مولانامحمدولی رحمانی:زندگی کے سنگ میل

راشدشاذان کے آئیڈیل اوران کے نزدیک اسلامی فکروتاریخ کے اسکالرہوسکتے ہیں لیکن سواداعظم کوان کے نظریات قبول نہیں ہوسکتے جن کاوطیرہ علماء یہاں تک کہ صحابہ کرامؓ اوربنت رسول ﷺکونشانہ بنانا ہے۔وہ اپنی تحریروں میں کبھی مساجدومدارس کوشرک وبت پرستی کااڈہ قراردیتے ہیں کبھی پورے ذخیرۂ احادیث پرہی حملہ آورہوتے ہیں۔راشدشاذکی تحریرپرتفصیلی تبصرے کبھی اور۔فی الحال ذاتی عنادپرمبنی تحریرکاجواب۔
شاذکے عقیدت مندکو اگرحقیقت کی جستجوتھی تووہ دارالعلوم دیوبند،دارالعلوم ندوۃ العلماء اورجامعہ رحمانی مونگیرسے مولانامحمدولی رحمانی کی سندفضیلت ،اساتذہ اورسنہ فراغت کی تفصیلات معلوم کرتے،مقصدتوحقیقت کی جستجوتھی نہیں۔اورنہ کسی قسم کی ملت کے ساتھ ہمدردی ۔بھلااس موضوع کاملت کے ساتھ ہمدردی سے کیاتعلق ہے۔ان کے بیان میں خودتضادہے ایک طرف یہ بھی کہ برادرم ولی رحمانی سے کوئی ذاتی تکلیف نہیں ہے دوسری طرف ذاتیات پرحملے بھی۔متعصب ذہنیت کامقصدصرف اورصرف شخصیت کونشانہ بناکربورڈکومجروح کرنے کی کوشش ہے۔موصوف کے علم میں اضافہ کے لئے جواباََعرض کردوں کہ حضرت مولانامحمدولی رحمانی صاحب نے جامعہ رحمانی مونگیر میں مشکوٰۃ شریف تک تعلیم حاصل کی ، پھرایک سال ندوۃ العلماء میں حصول علم کیلئے مقیم رہے ،اس کے بعد دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا،دارالعلو م دیوبندسے آپ کاسنہ فراغت۱۹۶۴ء ہے۔آپ کے مشہور اساتذہ میں حضرت علامہ محمدابراہیم صاحب بلیاوی ؒ ، حضرت مولانا فخرالدین احمدصاحب ؒ ، حضرت مولانا فخرا لحسن صاحب ؒ ، حضرت مولانا شیخ محمد صاحب مؤؒ ہیں۔ان کے علاوہ حضرت شیخ زکریاؒ نے خصوصی طورپرآپ کومسلسلات کی سندعنایت کی ہے، مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ مولاناڈاکٹرسعیدالرحمان اعظمی صاحب بھی آپ کے اساتذہ میں ہیں ۔ان کے علاوہ دارالعلوم دیوبندکے مہتمم مولاناابوالقاسم نعمانی دارالعلوم میںآپ کے جونیئرہم عصرہیں۔اور دارالعلوم کے استاذحدیث اورسابق نائب مہتمم مولانا قاری عثمان صاحب مولاناولی رحمانی صاحب کے درسی ساتھی ہیں۔انہیں ان آخرالذکرتینوں بزرگوں سے بھی تحقیق کرلینی چاہئے۔الحمدللہ یہ حضرات باحیات ہیں۔ نیزحضرت مولاناکی سوانح پرمستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔ مولانامحمدولی صاحب رحمانی نے جامعہ رحمانی میں ابوداؤد،مشکوٰۃ ،ہدایہ اوردیگرکتب متداولہ کادرس برسوں دیاہے۔ آپ کے مشہورشاگردوں میں ممتازعالم دین مولانا خالد سیف اللہ رحمانی،قاضی شریعت امارت شرعیہ مولانا جسیم الدین رحمانی اوراستاذمعہدالعالی مولانا نور الحق رحمانی ہیں۔یہ سب حضرات بھی زندہ ہیں ۔محترم مضمون نگارکی خدمت میں عرض ہے کہ وہ کوئی تحریرلکھنے سے قبل معلوما ت حاصل کرلیں اوربے بنیادباتوں کوگھڑنے سے پرہیزکریں۔
شاذکواسلامی فکرکے اسکالرماننے والے مضمون نگارکوجب یہ یاددلایاگیاکہ مولاناولی رحمانی صاحب کاسلسلہ نسب حضرت علیؓ تک پہونچتاہے ،آپ کے دادامولانامحمدعلی مونگیری ندوۃ العلماء لکھنوکے بانی اورمسلم پرسنل لاء بورڈکے بانی مولانامنت اللہ رحمانی آپ کے والدہیں جن کی بے باک ،جرات منداورتحریکی شخصیت محتاج تعارف نہیں۔محترم نے اس کے جواب میں حضرت نوحؑ کی اولادکوپیش کیا۔جواباََعرض ہے کہ حضرت مولاناابوالحسن علی میاں ندوی ؒ نے فرمایاتھا’’نسبت کامنتقل ہونا پڑھا اور سنا تھا،دیکھاہے ولی میاں میں‘‘،مفتی عتیق الرحمان عثمانی ؒ نے مولانامنت اللہ رحمانیؒ سے فرمایاتھاتھا: ’’میں آپ کی قسمت پر رشک کرتاہوں کہ خدانے آپ کومولوی ولی جیسابیٹادیاہے‘‘۔
پھر تعجب ہے کہ انہیں حضرت ابراہیمؑ کی اولادصالحہ نظرنہیں آئی ۔اگرانہوں نے کبھی قرآن مجیدپڑھ لیاہوتاتویہ ضرورمعلوم ہوتاکہ ابوالانبیاء حضرت ابراہیمؑ کی نسل میں انبیاء کرامؑ کی ایک لمبی فہرست ہے۔خودابراہیم خلیل اللہ ؑ کے فرزندحضرت اسحقؑ واسمٰعیلؑ ہیں ،اسحٰقؑ کے فرزندیعقوبؑ اوران کے فرزندیوسفؑ ہیں ۔ان کے علاوہ زکریاؑ کے فرزندیحیٰؑ ،آدم ؑ کے فرزندشیث ؑ اورداؤدؑ کے فرزندسلیمانؑ بھی اولادصالحہ کی مثال ہیں۔لیکن منصورصاحب کویہ مثبت مثالیں نظرنہیں آئیں ۔ اگراولادنوحؑ کی مثال ان کے نزدیک کلیہ ہے تواولادِرسولؓ کے بارے میں کیافرمائیں گے اورپھراولادعلیؓ وفاطمہؓ کے بارے میں ان کاکیاخیال ہے؟۔کیایہ یزیدیت کی تائیدنہیں ہے؟۔خردنے کہہ بھی دیالاالٰہ توکیاحاصل دل ونگاہ مسلماں نہیں توکچھ بھی نہیں۔
مضمون نگارنے مولاناکوایسابناکرپیش کیاہے گویاکہ ان کی تعلیمی اورسماجی کوئی حیثیت ہے ہی نہیں۔لیکن دوسری تحریرمیں علمی خدمات کااعتراف بھی کررہے ہیں۔حضرت مولاناولی رحمانی صاحب کی پوری زندگی ملت کی خدمت کااستعارہ ہے۔قانونی موشگافیوں پرآپ کوگہری دسترس حاصل ہے ،آپ 22برس بہار قانون سازکونسل کے رکن اوردومرتبہ ڈپٹی چیئرمین بھی رہے ۔وہاں بھی مسلمانوں کی نمائندگی کرکے دکھائی۔ایک قانونی جنگ کے خاتمہ پرجناب شاہد رام نگری مرحوم نے نقیب میں لکھاتھا’’ کونسل میں پہونچ کرمسلم کاز کے لیے مولانارحمانی سے زیادہ کام کسی مسلم لیڈر نے انجام نہیں دیا‘‘۔
بہارکے وزیراعلیٰ کے عہدہ کی بھی پیشکش ہوئی جسے آپ نے ٹھکرادیا۔اگرایسی خواہش ہوتی جس کاالزام لگایاجارہاہے توآپ کوبہت پہلے ہی سیاسی فائدے حاصل ہوچکے ہوتے۔جس شخص کاعلمی،سماجی اورسیاسی مقام اتنابلندہو،ایسے شخص کے سامنے اب کون ساسیاسی مفادہوسکتاہے۔مولاناولی صاحب رحمانی بورڈکے بانی اراکین میں سے ہیں اورپہلے ہی دن سے اپنے والدصاحب کی تربیت میں تپے اوربڑھے ہیں جن کے پاس پچاس برسوں پرمشتمل تنظیمی تجربہ ہے ۔پھرجنہیں قانون شریعت کے ساتھ ساتھ آئین ہندپر گہری دسترس حاصل ہوایسی باوقارشخصیت بورڈکے اس عہدہ کے لئے موزوں ترین تھی۔جنرل سکریٹری مولانانظام الدین صاحب نے امارت شرعیہ میں منعقداستقبالیہ تقریب میں آپ کودعائیں دیتے ہوئے فرمایا’’ نازک حالات میں ملت کوجس قیادت کی ضرورت تھی اللہ نے اس کاانتظام فرمادیا‘‘۔
؂آرٹی ای ایکٹ یعنی لازمی تعلیم بچوں کاقانونی حق نامی اسکیم جس کے تحت مدارس کوبندکرنے کی سازش کی گئی تھی،اس وقت اسی مدبر قیادت کی کوششوں سے مدارس کااستثناء ہوا،سپریم کورٹ نے داڑھی پرنازیباتبصرہ کیاتو حسینی مزاج کے حامل اسی قائدنے جسٹس کاٹجواوروزیراعظم سے آنکھوں میں آنکھ ڈال کربات کی اورآزادہندکی تاریخ میں پہلااورآخری واقعہ پیش آیا جب سپریم کورٹ کے جج کوغیرمشروط معافی مانگنی پڑی ۔یوپی اے حکومت نے ڈائریکٹ ٹیکسزکوڈبل کے ذریعہ اوقاف کی جائیدادپرنظربدڈالی تو مولانانے اوقاف کواس سے مستثنیٰ کرایا۔نیزواجپئی حکومت میں اڈوانی کے زیرقیادت مدارس اسلامیہ کودہشت گردی کااڈہ بتانے والے وزارتی گروپ کی رپورٹ کے خلاف پرزورتحریک چلائی جس کے نتیجہ میں نہایت خطرناک رپورٹ ٹھنڈے بستہ میں چلی گئی۔اس کے علاوہ رحمانی فاؤنڈیشن اوررحمانی تھرٹی کے ذریعہ سماجی وتعلیمی خدمات اورمسلم طلبہ کی تعلیمی کفالت آپ کی خدمات کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔ چنانچہ ملک کے مختلف اداروں اور تنظیموں نے اعتراف خدمت کے طور پر ایوارڈسے نوازاہے، آپ کوبھارت جیوتی ایوارڈ ۲۴؍ مئی ۲۰۱۰ء کودیاگیا۔جوانڈیا انٹرنیشنل فرینڈشپ سوسائٹی کی طرف سے تعلیم اور سماجی خدمت کے میدان میں قابل قدر کارنامہ انجام دینے پر دیا جا تا ہے۔ ۱۸؍ ستمبر ۲۰۱۰ء کوراجیو گاندھی اکسیلینس ایوارڈاورشکچھارتن ایوارڈ بھی پیش کیاگیا۔مشہورادارہ مسلمس آف انڈین اوریجن(یو ایس اے اورکناڈا)کی طرف سے بھی آپ کوسرسیدایوارڈ۲۰۱۱ء سے نوازا جاچکا ہے۔ہرہرورق پرمہروفاکرچکے ہیں ہم۔
سوال یہ پیداہوتاہے کہ جے پوراورلکھنواجلاس میں آرایس ایس کے ایجنڈے کے نفاذکے خلاف بورڈکے تحریک چلانے کے فیصلہ کے بعد موصوف کہاں تھے۔ اب جب کہ بورڈکی منظورشدہ متفقہ تجویزپرعمل شروع ہواتوانہیں ملکی صورتحال نظرآنے لگی۔کیایہ ممکن نہیں ہے کہ اس وقت تک انہیں اپنے آقاؤں کی طرف سے کوئی اشارہ نہیں ملاہوگا۔حیرت اس پربھی ہے کہ جب بورڈمتحرک نہیں رہتاتوشکایت بھی یہی لوگ کرتے ہیں۔اس ذہنیت کوآخرکیانام دیاجائے ۔والد بزرگوار اور دادا محترم ہی کی طرح خدمت دین ووطن مولاناولی رحمانی صاحب کی زندگی کا مقصدہے ، اورخداکی رضا منزل ہے، اس لیے ملک وملت کی مختلف جہتوں سے خدمت کررہے ہیں ۔مضمون نگارنے نہایت خیانت اوربددیانتی کاثبوت پیش کرتے ہوئے خط کوغلط پس منظرمیں پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ بورڈکاخط صرف یوگاسے متعلق ہے۔حالانکہ یہ ہراس قدم کے خلاف ہے جومذہبی آزادی پرحملہ آورہو۔خط میں کہیں بھی سوکروڑہندومذہب کے ماننے والوں کے خلاف 20کروڑمسلمانوں کوکھڑاکرنے کی بات نہیں کہی گئی ہے بلکہ جمہوری اندازمیں ملک کے سیکولرشہریوں سے جمہوریہ ہندکے آئین کی بالادستی کوقائم رکھنے کے لئے آرایس ایس کے خطرناک عزائم کے خلاف متحدہونے کی اپیل کی گئی ہے ۔کیونکہ جمہوریت کی حفاظت مسلمانوں کے لئے ضروری توہے ہی ساتھ ہی ساتھ یہ ذمہ داری ملک کے تمام سیکولرشہریوں کی ہے۔ظاہرہے کہ آئین کی دہائی دے کراورعمومی مسائل کوپیش کرکے ہی دوسرے سیکولرافرادکوساتھ لیاجاسکتاہے،بورڈکے خط کے نکات8.9میں اسی نقطہ نظرسے سبھی ہندوستانیوں سے متحدہونے کی اپیل کی گئی ہے۔ الیکشن تو ہوتے رہیں گے بہارکے بعدبنگال پھریوپی الیکشن ،اس کے بعدکرناٹک انتخابات اورپھرلوک سبھاالیکشن توکیا اسی طرح ہاتھ پرہاتھ دھرکربیٹھ رہاجائے۔یہ کہنابھی سراسرکج فہمی پرمبنی ہے کہ ’’صرف تحفظ شریعت ،مسلم پرسنل لاء بورڈکے قیام کامقصدہے ۔،اس نے آئین کے تحفظ کی ذمہ داری کیوں اپنے سرڈال لی‘‘۔یہ وہی کہہ سکتاہے جسے دستورہندکاکوئی علم ہواورنہ قانون شریعت کی معلومات۔آئین ہندنے ہمیں مذہبی آزادی کی ضمانت دے رکھی ہے۔ نئی حکومت کامنصوبہ ہے کہ وہ اقلیتوں کی اس آزادی کوچھین لے۔مسلمانوں کے مذہبی قوانین مسلم پرسنل لاء کہلاتے ہیں۔یونیفارم سول کوڈکانفاذیعنی مسلم پرسنل لاء کاخاتمہ اس کے انتخابی منشورمیں ہے ۔حکومت جن قوانین کوردی کی ٹوکری میں ڈالنے کااعلان کرچکی ہے ان میں شریعت اپلیکیشن ایکٹ بھی ہے ۔ اب یہ بتایاجائے کہ آئین کی حفاظت کے لئے تمام شہریوں سے متحدہونے کی درخواست مسلم پرسنل لاء بورڈکے دائرۂ کارمیں ہے یانہیں؟۔بلکہ اس کاقیام ہی اسی مقصدکے تحت ہواتھا۔
یہ بورڈکی طرف سے یوگاکی مخالفت کانتیجہ ہے کہ روس تک اس کی گونج سنی گئی۔مولاناکے خط کے پرتبصرہ کرتے ہوئے دینک بھاسکرنے لکھا’’ رحمانی نے اپنے خط میں برہمنی کلچرکے خلاف متحدہونے کی اپیل تمام شہریوں سے کی ہے ۔رحمانی کایہ خط مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دلتوں اورپسماندہ طبقہ کوبھی اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش ہے‘‘۔لیکن افسوس ہے کہ یہ بات اردودانوں کوسمجھ میں نہیں آئی ۔حالانکہ یہ خط اردومیں تھا۔اسی طرح نوبھارت ٹائمزنے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ’’ مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی مسجدسے وابستہ ہے اوررحمانی نے مساجدکے ائمہ کوپیغام دے کرملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک نئی کوشش کی ہے‘‘۔دراصل مخالفت وہ لوگ کررہے ہیں جونہ توکوئی کام کرسکے اورنہ کرناجانتے ہیں،انگلی اٹھاناآسان کام ہے، عملی زندگی میں آکرکچھ کرلیناالگ ہے۔حکومت کے خلاف جب کوئی تحریک شروع ہوتی ہے تووہ ہی ایسے میرجعفروصادق کوتلاش کرلیتی ہے جواسے کمزورکرنے کی کوشش کریں۔

«
»

جہیز کے خلاف ذہنی بیداری مہم نہایت ضروری

معتبرصحافی عارف عزیز سے ’’اُردوہلچل ‘‘ کے لئے جاوید یزدانی کی بات چیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے