این آئی اے کو بھگوا دہشت گرد کو بچانے کی ہدایت

ہندوستان کے نظام عدل و انصاف میں سنگھ پریوار کا دبدبہ کس قدر ہے اس کا اندازہ ان گناہ گاروں کے بری ہونے یا ضمانت پر رہا ہونے سے ہوجاتا ہے۔ ایک سال کے عرصہ میں جس طرح قانون کے ساتھ کھیلواڑ کیا گیا ہے اور بھگوا دہشت گردوں اور بھگوا گناہ گاروں کے ساتھ جس طرح نرمی برتی گئی ہے وہ مودی حکومت کے عزم کو ظاہر کرنے کیے لئے کافی ہے۔ یہ تو محض ایک ٹریلر ہے اور پوری پکچر ابھی باقی ہے۔اب کچھ دنوں کے بعد آپ کو یہ بھی پڑھنے کو ملے گا کہ اکبر نے نہیں بلکہ رانا پرتاپ نے اکبر کو شکست فاش دی تھی۔ جس طرح ہیرو کو ویلن اور ویلن کو ہیرو بناکر پیش کرنے کی پوری تیاری کرلی گئی ہے اور ہندتوا کے علمبردار کارندے اس کام میں لگ گئے ہیں سب کچھ بدل جائے گا۔ جنگ آزادی کے ہیرو زیروں ہوں گے اور مخبر اور غدار مجاہد آزادی قرار دئے جائیں گے۔ مودی حکومت نے تمام شعبہ حیات میں مسلمانوں کے متعلق چیزوں کو ختم کرنے کی ٹھان لی ہے اور مسلمانوں کے مجرم اب مجرم نہیں رہیں گے بلکہ ہیرو ہوں گے ۔ اس کا عملی مظاہرہ توبہت دنوں سے دیکھا جارہاہے۔ مسلمانوں کے خلاف جرم کرنے والوں کو یہاں کے عوام کے آنکھوں پر بٹھایا۔ اس کا انگریزوں کی آمد سے شروع ہوگیا تھا لیکن اس سلسلے میں اہم کڑی لال کرشن اڈوانی ہیں اور اس کلائمکس میں نریندر مودی نے پہنچایاہے۔ اس کا صلہ یہاں کے عوام نے انہیں وزارت عظمی سونپ کر دیا ہے۔ اس سے بڑا خطرناک رجحان کسی ملک کے لئے نہیں ہوسکتا جب مجرم کو مجرم تسلیم نہ کیا جائے۔ وہ ایک دو واقعہ ہو تو اسے شاذ و نادر میں رکھا جاسکتا ہے لیکن ایسے واقعہ کی بہتات ہے۔ایسے واقعات کی تعداد سیکڑوں میں نہیں ہزاروں میں ہے جہاں کسی مجرم کو سزا نہیں ملی۔ بہت سے واقعات میں ایسے قاتلوں اور مجرموں کے خلاف ایف آئی آر تک درج نہیں کی گئی اور نہ ہی مقدمہ چلایا گیا۔ اس کے باوجود سب کا ساتھ سب کا وکاس کے دعوے کئے جارہے ہیں۔ دراصل سب کا ساتھ سب کا وکاس مسلمانوں کے لئے الگ مطلب ہے۔ جس پر مکمل طور پر عمل ہورہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف جرم کرنے والے سب مجرموں کا ساتھ دیں گے اوراس میں شامل سب کو ترقی دیں گے۔ سی بی آئی نے جس طرح یکے بعد دیگر بھگوا مجرموں کے تئیں نرمی دکھائی ہے اور سب کو آسانی کے ساتھ بری ہونے دیا ہے اس کی وجہ سے سی بی آئی جیسی باوقار ایجنسی پر سے بھی اعتماد کم ہوتا جارہا ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اب سی بی آئی سے کوئی عدالت بھی نہیں پوچھتی کہ اب وہ کون سا طوطا ہے۔ یو پی اے کے دوران جس طرح سی بی آئی کے خلاف محاذ کھولا گیا تھا جس کی وجہ سے محاذ کھولاگیا ہے اس وقت کے مقابلے میں اس وقت کئی گنا زیادہ آئین کے بجائے حکومت کا طوطا بنی ہوئی ہے لیکن اس کانہ تو عدالت میں، نہ میڈیا میں اور نہ ہی سوشل میڈیا اس کا ں ذکر ہورہاہے۔ کچھ انگریزی کے اخبارات اس پرضرور کچھ لکھ رہے ہیں لیکن الیکٹرونک میڈیا مکمل طور پر خاموش ہے۔ اب جب کہ انصاف کے خون کا نیا معاملہ سامنے آیا ہے تو بھی میڈیا میں مکمل خاموشی ہے۔ تفتیشی ایجنسی نے پہلے نریندر مودی کو بچایا ، پھر امت شاہ کو کلین چٹ دی اور مالیگاؤں، سمجھوتہ ایکسپریس، مکہ مسجد بم دھماکہ، اجمیر بم ھماکے وغیرہ کے بھگوا خاطیوں کو بری کرنے کا مکمل خاکہ تیار ہوچکا ہے۔ 
موجود ہ مرکزی حکومت پوری طرح سے ہندوتوا ایجنڈا نافذ کرنا چاہتی ہے اور ہندو شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے تئیں اس کے نرم رویہ کی قلعی اس وقت کھل گئی جب ایک سرکاری وکیل نے یہ حیران کن انکشاف کیا کہ مالیگاؤں بم دھماکہ میں این آئی اے کی طرف سے ان کو اس کی پیروی سے ہٹنے یا نرم رویہ اپنانے کے لئے دباؤ ڈالا گیا۔پاور لوم شہر مالیگاؤں میں ۷برسوں قبل ہوئے بم دھماکوں کے معاملات کی خصوصی سرکاری وکیل روہنی سالین نے حیران کن انکشاف کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دھماکے میں ملوث ملزمین کے تئیں نرم رویہ رکھنے کے لئے ان پر مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ یہ دباؤ قومی جانچ ایجنسی (این آئی اے) کی طرف سے ڈالا جا رہا ہے۔68 سالہ وکیل روہنی سالین نے ممبئی سے شائع ہونے والے ایک انگریزی اخبار کو بتایا کہ نئی حکومت آنے کے بعد گزشتہ ایک سال سے ان پر این آئی اے کی طرف سے مسلسل دباؤ ہے کہ ہندو ملزمین کے خلاف نرمی برتی جائے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال این ڈی اے کی حکومت مرکز میںآنے کے بعد این آئی اے کے ایک افسر نے انہیں فون کیا اور کہا کہ وہ ان سے بات چیت کرنا چاہتا ہے. وہ فون پر بات چیت نہیں کرنا چاہتا تھا۔وہ آیا اور ان سے کہا کہ ان کے لئے یہ پیغام ہے کہ وہ (وکیل) نرم رویہ اپنا ئیں۔یہ معاملہ اس ماہ 12 جون کو سامنے آیا جب سیشن کورٹ میں اس معاملے کی باقاعدہ سماعت شروع ہوئی۔ روہنی کا کہنا ہے کہ اسی افسر نے بتایا کہ ’اوپر بیٹھے لوگ ‘نہیں چاہتے کہ وہ اس معاملے میں مہاراشٹر حکومت کی جانب سے پیش ہوں اور اس معاملے میں کوئی اور وکیل حکومت کی جانب سے مقدمہ کی پیروی کرے۔روہنی سالین مشہور وکیل ہیں جنہوں نے کئی مشہور مقدمات میں پیروی کی ہے۔ جے جے فائرنگ، بوریولی دوہرا قتل، بھرت شاہ اور ممبئی دھماکوں جیسے معاملات میں بھی وہ وکیل رہ چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ این آئی اے افسر کی طرف سے اشارہ یہی تھا کہ ہمیں دوستانہ یا فائدہ مند حکم درکار نہیں ہے۔ یعنی وہ ملزمان کو شک کا فائدہ دینے والی دلیلیں چاہتے تھے۔بھلے ہی یہ معاشرے کے خلاف جائیں۔روہنی نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ این آئی اے سرکاری طور پر انہیں اس معاملے سے الگ کر دے۔ اس معاملے میں انہیں 2008 کو پراسیکیوٹر مقرر کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس کیس سے الگ ہونے کی صورت میں وہ دیگر معاملے کو دیکھنے کے لئے آزاد ہیں۔ ضرورت پڑی تو این آئی اے کے خلاف بھی معاملہ لے سکتی ہوں۔ 29 ستمبر 2008 کو مالیگاؤں میں ہوئے دھماکے میں چار افراد ہلاک ہو گئے تھے اور 79 لوگ زخمی ہوئے تھے۔ اس دوران گجرات کے موداسا میں ہوئے ایک دھماکے میں ایک شخص مارا گیا تھاآغاز میں اس دھماکے میں مسلمانوں کا ہاتھ بتایا گیا تھا۔ لیکن مہاراشٹر اے ٹی ایس کے ہیمنت کرکرے کی تفتیش کے بعد پتہ چلا کہ یہ سانحہ ہندو انتہا پسندوں نے کیا تھا۔جانچ کے بعد انکشاف ہوا تھا کہ بنیاد پرست ہندو تنظیموں نے دھماکے کی سازش رچی تھی۔ اس معاملے میں 12 افراد گرفتار ہوئے تھے جن میں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر، کرنل پرساد سری کانت پروہت شامل ہیں۔ ان 12 لوگوں میں چار ضمانت پر ہیں۔ یہ جانچ بعدمیں این آئی اے کو سونپی گئی (اس کی تشکیل 26/11 کے ممبئی حملوں کے بعد ہوئی تھی اور ہیمنت کرکرے بھی اس میں شہید ہوئے تھے)این آئی اے کی جانچ کے بعد اور دھماکوں کے انکشافات ہوئے جن میں ہندو شدت پسندوں کا ہاتھ تھا۔ مالیگاؤں دھماکے (2006)، اجمیر بم دھماکہ اور حیدرآباد کے مکہ مسجد بم دھماکوں میں ان لوگوں کا ہاتھ بتایا گیا۔روہنی نے بتایا، سپریم کورٹ نے اب کہا ہے کہ معاملہ خصوصی عدالت میں چلنا چاہئے اور اسے دیکھنے کے لئے خصوصی جج ہوں۔ 15 اپریل کو عدالت نے ان بھگوا خاطیوں کو بڑی راحت دیتے ہوئے اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ مالیگاؤں کے ملزمان پر مکوکا کے تحت مقدمہ نہیں چل سکتا، کیونکہ اس تاریخ تک ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھے۔ اس فیصلے نے ملزمان کی ضمانت کی راہ آسان کی۔ عدالت نے مزید کہا کہ بحث عدالت ضمانت کی درخواست پر فیصلہ اس اہلیت کی بنیاد پر کریں۔معاملے میں مکوکا کی مطابقت کو دیکھے بغیر یہ فیصلہ ایک ماہ کے اندر اندر کیا جائے۔روہنی کا کہنا ہے کہ بدلے ہوئے حالات کے درمیان اب یہ ملزمان پر منحصر ہے کہ وہ ضمانت کے لئے ایک بار پھر اپیل کریں۔سرکاری پراسیکیوٹر نے بتایا کہ 12 جون کو جب اس معاملے کی پھر باقاعدہ سماعت شروع ہوئی، ایک دن پہلے اسی این آئی اے افسر نے (جو پہلے وکیل روہنی کے پاس آیا تھا) ان سے مل کر کہا کہ اوپر سے حکم ہے اب آپ کی جگہ کوئی اور وکیل عدالت میں سماعت کے دوران پیش ہو گا۔میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ وہ مجھے سرکاری طور پر ذمہ داری سے سبکدوش کریں، تاکہ میں دیگر معاملات میں این آئی اے کے خلاف عدالت میں پیش ہو سکوں۔
اس سے پہلے سی بی آئی کے اسپیشل کورٹ نے ڈرامائی طور پر بی جے پی چیف امت شاہ کو سہراب الدین شیخ اور تلسی رام پرجاپتی انکاؤنٹر کیس میں تمام الزامات سے آزاد کر دیاتھا۔اس حکم کا مطلب یہ ہوا کہ امت شاہ 2005 میں سہراب الدین شیخ کے ساتھ ان کی بیوی کوثر بی اور 2006 میں تلسی رام پرجاپتی کے ایکسٹراجیوڈیشل قتل کے الزامات سے آزاد ہو گئے۔ اب ان کے خلاف کورٹ میں کوئی معاملہ نہیں چلے گا۔جج اس قتل میں امت شاہ کے خلاف فراہم کردہ ثبوتوں کو ناکافی ثابت کرتے گئے۔ اتنے اہم کیس میں ملزم کو ٹرائل سے آزاد کر دینا شاید ہی ہوتا ہے۔ سہراب الدین کے خاندان والوں اور ان کے وکلاء کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں وہ اگلے قدم پر غور کر رہے ہیں۔جب اس کیس کو سپریم کورٹ نے ممبئی منتقلی کیا تھا تب سے ہی اسے سی بی آئی کے اسپیشل جج جسٹس جے ٹی اتپات دیکھ رہے تھے۔ جسٹس جے ٹی اتپات نے امت شاہ کے وکلاء کو مسلسل سماعت سے غائب رہنے پر شدید انتباہ دیا تھا۔ انہی دنوں جسٹس اتپات کا تبادلہ کر دیا گیا۔ تبادلہ اسی سال جون میں ہوا تھا۔ ان کے تبادلے کو روٹین بتایا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کیس سے جڑے سی بی آئی کے دو افسران کا تبادلہ کر دیا گیا۔ یہ دونوں افسر اس کیس کے تمام پہلوؤں کو اچھی طرح سے سمجھتے تھے۔سی بی آئی کے اسپیشل پرسکیوٹر اعجاز خان کو مدھیہ پردیش میں پروموشن کے ساتھ منتقلی کر دیا گیا۔انویسٹی گیشن آفیسر سندیپ تمگاڑے بھی اس کیس میں طویل وقت تک نہیں رہ سکے۔ نئے اسپیشل پرسکیوٹر پی وی راجو سے سہراب الدین کے وکیل اور خاندان والے اس وقت حیران رہ گئے جب امت شاہ کے خلاف مقدمہ کو انہوں نے 45 منٹ کی بحث میں مسترد کر دیا۔ تب ان کے ہم منصب نے سی بی آئی کے اسپیشل جج ایم بی گوسوامی کے آنے سے پہلے دو دنوں میں کیس کو تیار کیا تھا۔سب سے چونکانے والی واقعہ تو تب سامنے آیا جب سی بی آئی نے امت شاہ کی اس درخواست پر کوئی اعتراض نہیں کیاتھا۔
جن ملزمان کے ساتھ نرمی برتنے کی بات این آئی اے نے کی ہے وہ جگ ظاہر ہے کہ وہ ان دھماکوں میں ملوث تھے۔’کارواں ‘ میگزین نے مالیگاؤں اور سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے میں اسیمانند کے مبینہ انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ موہن بھاگوت کو دھماکوں کی اطلاع تھی اور اسے باقاعدہ ان کا ’آشیرواد‘حاصل تھا ۔میگزین نے اسیمانند سے بات چیت کے ٹیپس بھی جاری کئے ہیں ۔اسیمانند پر سال 2006 سے 2008 کے درمیان سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ ( فروری 2007 ) ، حیدرآباد مکہ مسجد دھماکہ ( مئی 2007 ) ، اجمیر درگاہ ( اکتوبر 2007 ) اور مالیگاؤں میں دو دھماکے ( ستمبر 2006 اور ستمبر 2008 ) کے الزام ہیں۔ ان دھماکوں میں کل 119 افراد ہلاک ہو گئے تھے ۔کہا تھا ’’ ہم شامل نہیں ہوں گے ، پر ساتھ سمجھنا‘‘کارواں میں شائع خبر کے مطابق اسیمانند نے بتایا کہ جولائی 2005 میں میں اور سنیل جوشی سورت میں آر ایس ایس کے لیڈر موہن بھاگوت اور اندریش سے ملے تھے ۔تب بھاگوت کو ملک بھر میں مسلمانوں کو نشانہ بنا کر دھماکے کا پلان بتایا تھا ۔دونوں لیڈروں نے اس کی منظوری دی۔ بھاگوت نے کہا تھا کہ ہم اس میں شامل نہیں ہوں گے۔اگر تم یہ کر رہے ہو تو ہمیں ساتھ ہی سمجھو ‘‘۔مالیگاؤں اور سمجھوتہ ایکسپریس کے دھماکوں کے بارے میں سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کو علم ہونے کے دعوے کے معاملے نے طول پکڑ لیا تھا ۔جہاں کانگریس اور حکومت نے آر ایس ایس پر حملہ تیز کر دیا ہے ، وہیں بی جے پی اور آر ایس ایس نے ملزم اسیمانند کے نام نہاد انٹرویو کو ہی فرضی قرار دیا ہے ۔ اس وقت کے مرکزی داخلہ سکریٹری جو اس وقت بی جے پی کے راجیہ سبھا کے نو منتخب رکن بھی ہیں، نے شندے کے بیان کی حمایت کرتے ہوئے ہندو دہشت گردوں کی فہرست پیش کی تھی اور کہاتھاکہ ان کا تعلق آرایس ایس سے ہے۔ مسٹر سنگھ نے کہا تھاکہ حکومت کے پاس کم سے کم ایسے 10 لوگوں کے نام ہیں جو سمجھوتہ ایکسپریس، مکہ مسجد اور اجمیر شریف درگاہ دھماکوں میں شامل تھے اور جن کا تعلق کسی نہ کسی وقت آر ایس ایس سے رہا ہے۔قومی تفتیشی ایجنسی یعنی این آئی اے نے اس معاملے میں جن 10 افراد کے نام دیئے ہیں، ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:سوامی اسیماند 1990 سے 2007 کے درمیان راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ سے وابستہ تنظیم ونواسی کلیان آشرم کے صوبے پرچارک سربراہ رہے۔ راجستھان اے ٹی ایس کے مطابق سنیل جوشی اجمیر دھماکوں کے اہم محرک تھے اسے 29 دسمبر، 2007 کو مدھیہ پردیش کے دیواس میں پراسرار حالات میں قتل کیا گیا تھا۔دیویندر گپتاکے خلاف اجمیر اور سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔ وہ 2003 سے 2006 کے درمیان جھارکھنڈ واقع جامتاڑا میں آر ایس ایس کے ضلع پرچارک تھے۔ لوکیش شرما دیوگڑھ میں آر ایس ایس سے وابستہ رہے لوکیش شرما سمجھوتہ ایکسپریس اور مکہ مسجد معاملے میں گرفتار ہے۔سندیپ ڈانگے فی الحال وہ مفرور ہیں انہیں سمجھوتہ ایکسپریس اور مسلمانوں سے وابستہ دو مذہبی مقامات پر ہوئے بم دھماکوں میں ملوث بتایا جاتا ہے۔ وہ مبینہ طور پر مؤ، اندور اور شاجاپور ( شجاع پور مدھیہ پردیش) میں آر ایس ایس پرچارک تھے۔کمل چوہان سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ کے معاملے میں گرفتار ہیں انہیں آر ایس ایس کا پرچارک بتایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ شاجاپور ایس ایس پرچارک رہے چندر شیکھر لیوے،راجندر، رام جی کلساگرا اور مالیگاؤں دھماکے میں ملزم سادھوی پرگیہ ٹھاکر کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) نے روہنی سالین کو ملزموں کے نرمی برتنے اور الگ ہونے کی بات کہی ہے اور یہ کہا تھا یہ اوپر سے ہے۔اوپرسے کیا مراد ہے۔یہ ایجنسی وزارت داخلہ کے تحت آتی ہے۔ جس کے سربراہ راج ناتھ سنگھ ہیں۔ وزارت داخلہ کے حکم کے بغیر این آئی اے اس طرح کی کوئی بات نہیں کرسکتی۔ اس صاف ہوگیا ہے کہ اس معشوق کے پیچھے کون ہے اور منشا کیا ہے۔ جس کو داخلہ سکریٹری نے ثبوت کے ساتھ سچ کہہ چکے ہوں گے اس کو بری کرنے کی بات کہنا انصاف کا خون ہی نہیں ملک کی نیک نامی کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ اکشر دھام مندر پر حملہ کرنے والوں کو اب تک نہیں پکڑا گیا۔ اس کے بدلے مسلم نوجوانوں کو پکڑکر دس بارہ سال جیل میں قید کرکے سخت اذیت دی گئی ۔ یہ معاملہ مسلمان کا نہیں ہے بلکہ ہندوستان کے عدل و انصاف کا ہے۔ اس کی تحقیقات ضروری ہے کہ این آئی اے نے کس کے اشارے پر یہ حرکت کی ہے۔ اس کا انکشاف ہونا ضروری ہے ورنہ یہ سمجھا جائے گا کہ ہندوستانی ایجنسی دہشت گردی کو ختم کرنا نہیں بلکہ مسلم نوجوانوں کی زندگی تباہ کرنا چاہتی ہے۔ (یو این این)

«
»

اسامہ بن لادن کے قید و بند کا ڈرامہ

ہم چراغوں کوڈراتے ہو،یہ کیا کرتے ہو؟!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے