مسلمانوں کو اس وقت وقف اراضی کی بازیابی پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔

بھار ت میں اس وقت اوقاف کی رجسٹرڈجائیدادوں کی تعدادتقریباََپانچ لاکھ کے قریب ہیں۔ جس کا رقبہ 06لاکھ ایکڑپرمشتمل ہے۔ سرکاری حساب سے اس کی مالیت 06ہزارکروڑ روپے (60 billionہیں۔ بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اتنی قیمتی جائداد کی آمدنی صرف163کروڑ روپیے ہیں۔یعنی کل سرمایہ کا 2.7% اگر ایماندانہ طورپر وقف پراپرٹی کا موجودہ مارکیٹ ویلو نکالاجائے تو وقف بورڈکی سالانہ آمدنی 12تا15ہزارکروڑ روپیہ ہوسکتی ہے۔ ہم اگرملک کی راجدھانی دہلی کی بات کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دہلی کی موجودہ وقف جائیدادکی قیمت 60بلین ہے۔ اس وقت ملک میں35وقف بورڈ کام کرتے ہیں۔ ملک میں سب سے زیادہ آمدنی کرناٹک وقف بورڈکی ہے ۔ یہ ایک اچھی مثال ہے ،ملک کے دیگر ریاستوں کے لیے،سب برا حال مہاراشٹر وقف بورڈ کا ہے ا ور سب سے زیادہ ناجائزقبضہ جات مہاراشٹرمیں ہی ہوئے ہیں۔سیاسی لیڈروں اوروقف کے ذمہ دران کی مہربانی سے۔موجودہ ملک کے اوقاف کے جائیداد کی قیمت جونکالی گئی ہے1.2لاکھ یعنی 12000بلین۔اگر اس رقم کا 10%حصہ یعنی 12000کروڑ بھی مسلمانوں کے تعلیمی،سماجی،مسائل پرخرچ کیا جائے تو بغیر سرکاری خزانے کو ہاتھ لگائے ان کی ترقی ہوسکتی ہے۔
ایسا بھی نہیں کہ ایکناتھ کھڑسے نے اوقاف کے سلسلہ میں پہلی بار ایسا بیان دیا ہو بلکہ جب ریاست میں کانگریس کی حکومت تھی ا س وقت بھی ،مرکزی وزیرنتین گڈکری ساتھ ملکر انہوں نے پوری ریاست میں اوقاف کے تحفظ کے سلسلہ میں مہم چلائی تھی۔اب امید کی جاتی ہے کہ ریاست میں انہی کی حکومت ہے اورکھڑسے وزیر اوقاف ہے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بی جے پی نے اقلیتی امور کے وزارت کھڑسے کو ان کے مسلم مسائل سے دلچسپی اوراس سے واقفیت کے بناپر ہی انہیں یہ وزارت دی گئی ہے۔
مودی سرکار اگر چاہئے تو وہ مسلمانو ں کے تعلیمی ،سماجی مسائل وقف کی املاک کے ذریعہ حل کرسکتی ہے۔ کیونکہ موجودہ صورت میں اس کی مالیت 06ہزارکروڑ روپے (60 billionہیں۔ بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اتنی قیمتی جائداد کی آمدنی صرف163کروڑ روپیے ہیں۔کانگریس نے اپنے اقتدار میں مسلمانوں کو بہلانے کے لیے وقتاََ فوقتاََ مختلف کمیٹیوں بنائی تھیں۔کمیٹیوں نے اپنی ایماندارانہ طورپرسروے کیا اور اپنی رپورٹ و شفارشات حکومت کو پیش کردیں مگر ہائے افسوس کانگریس نے ان کو ردریوں کے ٹوکریوں میں ڈال دیا۔ کمیٹیوں کے شفارشات ملاحظہ فرمائیے :
جے پی سی کی شفارشات:سرکاری افسران ،سیاسی منتریوں کی مداخلت پر روک لگانے کے لیے لیزپردینے کے اختیارات اوقاف ہی کودیے جائے ۔ (۲) وقف سروے کمیشن کی تقرری کو لازمی قرار دیاجائے۔ (۳)وقف املاک کے سروے میں15اگست 1947کے تمام اوقاف کی اراضی کو شامل کیاجائے۔ (۴)سینٹرل وقف کونسل کا چیئرمین کسی منتری کونہیں بلکہ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈجج یا یونیورسٹی کے وائس جانسلر کوبنایاجائے ۔(۵)سینٹرل وقف کونسل کے سکریٹری کوحکومت ہند کے جوائنٹ سیکریٹری کا درجہ دیاجائے تاکہ سرکاری افسران کی دخل اندازی روکی جاسکے۔ (۶)سروس کارڈبناتے وقت اعلی تعلیمی افرا د کوC.E.Oبنایاجائے جواوقاف ایکٹ 1954کے مطابق صرف مسلمان ہو۔(۷) اوقاف کی قیمتی ارضیات ،عمارتیں کسی انفرادی فردیا سرمایہ دار کو نہ دی جائیں بلکہ رجسٹرڈ ٹرسٹ یا رجسٹرڈ سوسائٹی کودیاجائے۔ (۸) کسی بھی صنعت کار یا شخص کو ذاتی استعمال کیلئے لیز پراوقافی اراضی یا زمین نہ دی جائے ،خواہ وہ اسپتال کے لئے ہو یا کمرشیل پروجیکٹ۔ (۹) وقف کے ناجائزقبضہ جات ہٹانے کیلئے C.E.Oکواختیارات اورناجائز قبضہ جات کے خلاف کاروائی نہ کرنے پر سی او پرجرمانہ عائد کیاجائے۔
سچر کمیٹی کی شفارشا ت :ہم سب سے سچر کمیٹی کی شفارشات کو آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ملک میں پھیلے ہوئی پانچ لاکھ وقف املاک کے تحفظ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ،مقننہ ،انتظامیہ اور عدلیہ کی سطح پر وقف معاملات کو زیادہ سے زیادہ ترجیح ملنی چاہیے۔(۲)قومی وقف ترقیاتی کارپوریشن بنایا جائے۔ (۳)پانچ لاکھ رجسٹر ڈ شدہ وغیر رجسٹرڈشدہ جائیدادوں کو کنٹرول رینٹ جیسے قانون سے آزاد کردیاجائے۔ (۴) وقف بورڈکو قانون سازادارے وعدالت کی حیثیت دی جائے۔(۵)جس وقف زمین کا استعمال ایک سال کے اندر حکومت نہ کرسکی ہواسے وقف بورڈکے حوالے کردیاجائے ۔کمیٹی کے مشاہدہ میں یہ بات بھی آئی ہے کہ بے شمار حکومتی ایجنسیاں وقف کی املاک پر قابض ہیں اوران پر بھی چندہی اسکوائرفٹ پرعمارتیں قائم ہیں باقی زمین خالی پڑی ہے۔(۶)جن املا ک پر حکومت کا قبضہ ہے اور وہاں کوئی سرکاری عمارت نہیںیا وہ اراضی خالی پڑی ہیں تو وہ بلاتاخیر مسلم تعلیمی اداروں صحت عامہ کے سینٹرکو دی جائے۔(۷)حکومت کے قبضہ والی جائیدادوں کو چھ مہینے میں خالی کیا جائے اور اس کا کرایہ جوپچاس سال سے چلا �آرہا ہے اسے تبدیل کیا جائے اور موجودہ مارکیٹ کے حساب سے اس کا کرایہ دیا جائے۔(۸)وقف بورڈ کے تمام فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوں،مسلم پرسنل اور اسلامی قوانین کے مطابق کیے جائیں۔اس کے لیے مسلم جماعتوں کی نمائندگی ضروری ہے۔(۹) اس بات کا پورا پورا خیال رکھا جائے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے لیڈرو رکن کو وقف بورڈکا چیئرمین نہ بنایاجائے۔(۱۰) کلکٹر او رکمشنر کوتعاون کے لیے ہدایت نامہ جاری کیاجائے۔(۱۱) وقف بورڈکی لیز صرف ۱۱مہینہ پر مشتمل ہو اور وقف بورڈ کی ایک نوٹس پر قبضہ خالی کرانے کے اختیارات وقف بورڈکو دیئے۔ جائے ۔
وقف پراپرٹی میں کرپشن
ہم پورے ملک میں ہونے والے اوقاف کی جائیدادوں پرقبضہ کی بات فی الحال نہیں کرتے بس چند ریاستو ں کاذکرکرتے ہوئے اپنی بات کوآگے بڑھاتے ہیں۔اترپردیش میں وقف بورڈکی 3000ہزارزمینوں پرناجائزقبضہ جات ہیں جن کی موجودہ قیمت کروڑوں کھربوں میں ہے۔ صرف ملک کی راجدھانی دہلی کی ہم بات کرتے ہیں تویہ حیرت انگیزانکشاف سامنے آتا ہے کہ دہلی میں وقف جائیداد کی تعداد1977ہے جس میں600 پر سرکاری عمارتوں اور زمین مافیا نے قبضہ کررکھا ہے ۔ 138زمینوں پر ڈی ڈی اے نے اپنی عمارتیں تعمیرکر رکھی ہیں۔مرکزی محکمہ تعمیرات نے 108قیمتی زمینات پر عمارتیں تعمیر کررکھی ہیں۔ 53آثار قدیمہ کے قبضے میں ہے۔جبکہ دہلی کے انتہائی قلب20ایسی بڑی بڑی ایکروں میں زمینات ہیں جس پرکسٹوڈی نے 20عدد وائرلیس شعبہ نے 10۔ وزارت دفاع کے قبضہ میں05اور دہلی سرکار کے مختلف دفاتر جن میں دہلی نگر نگم،محکمہ بجلی،این ڈی ایم سی نے 18کے قریب ایسی قیمتی ارضیات پر قبضہ کررکھا جس کی موجودہ قیمت 07ہزار تا 10ہزار روپیے اسکوائر فٹ ہے۔123ایسی جگہ ہیں جن پر ویشوہند پریشدنے تنازعہ کھڑاکررکھا ہے ۔200 جگہوں پر زمین مافیاؤں نے قبضہ کررکھا ہے جس پر �آج ملٹی نیشنل کمپنیوں کے عالیشان و ملٹی اسٹوریڈMulti Storyed عمارتیں تعمیر کی گئیں ہیں۔ شاپنگ مالس،کارپوریڈسیکٹرکے کئی کمپنیاں وقف کی ان جائیدادو ں پر قابض ہیں اور یہ لوگ وقف بورڈ کو معمولی کرایہ دیتے ہیں ،بلکہ بہت سارے تو کرایہ بھی ادا نہیں کرتے۔
وقف ایکٹ او روقف جائیداد کس صورت میں مؤثرو محفوظ رہ سکتی ہیں کچھ تجاویز
(۱)سینٹرل وقف کونسل میں تبدیلی ضروری ہے ،عام طور ان لوگوں کو رکن بنایا جاتارہا ہے جنہیں وقف کے موضوع سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور نہ ان پر وقف کی اہمیت اور نہ ہی اس کی شرعی حیثیت واضح ہوتی ہے۔ اس لیے اس میں ملک کے معروف مسلمانوں کی سماجی و ملی تنظیموں کے افراد کو نمائندگی دینا چاہیئے ۔ 
(۲)نچلی عدالتوں یا کسی اتھاریٹی میں وقف سے متعلق جتنے بھی معاملات زیر سماعت ہیں ،قانوناََ انہیں ٹریبیونل میں منتقل ہونا چاہیے۔ بشرطیکہ وہ عدالت یا اتھاریٹی میں سماعت کے بعد فصیلہ پر نہ ہوں۔(۳)وقف املا ک کے تحفظ سے متعلق جسٹس جی آربھٹاریہ کمیشن نے جو شفارشات پیش کی تھیں،ان میں سے چند اہم شفارشات یہ تھیں کہ وقف املاک کو کرایہ یا پٹے پر دیئے جانے سے
متعلق اصول و قواعدکو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جتنی جلد ممکن ہوسکے ملک گیر سطح پر وقف املاک کا ازسرنوسروے اور اندارج کیا جائے،وقف قانون کی غیر قانونی فروخت کے خلاف عدالت میں جانے کا اختیار وقف ٹرسٹیان کو حاصل ہو،ریاستوں میں ضلع سطح پر وقف بورڈتشکیل دیا جائے ،بورڈکی اجازت کے بغیر کسی بھی وقف املاک کی فروخت کو رجسٹرڈ نہ کیاجائے ملک میں اوقاف کی سب سے بری صورتحال مہاراشٹر اسٹیٹ کی ہے اگر یہ صحیح ہوجائے توپورے ملک کے اوقاف کا نظام صحیح ہوجائیگا۔ مہاراشٹرمیں وقف پراپرٹی د و محکموں میں بٹی ہوئی ہے،کچھ جائیدادیں تو وقف بورڈ میں رجسٹرڈ ہیں اور کچھ چیریٹی کمشنر کے پاس ہیں ۔اس کی وجہ یہ بات واضح نہیں ہوپارہی ہے کہ وقف بورڈ کے پاس کتنی جائیدادیں ۔سب سے زیادہ نقصان ان جائیدادوں کو پہنچا ہے جو چیریٹی کمشنر کے پاس رجسٹرڈ ہیں ،زمین مافیاؤں نے یہی سے زمینوں پرقبضہ کیا ہے۔ امید بی جے پی حکومت ملک میں اوقاف کے مسئلہ کو سنجیدگی سے حل کرکے اس کی آمدنی مسلمانوں کے فلاح وبہبود پر خرچ کریں گی ۔حکومت ایساکرتی ہے تو ملک کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا

«
»

خبر ہونے تک….

اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے