یوں ظلم نہ کر،بیدادنہ کر!!

قومی سلامتی سے لے کر خارجہ وداخلہ پالیسی،معاشی منصوبہ بندی،تعلیمی شعبہ؛سب میں بی جے پی کے سرپرست آرایس ایس کی فکر،نظریے،خواہش اور تدبیر و حکمتِ عملی کوملحوظِ خاطررکھاگیا۔
مجھے یاد ہے کہ سالِ گزشتہ جس دن عام انتخابات کے نتائج کا اعلان ہواتھا اور بی جے پی کو اپنی حلیف جماعتوں کے ساتھ تین سواسی سے بھی زائد نشستیں حاصل ہوئی تھیں اور مسٹر نریندر مودی کی وزارتِ عظمیٰ کی دعوے داری پختہ تر ہوگئی تھی،اُس دن ایک عالمی سطح کی سیاسی میگزین نے یہ خبراس سرخی کے ذریعے دی تھی کہ’’ہندوستان کے تختِ اقتدارپرموت کا سوداگرقابض‘‘خودہندوستان کی بھی ایک بڑی آبادی کے لیے وہ نتائج حیرت انگیز؛بلکہ ایک لمحے کے لیے ساکت و صامت کردینے والے تھے،مگربہرحال حقیقت جوتھی،سوتھی اور اسے ایک سو پچیس کروڑہندوستانیوں کو قبول کرنا تھا اور انھوں نے قبول کیا۔مودی کی جوپچھلی شبیہ تھی،اس کے پیش نظران کا وزارتِ عظمیٰ جیسے ہندوستان کے اعلیٰ ترین سیاسی عہدے پرمتمکن ہونایہاں کے سیکولرطبقے بطورِخاص مسلمانوں کے لیے موجبِ خوف و دہشت ہی تھا،حالاں کہ مودی نے اور بی جے پی کے بہت سے اعلیٰ درجے کے رہنماؤں نے انتخابی مہم کے دوران یہاں کے مسلمانوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی تھی کہ اگر ان کی پارٹی اقتدار میں آتی ہے،توملک کے سارے باشندوں کے تحفظ وسلامتی اور ان کی یکساں ترقی کی راہیں ڈھونڈنااوران کے مسائل و مشکلات پر قابوپاناان کی پارٹی کی ذمے داری ہوگی،مگربوجوہ کم ازکم مسلمانوں کی اکثریت توبی جے پی اورخاص طورسے نریندرمودی کے حوالے سے تشویش اور خدشات ہی کا شکاررہی،بہرحال انتخابات کے بعدملک کے سیاسی منظرنامے پر ایک غیرمتوقع انقلاب آکررہا۔
مگرسال بھرکی مودی حکومت کے دوران جوکچھ حادثے،سانحے رونماہوئے ہیں اور جن کا تسلسل اب بھی وسعت پذیرہے،اس سے تویہی نتیجہ نکلتاہے کہ الیکشن کے دوران مودی نے یا راجناتھ نے یا دیگر بی جے پی کے سینئرلیڈروں نے مسلمانوں کوتحفظ اور سلامتی کی جویقین دہانیاں کرائی تھیں،وہ محض باتیں تھیں ،جبکہ عام مسلمانوں کے دل و دماغ میںآنے والی مودی حکومت کے حوالے سے جواندیشے اور خدشات تھے،وہ تقریباً درست تھے۔ایک طرف مودی ہیں کہ جب بھی ملک کے مفاد میں بولتے ہیں،کسی مشہورچینل یا میگزین کوانٹرویودیتے ہیں،توہندوستان کے ایک سوپچیس کروڑشہریوں کا ذکر کرتے ہیں،وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہاں کے مسلمان پکے محبِ وطن ہیں،مگردوسری جانب ان ہی کے وزیر،حاشیہ بردارلیڈران اورارکانِ پارلیمان اپنے قول وعمل کے ذریعے مسلمانوں کوزک پہنچانے کا کوئی بھی موقع ضائع نہیں کرتے۔مودی کے اقتدار میں آنے کے کچھ ہی دنوں بعدمسلمانوں کے خلاف زہرناک بیانوں کا جو سلسلہ شروع کیاگیاتھا،وہ اب بتدریج عملی اقدام کا روپ لے چکاہے،متعصب اور جنونی ہندووں کے سرمیں ہندوراشٹرکا سودابری طرح سمایاہواہے،جسے آرایس ایس جیسی تنظیموں کے راہنماؤں کے بیانات سے مزید تقویت مل رہی ہے؛چنانچہ انھوں نے گھرواپسی کے ساتھ اب مسلم آبادیوں کوتہہِ تیغ کرنے کی بھی مہم چھیڑدی ہے۔
مئی کی۲۵؍تاریخ کوبی جے پی حکومت والی ریاست ہریانہ کے بلبھ گڑھ کے اٹالی گاؤں کے مسلمانوں کے پچاسوں گھروں کومنظم طورپرنذرِ آتش کیاگیا اور اس شیطانی کارروائی میں گردوپیش کے ۱۳؍گاووں کے غیر مسلموں نے حصہ لیا،انھوں نے صرف آگ لگانے پر ہی اکتفانہیں کیا؛بلکہ جوکچھ مال اموال، روپے پیسے اور زیورات ہاتھ لگے،سب لوٹ لیا،نیوز۲۴کے خصوصی پروگرام’’یہ ہے انڈیا‘‘پرایک متاثرہ عورت نے تویہاں تک بتایاکہ اس کے کان کے زیورکونوچ لیاگیا اوراس کے گھرسے۶۰؍ہزارروپے لوٹ لیے گئے،بلکتے اورسسکتے معصوم بچوں تک پرلاٹھی ڈنڈوں سے شجاعت وبہادری کا مظاہرہ کیا گیا، مارے دہشت کے ہزاروں لوگوں نے نقلِ مکانی کرکے اپنی جانیں بچائیں ،جبکہ سیکڑوں لوگ جرمِ بے گناہی میں مارے گئے اورافسوس کی بات ہے کہ یہ سب وہاں کی حکومت اورپولیس کے علم میں ہوا،پولیس تب موقعِ واردات پر پہنچی،جب بھرے پرے خاندان اجڑچکے اوراچھی خاصی آبادی خرابے میں بدل چکی تھی ۔اس جاں گسل حاثے کودوہفتے کاعرصہ ہواچاہتاہے،مگرمتاثرین اب بھی بلبھ گڑھ تھانے میں پناہ گزیں ہیں اور اپنے گاؤں جانے سے بھی ڈررہے ہیں،دونوں فرقوں کے لوگ باہم صلح ومصالحت اور سمجھوتے کی بات کررہے ہیں؛لیکن اگریہ مصالحت ہوبھی جاتی ہے،توان جانوں کاکیاہوگا،جنھیں دن دہاڑے فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھادیاگیااورکیامحض ایک کروڑ دس لاکھ میں ان مسلمانوں کی کماحقہ بازآبادکاری ہوسکتی ہے؟جبکہ دوسری جانب طرفہ یہ ہے کہ ہزاروں کی تعدادمیں حملہ آورہونے والے جنونیوں کے خلاف کارروائی کی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی ہے۔پھرابھی یہ معاملہ قومی سطح پر زیرِ بحث ہے ہی کہ بی جے پی ہی کے زیرِاقتدارایک اورریاست راجستھان کے ناگورضلع سے بھی ایک مسلمان کے قتل اورآیندہ منظم حملے کی خبریں گشت کررہی ہیں، ۳؍جون کوتوجنوب مشرقی دہلی کے گووندپوری کی ایک مسجدمیں بھی پٹرول بم پھینک کرآگ لگانے کی کوشش کی گئی،۴؍جون کو بہار کے راجگیرمیں قبرستان کے معاملے میں انتہاپسندہندووں کے ناپاک منصوبے سامنے آئے،آخریہ سب کیاہے؟حالاں کہ ابھی چند روزقبل ہی وزیر اعظم مودی نے کہاتھاکہ اقلیتوں کے خلاف حملے برداشت نہیں کیے جائیں گے،انھوں نے۲؍جون کواماموں کے ایک وفدسے ملاقات کے دوران بھی مسلمانوں کے تحفظ کا دم بھرا ہے، انھوں نے تویہ بھی کہاکہ مسلمان آدھی رات کوبھی ان کا دروازہ کھٹکھٹاسکتاہے اوروہ اس کے مسائل کوہر وقت سننے اور دورکرنے کے لیے تیار ہیں، توپھردوسری جانب مسلمانوں کی نسلی تطہیرکی ان منصوبہ بندیوں پرلگام کیوں نہیں لگارہے؟کیاوزیر اعظم فرقہ پرست،متعصب عناصرکے سامنے بے بس ہیںیاان کی نظرمیں مسلم بستیوں کوجلادینا،مسلمانوں کوقتل کردینا،ان کے مکانوں اور دکانوں کولوٹ لیناکوئی ایشوہی نہیں اوروہ مسلمانوں کے بارے میں ہمدردی کے جوبول بھی بولتے ہیں،وہ محض ہاتھی کے دکھانے کے دانت ہیں؟
اس طرح کے معاملات،حادثات اور سانحات کے تسلسل سے ایک بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ اس ملک کے جوشدت پسند اور متعصب ہندوہیں اور جن کے ذہن و دماغ میں آرایس ایس،وشوہندوپریشد،بجرنگ دل وغیرہ جیسی نفرت انگیزشبیہ رکھنے والی تنظیموں نے یہ خیال بٹھارکھاہے کہ وہ اس ملک کو ہندوراشٹربناکر رہیں گے اور اسی میں ہندوستان کے ہندووں کے لیے خیر ہے،ورنہ آیندہ برسوں میں پھر مسلمان ہندوستان پر قبضہ کرلیں گے اور انھیں غلام بنالیں گے،ایسے لوگوں کا حوصلہ مودی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد دوچند ہوگیاہے،ایسا نہیں ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات کانگریس کے دورِ اقتدارمیں نہیں ہوئے یا ہوئے،توان میں فسادیوں کوکیفرِ کردار تک پہنچایاگیا،اس زمانے میں بھی معاملہ ایسا ہی تھا،مسلمان لٹتا اور پٹتا رہااورکانگریس پورے ہندوستان کے مسلمانوں کوبہلانے کے لیے چندایک سیاسی و مذہبی چمچوں کی آؤبھگت کرکے اپنے مسلم نواز ہونے کا ثبوت فراہم کرتی رہی۔اب بی جے پی بھی ہندوستانی مسلمانوں کے بچے کھچے شعورواحساس کومارنے کے لیے اسی حربے کو استعمال کر نے کی تیاری میں ہے؛چنانچہ جہاں ایک طرف اس کا اقلیتی وِنگ بار بار مسلمانوں کے دلوں میں بی جے پی کی اہمیت و افادیت جاگزیں کرنے میں مصروف ہے اورکچھ مسلم سیاسی لیڈران یا سیدھی زبان میں’’نیتا‘‘رسمِ دنیا،موقع اوردستورکی رعایت کرتے ہوئے بھگوائی خیمے میں پناہ گزیں ہونے کے لیے پر تول رہے ہیں،وہیں دوسری جانب بہت سے جبہ بردار اور پگڑی برسرقسم کے نام نہادملی رہنماؤں کوبھی مودی سے دوری بری طرح کھَل رہی ہے اوروہ مسلسل اس تگ و دومیں ہیں کہ کس طرح حرماں نصیب ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت کانقاب اوڑھ کرمنافقت کی روٹی توڑنے کا موقع ملے۔
فرقہ وارانہ فسادات ہندوستان کے مسلمانوں کا کوئی نیامسئلہ نہیں ہے،بہت پراناہے،ایک عام اندازہ تویہ بتاتاہے کہ آزادی کے بعد سے لے کر اب ہندوستان میں پچاس ہزارسے بھی زائدفسادات رونماہوچکے ہیں اور ایسے تمام مواقع پرزیادہ نقصان مسلمانوں کاہی ہواہے ،اب اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ مجموعی طورپر ہندی مسلمان۴۷ء کے بعدسے لے کر اب تک کن حالات سے گزرے یاگزررہے ہیں۔بی جے پی یا نریندر مودی کا مسلمانوں کے تئیں عمومی موقف جگ ظاہرہے،سوان کے دورِ اقتدارمیں جوکچھ ہورہاہے،وہ توہونا ہی تھا۔مگرکیایہ واقعات روکے نہیں جاسکتے؟فسادات،لوٹ مار،آگ زنی اور قبضہ و اغتصاب سے مجموعی طورپرصرف متاثرین کوہی نقصان نہیں پہنچتا،اولاً تواس قسم کے واقعات کامنفی پیغام پوری دنیامیں پہنچتاہے،پھرملک کی تعلیمی،معاشی و تہذیبی ترقی پربھی حیرت ناک روک لگتی ہے۔لہذامودی کوکم ازکم اپنی حکومت کی کامیابی کے لیے ہی سہی ،فرقہ وارانہ فسادات پر قابوکرنے کی تدبیر کرنا ہوگی، ہندوتواکے سرطان میں مبتلاجماعتوں اور افرادکولگام دینا ہوگی،اپنے لیڈروں کی زبانوں کوقابومیں کرناہوگا،ملک کے حقیقی مسائل کی طرف توجہ دینا ہوگی، ورنہ مسلمان تو دور،خوداس ملک کاامن پسند،صلح جواورسیکولرمزاج رکھنے والا ہندوطبقہ بھی ان کی ناکام حکمرانی کویک قلم مستردکردے گا۔

«
»

’’پڑھے لکھے‘‘ لوگ یا جاہلیت کے علمبردار

مادیت اسلام اور مغرب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے