موجودہ حالات کے پس منظرمیں حضرت مولاناسید محمدولی رحمانی مدظلہ العالی کوقائم مقام جنرل سکریٹری مقررکرنانہایت خوش آئندقدم :مولاناخالدسیف اللہ رحمانی

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ امیرشریعت حضرت مولاناسیدنظام الدین مدظلہ کی پوری زندگی سراپاجدوجہدسے عبارت ہے،نیزصدربورڈ اورپوری ملت اسلامیہ کوان پراعتمادہے،وہ بورڈ کے تاسیس کے دن سے ہی وہ اس میں شریک رہے ہیں۔حضرت مولانامنت اللہ رحمانی کی وفات کے بعدباتفاق رائے ان کا انتخاب عمل میں آیا اوربحیثیت جنرل سکریٹری بہت طویل مدت سے بحسن وخوبی اپنی ذمہ داری انجام دے رہے ہیں،لیکن آپ اس بات سے واقف ہیں کہ ۲۰۱۴ء کے انتخاب کے بعد ملک کی صورت حال میں غیرمعمولی تبدیلی آئی ہے۔حکومت نے علی الاعلان اپنے منشورمیں یکساں سول کوڈکی بات شامل رکھی ہے،سوریہ نمسکاراورمختلف دوسری شکلوں میں مسلمانوں کوعقیدہ توحیدسے ہٹانے کی کوششیں کی جارہی ہے،کئی معاملات وہ ہیں جن میں بورڈکوعدالتی چارہ جوئی کرنی پڑی،اس کی وجہ سے بورڈ کاکام بہت بڑھ گیا۔اسے عوامی بیداری بھی پیداکرنی ہوگی،برادران وطن میں سیکولرعناصرکوبھی اپنی تحریک میں شامل کرناہوگا،مسلمانوں کے مذہبی مسائل کے سلسلہ میں حکومت سے بھی بات کرنی ہوگی اور حسب ضرورت عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹاناہوگا۔اس پس منظرمیں امیرشریعت حضرت مولاناسیدنظام الدین صاحب نے صدربورڈحضرت مولاناسیدرابع حسنی ندوی سے درخواست کی کہ حضرت مولاناسیدمحمدولی رحمانی صاحب کوان کا معاون بنایاجائے،اورمجلس عاملہ نے بھی باتفاق رائے اس گذارش کی تائیدکی کی۔یہ بات محتاج اظہارنہیں کہ حضرت مولاناسیدمحمدولی رحمانی صاحب ایک بلندپایہ عالم دین،بالغ نظرمفکر،تجربہ کاراوربے لوث قائدجرأت وحوصلہ کے حامل نیزاصابت رائے اورحکمت وتدبرسے بہرہ ورشخصیت ہیں،انہیں تعلیم وتدریس،تزکیہ وتربیت،سیاسی قیادت کاوسیع تجربہ ہے اورتحفظ شریعت کاجوکارواں آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ۱۹۷۲ء میں قائم ہواوہ اس میں اول دن سے شریک رہے،اس لئے اس عہدہ کے لئے ان سے زیادہ موزوں کوئی اورشخصیت نہیں ہوسکتی تھی،اس لئے ہم لوگوں کوپوری امیدہے کہ کارگذارجنرل سکریٹری کی مشترکہ قیادت میں بورڈبہت سارے مسائل کوحل کرے گا۔اورامت کے سفینہ کوموجودہ صورت حال میں کامیاب ثابت کرے گا۔
سوال:اس وقت کون سے مسائل میں جوبورڈکی ترجیحات میں شامل ہیں اور ان کوحل کرنے کے لئے وہ کیاقدم اٹھائے گئے؟
جواب:یوں توبورڈکے سامنے بہت سے مسائل ہیں۔نفقہ مطلقہ اورتحکم کے بغیرطلاق کے معتبرنہ ہونے کے سلسلہ میں عدالت مسلسل ایسے فیصلے کررہی ہے جوواضح طورپرشریعت کے خلاف ہے۔ابھی حال ہی میں مہاراشٹرہائی کورٹ کی بینچ ناگپورسے یتیم پوتے کی حق میراث کے سلسلہ میں ایسافیصلہ ہواہے جوصریحاشریعت اسلامی کے خلاف ہے بورڈاس مقدمہ میں فریق بننے جارہی ہے۔لیکن اس وقت چندمسائل نے بڑی اہمیت حاصل کرلی ہے،مثلا’’یوگا‘‘کے نام پر’’سوریہ نمسکار‘‘اسکولوں میں لازم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہے،بہت سے سرکاری اسکولوں میں وندے ماترم پڑھایاجارہاہے جس میں مادروطن کومعبودکادرجہ دیاگیاہے اسی طرح بعض مقامات پرسرکاری اسکولوں میں سرسوتی جی کی مورتی رکھی جارہی ہے اوربچوں کو بتایاجاتاہے یہ علم کی دیوی ہے،اسکولوں کے نصاب گیتاکے اشلوک شامل کرنے کی تیاری ہے،اس طرح کے بعض اوربھی مسائل ہیں جودستورمیں دی گئی سیکولرزم کی ضمانت اورملک کی جمہوری روایات کے خلاف ہے،اسی طرح تبلیغ مذہب پرپابندی لگانے کی کوشش ہورہی ہے اوربعض ریاستوں میں ایساقانون پاس ہوچکاہے جس میں بظاہرتوآزادی مذہب کی بات کہی گئی ہے لیکن اس کی وضاحت کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ جس سے اسلام اورعیسائیت کی تبلیغ قانوناممنوع قرارپائے،بورڈنے طے کیاہے کہ وہ ایسے مسائل کے سلسلہ میں مناسب موقع پرحکومت سے بھی بات کرے گا،عدالتی چارہ جوئی بھی کرے گااوررائے عامہ کی بیداری کی بھی مہم چلائے گا۔اسی طرح شریعت اپلیکیشن ایکٹ ۱۹۳۷ اورقانون فسخ نکاح ۱۹۳۹جومسلم پرسنل لاء کے تحفظ میں بنیادی اہمیت کے حامل ہے کوازکاررفتہ قوانین کے زمرے میں رکھ کرختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،بورڈ اس سلسلہ میں مناسب قدم اٹھائے گی،اس سلسلہ میں ایک تحریک چلانے کے لئے ایک سب کمیٹی بھی بنائی گئی ہے،جوکارگذارجنرل سکریٹری کی قیادت میں کام کرے گی،مسلمانوں کوچاہئے کہ اس سلسلہ میں ان سے جوبھی کہاجائے وہ اس پرعمل کے لئے تیاررہیں۔
سوال:بورڈعدالتی اورقانونی کارروائی کے علاوہ اورکن کاموں کوانجام دے رہاہے؟
جواب:بورڈکی بہت سی سرگرمیاں ہیں جوتسلسل کے ساتھ جاری ہیں ،سماجی اصلاح کے لئے اصلاح معاشرہ کمیٹی قائم ہے،جن علاقوں میں دارالقضاقائم نہیں ہے وہاں دارالقضاکے قیام کے لئے ایک خصوصی کمیٹی وکلاء اورقانون دانوں کوقانون شریعت کے سلسلہ میں جوغلط فہمیاں ہیں ان کے تدارک کے لئے ’’تفہیم شریعت‘‘کمیٹی کام کررہی ہے،قانونی مسائل پرغورکرنے اورعدالتی فیصلوں کے لئے لیگل کمیٹی قائم ہے،مختلف زبانوں میں مسلم پرسنل لاء بورڈ سے متعلق لٹریچربھی طبع کیاجاتاہے اوراس کے علاوہ بھی بہت سے اہم کام ہیں جن کوبورڈانجام دیتاہے۔بورڈکے قیام سے ملت اسلامیہ کوسب سے بڑافائدہ یہ پہونچاہے کہ مختلف مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے ذمہ داران ،ملت کے مشترکہ مسائل کے لئے ایک جگہ سرجوڑکربیٹھنے کامزاج پیداہوااورمسلکی اورتنظیمی وابستگی سے اوپراٹھ کرمشترکہ جدوجہدکی سوچ پیداہوئی ۔
سوال:ابھی حال ہی میں آپ سعودی عرب تشریف لے گئے تھے اوروہاں آپ نے رابطہ اسلامی کے تحت قائم فقہ اکیڈمی کے اجلاس میں شرکت کی تھی اس موقعہ سے آپ کویہ بھی اندازہ ہواہوگاکہ سعودی عرب میں نئے بادشاہ کے سلسلہ میں لوگوں میں کیاتاثرپایاجاتاہے اوراس سلسلہ میں کیاتوقعات کی جاسکتی ہے؟
جواب:رابطہ عالم اسلامی عالمی سطح پرملت اسلامیہ کاسب سے نمائندہ ادارہ ہے جوبنیادی طورپرعلمی فکری اوردعوتی میدان میں کام کرتاہے،اس کے تحت بہت سے ذیلی ادارے کام کرتے ہیں،علمی اعتبارسے ان میں سے سب سے اہم ادارہ’’انٹرنیشنل فقہ اکیڈمی مکہ مکرمہ ہے جوعمومادوسال پراس کاسیمینارمنعقدہوتاہے،میں دوسال سے پہلے اس کارکن منتخب ہوا،چنانچہ یہ دوسراسمینارتھاجس میں میری شرکت ہوئی،اس سمینارمیں اگرچہ کہ تقریباتمام ہی مسلم ممالک کے معتبراورمقبول نمائندے موجودتھے لیکن اس میں سیاسی مسائل پرگفتگونہیں ہوئی البتہ اختتامی نشست میں جواعلامیہ جاری ہوااس میں یمن کی موجودہ صورت حال کے سلسلہ میں سعودی عرب کے موقف کی تائیدکی گئی اورایران کے رویہ پرتنقیدکی گئی،لیکن سیمینارکے پروگراموں سے ہٹ کرمختلف اہل علم سے جوملاقاتیں رہیں اورتبادلہ خیال کاموقع ملا۔اس سے اندازہ ہواکہ وہاں کے علماء بھی عوام بھی شاہ سلمان کے اقتدارسنبھالنے سے بے حدخوش ہیں اورحالیہ دنوں میں انہوں نے جوقدم اٹھائے ہیں اس کو عمومی طورپرہرطبقہ کوحمایت حاصل ہے اورلوگ ان کے اندرشاہ فیصل شہیدکی جھلک محسوس کررہے ہیں،بہرحال پوری دنیاکے مسلمانوں کودعاکرنی چاہئے کہ نئے خادم حرمین شریفین پوری دنیا میں اسلام کی سربلندی کاذریعہ بنے اورعالم اسلام کوان کے ذریعہ ایک قوت حاصل ہو۔

«
»

روزہ عبادت ہی نہیں،مہلک بیماریوں کاشافی علاج بھی

کاسہ لیس رہنما۔۔۔!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے