہوا کہ اسرائیل کے نیوکلیر ہتھیار سمندر برد کر دیے جائیں اور اسکی اس صلاحیت کو ختم کر دیا جائے اور پورے علاقے کو ان ہتھیاروں سے پاک بنا دیا جائے . اس تجویز کو سب نے مان لیا مگر امریکہ ، برطانیہ اور کینڈا نے مسترد کر دیا . یہ سراسر ان ملکوں کے ساتھ نا انصافی ہے ۔ مگر مجبوری یہ ہے کہ عرب ممالک متحد اور پر عزم نہیں ہیں ورنہ وہ سب ملکر یوروپی ممالک کو دھمکا سکتے . اب عرب ممالک اور ایران اگر متحد ہو گئے تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں دبا نہیں سکتی . مگر افسوس کہ نہ وہ خود سے متحد ہو رہے ہیں اور نہ انہیں متحد ہو نے دیا جا رہا ہے . یوروپ اور امریکہ دونوں عرب ممالک سے ہمدردی کی آڑ میں انہیں کمزور کر رہے ہیں اور اسرائیل کو مضبوط رکھکر عربوں کو اپنے ناکارہ ہتھیار فروخت کر کے منافع کما رہے ہیں . یہ حقیقت عربوں کو جتنی جلدی سمجھ میں آ جائے بہتر ہے . چھوٹے چھوٹے آپسی گھریلو چھگڑوں کو لیکر سب سے بڑے بیرونی زندگی اور موت کے مسائل کو نظر انداز کرنا مسلمانوں کی عادت سی بن گئی ہے ۔ ( ہندوستانی مسلمان بھی یہی کر رہے ہیں ۔ مسلکی جھگڑوں کو لیکر اہم بیرونی مسائل کو نظر انداز کر رہے ہیں ) . خوشی کی بات یہ ہے کہ اوباما نے اسرائیل کو وارننگ دی ہے کہ اگر اس نے فلسطینیوں کے ساتھ امن مزاکرات میں تاخیر کی تو امریکہ اقوام متحدہ میں اسکی طرفداری نہیں کرے گا . اگر اباما یہی بات چار سال پہلے کہے ہو تے تو اب تک اسکا کچھ نہ کچھ نتیجہ ضرور نکلتا مگر اب جبکہ اوباما کی مدت صرف دیڑھ برس رہ گئی ہے یہ دھمکی کام کر نا مشکل ہے . آنے والے نئے صدر کو پھر نئے طور سے کوشش کر نا پڑے گا . کلنٹن اور بش کے دور میں بھی یہی ہوا . شاید ا مریکہ جان بوجھ کر یہ پالیسی اختیار کر رہا ہے ۔ ہندستان میں موجود ہمارے عربی زبان جاننے والے احباب اگر کوشش کریں تو ان نظریات کو اور خود انکے اس سے بہتر نظریات کو عرب حکمرانوں اور عرب دانشوروں تک پہنچا سکتے ہیں اور انکے ارادوں کو تقویت پہنچا سکتے ہیں . بیت المقدس دنیا کے ہر مسلمان کے لئے مقدس ہے اور اسے حاصل کر نے کے لئے کوشش کر نا ہر کسی کا اہم فریضہ ہے . آجکل داعش کا عراق اور شام میں بہت زیادہ مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کے لئے شہرہ ہے . وہ امریکہ کی پیدا کردہ ہو یا کسی اور کی اگر وہ واقعی حکومت الہی قائم کر نے کے کوشاں ہیں تو انہیں مسلمانوں کے ساتھ اور مسلم علاقوں مین لڑنے اور جد و جہد کر نے کے بجائے فلسطینیوں کے ساتھ مل کر اسرائیل سے مقابلہ کر نا چاہیے تھا مگر انکا اس طرح نہ کر نا اس بات کا ثہوت ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے ہمدرد کم اور اور دشمن اسلام کے کٹھ پتلی زیادہ ہیں اور اسلام کا نام لے کر اسلام ہی کو بد نام کر رہے ہیں .یوروپی ممالک ایران اور سعودی عرب کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر کے دونوں کو ایک دوسرے کے حریف بتا کر آپس میں لڑا رہے ہیں اور اپنا اور اسرائیل کا فائیدہ کر رہے ہیں . (یو این این)
جواب دیں