ملک کی اکثریت، اقلیتوں کے تئیں احساسِ ذمہ داری کا مظاہرہ کرے

راجیوگاندھی بھی اس پروگرام کی ضرورت وافادیت کو محسوس کرکے ریاستی حکومتوں سے اس کو عملی جامہ پہنانے کے بارے میں ہدایات و یاد دہانی کراتے رہتے تھے۔ اس کے بعد یا پہلے بھی جو دوسری حکومتیں مرکز میں قائم ہوئیں انہوں نے اقلیتی مسائل پر توجہ دی ، مرارجی ڈیسائی حکومت کے دور میں مرکز کے اقلیتی کمیشن کی قانونی حیثیت کا تعین کرنے کے ساتھ ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی پر خاص توجہ دی گئی، وی پی سنگھ، چندر شیکھر، نرسمہا راؤ ، دیو گوڑا اور گجرال تک تقریباً یہی صورت حال رہی کہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے مسائل کو ناقابل حل سمجھ کر اس پر غور ہوتا رہا۔
لیکن جب قومی جمہوری محاذ (این ڈی اے) کی مرکز میں سرکار قائم ہوئی تو اس کی پہلی مدت اور دوسری میقات میں یہی دیکھا اور تجربہ میں آرہا ہے کہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے مسائل کو نظر انداز کردیا گیا ہے اور صورتحال اس حد تک برعکس ہوگئی کہ جو مرکزی حکومت اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں تشکیل پائی اس میں آزاد ہندوستان کی تاریخ میں سب سے کم نمائندگی مسلمانوں کو دی گئی۔
وزیر اعظم اندراگاندھی کے دور تک یہ طریقہ رائج تھا کہ قومی کانفرنسوں میں یا علاحدہ سے منعقدہ قومی سیمیناروں اور دوسرے مباحثوں میں اقلیتوں سے متعلق مسائل پر کھل کر اظہار خیال ہوتا تھا مگر این ڈی اے کے دور میں غالباً یہ تصور کر لیا گیا کہ اقلیتوں کے ملک ہندوستان میں صرف اکثریت مسائل کا شکار ہے اور اقلیتوں کی فلاح وبہبود کا کام مکمل ہوچکا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے دستور میں اقلیتوں کے تحفظ کی گنجائش رکھی گئی ہے اور یہ ضمانت بھی اس کے وسیلہ سے فراہم کی گئی ہے کہ روزگار اور پیشہ وغیرہ کے بارے میں ایک گروہ سے دوسرے گروہ کے مقابلہ میں تفریق نہیں برتی جائے گی مگر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے عدلیہ کے بعض فیصلوں یا ’’گوپال سنگھ پینل‘‘ اور ’’سچر کمیٹی‘‘ کی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان قوانین کی روح کا لحاظ نہ تو ان لوگوں میں ہے جو اس کی نگرانی کا اہم فرض انجام دے رہے ہیں اور نہ ان عناصر میں جن پر ان کے نفاذ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے لہذا ضرورت آج نئے قوانین بنانے کی نہیں بلکہ موجودہ قوانین کو بہتر طور پر لاگو کرنے اور ان کے نفاذ کی ہے کیونکہ سماج کی سیاسی اور اخلاقی کارگزاریوں کو ناپنے کا پیمانہ یہ ہے کہ اس میں تفریق کا فقدان ہو اور اقلیتوں کو ان کے مذہب، ثقافت اور زبان کے تحفظ کی آزادی ملے اور کیونکہ اقلیتوں کے مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری خود اقلیتوں پر کم اور زیادہ تر غالب گروپوں پر عائد ہوتی ہے اس لئے ضروری یہ ہے کہ وہ ملک کے وسیع تر مفاد میں اس کا لحاظ رکھیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جو عناصر اقلیتوں کی مشکلات اور مسائل سے براہ راست متاثر نہیں ہوتے وہ دستور اساسی میں دیئے جانے والے حقوق کی بنیاد پر فوراً رائے قائم کرلیتے ہیں کہ یہاں اقلیتوں کو اطمینان و آسودگی کی وہ تمام باتیں حاصل ہیں جو اعلیٰ معاشرہ میں کسی اقلیت کو ہوسکتی ہیں اگر مسلم اقلیت ’حرف شکایت‘ زبان پر لاتی ہیں تو یہ اس کی ہٹ دھرمی یا کسی خارجی طاقت کے اشارے پر ہندوستان کو بدنام کرنے کی کوشش قرار دی جاتی ہے، اس مغالطہ میں اکثریت کے متعدد غیر فرقہ پرست افراد بھی مبتلاء ہیں اور خود اقلیتوں کے ایسے لوگ بھی جنہیں اپنی ترجیحی پوزیشن کے باعث فرقہ وارانہ جارحیت کی چوٹ نہیں سہنا پڑتی اور کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہیں بلکہ جن کی خود غرضی نے ان کو جھوٹ بولنے اور خوشامد کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
دراصل اقلیتوں کے قومی شعور کے ارتقاء میں بہت کچھ دخل اکثریت کے رویہ کا ہوتا ہے اس لئے آج جو عناصر ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ اپنے خول میں بند ہورہے ہیں وہ یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ یہ سب اکثریت کی اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر رہنے کا نتیجہ ہے، ورنہ مسلمان اپنے قانونی، سماجی اور اخلاقی فرائض ادا کرنے کو تیار ہیں اور جس حد تک ممکن ہے ادا کررہے ہیں مگر جس فرقہ کو ٹھوس حقائق اور مسلسل تجربات کے باعث اپنے تحفظ کا احساس گھیرے رہتا ہو، جسے پورے ملک کے سامنے دہشت گرد قرار دے کر پولس انکاؤنٹر میں ماراجارہا ہو۔ جس کی زبان کا تعلق نئی نسل سے منقطع کرکے شریعت اور تہذیب پر بھی حملے ہورہے ہوں، اس سے اپنے قومی فرائض کی مکمل بجا آوری کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ سارے ملک میں اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود جن نفسیاتی کیفیات کا ثبوت جموں وکشمیر شمال مشرق اور پنجاب کی ہندو اکثریت کے لوگ دیتے رہتے ہیں ، مسلمانوں پر تنقید کرنے والے ان کا مطالعہ کریں تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ مسلمانوں کو قومی زندگی میں بھر پور حصہ لینے سے کیا چیز روکے ہوئے ہے۔(یو این این)

«
»

روزہ عبادت ہی نہیں،مہلک بیماریوں کاشافی علاج بھی

کاسہ لیس رہنما۔۔۔!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے