ہاشم پورہ کے مظلوموں کو کبھی نہیں ملے گا انصاف

کس کی حکومت میں ثبوتوں کو برباد کیا گیااور مظلوموں کو تل تل مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا؟ آج ملائم سنگھ یادو جو گھڑیالی آنسو بہا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ نچلی عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا، اس کا مطلب کیا رہ جاتا ہے؟ اگر ان کے اندر تھوڑی سی بھی انسانیت تھی اور وہ ہاشم پورہ وملیانہ کے خانماں بربادوں کے تعلق سے معمولی سی بھی ہمدردی رکھتے تو وقت رہتے انصاف دلانے کی کوشش کرتے۔آج انھوں نے اپنے سپہ سالار اعظم خان کو بھی تحریک کے راستے پر ڈال دیا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کو بیوقوف بنانا ہے، ورنہ سب جانتے ہیں کہ جب ثبوتوں کو مٹایا جاچکا ہے اور مظلوم اپنی زندگی کے ۲۸ سال کراہ کراہ کو گزار چکے ہیں تو اب ہمدردی کا اظہار محض ڈھونگ اور ریاکاری ہے۔ اب مسلمانوں کو یقین کرلینا چاہئے کہ انھیں ان کے نام نہاد مسیحا بھی انصاف نہیں دلاسکتے ہیں۔جو ملائم سنگھ یا ہندوستانی سیاست دانوں نے مسلمانوں کے ساتھ انصاف کی امید رکھتے ہیں وہ خود کو فریب دے رہے ہیں۔ عدالت سے ہمیں کئی بار انصاف ملا ہے مگر عدالتوں کے فیصلے بھی گواہوں اور ثبوتوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور جب حکومتوں نے ہی ثبوتوں کو برباد کرنے میں شرمناک رول ادا کیا ہو تو انصاف کیسے ملے۔ 
جب تک سانس، تب تک آس
خبروں کے مطابق اتر پردیش کی سماج وادی پارٹی حکومت میرٹھ کے ہاشم پورہ میں تقریبا 28 سال پہلے ہوئے اجتماعی قتل عام کے معاملے میں ملزم پی اے سی کے 16 جوانوں کو رہا کئے جانے کے نچلی عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں بہت جلد چیلنج دے گی۔ہاشم پورہ سانحہ کے متاثرین کی طرف سے سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو سے ملاقات کئے جانے کے بعد ریاست کے ایڈوکیٹ جنرل
ظفریاب جیلانی نے بتایا کہ ہاشم پورہ میں سال 1987 میں 40 سے زیادہ مسلمانوں کی پی اے سی جوانوں کی طرف سے اجتماعی قتل کرکے لاش نہر میں پھینکے جانے کے معاملے میں دہلی کی نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل داخل کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کے لئے گزشتہ 15 مئی کو دہلی میں متعلقہ وکلاء کو اپیل کا مسودہ بھیج دیا گیا ہے۔ ان کی طرف سے رائے ملتے ہی اپیل داخل کر دی جائے گی۔اس کے لئے وہ خود دہلی جائیں گے۔جیلانی نے کہا کہ حکومت جلد سے جلد اپیل داخل کرنے کی خواہش مند ہے۔جیلانی نے بتایا کہ اپیل کی ایک کاپی پہلے ہی دہلی میں معاملے سے جڑے وکلاء کے پاس بھیج دی گئی ہے۔ سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو نے حال ہی میں اپنی رہائش گاہ پر ہاشم پورہ قتل عام میں زندہ بچ گئے متاثرین سے ملاقات کی تھی۔اسی بنیاد پر ریاستی حکومت نے متاثرین کے خاندان کو 5 لاکھ کی مدد دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ نمائندہ ٹیم نے سماج وادی پارٹی کے سربراہ کے سامنے جانچ کمیٹی کی رپورٹ عام کرنے کی بھی مانگ رکھی۔ ان کے ہی مطالبہ پر ریاستی حکومت نے ہائیکورٹ میں اپیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔سماج وادی پارٹی کے سربراہ سے ملاقات کرنے آئے وفد میں جمعیت علمائے ہند کے ارکان کے علاوہ ہاشم پورہ انصاف کمیٹی کے 6 رکن بھی شامل تھے۔
حالانکہ یوپی حکومت کی طرف سے اپیل سے قبل ہی ہاشم پورہ سانحہ کے چار متاثرین نے انصاف کے لئے اب دہلی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ ایک درخواست میں تیس ہزاری کورٹ کے فیصلے کو چیلنج دی گئی ہے۔ایک دوسری درخواست میں متاثرین کو معاوضہ دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔دونوں درخواستوں کو قبول کر کورٹ نے سماعت کے لئے تاریخ لگا دی۔دوسرے فریقوں کو نوٹس جاری کیا گیا ہے۔فریادیوں نے بتایا کہ عدالت نے سماعت کے لئے 21 جولائی کی تاریخ مقرر کی ہے۔ اس کے علاوہ، معاوضہ سے متعلق دائر درخواست میں سماعت کے لئے تاریخ دی گئی ہے۔ہاشم پورہ سانحہ کے شکار ذولفقار ناصر، شکیل ملک، جمیل احمد اور محمد عارف نے بتایا کہ انہوں نے ایڈووکیٹ ہرش بورا، رتنا وغیرہ کے ذریعے درخواست تیار کراکر کورٹ نمبر 34 میں داخل کیا ہے۔ذولفقارکے مطابق، کچھ اور وکیل و سماجی کارکن اس معاملے میں ایک الگ درخواست دائر کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ 
ایک زندگی اور لاکھوں سسکیوں کی قیمت پانچ لاکھ روپئے
ملائم سنگھ یادو کی سرکار نے ہاشم پورہ اور ملیانہ کے مظلوموں کو انصاف نہیں دلا سکی مگر ان ایک زندگی اور ہزاروں آہوں، سسکیون کی قیمت کے طور پر اب وہ پانچ پانچ لاکھ روپئے دے گی۔جن کی آنکھیں ۲۸ سال میں کبھی خشک نہیں ہوسکیں۔ جن کے آنسو ۲۸ سال سے بہہ رہے ہیں۔ جن کے دل ۲۸ سال سے کراہ رہے ہیں اور جو مایوس آنکھیں ۲۸ سال سے لگاتار آسمان کی طرف اٹھ رہی ہیں کہ شاید اللہ کی طرف سے کوئی انصاف ہوجائے اور ان کے دکھتے دل کو قرار آجائے، ان کے لئے اتر پردیش کے ’’ظلِ الٰہی‘‘ملائم سنگھ یادو کے پاس صرف پانچ لاکھ کا معاوضہ ہے۔ وہ ملائم سنگھ جو راکھی ساونت اور ملکہ شیراوت کے ٹھمکوں پر سیفئی مہوتسو کے دوران کروڑوں لٹا دیتے ہیں ،ان کے پاس ہاشم پورہ کے مسلمانوں کے لئے صرف پانچ لاکھ روپئے ہیں۔ حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ اگر ہاشم پورہ اور ملیانہ کا قتل عام نہ ہوا ہوتا تو ملائم سنگھ یادو کو اقتدار میںآنا نصیب نہ ہوتا۔ اس سانحے کے وقت مرکز اور ریاست میں کانگریس کی سرکار تھی اور کانگریس سے ناراض ہوکر یہاں کے لوگوں نے جنتادل کو اقتدار دیا تھا، جس کی طرف سے ملائم سنگھ وزیر اعلیٰ بنائے گئے تھے۔ملائم سنگھ کے تخت کی پائے مسلمانوں کے خون
سے سرخ ہیں مگر وہ سیاستداں ہی کیا جو ان باتوں کا احساس کرلے۔ بجا فرماتے ہیں لکھنو کے معروف شیعہ عالم مولانا کلب جواد نقوی کہ ہاشم پورہ کے انصاف کے لئے حکومت نے جوکہا ہے وہ ہم مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ ہے۔ جن لوگوں نے ہاشم پورہ میں گولی چلائی تھی ان کا ہیڈ ایک یادو تھا جسے جرم میں شامل ہونے کے بعد بھی ترقی دی گئی اور اب وہ آئی جی کی پوسٹ سے ریٹائر ہوا ۔اس لیے ان سے کوئی امید رکھنا خود کو دھوکہ میں رکھنے جیسا ہے۔ یہ حکومت کا رویہ ہے کہ جو مسلمانوں کا قتل عام کرے اس کو ترقی دیاجائے۔ سرکار کے کچھ خریدے ہوئے لوگوں کی طرف سے مسلمانوں کو گمراہ کرایا جاتا ہے۔ مولانا نے سخت رویہ اپناتے ہوئے کہا کہ مظفر نگر فساد متاثرین کے کیمپوں پر جب بلڈوزر چلائے گئے تو ملائم سنگھ یادو کی سالگرہ کا جشن منایا جا رہا تھا جس پر اربوں روپے خرچ کئے گئے، کیا یہ پیسہ مظفر نگر متاثرین پر خرچ نہیں کیا جا سکتا تھا؟ سیفئی میں خواتین کے فلمی ڈانسروں کے ڈانس پر کروڑوں خرچ کئے گئے لیکن فسادات میں مرنے والوں اور پناہ گزینوں کی کوئی مدد نہیں کی گئی۔مولانا نے کہا کہ یہ حکومت دراصل مسلمانوں کو چھوٹا اور معمولی سمجھ رہی ہے اس نے کچھ مسلمان خرید لئے ہیں جو اس کاکام کرتے رہتے ہیں۔ 
معاوضے پر سیاست
ہاشم پورہ اور ملیانہ کے متاثرین کو معاوضہ کو لے کر فرقہ پرست قوتوں کے پیٹ میں مروڑ شروع ہوچکاہے اور اس پر سیاست شروع ہوچکی ہے۔ حکومت کے اس فیصلے سے بی جے پی ناراض ہے اور اسے مسلمانوں کی چاپلوسی قرار دیا ہے۔ پارٹی نے ان فسادات میں مارے گئے 117 لوگوں کو پھر سے 5۔5 لاکھ روپے معاوضہ دینے کے فیصلے کو تشٹی کرن سے تعبیر کیاہے۔پارٹی کے صوبائی صدر لکشمی کانت واجپئی نے کہا کہ کسی صورت میں متاثرین کو دوبارہ معاوضہ دینا ایک نئی روایت کا آغاز ہے۔جس سے مستقبل میں مسائل کھڑے ہوں گے۔واجپئی نے کہا کہ اس سانحہ کا مقدمہ جب چل رہا تھا تو حکومت کانگریس اور ایس پی کی تھی۔ آج وکالت کرنے کا پینل بنانے والی ایس پی حکومت پیروی کے وقت کیا کر رہی تھی؟ کسانوں کی موت پر معاوضہ نہ دینے کے لئے بہانہ بنانے والی سماج وادی پارٹی حکومت کے پاس تشٹی کرن کے لئے معاوضہ دینے کے لئے روپے ہین۔بی جے پی کے ریاستی صدر نے جو یہ بات اٹھائی ہے کہ سماج وادی پارٹی سرکار اس وقت کیا کر رہی تھی جب کورٹ میں کیس چل رہا تھا اور پیروی کی ضرورت تھی۔ یہ بات تو آج سبھی انصاف پسند بھی پوچھ رہے ہیں مگر ملائم سنگھ یادو کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔
شرم تم کو مگر نہیں آتی
۲۳ مئی کو ہاشم پورہ سانحے کی برسی تھی اور اس موقع کو سماج وادی پارٹی نے سیاسی فائدے کے لئے استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا۔ہونا تو یہ چاہئے کہ متاثرین کے ساتھ ناانصافی پر اسے شرم آتی مگر ایسا نہیں ہوا اور اتر پردیش کے کابینی وزیر اور سماج وادی پارٹی کے فائر برانڈ لیڈر اعظم خاں نے دہلی میں میرٹھ کے ہاشم پورہ سانحہ کے فیصلے کی مخالفت کی۔ سانحہ کی 28 ویں برسی پر اعظم خاں کی قیادت میں موم بتی مارچ نکالا گیا اور فساد متاثرین کے لئے انصاف کی مانگ کی گئی۔ اس میں بڑی تعداد میں خواتین اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی شامل ہوئے۔ یہ موم مارچ منڈی ہاؤس کے قریب فیروز شاہ روڈ پر نکالا گیا۔اس میں سماج وادی پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ منور سلیم اور تزئین فاطمہ
بھی شریک تھے۔اس موقع پر اعظم خاں نے کہا کہ 28 سال بعد بھی ہاشم پورہ کے فساد متاثرین کو انصاف نہیں مل پایا ہے۔ انہوں نے معاملے کی دوبارہ جانچ کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ تفتیش میں لیپا پوتی ہوئی، جس کی وجہ سے ملزم بری ہو گئے ہیں۔انہوں نے اس معاملے میں پھر سے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی بات کہی۔سوال یہ ہے کہ اگر آج اعظم محسوس کر رہے ہیں کہ تفتیش میں لیپا پوتی ہوئی ہے تو اس کے لئے ذمہ دار کون ہے؟ کیا سماج وادی پارٹی سرکار ذمہ دار نہیں ہے؟بات صرف ہاشم پورہ اور ملیانہ کی نہیں ہے بلکہ علی گڑھ،بنارس اور مرادآباد وغیرہ کے متاثرین کو بھی انصاف نہیں ملا اور اس کے لئے تمام سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ پولس، انتظامیہ اور ہمارا سسٹم ذمہ دار ہے۔

«
»

’’پڑھے لکھے‘‘ لوگ یا جاہلیت کے علمبردار

مادیت اسلام اور مغرب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے