عربی کے مشہور ادیب احمد امین کی خود نوشت سوانح ’حیاتی ‘۔ ایک مطالعہ

طہ حسین کی ’’الایام‘‘ تو وہ کتاب ہے جس کو اگر پوری قوت سے نچوڑا جائے تو شگفتہ بیانی اور لن ترانی کے سوا علم وتحقیق کا کوئی قطرہ اس سے مشکل سے برآمد ہوگا۔ جبکہ ’’حیاتی‘‘ میں قدم قدم پر زندگی کے قیمتی اور انمول تجربات سامنے آئیں گے، جن سے ایک باذوق قاری کا دامن علم وفکر کے بیش بہا موتیوں سے بھر جائے گا۔ خالص ادبی نقطہ نظر سے بھی یہ کتاب ’’الایام‘‘ کے ہم پلہ نہ سہی لیکن بہت وقیع اور خوبصورت ہے، بہت سی جگہوں پر احمد امین نے اپنی شیریں گفتاری کا جادو جگایا ہے، اور یہ اندازہ ہر اس شخص کو ہوگاجس نے عربی زبان میں ’’حیاتی‘‘ کا مطالعہ کیا ہے۔ مجموعی اعتبار سے ’’حیاتی‘‘ میرے نزدیک ’’الایام‘‘ سے زیادہ پسندیدہ اور مفید کتاب ہے۔ اردو خواں حضرات کو بات سمجھانے کے لیے مولانا آزاد کی کتابوں کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ مولانا آزاد کی ایک کتاب ’غبار خاطر‘ ہے، یہ خالص ادبی کتاب ہے، اور اردو انشاء کے لحاظ سے زرکامل عیار کی حیثیت رکھتی ہے، مولانا آزاد کی کتابوں میں اسی کتاب کے سب سے زیادہ ایڈیشن نکلے ہیں، لیکن علم وآگہی اور فکروتحقیق کے اعتبار سے مولانا آزاد کی دوسری کتابوں جیسے ’تذکرہ‘ یا ’ترجمان القرآن‘ کا پایہ زیادہ بلند ہے، اور اس میں ادب کا جمال بھی موجود ہے، اور ان دونوں کتابوں کی افادیت اور اہمیت ’غبار خاطر‘ سے کہیں زیادہ ہے۔لیکن مقبولیت زیادہ غبار خاطر کو حاصل ہوئی ۔ ’’حیاتی‘‘ میں بھی ادب کا جمال موجود ہے، لیکن جس طرح لیلائے شب کی زلف برہم میں دمکتے ہوئے ستاروں کا حسن دیکھنے کے لیے بینائی کی شرط ہے، اسی طرح عربی زبان کی کسی کتاب کے ادبی حسن سے آشنا ہونے کے لیے عربی زبان کا جاننا بھی ضروری ہے۔ ’’حیاتی‘‘ کی ادبی حیثیت بھی مسلم ہے، کتاب میں جو لطائف اور معانی ہیں اور جو افکارواقدار پیش کئے گئے ہیں وہ مستزاد ہیں ۔
احمد امین عربی کے بہترین نثرنگار، فن کار، سوانح نگار، معلم ومؤرخ، یونیورسٹی کے استاذ اور عربی ادب کے نقاد تھے۔ احمد امین بایں ہمہ قابلیت وعبقریت مجدد اور مصلح نہیں تھے، اور نہ انقلابی شخصیت کے حامل تھے۔ ان کی مثال اس موسیقی کار کی طرح ہے جو کسی بستی میں آگ لگنے کے باوجود آگ بجھانے کی فکر نہ کرے اور بستی کے نزدیک درخت کے سایے میں بیٹھ کر بانسری بجاتا رہے، ان کے والد نے اسی انداز سے ان کی تربیت کی تھی، ان کے والد درسی کتابوں کی تدریس وتفہیم کے ماہر تھے لیکن اخبارات کے مطالعے سے اور سیاست سے گریزاں رہتے، گردوپیش میں کوئی بیماری پھیل جائے یا سیلاب آجائے یا زلزلہ آجائے وہ ان سب سے بے نیاز مطالعہ میںیا اپنے معمولات میں، یا گھریلو فرائض میں مشغول رہتے۔ احمد امین نے اسلامی تاریخ اور اس کے مدوجزر کا تفصیلی لیکن معروضی مطالعہ کیا تھا، اور ایک نہیں بلکہ متعدد کتابیں اس موضوع پر لکھیں، ان پر یہ مصرعہ صادق آتا ہے ’’داستان فصل گل خوش می سرائد عندلیب‘‘، ان کا مزاج خالص عقلی ، علمی اور فکری تھا۔ وہ سبک ساران ساحل کی طرح دور سے طوفاں کا نظارہ کرتے تھے، وہ جمال الدین افغانی کی طرح انقلاب بردوش شخصیت نہیں رکھتے تھے، اسی لیے مسلمانوں کے زوال اور یورپ کے عروج واقبال سے ان کا دل ویسا بے چین نہیں ہوتا تھا جیسا برصغیر میں علامہ اقبال کا یا مولانا مودودی کا ، یا مولانا ابوالحسن علی ندوی کا، یا مصر میں سید قطب شہید کا دل بے چین اور مضطرب رہتا تھا۔ اقبال کا سارا کلام، مودودی صاحب کی’’ تنقیحات‘‘وغیرہ مختلف تحریریں، اور علی میاں کی کتاب ’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر‘‘اور سید قطب کی ’’جاہلیۃ القرن العشرین‘‘ ، یہ کتابیں ان حضرات کے اضطراب کی آئینہ دار ہیں، یہ اضطراب بڑی نعمت اور اللہ تعالی کا انعام ہے، اور ہر شخص کو میسر نہیں ہوتا، اسی لیے اقبال نے شکوہ کیا تھا ؂
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
احمد امین کے کئی اسفار کا اس خودنوشت میں تذکرہ ہے، اس میں ترکی کا سفرنامہ بھی ہے ، مصطفی کمال نے جو ترکی کا حلیہ بگاڑا تھا، اور اس کا قبلہ یوروپ کی طرف کردیا تھا، اس کا بس سرسری تذکرہ ہے، لیکن مصطفی کمال پر جو تاریخ اسلام کے بڑے مفسدین میں شمار کئے جانے کے لائق ہے، کوئی نقد اور کوئی تبصرہ نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بگاڑ احمد امین کے ٹھنڈے مزاج کو برہم نہیں کرسکا۔ ان کی طبیعت تالاب کے پانی کی ساکن سطح کی طرح ہے کہ جس میں کوئی تموج اور تلاطم نہیں ہے، ان کا مزاج ملی اور اجتماعی معاملات میں ان کے اپنے چوب قلم کی طرح خشک ہے اور یخ بستہ ہے، یہی وجہ ہے کہ احمد امین کی علمی منزلت کی وجہ سے مولانا علی میاں نے اپنی کتاب ’’ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین‘‘ پر مقدمہ کی فرمائش کی تو انہوں نے مقدمہ تو لکھا، لیکن کتاب کی حرارت اور مقدمہ کی برودت کے درمیان تضاد پایا گیا، اور لوگوں نے محسوس کیا کہ اس مقدمہ نے کتاب کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچایا ہے،ا ور جب سید قطب نے کتاب پر اس کی روح کے مطابق طاقتور مقدمہ لکھا تو اس نقصان کی تلافی ہوئی اور پھر آئندہ ایڈیشن سے احمد امین کے مقدمہ کو ہٹادیا گیا۔ ان سب کے باوجود احمد امین کی علمی وادبی حیثیت مسلم ہے۔ اگرچہ طہ حسین کے حلقوں نے ان کی ادبی حیثیت کا اعتراف نہیں کیا ہے، اور طہ حسین کے شاگرد رشید شوقی ضیف نے مصر کے ادباء پر اپنی کتاب میں ان کا نام ہی غائب کردیا ، یہ حلقہ ان کو مؤرخ اور محقق تو سمجھتا ہے لیکن ادیب نہیں۔ اس حلقے کے لوگ ادب کو شعروافسانہ میں محصور سمجھتے ہیں، طہ حسین کے نزدیک حقیقی ادب بس یہی ہے، اس طرح کے نثری ادب کے لیے انہوں نے ’’الادب الانشائی‘‘کی تعبیر اختیار کی ہے، باقی تاریخ ادب اور نثر کے دیگر اصناف کو انہوں نے ’’الادب الوصفی‘‘ کہہ کرحقیقی ادب کے دائرے سے خارج کردیا ہے۔ اردو داں حلقے کے سمجھنے کے لیے اسے اس طرح سے کہا جاسکتا ہے کہ طہ حسین کے نزدیک شبلی کی شاعری کو یا شعرالعجم کو ادب کے دائرے میں رکھا جاسکتا ہے لیکن سیرت النبی، الفاروق، اور سیرۃ النعمان جیسی کتابیں ان کے نزدیک ادب کے دائرے سے باہر ہوں گی۔ 
ضروری نہیں کہ طہ حسین کی بات صحیح مانی جائے لیکن جو بات مسلم ہے اور جس کا اعتراف کیا جانا چاہئے وہ یہ کہ ’الایام‘‘ کی ادبی حیثیت اپنی جگہ پر لیکن احمد امین کی خودنوشت ’’حیاتی‘‘ علمی وفکری اعتبار سے زیادہ معتبر ، مؤقر اور مفیدتر کتاب ہے۔ اس میں ادب کی چاشنی کے ساتھ فکروعقل کی غذا کا بھی پورا سامان ہے۔ اس کتاب کی زبان وبیان کے حسن کا اعتراف عباس محمود العقاد جیسی شخصیت نے کیا ہے۔ لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ احمد امین ادیب سے زیادہ محقق اور مؤرخ تھے۔ ادیب اور شاعر بننے کے لیے جذباتیت ضروری ہے، جس کا تعلق دل سے ہے ، لیکن محقق بننے کے لیے منطقیت اور سرگرم جستجو ہونا ضروری ہے اور اس کے لیے عقلیت لازمی ہے جو احمد امین کے یہاں وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔ 
احمد امین وہ سب کچھ بنے جو قدرت نے انہیں بنانا چاہا، انسان کی شخصیت کی تشکیل میں غیبی ہاتھ کام کرتے ہیں، اور انسان کو ادھر لے جایا جاتا ہے جدھر قدرت اسے لے جانا چاہتی ہے، اور قدرت انسان کو کدھر لے جانا چاہتی ہے کوئی بھی انسان چاہے پیغمبر ہی کیوں نہ ہو اس وقت تک نہیں سمجھ سکتا ہے جب تک کہ وہاں پہنچ نہیں جاتا ہے۔ یوسف علیہ السلام کے لیے تقدیر الہی کا فیصلہ تھا کہ مصر کے تاج وتخت کا ان کو وارث بنایا جائے، انہیں کنویں میں اسی لیے ڈالا گیا کہ مصر جانے والے مسافر انہیں کنویں سے نکال کر مصر لے جائیں اور پھر مصر کے بازار میں انہیں غلام بناکر اسی لیے فروخت کیا گیا کہ وہ اس بازار سے عزیز مصر کے گھر پہنچ جائیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف اقبال نے اشارہ کیا ہے کہ ’’ بیچارہ پیادہ تو ہے اک مہرہ ناچیز ۔فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ‘‘۔ شاطر قدرت نے ان کے لیے جو طے کیا تھا وہ ان کو ملا، یہ دنیا عالم اسباب ہے، منزل تک پہنچنے کے لیے انہوں نے طویل سفر کیا، نہ تھکن کا احساس کیا، نہ انہوں نے پاؤں کے چھالے دیکھے، انہیں معلوم تھا کہ زندگی لہو ترنگ ہے جلترنگ نہیں ہے۔ انہوں نے ہمت اور مسلسل عمل سے ساحل مراد تک پہنچنے کی کوشش کی، انہوں نے ریگزار کو چمن اور بنجر زمین کو گل وگلزار بنایا، کتابیں ان کے لیے دن کی رفیق حیات اور رات کی رانیاں تھیں، انہوں نے علمی اور ادبی کاموں میں بے انتہا محنت کی، مسلسل اور بلا انقطاع پڑھنے اور لکھنے کی عادت نے علم ودانش کی دنیا میں ان کی شناخت قائم کردی، صاحبانِ نقد ونظر کی نگاہیں ان پر پڑنے لگیں، پہلے جج بنے، پھر لکچرر بنے اور پھر پروفیسر اور پھر پرنسپل اور پھر شعبہ تصنیف وتالیف کے ڈائرکٹر بنے، اعزازات سے نوازے گئے، دوسرے ملکوں کی علمی کانفرنسوں میں اپنے ملک کی نمائندگی کی، علم وادب کی دنیا میں انہوں نے اپنے مستقبل کو درخشاں بنایا، اور جریدۂ عالم پر انہوں نے نام اور دوام دونوں کو ثبت کردیا۔ عربی زبان وادب اور اسلامیات سے شغف رکھنے والے صرف ’’حیاتی‘‘ کو نہیں بلکہ ’’زعماء الاصلاح‘‘، ’’فجرالاسلام‘‘، ’’ضحی الاسلام‘‘ اور ’’النقد الادبی‘‘ وغیرہ کو کبھی فراموش نہیں کرسکیں گے، اور ان کی کتابیں گردش شام وسحر کے درمیان زندہ اور تابندہ رہیں گی۔ 
سوانحی ادب کا مطالعہ دوسروں کے قیمتی تجربات سے مفت فائدہ اٹھانے کے مرادف ہے، اگر مطالعہ کی عادت ہو تو انسان مشاہدے سے زیادہ مطالعے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، انسانی زندگی پر ایک طرف قانون وراثت اپنا کام کرتا ہے، دوسری طرف حالات زندگی کا اس پر عکس پڑتا ہے۔ جب ایک انسان عظیم شخصیتوں کے تجربات اور تاریخ ساز، بلند قامت انسانوں کے حالات پڑھتا ہے تو یہ مطالعہ گزرگاہ حیات میں اس کے لیے قندیل کا کام کرتا ہے، اور وہ ان سے اکتساب نور کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اس کتاب کے مطالعے سے ایک قاری کو یہ سبق ملے گا کہ بچوں کی تربیت کس درجہ اہتمام کے ساتھ کرنا چاہئے اور ان کے اندر علم وادب کی تخم ریزی کس طرح کرنی چاہئے، اور خود اپنی زندگی کو اولاد کے لیے کس طرح نمونہ بنانا چاہئے، حیا اور سنجیدگی اور غم کی زیریں لہر شخصیت کی تشکیل میں کس قدر مفید ہوتی ہے، دینی ماحول اور قرآن کی تلاوت سے گھر کا ماحول کس قدر نورانی بنتا ہے۔ کتاب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ معیار زندگی کے ریس وہ لوگ کرتے ہیں جو ناہنجار اور ساقط الاعتبار ہوتے ہیں، مسابقت کا جذبہ معیار زندگی کے لیے نہیں معیار بندگی کے لیے ہونا چاہئے، تعلیم وتدریس کو ایک بوجھ بنانے کے بجائے طلبہ کے لیے مرغوب شربت کا گلاس بناکر پیش کرنا چاہئے، گندگی اور غلاظت گھر کے اندر ہو یا باہر ہواس سے وہ ذوق جمال مردہ ہوتا ہے جو اللہ تعالی کی نعمت ہے اور اس نعمت کی حفاظت ضروری ہے، ورنہ مزاج میں بدسلیقگی پیدا ہوجاتی ہے، ذوق جمال کی تربیت کے لیے پھولوں کے حسن اور مناظر قدرت سے رغبت پیدا کی جانی چاہئے، صالح انسان کی صحبت انسان کو صالح بناتی ہے، زندگی اور زبان دونوں میں شگفتگی لانے کے لیے ادبی وشعری ذوق ضروری ہے، کسی بھی کام میں محنت، صبر اور تحمل کامیابی کا زینہ ہے۔ اس طرح کے بے شمار لعل وگہر اور حکمت کے موتی ورق ورق پر چمکتے نظر آئیں گے۔ مصنف نے یہ کتاب کیا لکھی ہے گویا موتی رولنے اور آب حیات گھولنے کا کام کیا ہے۔ ان کی کتاب اس خوبصورت قبا کے مانند ہے جس پر گل بوٹے سجائے گئے ہوں۔ (یو این این)

«
»

پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عاملہ کی خدمت میں

کیا ارسطو کا فلسفہ اسلام کے خلاف ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے