لوگوں کوایمرجنسی یاد ہے مگر وجوہات بھول گئے!!

اس دہائی کے بالکل مرکز میں یعنی 1975میں جانباز سیاسی شخصیت اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کا اعلان کیا ۔جس کی وجہ سے اندرا گاندھی کی عالمی سطح پر بدنامی ہوئی، اس وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں اس کے نقوش آج بھی محفوظ ہیں۔ایمرجنسی کے واقعہ کو26؍جون 2015تک 40 سال کا عرصہ ہوچکا ہے اور اس تعلق سے الکٹرانک میڈیا نے ایمرجنسی کے تعلق سے منفی خیالات پیش کرکے اپنے دلوں کی بھڑاس نکالنے کی پوری پوری کوشش کی۔اندرا مخالف اُبھرتے ہوئے سونامی کے لہروں میں لوگ ایمرجنسی نافذ کرنے کی وجوہات کو بھول گئے ، ان حالات کی یاد دلانے کے لئے اس خاکسار نے اپنے قلم کو جنبش دینے کی کوشش کی۔
جابر اور ظالم اندرا گاندھی نے اپنے سیاسی مفاد کیلئے ایمرجنسی نافذکی،بد قسمتی سے اس طرح کی باتیں باشعور لوگوں کے ذہنوں میں بھی محفوظ ہیں۔کٹّر کانگریس والے لیڈران بھی جب ایمرجنسی کے تعلق سے گفتگو کرتے ہیں تو ان کا رویّہ جارحانہ ہوتا ہے۔
اس وقت کی حکومت کو ایمرجنسی نافذ کرنے کی نوبت کیوں آئی ، اندرا گاندھی کو ان حالات کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟اگر وہ ڈکٹیٹر شپ ذہنیت کی تھی تو اس نے1971کے بعد وہ مقبولیت کی چوٹی پر تھی، اس وقت بھی وہ ایمرجنسی نافذ کرکے اپنے جابرانہ رویے کا مظاہرہ کر سکتی تھی۔اگر اسے اپنے اقتدار کا اور اپنے خاندان کے اقتدار کو قائم رکھنا تھا تو پھر 19ماہ بعد 18؍جنوری 1977کو انتخابات کا اعلا ن کیوں کرتی؟
18؍جنوری 1977کو انتخابات کا اعلان ہوا، مگر ایمرجنسی منسوخ نہیں کی گئی۔ اندرا گاندھی کے شکست کا باقائدہ اعلان 24؍مارچ کوہونے کے بعد ہی ایمرجنسی کو منسوخ کردیا گیا۔اپنے خاندانی اقتدار کو قائم رکھنے کیلئے انھوں نے فوج کا بھی سہارا نہیں لیا۔
لیکن ایمرجنسی کا دور 26؍جون1975سے شروع ہوا، ایساسمجھنا ہی ایک بہت بڑی بھول ہے۔تاریخ کا یہ دو رخی باب ہے اور ایمرجنسی سے قبل کا دورحسد، بغض اور سازشوں کا دور تھا جس کی طرف جان بوجھ کرچشم پوشی سے کام لیا جاتا ہے۔ ایمرجنسی کو تین دور میں تقسیم کیے بغیر ہندوستان کی سیاست کے تناظر میں اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتااور اس کا منظر نامہ واضح نہیں ہوسکتا۔ ایمرجنسی سے وابستہ حالات اور اس پر اہل سیاست کے تبصرے اپنی اپنی مناسبت اور سہولیات کے مطابق پیش کیے جاتے ہیں۔
ایمرجنسینافذ ہونے سے قبل کے 2سال اورایمرجنسی نافذ ہونے کے بعد کا ایک سال اور ایمرجنسی کے آخری سات ماہ اور پھر انتخابات، اس طرح یہ کُل دور پانچ سال کا ہے اور اس کے پہلوں اس سے قبل تین سال میں پیوست ہیںیعنی 1969سے1977کا کل عرصہ ہے۔
ایمرجنسی نافذ کرنا لازمی کیو ں ہوا، یہ ایک بنیادی سوال ہے، ایمرجنسی کے دور میں کیا کیا حالات رونما ہوئے، یہ سوال بعد کا ہے،اس سیاہ رات کا آغاز کب سے ہوا؟
ایمرجنسی کی سیاہ شب اس وقت اپنا گھنگھور اندھیرا پھیلانے لگی جب کانگریس مخالف شکست خوردہ پارٹیوں کی احتجاجی سیاست زور پکڑنے لگی۔گندی سیاست عروج پر آنے لگی۔1971میں لوک سبھا الیکشن میں جن سنگھ، آزاد سماج وادی اور متحدہ کانگریس یعنی (1969سال میں کانگریس چھوڑ کر باہر ہونے والے دیسائی ، نیج لینگ گپّاوغیرہ کا گروپ) اس طرح کا ایک بڑا محاذ ’’اندرا ہٹاؤ‘‘ کا نعرہ لیکر سڑکوں پر اُتر آئے تھے۔چار اپوزیشن پارٹیاں جب متحد ہونے کے بعدانھیں لوک سبھا الیکشن میں واضح اکثریت سے کامیابی ملے گی اور اندرا گاندھی کا اور اس کی پارٹی کو شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا، اسے طرح کی رائے کم و بیش تمام اخبارات نے پیش کیا تھا۔ اس وقت الیکشن کے نتائج کااندازہ لگانے کا چلن عام نہیں تھا، مگر ’انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپینین‘نے پورے ملک کا سرویے کرکے اس بات کی پیشن گوئی کی تھی کہ اندرا گانگریس کو شرمسار شکست سے دوچار ہوسکتی ہے۔
الیکشن کے نتائجکے اعلان کا آغاز ہونے تک کسی بھی رپورٹرکو،سیاسی ماہرین کو، لیڈر کو یا کسی بھی سیاسی پارٹی کو بیلٹ باکس سے اُٹھنے والی اندرا لہرکا اندازہ نہیں تھا۔لوک سبھا میں 598سیٹوں میں سے اندرا کانگریس نے 352سیٹوں پر فتح حاصل کی تھی۔ ہر ریاست میں کانگریس کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی۔ کانگریس میں 1969میں جو پھوٹ پڑی تھی اس وجہ سے اندرا گانگریس کوپوری طرح شکست کا منہ دیکھنا ہوگا، اس طرح کی پیشن گوئی کرنے والے چاروں خانے چت ہوگئے تھے۔
مگر کانگریس کی فتح کا جشن ملک بھر میں زوروں پر جاری تھا ، اسی درمیان ہمارے پڑوسی ملک مشرقی پاکستان میں یعنی(پہلے کے بنگلہ دیش) میں مغربی پاکستان کے فوجی توپ گاڑیاں دوڑنا شروع ہو گئے تھے۔پورے پاکستان میں مجیب الرحمن کے عوامی لیگ کو اکثریت حاصل ہوئی تھی مگر انھیں اقتدار میں شامل نہ کرنے کا پاکستانی فوجی دباؤ میں کام کرنے والی حکومت نے منصوبہ بنا لیا تھا۔ مغربی پاکستان میں منتخب ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو کو فوجی پشت پناہی حاصل تھی۔ بنگالی عوام کی عصمت عظمت کو تار تار کرکے وہاں پر جمہوری دبدبہ اور خوف و ہراس قائم کرکے اپنے اقتدار کی بقا ء کیلئے فوج کی وہ ایک کوشش تھی۔ مگر جب فوجی دہشت گردی شروع ہوتے ہی مجیب الرحمن نے آزاد بنگلہ دیش کا اعلان کردیا۔
مگر دنیا بھر کی جمہوری حکومتوں نے بنگالی عوام کی جدوجہد اور ان پر ہونے والے مظالم کو نظر کیا گیا ۔ کم و بیش آٹھ ماہ انتظار کرنے کے بعد جب پاکستانی فوج نے ہندوستانی حدود میں در اندازی کی کوشش کی ، اس وقت اندرا گاندھی نے فوجی کارروائی کا حکم 3؍ دسمبر کو شروع ہونے والی جنگ کا اختتام 16؍دسمبر کو بنگلہ دیش کی آزادی کے ساتھ ہوا۔دنیا کے تمام ماہرین سیاست نے، جنگ کی پیشن گوئی کرنے والوں نے،صحافیوں نے اندراگاندھی کے سر جنگ کی کامیابی کا اور بنگلہ دیش کے آزاد ہونے کا سہرا باندھا۔ محمد علی جناح کی نیشنلزم پالیسی کی مٹی پلید ہوگئی۔ پاکستان اور بنگلہ دیش یہ دونوں اسلامی ممالک مگر لسانی ،تہذیبی اور وقار کا جذبہ مذہب سے بالا تر ہوکر نمایاں ہورہا تھا۔ اسلام کے نام پر بھی مغربی اور مشرقی پاکستان متحد ہوکر نہیں رہ سکے۔ اس جنگ کے بعد اندرا گاندھی کے اس کارنامے کا پوری دنیا میں استقبال کیا گیا ۔ اندرا گاندھی نے پہلے الیکشن میں فتح کے جھنڈے بلند کیے اس کے بعد میدان جنگ میں بھی فتح کے جھنڈے لہرا دیے۔پھر اس طرح کی شاندار کامیابی نہ ہی امریکہ برداشت کرسکتا تھا اورنہ ہی اندرون ملک اندرا گاندھی کے مخالفین اسے برداشت کرنے کیلئے تیار تھے۔وہ ہر صورت میں اندرا گاندھی کو پھنسانے کیلئے نئے نئے جال بننے میں مگن ہوگئے ۔
امریکہ میں اندرا گاندھی کے خلاف رچی جانے والی سازش آہستہ آہستہ بے نقاب ہورہی تھی۔ امریکہ نے ہندوستان کو روکنے کیلئے ان کا ساتواں بحری جہازخلیج بنگال میں روانہ کیا تھا ۔’’ ہم امریکہ کی اس بزدلانہ دھمکی سے ڈرنے والے نہیں ہیں‘‘ یہ کہہ کر اندرا گاندھی نے بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کو پورا پورا تعاون کیا۔ بنگلہ دیش آزاد ہونے کی وجہ سے پاکستان کی فوجی بنیاد تباہ ہوگئی تھی۔
جنگ کے اثرات کافی شدید تھے، ہندوستان نے جنگ میں فتح حاصل کی مگر اس جنگ کے اخراجات کے بوجھ تلے ہندوستان کی معیشت ڈگمگا گئی۔ جنگ کی وجہ سے ہندوستان میں ایک کروڑ پناہ گزین آگئے تھے۔ جینوا کانفرنس کے قرارداد کے مطابق پناہ گزینوں کے رہنے کھانے پینے کی مکمل ذمہ داری ہندوستان کے کاندھوں پر تھی، جس کا اربوں روپئے کا خرچ تھا۔ جنگ میں ہندوستان نے پاکستان کے 90ہزار فوجیوں کو قیدی بنا لیا تھا، ان فوجیوں کی بھی مکمل دیکھ بھال جینوا قرارداد کے مطابق ہندوستان کی ذمہ داری تھی۔
اس جنگ کی وجہ سے معاشی انتظامیہ پر کافی بُرا اثر پڑا اور یہ ملک پورے دنیا میں واحداور بیسویں صدی میں پہلا قحط زدہ ملک بن قراردیا گیا۔ تامل ناڈو سے لیکر اُتر پردیش ،مغربی بنگال تک تمام ریاستوں میں قحط اور بھکمری کا عالم تھا ۔ اناج کی قلت سے لوگوں کے کھانے کے لالے پڑ گئے تھے۔ان حالات میں دنیا بھر کے ممالک اور اپوزیشن پارٹیاں متحد ہوکر اس طرح کے حالات کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ہندوستان کے اپوزیشن پارٹیوں کو گویا یہ بنا بنایا موقع ہاتھ لگ گیا ہو، ایسا محسوس ہونے لگا۔متحدہ محاذ کے تمام اعلیٰ لیڈران اس فکر میں تھے کہ اندرا گاندھی کی مقبولیت کواور عظمت کو کیسے گہن لگایا جائے۔
ہندوستان نے جنوبی ایشیاء میں اپنادبدبہ قائم کرنااور وہ بھی پاکستان کے ٹکڑے کرکے،یہ امریکہ کے لئے ناقابل برداشت بات تھی۔خصوصاً ویتنام میں شدید شکست کا منہ دیکھتے ہوئے ، امریکہ نے جگہ جگہ پر فوجی افسران سے رابطہ قائم کرنا شروع کیا تھا، چیلی ، ارجنٹینا،ہندوستان ، بنگلہ دیش، میانماراورافغانستان جیسے ممالک میں امریکہ نے فوجی دخل اندازی شروع کی تھی۔کسی بھی ملک کے سربراہ کو نظر بند کرنا، اسے ہلاک کرنا،فوجیوں کارروائیوں پر قابض ہونا ، اس طرح کا طرز عمل امریکہ نے 1953سے 1973تک جاری رکھا، جس میں ایران، افغانستان، انڈونیشیا،فلپائن،کمبوڈیہ،جنوبی ویتنام اور پاکستان جیسے ممالک شامل تھے۔
مذکورہ بالا تفصیلات کے مطابق ہندوستان میں متاثر کو معاشی انتظامیہ،اسی میں بھیانک قحط سالی اور ان حالات میں عرب اسرائیل جنگ کی وجہ سے پٹرول اور تیل کے داموں میں ہونے والا بے پناہ اضافہ کی وجہ معاشیبحران پیدا ہوا تھا۔ تقریباً93فی صد پٹرول کے درآمد پر ہونے والا ہندوستان کا خرچ یکایک چار گنا بڑھ گیا۔ پھر غریب طبقہ ہی نہیں میڈیم کلاس والے بھی پریشان اور بد حال ہوگئے۔ فطرتاً عدم اطمینان اور بے چینی کا ماحول ہوگیا تھا۔ ان حالات میں جے پرکاش نارائن اور جارج فرناڈیس نے اس آگ میں جو تیل چھڑکنے کا کام کیا اس سے آگ شعلوں میں بدل گئی۔
ملک کے کونے کونے میں دیہی اور شہری علاقوں میں کھانے پینے کی اشیاء پہنچانے یا حمل و نقل کااہم کام ریلوے کے ذریعہ ہوتا ہے۔ اشیاء کی قلت اورقحط سالی کے اس دور میں ریلوے ہی لائف لائن بن گئی تھی۔ جارج فرناڈیس نے ایسے حالات میں ریلوے کی ہڑتال کا اعلان کیا اور جب ہڑتال کے تعلق سے سمجھوتے کی بات آئی تو اس میٹنگ میں غیر حاضر رہ کر حالات کو بد سے بدتر کرنے کی کوشش کی۔
جارج نے مزدوروں کا مخاطب کرکے کہا،’’ مزدوروں! تمھارے ہڑتال کی وجہ سے سات دنوں کے اند ر ملک میں بجلی پیدا کرنے والے مراکز بند ہوں گے، کیونکہ کوئلوں کے کانوں سے کوئلہ نہ پہنچنے کی وجہ سے فولاد کے کارخانے بند ہوں گے ۔ ملک بھر میں حمل و نقل کی سہولیات ٹھپ ہونے سے ملک بھر میں اناج اور دیگر اشیاء کی سپلائی بند ہوگی۔
پھر اس پُر تشویش ماحول میں جے پرکاش نارائن نے مکمل انقلاب کا نعرہ دیا، گجرات اسمبلی برخاست کرنے کی مانگ کرکے ماحول میں مزید شدت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ایم اے حضرات کو گھروں کے باہربلابلاکر مارپیٹ کی گئی، ان کے چہروں پر کالک پوت کر ان کا جلوس نکالا گیا۔ دوکانوں کو لُوٹنے اور جلانے کا کام شروع ہوا۔ بسوں اور ریلوے کو نذر آتش کیا جانے لگا۔
جے پرکاش نارائن اس تشدد جسے وہ انقلاب سمجھتے تھے وہ خودکواس کا اہم کردار ثابت کرنا چاہتے تھے یا پھر یہ عالمی سازش کا ایک حصہ تھا؟اسی وقت ملک بھر میں ریلوے کی آمد ورفت بند کردی گئی یہ ایک اتفاق یا پھر ایک سوچی سمجھی اسکیم؟
1975سال کا آغاز ہی بم دھماکے سے ہوا، جنوری کے پہلے ہفتے میں ہی اس وقت کے وزیر ریلوے للت نارائن مشرا کی بہار میں ایک بم دھماکے میں موت ہوئی۔اُسے آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلا دہشت گرد بم حملہ کہہ سکتے ہیں۔ وزیر ریلوے مشرا کا قتل فرنانڈیس کے ریلوے ہڑتال کے چھ ماہ بعد ہوا۔یعنی 1973سے لیکر ایمرجنسیکے قبل تک کے حالات ایمرجنسی نافذ کرنے جیسے حالات پیدا ہوگئے تھے، ایسا کہا جائے تو مضحکہ نہیں۔
ملک بھر میں تناؤاور بے چینی اور بد امنی کا ماحول تھا ، ایسے ماحول میں 12؍جون 1975کو الہ آباد ہائی کورٹ نے اندرا گاندھی کے 1971کے انتخابات کو منسوخ کردیا،اس الیکشن میں کافی دھاندلی کیے جانے کا الزام تھا، جسے سپریم کورٹ میں چیلنچ کیا گیا مگر سپریم کورٹ نے اندرا گاندھی کو اس بات پر راحت دی کہ وہ ایم پی تو بن سکتی ہے مگر پارٹی کی قیادت نہیں کرسکتی ۔یہ وجہ بھی ایمر جنسی کے نفاذ میں اہم سمجھی جاتی ہے۔ اس فیصلے کے بعد 25؍جون کو رام لیلا میدان پرعوام کو مخاطب کرتے ہوئے جے پرکاش نارائن نے اس بات کا حکم دیا ،’’ حکومت سے مکمل طور پر عدم تعاون کیا جائے، اسکول کالجوں کو بند رکھا جائے۔ہڑتال کرو۔دہلی میں وزیر اعظم کی رہائش گاہ کا گھیراؤ کیا جائے ، اس کے سامنے احتجاج کیا جائے اور نعرے لگائے جائے،ایسا کرنے سے تم پر لاٹھی چارج کیا جائے گا، گولی بار کیا جائے گااورملک بھر کا ماحول کشیدہ ہوجائے گا ، ہر طرف بد امنی اور بے چینی بڑھ جائے گی۔‘‘
پولس اور فوجیوں نے بھی سرکا ر کے غیر ذمہ داران حکم کی تعمیل کیوں کریں؟اگر انھوں نے بھی اپنے فرض کی ادائیگی سے انکار کیا تو پھر سرکار کو اپنے کام کاج کرنے میں کافی دشواریاں پیش آئے گی، اس طرح کا ماحول مخالف پارٹیوں نے پیداکرنا شروع کیا۔
جے پرکاش نارائن نے ماحول کو اس طرح گرمایا تھا گویا ’’چلے جاؤ‘‘ جیسی تحریک شروع ہوگئی ہو۔ مگر ایک اہم سوال جس کا جواب ابھی تک کسی نے نہیں دیا ہے وہ یہ 1958کے بعد سیاست سے سنیاس لینے والے جے پرکاش نارائن یکایک 1972-1973میں دوبارہ ناز ل کیسے ہوئے اور اس طرح انقلابی سیاست کو کیوں اپنایا؟کیا1958سے 1973کے دور میں بد عنوانی ہی نہیں تھی؟پھر مکمل انقلاب کی ضرورت یکایک 1974میں کیوں محسوس کیوں محسو س ہوئی۔امریکہ ہندوستان کے خلاف کچھ کھلے طور پر تو کچھ خفیہ طور پر سازیشیں کر رہا تھا۔ اس وقت ہی جے پرکاش نارائن نے اس نوزائیدہ تحریک کو ہوا کیوں دی ؟خود کو گاندھی کا پیروکار سمجھنے والے ، اس عدم تشدداور ستیہ گرہ سے محبت کرنے والے خادم قوم کو گجرات میں کے تشدد کی بھڑکتی آگ میں مکمل انقلاب کے شعلے کیوں بھڑکانے کی نوبت آئی….؟
ایمرجنسی میں کیا ہوا یہ سوال اور وہ بحث مختلف ہے۔ ایمرجنسی کو مجبوراً نافذ کرنا پڑا کیونکہ مخالف پارٹیوں نے اس بات کا بیڑہ اُٹھایا تھا کہ ملک کو
اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ انقلابی آگ میں جھونک دیا جائے۔اندرا گاندھی نے ہمارے آئین میں درج آرٹیکل 352کا غیر معمولی سہارا لیکرایمرجنسی نافذ کی ۔(اس آرٹیکل کے تحت اندرا گاندھی نے پولس فورس کا استعمال کرکے تحریک کرنے والوں اور ہڑتال کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامت کیے گئے اور انھیں سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا) اس وقت کے اہم لیڈران جنھیں جیلوں میں ڈالا گیا ، اس میں جے پرکاش نارائن،وجئے راجہ سچندہ،مرارجی دیسائی،جیوترم کرپلانی اور ایل کے اڈوانی جیسے لیڈران شامل تھے۔کچھ لیڈران چھپ گئے تھے مگر انھوں نے اپنی تحریک کو جاری رکھا تھا۔جو لوگ تحریک میں شامل تھے ، انھیں حراست میں لیا گیا تھا اور ان کو سخت اذیت دی جارہی تھی۔
اندرا گاندھی نے ایمرجنسی اور نظم و ضبط نافذ کرکے ملک کی سا لمیت اور اتحاد کوتحفظ عطا کیا ۔
مگر اسی ایمرجنسی کے دور میں نوکرشاہی اور پولس کی زیادتی بڑھ گئی، کئی لیڈران کو جیلوں میں ڈالا گیا، میڈیا پر سنسر شپ عائد کی گئی اور ایک قسم کی ڈکٹیٹر شپ نے جنم لیا۔ مگر عوام عوام ہے،1977کے الیکشن میں عوام نے اس ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ کردیا ۔(یو این این)

«
»

اسامہ بن لادن کے قید و بند کا ڈرامہ

ہم چراغوں کوڈراتے ہو،یہ کیا کرتے ہو؟!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے