قدم قدم پہ سہاروں کامنہ نہ دیکھا کر

لیکن تجربہ بتا تا ہے کہ اُس کی ہر کوشش سیکیوریٹی کے ہر محاذ پر لاحاصل بلکہ ناکام ہی جاتی ہے۔کیوں کہ وہ اُن سوالات کے جوابات حاصل نہیں کر پاتا جو اِس سلسلے میں اُس کے ذہن و قلب میں اُبھرتے رہتے ہیں مثلاً یہ سوالات کہ: ۔۔۔ضرر رساں قوتوں کی ضرر رسانی کیا ہے اور اِس سے بچنے کی کیا ترکیبیں ہو سکتی ہیں اور یہ کہ کہاں اور کس مقام پر اس کو مکمل پناہ میسر آسکتی ہے؟دشمن قوتوں کے خلاف اِس کے دفاعی نظام کی اساس کے اجزائے ترکیبی کیا ہوں گے؟ کس کے بھروسے پر یہ نظام استوار ہوگا۔۔۔نیز یہ سوال بھی کہ جس پر بھروسہ کیا جائے گا کیا وہ فی الواقع اِس کی حفاظت کا حقیقی ضامن ہو سکے گا۔۔۔بفرضِ محال اِسے اپنی حفاظت کے ایسے کسی سہارے کے حصول میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے(اور فی الواقع دیکھنا پڑتا ہے) توکیا اُسے اپنی اِس جد و جہد کو روک دینا چاہیے؟ کیا اُسے اپنی شکست کو اِ س خیال سے تسلیم کرلینا چاہیے کہ اب کہیں کوئی جائے پناہ باقی نہیں رہ گئی؟کیا اُسے ہمت ہاردینی چاہیے؟ کیا اُسے اپنی پسپائی کا اعلان کر دینا چاہیے۔؟ یا یہ کہ اِس طرزِ عمل کے بجائے اُسے سہارے کی جستجو خلوص و للّٰہیت کے ساتھ جاری رکھنی چاہیے، اپنی شکست کو فتح میں بدل کر کہیں نہ کہیں اپنی جائے پناہ ڈھونڈلینی چاہیے،اپنی پسپائی کو سرخ روئی میں بدلنے کی اُسے دوبارہ سعی کرنی چاہیے اور ایک ضرر رساں ماحول کے اِس چیلنج کو بہر صورت قبول کرنا چاہیے!!!
لیکن سوال پھر بھی اپنی جگہ باقی رہ جاتا ہے کہ اِس چیلنج کی جئت مندانہ قبولیت کی بنیاد کیا ہو یا ہونی چاہیے؟۔۔۔کیا وہ پھر اپنی لایعنی ترکیبوں کی طرف دوبارہ پلٹنا چاہے گا اوراُسی طرح سیکیوریٹی گارڈ جیسے سہاروں پر بھروسہ کرکے اپنی حفاظت سے مطمئن ہو جائے گا، جس طرح وہ آج تک مطمئن ہوتا رہا ہے؟کیا پھروہ کسی پولیس جیسے کسی نظام ہی پر تکیہ کرتا رہ جائے گا کہ شرور کے اِس حصار میں یہ لوگ اِس کےRescue کو دوڑیں گے؟ کیا وہ اب بھی اپنے اِس یقین کو جاری رکھے گا کہ اِن کی مدد سے وہ اِن ضرر رساں منفی قوتوں کے حصار کے درمیان چین کی نیند سو سکے گا؟ 
یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب اگر انسان کو مل جاتاہے تو اُس کی سیکوریٹی کے مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ اِن سوالات کے حقیقی جوابات کلامِ ربّانی میں ہی موجود ہیں جن تک رسائی اِنسانوں کی ایک بہت بڑی آبادی کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ کیونکہ اِ س کتاب کے امانت دار اِسے اِنسانوں تک پہنچانے کے کام سے نہ صرف غافل ہیں بلکہ خود بھی اِس سے ایک رسمی سا تعلق برقرار رکھے ہوئے ہیں اور اِ س کی تعلیمات سے اِن کی زندگیاں خالی ہو چکی ہیں۔ آئیے، ایک مخلصانہ کوشش کر کے دیکھ لیتے ہیں کہ پیغامِ ربانی کی طرف پلٹتے ہوئے کیا مذکورہ بالےٰ سوالات کے جوابات کے حوالے سے کیا ہم دوبارہ اِس سے اپنے تعلق کو جوڑ سکتے ہیں کہ ہماری یہ زندگی سیکوریٹی کے مسائل کے علاوہ اِسے لاحق دیگر تمام امراض کا مداوا ہو سکے جو آج اِنسانوں کو بلا لحاظِ مذہب و ملت گھیرے ہوئے ہیں؟؟ 
عرشِ بریں سے نازل شدہ کلامِ ربانی کی ترجمانی کے حق کی کما حقہ‘ ادائیگی کس کے بس کی بات ہے،کہ ہمیں اِس کی جئت ہونے لگے!!۔ تاہم ربّ کائنات ہی کی توفیقِ باسعادت کے ذریعے مفاہیمِ آیاتِ ربانی کی روح سے قریب تر ہونے کی جستجو ممکن ہوسکتی ہے تاکہ پیغامِ اِلٰہی سے ہمیں قربت حاصل ہو جائے اور ہم اپنی دنیوی و اُخروی زندگی کے سر کو سرخ روئی کی چادر سے ڈھک سکیں۔دست بہ دُعا ہیں کہ ہمارے اِس بے بضاعت عزم میں ہمارا رب ہماری استعان فرمائے ۔آمین۔
ربِّ کائنات قرآن میں اپنے رسول سے مخاطبت کے حوالے سے ساری اِنسانیت سے مخاطب ہے:’’(اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم :اپنے رب سے دعا فرمائیے کہ): مجھے ربُّ الفلق کی پناہ چاہئے ، اُس مخلوق کے شر سے جو اُسی کی تخلیق کردہ ہے(چاہے وہ ضرر رساں ہو کہ غیر ضرر رساں)۔اور(شبِ تاریک کی یا ہمارے فکر و عمل پر چھاجانے والی ضلالت کی ) گہری تاریکی کے شر سے بھی(ربُّ الفلق کی پناہ طلب کرتاہوں،) جب وہ(اپنی تمام تر ہیبت ناکیوں کے ساتھ) چھا جاتی ہے۔ اور( صاحبینِ عملیات کے شروریعنی) گرِہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے(بھی مجھے ربُّ الفلق کی پناہ چاہیے) اوراُن حاسدوں کے شر سے بھی (رب الفلق کی پناہ چاہتا ہوں) جب وہ(یک بہ یک ) حسد کی روش اِختیار کرنے لگتے ہیں۔‘‘
ایک سو تیرویں سورۃکی آیات کی یہ ترجمانی ہے۔یہ سورۃ کتابِ اِلٰہی کی ایک عظیم سورۃ ہے اور انسان کو یاد دلاتی ہے کہ بھروسے کے قابل وہ واحد القہار ہی ہے جو مالکِ کائنات ہے ، جس کی بادشاہت آسمانوں اور زمین کی حدود سے بھی پرے نہ جانے کہاں تک پھیلی ہوئی ہے۔اپنی قدرت کی گرفت سے اُس نے اپنی مخلوق کو باندھ رکھا ہے، کسی کی مجال نہیں کہ اِس کی پکڑ سے آزاد ہوجائے یا اُس کی سلطنت کی حدود کو پھلانگ جائے۔وہ اِس کائنات کا تنہا مالک ہے جس کی قوت و جلالت کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔اُس نے اپنی الکتاب کی سورۂ ہود (۱۱)میں یہ اعلان فرما دیا ہے کہ:’’ ۔۔۔(ہماری مملکت میں)کوئی مخلوق ایسی نہیں جسے رب تعالیٰ نے اِسکی پیشانی سے جکڑ نہ رکھا ہو۔۔۔ ‘‘(۵۶)۔مخلوق چھوٹی ہو کہ بڑی اُس کی گرفت و حدودِ مملکت سے آزاد ہو کر بھاگ نہیں سکتی۔وہ سورۂ رحمان (۵۵)میں اپنی مخلوقات کو یہ چیلنج دیتا ہے کہ:’’ اے انسانو! اور اے جنو! اگر تم میں طاقت ہو، تو زمین اور آسمان کے کناروں سے نکل بھاگنے کی کوشش تو کرکے دیکھو۔ نہیں بھاگ سکتے تم، چاہے کتنا ہی زور لگالو۔ ‘‘(۳۳)۔جب اِنسانی مخلوق کا خالق وہی ہے، مخلوقاتِ ارض و سماوات بشمول اِنسانی طاقت کا منبع وہی خالق ہے، جس کی سلطنت ساری کائنات ہے تو پھر اِنسانی مخلوق اور دیگر مخلوقات کا محافظ بھی اُسی کو ہونا چاہیے اور ہمارا ایمان ہی نہیں بلکہ حقیقت یہی ہے کہ وہی ہمارا محافظ ہے اور جس مخلوق کو بھی اُس کی سیکوریٹی میسر آجائے تو دیگر مخلوقات کو عموماً اور اِنسانی مخلوق کو خصوصاً فکر کرنے کی پھر ضرورت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے۔اِس قدر طاقت و حشمت والا ربِّ کائنات ،جب اِس پیکرِ خاکی کو زندگی کے ساتھ تحفظ Security بھی فراہم کردے،توپھرکسی کی کیا مجال کہ شرارت کی جئت کرے اورایسی کوئی شریر مخلوق ہمیں زک پہنچانے میں کامیاب ہو جائے!!یہی وہ احساس و ایمان ہے جو ہماری شخصیت کو جؤت و ہمت کے جوہر سے آراستہ کر سکتا ہے، اور اِس دُنیا میں بلا خوف و خطر اِنسانیت نوازی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔ اُس کا دل خوف سے خالی ہوگا، اُس کے فیصلے مستحکم ہوں گے،اُس کا کردار پختگی کی دولت سے مالا مال ہوگا، اُس کی گفتار کو شائستگی عطا ہوگی، اُس کے خیالات کو پاکیزگی نصیب ہوگی، بشرط یہ کہ وہ اپنے رب سے ٹھیک اُن ہی الفاظ میں پکارے جس کا درس اُس نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیا تھا:’’(اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم :اپنے رب سے دعا فرمائیے کہ): مجھے ربُّ الفلق کی پناہ چاہئے۔۔۔‘‘وہی رب جو ربُّ لفلق ہے: اُفق و شفق کارب، صبح وشام کارب، مشرق و مغرب کا رب، آسمانوں اورزمین کا رب، وہ جو فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰیہے، وہی ہے جو ایک چھوٹے سے دانے کا سینہ چیر کر لہلہاتی ہوئی فصلِ بہاراں کو ہماری نگاہوں کے سامنے مصروفِ رقص و سرور کر دیتا ہے۔ وہ مخفی میں سے عیاں کو لے آتا ہے۔وہ رات کی ہیبت ناک تاریکیوں کو چیر تا ہے توصبح کی کرن نمودار کردیتا ہے کہ وہ فَالِقُ الْاِصْبَاح ہے،جس سے اِنسانی دُنیا منور ہو جاتی ہے۔وہ جب اِرادہ فرما لیتا ہے توگمراہیوں کی تاریکیوں میں سے، نادانیوں کی ظلمتوں میں سے ، غفلتوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں سے ہدایت کی کر ن نمودارکر دیتا ہے۔ ایسا کرنا مالکِ حقیقی سے کیوں کر ناممکن ہو سکتا ہے۔ وہ تو بہ یک جنبشِ’’ کُن ‘‘ساری کائنات میں اپنے نورِ ہدایت کو عام کردے اور اپنے بندوں کی زندگیوں کو اپنی پرنوررحمتوں سے نوری بنا کر جگمگانے کے قابل بنا دے۔ وہ اپنی کتابِ نور و ہدایت کی سورۂ مزمل(۷۳) میں ارشاد فرماتا ہے:’’ وہ ربِّ مشرق ومغرب ہے ، نہیں ہے کوئی اِلٰہ مگر صرف وہی(ایک اِلٰہ ہے)،تو (اے اِنسانو!۔۔۔بس اُسی کواپنے لیے اور اپنے ہر کام کی کامیابی کے لیے)کارساز بناؤ ۔‘‘(۹)۔۔۔اُس کی ربوبیت کو پورے ایمان و یقین کی گہرائیوں کے ساتھ تسلیم کرلو ، اُس کی جملہ صفات کو سمجھو اور پورے توکل کے ساتھ اِن کی برکات کو اپنی سرگرمیوں میں کچھ ایسے پیوست کرلو کہ تمہاری شخصیت جگمگا اُٹھے۔تمہارے قدم تمہاری جدوجہد کی راہ میں مضبوطی سے جم جائیں گے، تمہارے حوصلوں کو بلندیوں کے تاج مل جائیں گے،تمہارے عزم کی نکیل پختگی کے ہاتھ میں آجائے گی،تمہارے کردارکو سنجیدگی ملے گی تو تم با وقعت ہو جاؤ گے۔ایسا ہوگا تو یہ مخلوقات کے شرکی کوئی حقیقت باقی نہیں رہ جائے گی۔
رب کی سیکھائی ہوئی دُعاکا ورد اپنی زبان پر جاری رہے کہ’’ ۔۔۔مجھے ربُّ الفلق کی پناہ چاہئے ، اُس مخلوق کے شر سے جو اُسی کی تخلیق کردہ ہے(چاہے وہ ضرر رساں ہو کہ غیر ضرر رساں)۔۔۔‘‘ہمیں پتہ ہے کہ ہر مخلوق خیرکے پہلوکے ساتھ شر کا پہلو بھی اپنے اندررکھتی ہے۔وقت، حالات،ذہنی ساخت، مرغوبات اور مختلف نوعیتوں کی اُکساہٹوں کے پیش نظراِنسانوں پر کبھی شر کا غلبہ ہوتا ہے تو کبھی خیر کا۔اِس طرح مخلوقات خیر و شر کے اِن ہی دو پہلوؤں کے غلبے یا پسپائی کی صلاحیت کے سبب کبھی کبھی متصادم ہوکر ایک دوسرے کو زک پہنچانے پر آجاتی ہیں اور یہی آزمائش و امتحان کا وقت ہوتا ہے۔ حالات برے ہوں کہ اچھے مقابلہ ضروری ہو جاتا ہے اور رب کی رضا جوئی کے حصول کے لیے ہر مخلوقِ اِنسانی کواِس اِمتحان سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔سورۂ انبیاء(۲۱) میں وہ فرماتا ہے:’’۔۔۔ ضرور ہم تمہارا اِمتحان لیں گے، شر(کے پہلو ) سے بھی اور خیر(کے پہلو) سے بھی،اور(اِس اِمتحان کا نتیجہ دیکھنے کے لیے) تمہیں ہماری ہی طرف لوٹ کرآنا ہے۔‘‘(۳۵)
زندگی میں مسرتوں کے ساتھ مکروہات بھی رہیں گی،مثبت کو منفی سے بھڑنا ہوگا،خیر کو شر کے مقابلے میں آنا ہو گا،ایک باکردار مخلوقِ اِنسانی کا خیر و شر کی اِس ستیزہ کاری میں کیا رول یا کیا ردِّ عمل سامنے آتا ہے:دراصل یہی اِمتحان ہے جو اِس زمین پر جاری ہے۔۔۔اگر وہ اِن نا مساعد حالات میں خالق کو چھوڑ کر مخلوقات کی پناہ گاہیں تلاش کرنے لگتا ہے اور اپنے رب کی پناہ کو آواز نہیں دیتا تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اپنے اِمتحان میں ناکام ہونے جارہا ہے۔حالانکہ حالات کتنے ہی دگرگوں کیوں نہ ہوں ،ربِّ کائنات کی پناہ کے سوا کوئی جائے پناہ ہوگی ہی نہیں! بد بخت ہوگا وہ شخص رَبُّ العَالَمِین۔۔۔ ، رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض۔۔۔، مَالِکُ الْمُلْک۔۔۔ ، الرحمٰن الرحیم ۔۔۔، غفورالرحیم۔۔۔، رؤف الرحیم ۔۔۔کی پناہ چھوڑ کر دوسرے سہارے ڈھونڈنا شروع کرے گا۔سچائی یہ ہے کہ وہ ہستی۔۔۔ جو بادِ صر صر میں بھی چمنِ گل ولالہ مہکا سکتی ہے، وہ مصائب کے ہجوم میں سکینت و مسرت کی بارشیں برسا سکتی ہے، شر سے ہمارے لئے خیر کا پہلو برآمد کرسکتی ہے۔شرورو شیطنتِ بیرون ہو کہ شرورِ مرغوباتِ اندرون ہوں، نفسِ امارہ کی کثافتیں ہوں کہ بے لگام ذہن و قلب کی شرارتیں۔۔۔ہر شر کا تیر بہ ہدف مداوائے مستقل صرف اور صرف رب کی پناہ میں آنے کے بعد ہی ممکن ہو سکتا ہے۔یہی سبب ہے کہ احادیثِ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم میں موجود دعاؤں میں سکھایا گیا ہے:’’ ونَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّاٰتِ اَعْمَالِنَا۔۔۔‘‘ ’’۔۔۔اور ہم اللہ کی پناہ میں آنا چاہتے ہیں ہمارے اپنے اندرون کے شر سے اور ہمارے اعمال کے برے ردِّ عمل سے۔۔۔ ‘‘
اور اگر شر اندرونی نہ ہو کر بیرونی شر نظر آنے لگے تو ربِّ کائنات کو پکارنے کا سلسلہ اُن ہی الفاظ میں جاری رکھا جائے جو اُس نے ہمیں سیکھائی ہیںیعنی:
’’ ۔۔۔اور(شب کی یا ہمارے فکر و عمل پر چھاجانے والی ضلالت کی) گہری تاریکی کے شر سے بھی(ربُّ الفلق کی پناہ طلب کرتاہوں،) جب وہ(اپنی تمام تر ہیبت ناکیوں کے ساتھ) چھا جاتی ہے۔‘‘یہ تاریکی ایک بیرونی محرک ہے۔ لیکن اِس تاریکی سے مراد کیاصرف وہ منظر ہے جو ہمارے Electrical Transformers کے یکایک نا کام ہونے کے نتیجے میں ہماری آبادیوں کو اندھیروں میں ڈبو جاتا ہے؟جس ہیبت ناک تاریکی کا یہاں ذکر ہورہا ہے وہ بس اِتنی سی نہیں کہ کچھ دیر کے لیے بجلی چلی جائے اور اِنسانی بستیوں پر اندھرا چھا جائے۔بلکہ یہ اُس اتھاہ تاریکی سے پناہ کی بات ہو رہی ہے جب شر کی تاریکی اپنی چادر کو اِنسانوں کے کردار پر تان دے،یہ گمراہی اور جہالت کی تاریکی ہے،یہ نادانی و بدگمانی کے اندھیرے ہیں، نفسانی کثافتوں کے اندھیرے ہیں جو اِنسانی مزاج میں در آئے ہیں،یہ ہدایتِ ربانی سے چشم پوشی کے اندھیرے ہیں، اللہ کو چھوڑ کر مخلوقات سے توقعات کے اندھیرے ہیں، جسمانی ہی نہیں، روح، ذہن و قلب، عقل و خرد پر طاری ہونے والے اندھیرے ہیں بے بصیرتی اوربے بصارتی کے اندھیرے جن سے پناہ مانگنے کی یہ دُعا سیکھائی گئی ہے۔جس جس نوعیت کے اندھیرے ہمیں گھیر ے ہوئے ہوں گے،، ان تمام اندھیروں کے شرور سے پناہ مانگنی ہے جب یہ اِنسانی ذہن و قلب اور جسم و جاں پراپنی تمام تر حرکت پذیری اوراپنی مکمل جاہ وحشمت کے ساتھ، طاری و حاوی ہوجاتے ہیں، جیساکہ آج کے گمراہ عالم میں نظر آتا ہے۔ اِن اندھیروں میں پناہ کے نور کی بس ایک ہی مضبوط کرن باقی رہ جاتی ہے اور وہ ’’رب الفلق ‘‘ کی پناہ کے سوا اورکیا ہو سکتی ہے۔
لیکن دُعا مزید آگے بڑھتی ہے :’’۔۔۔اور( صاحبینِ عملیات کے شروریعنی) گرِہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے(بھی مجھے ربُّ الفلق کی پناہ چاہیے)۔۔۔‘‘کسی اورکی فلاح و کامرانی کو، ترقی وخوشحالی کو برداشت نہ کرتے ہوئے ،اِسے نقصان پہنچانے کا ہر عمل و سرگرمی ایک خطرناک ترین شر ہے جو ہر زمانے میں موجود پایا گیا اور ہمارا دوربھی اِس سے جوجھ رہا ہے،جس کے ذریعہ انسان کے شعور یا حواس یا ذہنی و جسمانی قوت و صلاحیت کومنفی طور پر متاثر کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اِس کے لیے جادو ٹونے یا گرہیں باندھ کر اِن میں پھونکنے کے’’ عمل‘‘ اِختیار کیے جاتے ہیں۔ نتیجتاً کسی کی خوشحالی زائل ہو سکتی ہے ، کسی کو زندگی کی بہتری ، بدتری کی طرف مائل ہوسکتی ہے۔کسی رو بہ ترقی فردکی بربادی اِس عمل کا ہدف ہوتی ہے۔اِس قبیح عمل سے نجات اِنسانوں کا بڑا اہم مسئلہ ہے اور اِس کے مقابلہ میں کوئی ڈھال ہمیں بچا سکتی ہے تو وہ ہے بس رب الفلق کی پناہ ہے۔ صرف ربّ العالمین، جو الرَّحمٰنُ المُستَعَان ہے،جس کی پناہ میں آکر ہم اِس عارضی تباہ کارانہ شرسے بچ سکتے ہیں۔
اِس پر دعا ابھی ختم نہیں ہوتی بلکہ ایک اور شر مسلسل ہماری گھات میں ہے کہ کب ہمیں نقصان پہنچا کر دم لے گا، اِس لیے دعا جاری رہتی ہے ایک اور پناہ کا اپنے رب سے مطالبہ کرتی ہے:’’ ۔۔۔اوراُن حاسدوں کے شر سے بھی (رب الفلق کی پناہ چاہتا ہوں) جب وہ(یک بہ یک ) حسد کی روش اِختیار کرنے لگتے ہیں۔‘‘ایک شیطانی ورغلاہٹ کے سواحسد کیا ہے؟ ایک اِنسان دوسرے اِنسان سے جب حسد کرنے لگے،یا اپنی بد نیتیوں کی خباثتوں کے ساتھ کسی کے مثبت اثرات کو اندر ہی اندر کھوکلا کرنے کا منفی عمل اِختیار کرنے لگے تویہ بھی ایک ایسا شر ہے جو کسی مخلوق کی مداخلت سے زائل نہیں ہو سکتا ۔ صرف اور صرف رب العالمین کی پناہ ہی ہے اور ہوسکتی ہے جو حاسدوں کے شر سے بچا سکتی ہے ؟چنانچہ ہدایت کی گئی ہے کہ حاسدوں کے شر سے بچنے کے لیے اللہ رب الفلق کی پناہ میں آجاؤ۔
ایک با کردار فرد اپنے رب کی پناہ میں آنے کے بعدلازماً ایک عجیب احساس کی سر شاری سے مستفید ہوگا۔ حاسد کے ساتھ جواباً برائی اختیار کرنے سے پرہیز کرے گااور اس کے ساتھ بھلائی و احسان کا معاملہ اختیار کریگا ۔ صبرو توکل، تقویٰ و تعلق باللہ جیسے ہتھیار اِس کے دفاعی نظام کے اسبابِ تحفظ بن جائیں گے ۔ ایک باکرداربندۂ مومن حاسد کے دل کی جلن کو اپنی نرم گفتاری کی پھوار سے ایک دلفریب ٹھنڈک میں بدل دے گا۔وہ اپنے رب کی پناہ حاصل کرکے ایک عجیب لذتِ ایمانی محسوس کرے گا۔ اُس کا عمل مثبت رد عمل کا حامل ہو گا۔اِس سورۃ کا نزول ہی اِس غرض کے لیے ہے کہ بندہ اُس کی پناہ میں آجائے ، تاکہ اعلیٰ اخلاق اُسے ایک محفوظ زندگی عطا کر سکیں۔ اِس کے بعد مخلوق کا شر،اخلاق و کردار کی گہری تاریکیوں کا شر، گرہ میں ماری جانے والی پھونکوں کا شر، حاسدکے سینے سے دھواں بن کر اُبھرنے والے حسد کاشر۔۔۔ربِّ جلیل رب الفلق ، اَلرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَان ۔۔۔کی پناہ کے آگے اپنا سر پھوڑ تے نظر آئیں گے اور فنا کے گھاٹ اُتر جائیں گے ۔۔۔ اِنشاء اللہ۔
کہاں گیے وہ لوگ جو اِن آیاتِ اِلٰہی کی روشنی میں کبھی حقیقی Securedزندگی کے مالک ہوا کرتے تھے؟؟کیوں کہ وہ صرف ربّ الفلق کی حقیقی پناہ کے سائے میں زندگی گزارتے تھے اور آج کے یہ کیسے حاملینِ قرآن ہیں جو بغل میں قرآن دبائے قدم قدم پر مخلوقِ خداوندی کاسہارہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔!!

«
»

پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عاملہ کی خدمت میں

کیا ارسطو کا فلسفہ اسلام کے خلاف ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے