’’لینڈ اکویزیشن بل‘‘مودی سرکار کے لئے موت کا پیغام ثابت ہوسکتاہے

سوچنے کی بات ہے کہ فصلوں کی تباہی سے اگر ملک بھر میں سینکڑوں کسان خودکشی کرسکتے ہیں تو جب ان سے ان کی پیاری زمین چھینی جائے گی تو کیاعالم ہوگا؟ مزے کی بات یہ ہے کہ اگر یہ بل پاس نہیں ہوتا ہے تو مودی سرکار کے ان پروگرامون میں رکاوٹ آئے گی جس کا وعدہ اس نے عوام سے کیا ہوا ہے۔گویا وہ اس بل کو ترمیم کے ساتھ پاس کرانے میں کامیاب ہوتی ہے تو کسان اس سے ناراض ہونگے اور ناکام ہوتی ہے تو نہ صرف سرکار کا وقار جائے گا بلکہ خود سرکار کے بہت سے پروجیکٹ رک بھی سکتے ہیں۔ وہ ایسے مقام پر آکھڑی ہوئی ہے جہاں کے آگے پہاڑ اور پیچھے کھائی ہے۔ حالانکہ سرکار اسے کسی بھی صورت میں پاس کرانا چاہتی ہے اور اپوزیشن روکنے کے لئے پورا دم لگائے ہوا ہے۔ لینڈ اکویزیشن بل (تحویل اراضی بل) پر حکومت نے اپنے داؤ کھیل دئیے ہیں اور اس صورت میں پارلیمنٹ سے اس بل کو پاس کرانا نریندر مودی کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہے۔اس بل کو لے کر حکومت کے سامنے دو طرح کی چیلنج ہیں۔ ایک چیلنج تو اپوزیشن نے کھڑی کر رکھی ہے دوسرا چییلنج خود بی جے پی کے ممبران بنتے جارہے ہیں جو اس بارے میں خدشات میں مبتلا ہیں۔بی جے پی کے ممبران پارلیمنٹ میں یہ احساس ہے کہ حکومت ،لینڈ بل پر اتنا داؤ لگارہی ہے لیکن اس کا فائدہ کیا ہوگا؟ یہ بات تو ظاہر ہے کہ حکومت اس بل کو لے کر جتنا خطرہ اٹھانے کو تیار نظر آتی ہے، اسے اس کی سیاسی قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔ بی جے پی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بھی یہ مسئلہ اٹھ چکا ہے کہ کیا پارٹی کے رہنما اس مسئلے کو سمجھ پا رہے ہیں، اپوزیشن کے سوالوں کا جواب دے پا رہے ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ قانون ایک پیچیدہ مسئلہ ہوتا ہے اور حکومت اس بل کے مثبت پہلوؤں کو عوام اور خاص طور پر کسانوں کو کیسے دکھا پائے گی؟
لینڈ اکویزیشن بل کیا ہے؟
پچھلی یو پی اے سرکار نے لوک سبھا میں تحویل اراضی بل پاس کرایا تھا جس میں کسانوں کی زمین ان سے لینے کے لئے سخت شرطیں رکھی گئی تھیں۔ اس میں ایک اہم شرط یہ تھی کہ جب تک ۷۰فیصد کسان اپنی زمین دینے کے لئے راضی نہ ہوجائیں، تب تک ان کی زمین سرکار اکوائر نہیں کرسکتی ہے۔ظاہر ہے کہ اس شرط کے بعد کسانوں سے ان کی زمین لینا آسان نہیں ہوگا لہٰذا مرکز کی نریندر مودی سرکار نے اس میں کچھ ترامیم کا فیصلہ کیا ہے تاکہ کسانوں سے زمین حاصل کرنا آسان ہوجائے۔ اہم ترمیم یہ ہے کہ زمین حاصل کرنے میں ۷۰فیصد کسانوں کی مرضی کا ہونا لازم نہیں ہوگا۔ حالانکہ اس ترمیم کے لئے دوسری پارٹیاں راضی نہیں ہیں اور نہ ہی ملک کے کسان اس کے لئے تیار ہیں۔ بی جے پی کو راجیہ سبھا میں اکثریت حاصل نہیں ہے،اسلئے اس بل کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ دوسری طرف لینڈ بل کو لے کر جو مخالفت مہم چل رہی ہے، وہ بہت مضبوط ہے۔اپوزیشن کے لیڈران سیدھا کہہ رہے ہیں کہ نریندر مودی حکومت غریب مخالفہے، امیروں کے ساتھ ہے، کارپوریٹ کے ساتھ ہے اور زمین چھین رہی ہے۔یہ اپوزیشن کا براہ راست حملہ ہے اور جب یہ مہم گاؤں گاؤں بڑھے گی تو حکومت کو اس کی سیاسی قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔
ہر طرف مخالفت کی آوازیں
راہل اور سونیا گاندھی تحویل اراضی بل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور تمام اپوزیشن پارٹیاں ان کے ساتھ نظر آرہی ہیں۔ سماجی کارکن انا ہزارے ہوں یا دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال یا پھر بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار، تمام نئے تحویل اراضی بل کی مخالفت میں ہیں۔ اتر پردیش کے نوئیڈا سے مہاراشٹر کے رائے گڑھ تک، پنجاب کے لدھیانہ سے تمل ناڈو کے تروللور تک زمین کی تحویل کی مخالفت ہورہی ہے۔ دہلی کے وزیر اعلی نے اس ترمیم کو کسان مخالف قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ زمین کا مسئلہ دہلی میں مرکز کے تحت آتا ہے، لیکن پھر بھی دہلی حکومت کسی کی بھی زمین کی تحویل جبراً نہیں ہونے دے گی۔ اگرچہ کیجریوال یہاں صرف مخالفت برائے مخالفت کر رہے ہیں، کیونکہ دہلی میں کھیتی کی زمین ہے ہی نہیں، لیکن دوسری ریاستوں کے معاملے میں کیجریوال یا دیگر ریاستوں کے وزرائے اعلی کا بیان عقلی اور منطقی ہے۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اس بل کی مخالفت کی ہے اور اسے کسانوں کے مفاد کے خلاف بتایا ہے تو دوسری طرف مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے بھی کہا ہے کہ وہ اس بل پر مودی سرکار کے ساتھ نہیں جائیں گی۔ ملائم سنگھ یادو کی طرف سے بھی اس بل کے خلاف آواز اٹھتی رہی ہے مگر وہ کب تک اپنے اسٹینڈ پر قائم رہیں گے، یہ کہہ پانا مشکل ہے۔ وہ ماضی میں بھی مرکزی سرکار کے قوانین کی مخالفت کرتے رہے ہیں مگر ووٹنگ کے وقت ساتھ چلے گئے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال مایاوتی کا بھی رہا ہے۔ 
راجیہ سبھا میں کیسے پاس ہوگا یہ بل؟
تحویل اراضی بل لوک سبھا میں پاس ہو گیا ہے، لیکن راجیہ سبھا میں کب پاس ہو گا، پاس ہوگا بھی یا نہیں یا پھر اس بل کو آرڈیننس کے ذریعے نافذ کیا جائے گا، یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔پہلی نظر میں یہ صاف احساس ہوتا ہے کہ حکومت اس بل کو شہری کرن، صنعت کاری اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے نام پر زمین کے حصول کو فروغ دینے کے لئے پاس کرانا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسانوں کو ابھی سے ہی لگنے لگا ہے کہ غیر زرعی علاقے کو ہونے والا کوئی بھی فائدہ چاہے وہ اسکول جانے والے بچے ہوں، ہسپتال کی تلاش کر رہے مریض ہوں، سستے مکان کا انتظار کر رہے عوام ہوں، چھوٹے کاروباری یا بڑے کاروباری ہوں، یہ سب کو حاصل ہوگا مگر اس کا نقصان گاؤں کے کسان کو ہوگا۔
نقصان میں کسان
ابھی تک لاگو ہوتے رہے تحویل اراضی قانون اور اب اس کے نئے مسودے سے بھی یہ بات صاف ہے کہ حکومت چاہے بی جے پی کی ہو یا کسی دوسرے پارٹی کی، چاہے وہ مرکز کی حکومت ہو یا پھر صوبے کی حکومت ہو، وہ زرعی زمین کاحصول روکنے والی نہیں ہے۔ گزشتہ 20 سالوں سے لاگو ہو رہی انہی پالیسیوں کے تحت سرمایہ داروں کے حقوق کو بڑھایا جا رہا ہے۔کسان کا حمایتی نظر آنے والا کسی بھی طرح کا مسودہ کیوں نہ آ جائے، حکومت اس کے ذریعہ کسانوں سے زمین کا مالکانہ حق چھیننے سے باز نہیں آ سکتی۔ حکومت یہ بھول جاتی ہے
کہ وہ اپنے مسودے یا ترمیم کے ذریعے کسانوں کی زمین کا حصول ہی کرتی ہے، ان کی زمین ان کے پاس نہیں رہنے دیتی، اور یہی کسانوں کی سب سے بڑی تشویش ہے۔کسان کہتے ہیں کہ ہماری زمین ہم سے بھلا کوئی زبردستی کیسے لے سکتا ہے؟ کیا حکومت کے پاس کسانوں کے اس سوال کا کوئی جواب ہے کہ اگر ان کی زمین چلی جائے گی، تو وہ کس زمین پر کھیتی کریں گے، وہ کیا کھائیں گے؟ آپ معاوضے چاہے جتنا دے دیں، لیکن کیا کسانوں کی زمین انہیں واپس مل پائے گی؟ اندیشہ یہ بھی ہے جس زمین کو آج سرکاری ضرورت کے نام پر لیا جائے گا کل اس کو سرمایہ داروں کے حوالے بھی کیا جاسکتا ہے۔ نجی کمپنیوں کا کوئی سماجی سروکار یا عوامی فلاح کا پروگرام نہیں ہوتا ہے۔مجوزہ ترامیم کا جائزہ لیتے وقت حکومت سے یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہئے کہ کیا یہ ترامیم کسان خاندانوں کے نوجوان لوگوں کی خواہشات اور تمناؤں کے مطابق ہیں؟ کیا جس منصوبے کے لئے زمین کا حصول کیا جا رہا ہے، اس کے سماجی مقصد کی تکمیل اور حاصل کی گئی زمین کے مالکان کے مفادات کی حفاظت ان ترامیم میں شامل ہیں؟
دیہاتوں میں سہولیات کیوں نہیں؟
آج ہر کسی کا خواب ہے کہ شہر میں اس کا ایک مکان ہو۔ اس کے بچے بھی کانوینٹ اسکول میں پڑھیں۔ اسے بہتر علاج کی سہولت ملے، اچھی نوکری ملے، اگر یہ ساری سہولیات ان دیہاتوں یا گاؤں کے ارد گرد ملنے لگے، تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دیہاتیوں کا شہروں کی طرف نقل مکانی کرنارک جائے گا۔ آخر کیوں نہیں حکومت اس سمت میں کوشش کر رہی ہے؟ تاکہ دیہاتیوں کو ساری سہولیات ان گاؤں کے ارد گرد ہی ملیں۔ اگر یہ سہولیات کسانوں یا ان کے بچوں کو پاس میں ہی ملتی ہیں تو وہ بھلا کیوں شہروں میں بسنے جائیں گے۔ کہیں حکومت گاؤں کی ترقی اسی مقصد سے تو نہیں کرنا چاہتی کہ کسانوں کی زمین کے حصول جیسے موقع اس کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔کسان اسکول، کالج اور اسپتال کی سہولیات ضرور چاہتا ہے، لیکن اپنی زمین کے حصول کی شرط پر نہیں۔
بی جے پی کے لئے بھی خطرہ
بہار میں انتخابات ہونے والے ہیں،اس کے بعد اترپردیش اور مغربی بنگال میں الیکشن ہوگا۔ پھر ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی چناؤ ہونگے اورہرجگہ بی جے پی کو لینڈ اکویزیشن بل سے نقصان ہوسکتا ہے۔ بائیں بازو کی جماعتیں ہوں، کانگریس ہو یا پھر جنتا پریوار، تمام نے اس بل کو ایک بڑا ہتھیار بنا لیا ہے۔وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ بل غریب مخالف ہے، کسانوں کے خلاف ہے، زمین کسانوں سے لے کر کارپوریٹ کو دے دیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی اس کا کس طرح مقابلہ کرے گی۔اس پوری لڑائی میں کسان مرکزی سرکار کے ساتھ نہیں ہے اور جہاں تہاں اس کے خلاف تحریک کا بھی آغاز ہوچکا ہے۔ یاد رہے کہ مغربی بنگال سے بایاں محاذ کی ۳۶ سالہ حکمرانی کے خاتمے کا ایک بڑا سبب تھا سنگور کے مقام پر کسانوں کی زمین لے کر ٹاٹا کو کارخانہ لگانے کے لئے دینا۔ ممتا بنرجی نے اسے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا۔ 
ملک کی کارپوریٹ لابی اس بل کی حمایت میں ہے، لیکن وہ یہ بھول جاتی ہے کہ زمین آسانی سے ملنے لگے تو بھی ملک بھر میں فیکٹری لگانے کے لئے بہت بڑا سرمایہ چاہئے جو بھارت کے پاس نہیں ہے۔ ویسے بھی بھارت ایک زرعی ملک ہے جہاں کی بیشتر آبادی کاگزارا کھیتی باڑی پر ہوتا ہے۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ملک کی بڑھتی آبادی کو روٹی اور سبزی بھی چاہئے اور اگر کھیتی باڑی کی جگہ نہیں رہی توفصلیں کہاں پیدا ہونگی۔

«
»

خبر ہونے تک….

اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے